شہریت ترمیمی قانون کیخلاف احتجاجی لہرکادائرہ وسیع

0
0

اُترپردیش میں زبردست احتجاج، 5 مظاہرین جان بحق،کرناٹک: پْرتشدد احتجاج کے دوران دو افراد ہلاک،کرفیو نافذ،انٹرنیٹ سروس بھی بند
دہلی کی جامع مسجد پر دن بھرپرامن احتجاج،دیررات دریاگنج میں تشددبھڑکا
کئی گاڑیاں نذر آتش؛جنتر منتر پر لوگوں کا جم غفیر، پرینکا گاندھی بھی شامل ہوئیں
لازوال ڈیسک

نئی دہلی/لکھنئو/بنگلورو؍؍شہریت ترمیمی قانون کیخلاف ملک بھرمیں پرتشددمظاہروں کادائرہ مزیدوسیع ہوتاجارہاہے، جمعہ کے روز اُترپردیش اور کرناٹک میں پرتشددمظاہروں میں قریب7لوگوں کی موت واقع ہوئی ہے، جبکہ دہلی کی جامع مسجد میں بعدنمازِ جمعہ شروع ہوئے پرامن احتجاجی دھرنے ومظاہرے نے دیرشام دریاگنج میں پرتشددرُخ اختیارکرلیاجہاں مظاہرین نے کئی گاڑیاں نظرآتش کردیں، جبکہ دیر رات کو جنترمنتر پرلوگوں کاجم غفیر اُمڈآیا۔تفصیلات کے مطابق پورے ملک میں احتجاج اور مظاہرہ ہو رہے ہیں اور شاہی امام پر یہ الزام لگ رہے ہیں کہ وہ حکومت کی بولی بول رہے ہیں۔ کیا شاہی امام موجودہ حالات کو نہیں سمجھ رہے ہیں اور اگر وہ حالات کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔دہلی کی شاہی جامع مسجد سے کوئی مظاہرہ ہو اور اس میں جامع مسجد کے امام یا ان کا کوئی عزیز دکھائی نہ دے تو اس پر کسی کو یقین نہیں آئے گا، لیکن آج کا جمعہ کمال کا تھا کیونکہ شاہی امام نے نہ تو خطبہ سے اور نہ ہی دعا سے ایسا کچھ ظاہر ہوا کہ ملک میں ملت کسی پریشانی سے دو چار ہے۔ جامعہ کے طلباء کے ساتھ کیا ہوا، شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کو لے کر پورے ملک میں مظاہرہ ہو رہے ہیں، کرناٹک میں پر تشدد مظاہروں میں پولیس کی فائرنگ میں دو لوگوں کی موت ہو گئی ہے، لکھنو میں بسوں اور موٹر سائیکلوں کو آگ لگا دی گئی ہے پھر بھی دہلی کی جامع مسجد کے شاہی امام کی جانب سے کوئی ذکر نہیں ہوا۔ ملک کا ماحول ایسا ہے کہ شاہی امام اور کسی رہنما کے کچھ کہنے یا قیادت کرنے کی ضرورت نہیں، جامع مسجد سے شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کی مخا لفت میں ہوئے مظاہرہ نے اس کو ثابت کر دیا۔خطبہ جمعہ اور نماز کے بعد مختصر دعا کے بعد جیسے ہی نمازی گیٹ نمبر ایک سے نکلنے شروع ہوئے ویسے ہی حکومت اور شہریت ترمیمی قانون کے خلاف نعرے بازی شروع ہو گئی۔ لوگ جیسے جیسے مسجد سے باہر نکلتے رہے ویسے ویسے نعروں مین شدت آتی چلی گئی۔ مسجد کے دروازہ سے ہی لوگوں نے انقلاب زندآباد، ہندوستان زندآباد اور سی اے اے واپس لو کے نعروں کی صدا بلند ہوتی چلی گئی۔ سیڑھیوں پر کھڑے ہوکر نمازی نعرے بازی کرتے رہے اور دھیرے دھیرے اس بھیڑ نے باہر نکل کر ایک جلوس کی شکل اختیار کرلی۔بھیم آرمی کے صدر چندر شیکھر آزاد جیسے ہی مسجد کے باہر پہنچے ویسے ہی نعروں میں شدت آ گئی۔ اس سب کے دوران جہاں مظاہرہ میں شریک لوگ مودی اور شاہ کی مخالفت کرتے نظر آئے وہیں شاہی امام کے خلاف بھی اپنی رائے کا اظہار کرنے سے نہیں رکے۔ لوگ وہ سب باتیں کہتے نظر آئے جن کو قلم بند نہیں کیا جا سکتا۔ واضح رہے کل ممبئی میں احتجاج کے دوران ایک بینر نظر آیا جس پر لکھا تھا ’’شاہی امام لے لو، میرا سنویدھان (آئین) دے دو‘‘۔واضح رہے شاہی امام نے ایک دن پہلے یہ بیان دیا تھا کہ شہریت ترمیمی قانون سے ہندوستانی مسلمانوں کے لئے کوئی پریشانی کی بات نہیں ہے۔ دراصل یہی بات حکومت بھی کہہ رہی ہے جبکہ اس قانون کی مخالفت کرنے والے اس بات کو سمجھا رہے ہیں کہ اس قانون کو اکیلے دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ اس کو آنے والے این آر سی سے جوڑ کر دیکھنے کی ضرورت ہے۔ پورے ملک میں اس قانون کی مخالفت ہو رہی ہے لیکن امام صاحب کا بیان حکومت کے بیان جیسا لگا، جس کو لے کر لوگ شاہی امام سے بہت ناراض ہیں۔تھوڑی دیر جامع مسجد کی سیڑھیوں اور پھر سڑک پر نعرے بازی کرنے کے بعد جلوس کی شکل میں لوگ دریا گنج کی جانب نعرے بازی کرتے ہوئے چلنے لگے۔ دریا گنج میں پولیس نے بیری کیڈ لگا رکھے تھے لیکن دوسری جانب مٹیا محل کے سابق رکن اسمبلی شعیب اقبال نعرے لگاتے ہوئے آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے بیری کیڈ کا پتہ ہی نہیں لگا، پھر یہ سب لوگ جلوس کی شکل میں دہلی گیٹ کی جانب چل دیئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے تعداد بڑھتی چلی گئی، لیکن یہ جلوس کی شکل میں احتجاجی مارچ 4 بجے تک پوری طرح پر سکون رہا۔ اس سب کے دوران دریا گنج کے ڈی سی پی رندھاوا جہاں مظاہرین سے مذاق کرتے ہوئے نظر آئے وہیں انہوں نے صورتحال پر پوری طرح نظر بنائے رکھی۔ دہلی گیٹ سے پہلے چوراہے پر بیری کیڈ لگائے ہوئے تھے جہاں سب مظاہرین بیٹھ گئے اور نعرے بازی کرتے رہے۔ دیر شام تک مظاہرین کی تعداد کئی ہزار ہو گئی۔ مظاہرین نے ملک کے کئی نامور ٹی وی چینلوں کو وہاں کوریج کرنے سے روکا اور ان کو’ گودی میڈیا‘ کہہ کر وہاں سے جانے کے لئے کہا۔جس جامع مسجد سے موجودہ شاہی امام کے والد سید عبدللہ بخاری اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے تھے اور اس کی وجہ سے ملک کے مسلمانوں میں ان کا بڑا احترام تھا آج اسی مسجد کے شاہی امام جامع مسجد سے حکومت کے خلاف ہونے والے احتجاج میں کہیں پر نظر نہیں آئے۔ پورے ملک میں احتجاج اور مظاہرہ ہو رہے ہیں اور شاہی امام پر یہ الزام لگ رہے ہیں کہ وہ حکومت کی بولی بول رہے ہیں۔ دن بھرپرامن احتجاج کے بعد دیرشام کو دریاگنج میں صورتحال اُس وقت کشیدہ ہوئی جب مظاہرین نے ایک گاڑ ی کو آگ کی نذرکردیا اور کئی گاڑیوں کی توڑ پھوڑ کرڈالی۔شہریت ترمیمی قانون کے خلاف دہلی کے دریا گنج علاقے میں بڑی تعداد میں لوگ احتجاج کر رہے ہیں۔ پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے پانی کی بوچھاڑ کا استعمال کیا ہے۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق مظاہرین نے دہلی گیٹ پر کئی گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا ہے۔قومی راجدھانی دہلی کے انڈیا گیٹ پر شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہرہ جاری ہے۔ یہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگ حکومت مخالف نعرے بازی کرتے ہوئے سے اے اے کو واپس لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ کانگریس کی جنرل سکریٹری پرینکا گاندھی بھی اس احتجاج میں پہنچ گئی ہیں۔اترپردیش جمعہ کے روز ریاست گیر مظاہروں کی لپیٹ میں ہے، متعدد شہروں میں آگزنی کے واقعات رونما ہوئے ہیں، پولیس نے مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا اور آنسو گیس کے گولے داغے ہیں۔شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف جمعہ کی نماز کے بعد اتر پردیش کے متعدد اضلاع شدید احتجاج کیا گیا۔ احتجاج کے دوران یو پی میں اب تک 6 افراد کی موت ہو چکی ہے۔گزشتہ روز لکھنئو میں ایک شخص جان بحق ہوا تھا، جبکہ جمعہ کے روز بجنور میں گولی لگنے سے دو نوجوان ہلاک ہوگئے، یہاں 8 پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ اس کے علاوہ کانپور، سنبھل اور فیروز آباد میں بھی ایک ایک شخص ہلاک ہو گیا۔ دریں اثنا، میرٹھ میں پولیس چوکی نذر آتش کی گئی۔فیروزآباد میں نماز کے بعد لوٹ رہے لوگوں نے احتجاج کیا۔ اس دوران پولس چوکی میں آگ لگا دی گئی اور کئی گاڑیوں میں توڑ پھوڑ کی گئی۔ اد دوران پولس نے آنسو گیس کے گولے داغے اور مظاہرین پر لاٹھی چارج کیا۔بجنور میں بھی لوگ ایک جگہ جمع ہوئے اور حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔لکھنؤ کا ماحول اس وقت پرسکون ہے۔ پولیس اور انتظامیہ یہاں مستعد ہیں۔ ڈائریکٹر جنرل آف پولیس او پی سنگھ نے افسران کے ہمراہ گشت کیا۔ یہاں کسی بھی صورتحال سے نمٹنے کے لئے پولیس آر اے ایف اور پی اے سی کے اہلکار کو بڑی تعداد میں تعینات کیا گیا ہے۔شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف ملک کے بیشتر علاقوں میں مظاہرے جاری ہیں۔ اتر پردیش میں جمعرات کے روز لکھنؤ میں تشدد ہوا اور آج جمعہ کے روز ایک مرتبہ پھر کئی شہروں میں ہنگامہ آرائی جاری ہے۔ جمعہ کے روز مغربی اتر پردیش کے مظفرنگر اور فیروز آباد میں سی اے اے کے خلاف مظاہرے کے دوران تشدد کی آگ بھڑک اٹھی۔ دریں اثنا، مرکزی حکومت کے خلاف نعرے بازی کی گئی۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق فیروز آباد میں مظاہرین نے کچھ گاڑیوں کو نذر آتش کر دیا ہے۔یروز آباد میں مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ کیا اور حکومت کے خلاف نعرے بازی کی۔ پولیس نے مظاہرین کو روکنے کے لئے آنسو گیس کے گولے داغے اور مظاہرین کو منتشر کر دیا۔ مغربی یوپی کے غازی آباد میں بھی سی اے اے کے خلاف احتجاج کیا گیا اور نعرے بازی کی گئی۔ اس کے علاوہ ہاپوڑ میں آنسو گیس کے گولے بھی داغے گئے۔ فیروز آباد کے علاوہ مغربی اتر پردیش کے مظفر نگر میں بھی جمعہ کے روز احتجاج ہوا۔ مظفر نگر میں لوگوں نے پولیس پر پتھراؤ کیا، جس کے بعد پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج کیا گیا۔واضح رہے کہ جمعہ کے پیش نظر اتر پردیش میں احتیاط کے طور پر 15 اضلاع میں انٹرنیٹ بند کر دیا گیا تھا۔ مغربی یوپی میں میرٹھ سمیت دیگر علاقوں میں انٹرنیٹ کو بند رکھا گیا۔ جبکہ گورکھپور اور لکھنؤ میں دفعہ 144 نافذ کر دی گئی۔جمعرات کے روز راجدھانی لکھنؤ میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف احتجاج پرتشدد ہو گیا تھا۔ دریں اثنا، ہزاروں مظاہرین نے پتھراؤ کیا، گاڑیوں کو نذر آتش کیا اور توڑ پھوڑ بھی کی۔ پولس کی فائرنگ کے دوران لکھنو? میں مظاہرہ کر رہے ایک شخص محمد وکیل کی موت واقع ہوگئی تھی۔ لکھنؤ کے علاوہ یوپی کے سنبھل میں سرکاری بسوں کو بھی نذر آتش کیا گیا تھا۔شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف کرناٹک کے منگلورو شہر میں گزشتہ روز پْرتشدد مظاہرے کے دوران پولیس فائرنگ میں دو افراد ہلاک ہوگئے۔ کشیدہ حالات کے پیش نظر انتظامیہ نے 22 دسمبر تک پورے جنوبی کنڑا ضلع میں کرفیو نافذ کردیا ہے۔ علاوہ ازیں، جمعرات کی رات دس بجے سے منگلور شہر اور جنوبی کنڑا ضلع میں انٹرنیٹ سروس بھی بند کردی گئی۔مظاہرے کے دوران جن دو لوگوں کی موت ہوئی ہے ان کے نام عبد الجلیل اور نوشین بتائے جا رہے ہیں۔ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) پر مختلف سیاسی پارٹیوں اور تنظیموں کے دھرنے اور مظاہروں کے پیش نظر کرناٹک کے منگلورو میں احتیاط کے طور پر کرفیو کی مدت میں توسیع کی گئی ہے۔کرناٹک کے چیف سکریٹری رجنیش گوئل نے پولیس ڈائریکٹر جنرل اور پولیس ڈائریکٹر جنرل کی اپیل پر جمعرات کی رات ایک نوٹیفکیشن جاری کرکے منگلورو شہر اور جنوبی کنڑ ضلع میں 48 گھنٹوں کے لئے انٹرنیٹ سروس ملتوی کردی۔ نوٹیفکیشن کے مطابق سوشل میڈیا پلیٹ فورم کے ذریعہ افواہوں اور فرضی پیغامات کی تشہیر کو روکنے کیلئے یہ قدم اٹھایا گیا ہے۔منگلورو کے پولیس کمشنر پی ایس ہرش نے بتایا کہ مختلف مقامات سے ملی رپورٹ کے مطابق کئی جگہوں پر توڑ پھوڑ اور ا?تش زدگی کی گئی ہے۔ ان واقعات کو پھیلنے سے روکنے اور امن و قانون بنائے رکھنے کے لئے کرفیو لگایا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جمعرات کو مظاہرین کئی جگہوں پر مشتعل ہوگئے اور پولیس اہلکاروں پر حملہ کردیا۔ انہیں کھدیڑنے کے لئے پولیس کو لاٹھی چارج کرنی پڑی اور فائرنگ بھی کرنی پڑی۔پرتشدد مظاہرے کے بعد میڈیا سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر ہرش نے کہا کہ مظاہرین نے تھانے پر حملہ کیا اور پولیس اہلکاروں کو مارنے کی کوشش کی۔ انہیں روکنے کے لئے پولیس کو کارروائی کرنی پڑی۔ انہوں نے بتایا کہ حملے میں 20 سے زیادہ پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں جن میں سے کچھ کو شدید چوٹیں ا?ئیں ہیں۔ تشدد میں زخمی دو لوگوں کی اسپتال میں علاج کے دوران موت ہوگئی۔ ان کی موت کی اصل وجہ پوسٹ مارٹم کے بعد معلوم ہوگی۔ پولیس کے لاٹھی چارج میں سابق میئر اشرف اور ایک صحافی بھی زخمی ہوا ہے۔ تشدد کے پیش نظر جنوبی کنڑ ضلع کے سبھی اسکولوں کو ا?ج بند رکھا گیا ہے۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا