سیدہ اطہر تبسم ناڈکر کی اولین تصنیف ’’ گلستانِ تبسم ‘‘ پرتاثرات

0
0

 

۰۰۰
اشفاق عمر، مالیگاؤں
9970669266
۰۰۰

یہ شکوہ شاید ازلی ہے کہ عورت کو مرد کے مساوی حقوق حاصل نہیں ہیں۔ موجودہ وقت میںمساوی حقوق پر ہمیشہ بات ہوتی رہتی ہے مگر اس کا رخ ہمیشہ ہی عورت کو اس قسم کی آزادی عطا کرنے پر رہا ہے جو دنیا کے کسی مذہب نے نہیں عطا کی۔  یہ شکوہ شاید ازلی ہے کہ عورت کو مرد کے مساوی حقوق حاصل نہیں ہیں۔ موجودہ وقت میںمساوی حقوق پر ہمیشہ بات ہوتی رہتی ہے مگر اس کا رخ ہمیشہ ہی عورت کو اس قسم کی آزادی عطا کرنے پر رہا ہے جو دنیا کے کسی مذہب نے نہیں عطا کی۔  مساوی حقوق اور آزادی سے قطع نظر ایک اور بات ہے جسے احترام کہا جاتا ہے۔ افسوس تو یہ ہے کہ عورت کو کبھی بھی وہ احترام نہیں مل سکا جس کی وہ حقدار ہے۔ اس ضمن میں ڈاکٹر ہیولاک ایلس کا مقولہ خاص اہمیت رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا ہے ، ”ہم زندگی کا احترام اُس وقت تک نہیں کرسکتے، جب تک کہ ”ہم جنس“ کا احترام کرنا نہ سیکھیں۔“ واقعی ہم نے عورتوں کا احترام کرنا سیکھ لیا تو ہمارے بے شمار سماجی، معاشرتی اور دیگر مسائل کا خاتمہ ہوجائے گا۔ وقت کی کروٹوں نے آج ہر شعبۂ زندگی میں عورتوں کو مردوں کے شانہ بشانہ کھڑا کردیا ہے۔ ادب کا شعبہ بھی اس بات سے خالی نہیں رہا۔ آج بین الاقوامی سطح اور ملکی سطح پرہر زبان میںہمیں عورتوں کے تخلیقات نظر آتی ہیں اور اس فہرست میں دن بدن اضافہ ہی ہورہا ہے۔ہندوستان میں اردو زبان و ادب بالخصوص سماجی اصلاحی موضوع پر لکھنے والوںکی فہرست میں سیدہ اطہر تبسم ناڈکر ہمیں ایک ابھرتی ہوئی نسوانی تخلیقی آواز کی صورت میں نظر آتی ہیں۔سماجی اصلاحی مضامین لکھنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ اس کے لیے مصنف کوسماجی سائنس کا بہترین تجزیہ نگار ہونا چاہئے۔ اسے صاحبِ بصیرت اور نڈر و بیباک بھی ہونا چاہئے۔اسے اپنے ارد گرد پیش آنے والے واقعات و حادثات کا گہری نظروں سے جائزہ لینے والابھی ہونا چاہئے۔ سماج میں بدلتے ہوئے رجحانات پر بھی اس کی نظریں ہونا چاہئے اور اسے بالکل صحیح وقت پر ان رجحانات کے منفی اثرات اور مثبت اثرات کو سماج کے سامنے پیش کرنے کی جرات کرنے والا ہونا چاہئے۔ ان نکات کی روشنی میں ہم تبسم ناڈکر صاحبہ کے مضامین کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں ان میں یہ تمام خصوصیات اور خوبیاں بدرجۂ اَتم نظر آتی ہیں۔ انسانی معاشرہ اور معاشرتی تعلقات کا سائنسی مطالعہ سماجی سائنس کہلاتا ہے۔ان کے یہاں انسانی معاشرے میں موجود خرابیوں، نئے نئے منفی رجحانات، بدلتی ہوئی سماجی قدروں کا مکمل ادراک نظر آتاہے اور انہوں نے اس بارے میں کھل کر لکھا ہے۔ ان کے یہاں اس تعلق سے کوئی ابہام نہیں کہ اگر ہم موجودہ روش پر چلتے رہیں تو ہمارا موجودہ سماجی ڈھانچہ اتھل پتھل ہوکر رہ جائے گا۔اپنے مضمون ’’ دورآسمان پر ہوتے ہیں یہ سارے فیصلے‘‘ میں انہوں نے میاں بیوی کے تعلقات پراصلاحی نقطۂ نظر سے کتنی خوبصورت بات کہی ہےکہ ہمارے سماج میں موجود ہر میاں بیوی ان باتوں کو گرہ میں باندھ لیں تو بہت سارے سماجی مسائل اپنی موت آپ مرجائیں گے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ،’’ میاں بیوی میں نوک جھونک ہوتی رہتی ہے پر کبھی بھی اس کو طویل نہ ہونے دیں۔ کسی بھی بات پر بحث ہو رہی ہواور ایک بول رہا ہوتودوسرے کوخاموشی اختیار کر لینی چاہیے۔ میاں بیوی گاڑی کے دو پہیوں کی طرح ہوتے ہیں جنہیں ہمیشہ ساتھ چلنا ہے ،نہ ہی آگے اور نہ ہی پیچھے ۔دونوں میں باہمی اعتماد کا ہونا بہت ہی ضروری ہے ۔شکوک و شبہات، غلط فہمی، بدگمانی سے بچنا چاہیے ۔ایک دوسرے کی غلطیوں پر فوری طور پر تنقید نہیں کرنی چاہئے بلکہ اکیلے میں ایک دوسرے سے بات کریں ایک دوسرے کی بات کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔تب ہی یہ رشتہ ایک مضبوط بندھن میں بندھ سکتا ہے ۔‘‘ ہم نے سماجی اصلاح کے اوپر قلم اٹھانے والوں کی ایک خوبی یہ بتائی ہے کہ اسے صاحبِ بصیرت اور نڈر و بیباک بھی ہونا چاہئے۔جہاں بھی نڈر ہوکر اپنی بات کہنا ضروری ہے، وہاں ناڈکر صاحبہ کا قلم بالکل بھی نہیں ڈگمگایا۔ انہوں نے اپنے مضمون’’ آخر غرور کس بات کا‘‘ میںانسانی غرور و اکڑ کی مذمت میں واشگاف الفاظ میں لکھا ہے ،’’    ہمیں خود ہی اپنی اندھیری قبرکوروشن اور کشادہ کرنے کی تیاری کرنی چاہئے ۔آج لوگ زندہ لوگوں سے وفا نہیں کرتے تو کل مٹی کے ڈھیر کے لیے کون دعا کرے گا؟ جسم تو آخر فانی ہے ۔یہ قبر میں سڑ جائے گا ،فنا ہو جائے گا تو پھر غرور کس بات کا! باقی رہنے والی تو صرف روح ہے ۔ہمیں اس کی پاکیزگی کی فکر کرنی چاہئے ۔‘‘ اسی طرح بیٹی کا ماں باپ کے لیے زندگی بھر بیٹی رہنا اور اسی بیٹی کا اپنے سسرال میں سب کے ساتھ روایتی بہو والاکردار نبھانے والی ذہنیت سے متعلق اپنی باتیں پیش کرتے ہوئے انہوں نے اپنے مضمون کا نام ہی ’’ آخر کیوں؟‘‘ رکھ دیا۔ان کا یہ مضمون سراپا سوال ہے اور ایک منفی سماجی سوچ کے لیے تازیانہ بھی ۔ انہوں نے لکھا ہے ،’’  میں کہتی ہوں وہ بیٹی ہی ہے نا جو کسی کے گھر کی بہو بنتی ہے ! ہمارے گھر کی بیٹی کسی اور کے گھر کی بہو بنتی ہے تو اُس گھر کی بیٹی بھی کسی اور کے گھر کی بہو بنتی ہے ۔تو یہ بیٹی ہی تو ہے نا جو ماں باپ کے گھر سے وداع ہوکرکسی کے گھر کی بہو بنتی ہے ۔ تو پھر کیوں؟ کیوں ایسا ہوتا ہے کہ شادی کے بعد بیٹی تو بیٹی رہتی ہے مگر کسی کی بہو بن کر اس کے جذبات بدل جاتے ہیں ۔ بیٹی اگراپنے ماں باپ کو اپنے ساتھ رکھ سکتی ہے تو بہو بننے کے بعد اپنے ساس سسر کو جو شوہر کے ماں باپ ہی ہیں، کو ساتھ کیوں نہیں رکھ سکتی ؟ وہ کیوں نہیں سمجھتی اور اسے کیوں نہیں سمجھایا جاتا کہ جیسے اس کے ماں باپ ہیں ویسے ہی اس کے شوہر کے ماں باپ بھی تو ہے نا ! ‘‘ ’’ یہ بیٹیاں ہی تو ہیں جو بہو بنتی ہیں ۔تو پھر کیوں! آخر کیوں؟ ایک بیٹی اپنے ماں باپ کو توسنبھال سکتی اور وہی بیٹی بہو بن کر اپنے ساس سسر کو نہیں سنبھال سکتی ۔۔۔۔۔  آخر کیوں؟  ۔۔۔  سوچئے گا ضرور۔۔۔۔۔‘‘ اتنی صفائی سے بولنااور نڈرہوکر اپنے جذبات کا مظاہرہ کرنا دل گردے کا کام ہے جو ہمیں ناڈکر صاحبہ کے مضامین میں کئی جگہوں پر نظر آتا ہے۔ سماجی اصلاحی مضامین کے مصنفین کو اسے اپنے ارد گرد پیش آنے والے واقعات و حادثات کا گہری نظروں سے جائزہ لینے والابھی ہونا چاہئے۔اس کسوٹی پر بھی محترمہ تبسم منظور ناڈکر صاحبہ کھری اترتی نظر آتی ہیں۔ وہ جس علاقے سے تعلق رکھتی ہیں وہاں کے بہت سارے لوگ کسبِ معاش کے لیے بیرون ملک کا سفر کرتے ہیں۔ بیرون ملک کمائی کی اپنی ایک کشش ہوتی ہے جو لوگوں کو کشاں کشاں دیارِ غیر لے جاتی ہے۔ گھر کے لوگوں کو بھی مالی مسائل سے نجات مل جاتی ہے ۔ یہ باتیں درست ہےمگر محترمہ ناڈکرصاحبہ کی عقابی نظریں ان آنسوؤں کو دیکھنے میں کامیاب رہیں جو پردیس کا دکھ جھیلتے ہوئے بے اختیار بہہ نکلتے ہیں۔ انہوں نے اپنے مضمون ’’پردیس پھولوں کا بچھونا نہیں‘‘میں لکھا ہے ،’’بچے کی ولادت پر بس گھر سے فون آگیا کہ آپ کے یہاں بچہ کی ولادت ہوئی ہے ۔ نہ بچے کی صورت دیکھی ،نہ اس کا لمس محسوس کیا، نہ ہی بچے کی پیاری سی مسکان دیکھی ،نہ ہی اس کی کلکاریاں سنیں۔بچے نے کب اپنی توتلی زبان میں بولنا سیکھا، کب اس نے اپنے ننھے ننھے قدموں سے چلنا سیکھا ،ساری خوشیوں سے محروم! بس اپنوں کی خوشیاں اور آسائش پانے میں لگے ہوئے ہیں ۔کس طرح ایسے خوشیوں کے موقعوں پر اپنے آپ کو روکے رکھتے ہیں، اپنے دلوں پر پتھر رکھ کر اپنے آپ کو سنبھالے رکھتے ہیں یہ پردیسی! سچ میں پردیس پھولوں کا بچھونا نہیں! ‘‘  ایسا لگتا ہے انہوں نے اپنے دل کی گہرائیوں سے اس درد کو محسوس کیا ہے اور اسے لفظوں کی شکل دیتے ہوئےموتیوں کی طرح ایک ہار میں پرو دیا۔ سماجی اصلاح پر قلم اٹھاتے ہوئے محترمہ سیدہ اطہر تبسم ناڈکر صاحبہ نے سماج میں بدلتے ہوئے رجحانات پر بھی قلم اٹھایا اور ان تبدیلیوں کے منفی اثرات اور مثبت اثرات کو سماج کے سامنے پیش کرنے کی جرات کی۔ مضمون’’ ویلنٹائن! کھلے عام بے حیائی‘‘ سے ہی ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے ’’ویلنٹائن ڈے‘‘کے نام پر ہونے والی خرافات کا ذکر کیا ہے۔صارفیت کے بڑھتے ہوئے خونی پنجے نے غیروں کے کئی تہواروں اور دنوں کو بزنس میں ڈھال دیا ہے۔ ویلنٹائن ڈے بھی ان میں شامل ہے جس کے برے اثرات ہر سال بڑھتے ہی جارہے ہیں ۔ انہوں نے مشرقی شرم و حیا کو تارتار ہوتے دیکھا اور دیکھا کہ سماج مغرب کی بے حیائی کو قبول کرتا جارہا ہے تو وہ تڑپ اٹھیں۔ ان کی تڑپ کچھ یوں سامنے آتی ہے،’’ یوم عاشقی ،یہ صرف ایک دن کی محبت ! اِس چودہ فروری کو ایک لڑکی کسی لڑکے کے ساتھ ہوتی ہے تو دوسری چودہ فروری پر اسی لڑکے کے ساتھ کوئی دوسری لڑکی ساتھ ہوتی ہے ۔کیا اسے محبت کہتے ہیں؟ آج کل تو محبت کو کپڑوں کی طرح بدلاجاتا ہے ۔یہ محبت نہیں! کھلے طور پر بےحیائی ہے ۔کیا ہمارا مذہب ہمیں اس کی اجازت دیتا ہے؟ کبھی نہیں !کسی قیمت پر بھی نہیں! محبت کا اظہار کرنے کے لیے کسی خاص دن کی ضرورت نہیں ۔‘‘ ’’گلستانِ تبسم ‘‘ میں جابجا ان کی گہری نظرو مشاہدہ، بصیرت، فہم و فراست کے نمونے ملتے ہیں۔ اگر ہر بات کا جائزہ لیا جائے تو کافی صفحات صرف ہوجائیں گے اس لیے ہم اتنی مثالوں پر ہی اکتفا کرتے ہیں۔مکمل طور پر خاتونِ خانہ کی زندگی گزارنے والی تبسم ناڈکر صاحبہ نے جب اپنے قلمی سفر کا آغاز کیا تو ابتدا سے ہی ان کی رفتار تیز تھی اور انہوں نے واقعی اپنا قلمی سفر انتہائی تیز رفتاری سے جاری رکھا ہے۔ اہم بات تو یہ ہے کہ انہوں نے اردو کے ساتھ ساتھ ہندی اور مراٹھی زبانوں میں بھی اپنے قلم کے جوہر دکھائے۔ اس تیزرفتار قلمی سفر پر ہم انہیں مبارکباد پیش کرتے ہیں۔  نئے تخلیق کاروں کے یہاں زبان و بیان اور پیش کش میں کئی خامیاں نظر آتی ہیں۔ نئے لکھنے والوں کی تحریروں پر سخت ناقدانہ تبصرے ان کی قوتِ پرواز کومتاثر کرسکتے ہیں ۔تبسم ناڈکر صاحبہ کے مضامین میں کہیں کہیں کچھ کمیاں نظر آتی ہیں مگر وہ اتنی واضح بھی نہیں ہیں کہ ان پر کڑا رخ اختیار کیا جائے۔ امید ہے کہ وقت انہیں ایک ماہرِ زبان کی طرح اپنے جذبات کے اظہار کرنے والابنا دے گا۔امید ہے کہ ان کی اگلی کتاب زبان و بیان اور جذبات کا اظہار کا ایک شاہکارثابت ہو۔ ہمیں اس وقت کا انتظار ہے جو دور بھی نہیں محسوس ہوتا۔ ۰۰۰

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا