سڑک کے بغیر گاؤں کے ناقابل برداشت حالات

0
0

 

 

 

 

 

 

 

 

سیدہ رخسار کاظمی
پونچھ

کچھ گاؤں پہاڑوں کی خوبصورتی میں سمائے ہوئے ہیں جو بہت سکون اور علیحدگی کی داستان سناتے ہیں ۔ وہاں کی پر کشش فضا انہیں اور بھی خوبصورت بناتی ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ان حسین و جمیل وادیوں میں رہائشی مکان ہونے کے باوجود لوگ اگر کبھی شہر کو جانا چاہیں تو ان کے پاس مکمل وسائل موجود نہیں ہوتے ہیں۔ جس کی سب سے بڑی وجہ پہاڑی علاقوں میں سڑک کا موجود نہ ہونا ہے اور اگر سڑک موجود ہو بھی تو رہائشی علاقے سے کافی فاصلے پر ہوتی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو پیدل سفر کر کے سڑک تک جانا پڑتا ہے۔اس پریشانی کا سب سے بڑا سامنا سکول جانے والے طالب علموں کو کرنا پڑتا ہے۔ جس کی مثال میر گاؤں قصبہ میں موجود ہے۔یہ گاؤں جموں کے سرحدی ضلع پونچھ کہ ایک پہاڑی علاقے میں واقع ہے، میں کالج کی تعلیم مکمل کر چکی ہوں اور بچپن سے آج تک میں اور میرے ساتھ کے طالب علم گاؤں سے سکول کا سفر پیدل کر کے جاتے تھے اور آج بھی وہی حالات ہیں پہاڑی علاقوں کے،جس کی وجہ سے ان کی تعلیم پر بہت برے اثرات پڑھتے تھے کیونکہ جب ایک طالب علم سکول کا سفر پیدل کر کے سڑک تک جاتا ہے اور گھر واپس لوٹتا ہے تو اس دوران وہ تھکاوٹ کی وجہ سے نہ ہی پڑھائی کر سکتا ہے اور نہ ہی اسے پڑھائی کرنے کا وقت ملتا ہے۔
اس سے متعلق میں نے جب گائوںکے دو طالب علم افرین کوثر اور سوئم علی سے پوچھا جو پہاڑی گاؤں قصبہ کے رہنے والے ہیں۔افرین کوثر نووی جماعت میں پڑھتی ہے اور سوئم علی پانچویں جماعت میں ہے۔دونوں کے سکول شہر میں واقعہ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انہیں سکول جانے کے لیے گھر سے سڑک تک پیدل سفر کرنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے بہت بار وہ سکول دیر سے پہنچتے ہیں۔ انہوں نے ساتھ یہ بھی کہا کہ سڑک تو موجود ہے لیکن وہ ہمارے گھر سے کافی فاصلے پر ہے اور سڑک کا نظام بھی صحیح نہیں ہے۔گاڑیوں کی بھی کافی پریشانی ان کو دیکھنے کو ملتی ہے۔ انہوں نے سکول بس تو لگوائی ہے جس سے ان کی تھوڑی پریشانی تو دور ہوئی ہے مگر پھر بھی پہاڑی پر ان کا گھر ہونے کی وجہ سے سڑک سے گھر تک سفر کر کے ان کو کتابوں سے لدھے بھاری بستے کے ساتھ آنا پڑتا ہے۔ تیز دھوپ میں پہاڑی کا سفر کر کے گھر پہنچتے ہی تھکاوٹ سے وہ سو جاتے ہیں اور انہیں پڑھائی کرنے کو وقت بھی نہیں ملتا ہے۔اتنی تھکاوٹ میں ان سے تعلیم بھی اچھے سے مکمل نہیں ہو پاتی۔
آفرین کوثر یہ کہتی ہیں کہ میں آج نویں جماعت میں ہوں اور بچپن سے آج تک میں اور میرے بھائی پیدل سفر کر کے سکول جاتے رہے ہیں ۔ آج بھی یہ حالات ہیں میرے گاؤں میں کہ اتنے بڑے رہائشی علاقے میں ایک سڑک تک موجود نہیں ہے۔ ساتھ ہی افرین کے چھوٹے بھائی سوئم علی کہتے ہیں کہ سکول سے واپس آ کر وہ اتنی تھکاوٹ میں ہوتے ہیں کہ بالکل پڑھائی پر غور و فکر نہیں کر سکتے جس کی وجہ سے سکول میں انہیں اساتذہ سے بہت ڈانٹ کھانی پڑتی ہے ۔جس کی وجہ سے وہ پڑھائی میں بھی پیچھے رہ جاتے ہیں۔ ساتھ ہی دونوں بھائی بہنوں نے یہ کہا کہ اگر ہمارے گاؤں میں ہمارے گھروں کے قریب سڑک کا تعین ہو جائے تو اس سے ہماری کئی پریشانیاں حل ہو سکتی ہیں اور ہمیں پڑھائی کرنے کو بھی زیادہ وقت مل سکتا ہے اور ہماری صحت پر بھی برا اثر نہیں پڑے گا۔گاؤں کے لوگ معاشی طور پر بھی اتنے امیر نہیں ہیں۔انہیں گھر بنانے میں دگنا خرچہ پیش آتا ہے اور اس کا سب سے بڑا کارن سڑک کا گھروں کے قریب موجود نہ ہونا ہے۔
اس متعلق جب میں نے مقامی باشندہ محمد اشفاق سے پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ان کا گھر سڑک سے بہت دور ہے اور وہ مالی طور پر بہت غریب ہیں۔ اپنے گھر کی مرمت کے لیے اور نیا گھر بنانے کے لیے انہوں نے بہت محنت سے کچھ پیسے اکٹھے کیے لیکن انہیں گھر بنانے کو دگنا خرچہ لگ رہا ہے کیونکہ گھر بنانے کو ریت بجڑی وغیرہ سڑک تک لانے کا الگ خرچہ اور سڑک سے گھر تک مزدور کو مزدوری دے کر لانا ایک دوسرا خرچہ ہے۔ جن لوگوں کا گھر سڑک کے ساتھ ہے اگر ان کا گھر 10 لاکھ میں بن سکتا ہے تو جن لوگوں کا گھر سڑک سے دور ہے ان لوگوں کا گھر 12سے 13 لاکھ میں بنے گا ۔ جس سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اس علاقہ میں رہنے والوں کو کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے اپنے گھر کا کام بیچ میں ہی روک دیا ہے۔
سڑک گھر سے قریب نہ ہونے پر لوگوں کو اسپتال جانے میں بھی پریشانی ہوتی ہے ۔اگر کوئی اچانک بیمار ہو جائے تو اُنھیں گھر سے اسپتال چل کر جانا پڑتا ہے یا تو گھر سے انہیں کسی چارپائی پر اٹھا کر لے کر جانا پڑتا ہے۔ کئی بار مریض کو کوئی اٹھا کر بھی نہیں لے جانے والا ہوتا ہے۔اس متعلق میں نے جب حمید احمد سے پوچھا جو گاؤں قصبہ کے محلہ نابنہ کے رہنے والے ہیں ،انکے گھر سے سڑک کافی دور ہے۔انہوں نے کہا کہ انکی والدہ جو75 سال کی تھی وہ کافی بیمار تھی اور ایمرجنسی میں اُنھیں رات کو اسپتال لے کر جانا تھا۔ وہ چلنے کی حالت میں بھی نہیں تھیں جسکی وجہ سے مجھے اُنھیں اپنے گھر سے سڑک تک اٹھا کر لے جانا پڑا۔ برسات کا موسم تھا، بھاری برسات کی وجہ سے راستہ خراب تھا جس کی وجہ سے میں گر پڑا اور میری والدہ کو بیماری کی حالت میں چھوٹ لگ گئی۔اگر سڑک ہوتی تو شاید اتنی پریشانی نہ دیکھنی پڑتی۔سڑک نہ ہونے کی وجہ سے سب سے زیادہ بزرگوں کو مُشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیوں کہ اس عمر میں ان سے اتنا چلا نہیں جا سکتا ہے۔
میری دادی جان جنکا نام کنیز فاطمہ ہے جو گاؤں قصبہ کی رہنے والی ہیں وہ ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو پینشن کا پیسانکلوانے بینک جاتی ہیں۔جو ہمارے گاؤں سے دور شہر میں واقعہ ہے ۔نہ ہی ہمارے گاؤں میں کوئیATMکی سہولت موجود ہیاور نہ ہی قریب میں بینک کا کوئی برانچ ہے۔ جسکی وجہ سے ہمیشہ کی طرح ایک روز وہ مہینے کی پہلی تاریخ کو شہر میرے ساتھ گئیں۔ واپس آتے ہوئے پہاڑی کی چڑھائی چلتے ہوئے وہ تھکاوٹ کی وجہ سے گر پڑیں جسکی وجہ سے اُنھیں اندرونی چھوٹ لگ گئی۔ایک اور دردناک واقعہ میرے محلے کی رہنے والی مرہوم تصویر فاطمہ کی ہے جو کینسر جیسی بیماری کی شکار تھیں۔ ایک دن ہم سب بچے اسکول سے واپس آرہے تھے وہ بھی اسپتال سے لوٹ کر ہمارے ساتھ چل کر آرہی تھی کے وہ چکر کھا کر گر پڑیں۔

سڑک کی سہولیت نہیں ہونے کی وجہ سے ایسے کئی دلدوز واقعات ہر روز یہاںرونما ہوتے رہتے ہیں۔ لیکن کسی بھی سرکاری افسران کو ہماری تکلیف سے کوئی مطلب نہیں ہوتا ہے۔نہ جانے کیوں محکمہ اور افسران ہمارے ساتھ سوتیلا برتائو کرتے ہیں۔شائد ہم ملک کے دوردراز علاقہ میں رہنے والے غریب عوام ہیں، اس لئے ہماری آواز کو نظرانداز کر دیا جاتا ہے ۔ میں آج اپنی قلم کے ذریعہ اپنے علاقہ کی بدحالی پر آواز اٹھانا چاہتی ہوں۔میں اس کے ذریعہ حکمرانوں اور افسرانوں کو نیند سے بیدار کرنا چاہتی ہوں۔ میں ایل جی صاحب سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ کیا ملک کی ترقی میں ہمارا حق نہیں ہے؟ آخر کیوں قصبہ کے لوگوں کوسڑک جیسے بنیادی حق سے بھی محروم رکھا جا رہا ہے؟ آخرکون ہے اس کا ذمہ دار؟
(چرخہ فیچرس)

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا