سپریم کورٹ نے ایک بار ڈاکٹروں سے کام پر لوٹنے کی اپیل کی۔ایف آئی آر درج کرنے میں تاخیر پر سپریم کورٹ نے سخت سرزنش کی

0
0

کلکتہ 22اگست (یواین آئی) آرجی کار میڈیکل کالج وا سپتال میں جونیئر ڈاکٹرکی عصمت دری اور قتل کے معاملے کی آج ایک بار پھر سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی ، عدالت عظمیٰ نے احتجاج کرنے والوں ڈاکٹروں سے اپیل کی کہ وہ کام پر لوٹ جائیں اور انہیں یقین دلایا کہ کوئی بھی ان کے خلاف کارروائی نہیں کرے گا۔چیف جسٹس نے کہا کہ ایمس کے ڈاکٹر 13 دن سے کام نہیں کر رہے ہیں۔ میں ان سے کہوں گا، براہ کرم کام پر واپس آجائیں۔ ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ آپ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔
سپریم کورٹ نے آر جی کار عصمت دری کیس میں سی بی آئی کو ایک بار پھر مہر بند لفافے میں تحقیقات کی پیشرفت کے بارے میں اسٹیٹس رپورٹ پیش کرنی کی ہدایت دی ۔ اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے بنگال حکومت کو ڈاکٹروں کی حفاظت کے لیے ضروری اقدامات کرنے کی ہدایت دی ۔
جمعرات کو ریاست نے سپریم کورٹ کو مطلع کیا کہ اپوزیشن لیڈر شوبھندوادھیکاری تیزابی بم استعمال کرنے کی بات کر رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قانون اپنا راستہ اپنائے ۔ ہم نے کہا ہے کہ پرامن احتجاج کو روکا نہیں جا سکتا ہے۔ تمام فریقوں کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ اگر آپ ان تمام پبلسٹی انٹرسٹ لیگیشن فائلوں کو بند کر دیں تو میڈیا ٹرائل بھی بند ہو جائے گا۔ پبلسٹی حاصل کرنے کے لیے مقدمات دائر کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہاس اہم معاملے کو شہرت کا ذریعہ نہیں بنایا جائے ۔
مرکزی حکومت کے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے ریاست کے خلاف شکایت اس وقت کی جب عدالت نے ڈاکٹروں کی حفاظت پر تشویش کا اظہارک ا۔ انھوں نے کہا کہ ‘مغربی بنگال کے ایک وزیر نے کہاکہ اگر کوئی ہمارے لیڈر کے خلاف بولے گا تو میں انگلی کاٹ دوں گا۔ ریاستی وکیل کپل سبل نے جواب دیاکہ آپ کے لیڈر شوبھندو ادھیکاری نے کہا کہ وہ فائرنگ جاری رکھیں گے۔ دونوں فریقوں کے درمیان لفظی جنگ پر چیف جسٹس چندر چوڑ نے کہاکہ ’’اس معاملے پر سیاست نہ کریں۔ ہمیں ڈاکٹروں کی حفاظت کی فکر ہے۔
آر جی کار کیس کی سماعت کے دوران ڈاکٹروں کے وکیل نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ کئی ڈاکٹروں کے خلاف کارروائی کی گئی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ڈاکٹرز کام پر واپس لوٹ جائیں ۔ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی۔‘‘ چیف جسٹس نے ڈاکٹروں سے کام پر واپس آنے کی اپیل کی۔ انہوں نے ریاست کو عام لوگوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کی ہدایت دی۔
سپریم کورٹ نے سیالدہ اے سی جے ایم کو جمعہ کی شام 5 بجے تک پولی گراف ٹسٹ کی درخواست پر غور کرنے کی ہدایت دی ۔آر جی کار کیس میں گرفتار ملزم کے پولی گراف ٹیسٹ پر غیر یقینی صورتحال پیدا ہوگئی۔ سی بی آئی نے منگل کو سیالدہ عدالت سے رجوع کیا اور ملزم کے پولی گراف ٹیسٹ کی درخواست کی۔ ذرائع کے مطابق انہیں سیکورٹی وجوہات کی بنا پر وہاں نہیں لایا گیا۔ اس جھوٹ پکڑنے والے ٹیسٹ کے لیے عدالتی اجازت کی ضرورت ہے۔ سی بی آئی نے گرفتار سیوک پولس کے پولی گراف ٹیسٹ کے لیے سیالدہ عدالت میں درخواست دی تھی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ صبح ساڑھے 9 بجے لاش برآمد ہوئی۔ اور رات ساڑھے گیارہ بجے ایف آئی آر درج کرائی گئی۔ ایف آئی آر تقریباً 14 گھنٹے بعد کیوں درج ہوئی۔یہ ناقابل قبول ہے۔ساتھ ہی انہوں نے مزید کہا کہ ایف آئی آر 14 گھنٹے تاخیر سے کیوں درج کی گئی؟ پرنسپل ایف آئی آر درج کرانے کیوں نہیں آئے؟ کیا کوئی انہیں ایف آئی آر کرانے روک رہا تھا؟ پرنسپل نے جب استعفیٰ دیدیا تو انہیں دوسرے میڈیکل کالج و اسپتال میں ٹرانسفرکیوں کیا گیا ہے؟ عدالت نے اس پر ریاستی حکومت سے جواب طلب کیا۔
سپریم کورٹ نے جمعرات کو آر جی کار اسپتال میں عصمت دری اور قتل کیس کی سماعت کی۔ سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق، سی بی آئی نے تحقیقات کی پیشرفت پر ایک اسٹیٹس رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کی۔ ریاست نے توڑ پھوڑ کے واقعہ کی رپورٹ بھی پیش کی۔ سپریم کورٹ نے قتل اور عصمت دری کے واقعات میں ٹائم لائن یا واقعات کی ترتیب کے بارے میں ریاست سے کئی سوالات پوچھے۔ ریاست کا کہنا ہے کہ ہر چیز کی ویڈیو گرافی کی گئی تھی۔ دوسری جانب ڈاکٹروں کے وکلا نے آر جی کار اسپتال کے انتظامیہ پر دھمکیاں دینے کا الزام لگایا۔ شکایات سن کر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ کون کر رہا ہے؟ ہمیں اس کا نام دو۔” چیف جسٹس نے ڈاکٹروں کو بھی کام پر واپس آنے کا کہا۔
جسٹس پارڈی والا نے سماعت کے دورانکہا کہ میں حیران ہوں، پوسٹ مارٹم سے پہلے کہا گیا کہ یہ غیر معمولی موت ہے؟ یہ کیسے ممکن ہے؟ پھر پوسٹ مارٹم کی کیا ضرورت تھی؟‘‘ اس سلسلے میں ریاست کی نظر ثانی شدہ وضاحت سننے کے بعد انہوں نے کہا کہ پوسٹ مارٹم کے بعد اسے غیر فطری موت کیسے کہا جا سکتا ہے۔ پھر پولیس کو موت کی وجہ معلوم ہوئی۔
سی بی آئی نے عدالت سے کہاکہ ’’واقعے کے پانچ دن بعد انہوں نے تحقیقات شروع کردی۔ لیکن اس وقت تک سب کچھ بدل چکا تھا ۔بنگال حکومت نے سی بی آئی کے دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس واقعات کی مکمل ٹائم لائن ہے۔ویڈیوگرافی بھی ہے۔ اس لیے سی بی آئی کا دعویٰ درست نہیں ہے۔ کچھ بھی نہیں بدلا۔ ریاست کی طرف سے ایڈوکیٹ کپل سبل عدالت میں پیش ہوئے۔
سالیسٹر جنرل مہتا نے ریاست کی طرف سے دی گئی ٹائم لائن کے بارے میں پہلا سوال اٹھاتے ہوئے کہاکہ ڈاکٹر کی لاش برآمدہونے کے بعد11;45بجے رات ایف آئی آر درج کی گئی۔ اس نے مجھے سب سے زیادہ حیران کیا۔ریاستی وکیل سبل نے جواب میں کہاکہ ہمارے پاس جو کچھ ہوا اس کی منٹ بہ منٹ ٹائم لائن ہے۔
چیف جسٹس نے پوسٹ مارٹم رپورٹ دیکھنے کے بعد کہا کہ ایک بات مجھے پریشان کر رہی ہے۔ صبح 10:10 بجے تک تھانہ تلہ نے جنرل ڈائری بنائی پولیس نے رات ساڑھے گیارہ بجے جائے وقوعہ کو سیل کیا؟ ۔اتنی دیر وہاں کیا ہورہا تھا۔جسٹس مشرانے کہا کہ پوسٹ مارٹم 9 اگست کی شام کو ہوا تھا۔ ساڑھے گیارہ بجے جنرل ڈائری لی گئی۔سبل نے اس پر کہا کہ نہیں نہیں۔ ایسا نہیں ہے۔ ویڈیو گرافی ہے۔
سی بی آئی کے وکیل سالیسٹر جنرل مہتانے کہا کہ پہلے خاندان کو خودکشی کی اطلاع دی گئی۔ بعد میں اسے موت بتایا گیا۔
جسٹس پارڈی والانے سوال کیا کہ پوسٹ مارٹم کب ہوا؟سبل نے جواب دیا کہ شام6 .10سے شام 7بجےکے درمیان۔
جسٹس پارڈی والانے کہج کہ آپ نے غیر فطری موت کی شکایت کب درج کرائی؟انہوں نے کہاکہ کیا یہ غیر معمولی موت ہے؟ اگر ایسا ہے تو پوسٹ مارٹم کی کیا ضرورت تھی؟ یہاں ہم دیکھ سکتے ہیں کہ رات 11:30بجے ایک غیر معمولی موت کی شکایت درج کرائی گئی۔ اور 15 منٹ بعد ایف آئی آر درج کی گئی؟ عدالت کو درست معلومات دیں۔جسٹس پارڈی والانے کہا کہ میں حیران ہوں، پوسٹ مارٹم سے پہلے غیر معمولی موت کہہ دیا گیا؟ اس طرح اپنے بیان میں ابہام پیدا نہ کریں۔ اگلی سماعت پر ایک ذمہ دار پولیس افسر کو یہاں رکھیں۔ اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ پولیس کون ہے؟ تحقیقات میں ان کے کردار پر شکوک و شبہات ہیں۔ ایسی تفتیش کیسے ہوئی؟جسٹس پارڈی والانے کہا میں نے اپنے 30 سال کے قانونی کیریئر میں ایسی تفتیش کبھی نہیں دیکھی۔ اگر آپ نے پوسٹ مارٹم سے پہلے غیر فطری موت کا مقدمہ درج کیا تو کس بنیاد پر؟ اگر آپ نے پوسٹ مارٹم کے بعد غیر فطری موت کا مقدمہ درج کیا تو پھر غیر فطری موت کا مقدمہ کیوں درج کیا، تو آپ کو موت کی وجہ پہلے ہی معلوم ہے!
چیف جسٹس نے کہج ہآپ کہتے ہیں کہ غیر فطری موت کا مقدمہ 9 اگست کو دوپہر 1.45پر درج کیا گیا۔ لیکن کیس ڈائری میں واضح طور پر لکھا ہے کہ غیر فطری موت کا مقدمہ رات 11:30بجے درج کیا گیا تھا۔ کون سا صحیح ہے؟اس کے جواب نے ریاستی حکومت کے وکیل نے کہا کہ جائے وقوعہ کو سیل کرنا، ابتدائی تفتیش، غیر معمولی موت کا مقدمہ درج کرنا یہ سب صبح 11 بجے سے پہلے کیا گیا۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا