سنجواں فدائیں حملے کی آڑمیں!

0
71

شرارتی عناصر روہنگیا مسلمانوں کیخلاف سرگرم ہوگئے
یواین آئی

جموں؍؍جموں وکشمیر کی سرمائی دارالحکومت جموں کے مضافاتی علاقہ گاندھی نگر کے چھنی راما علاقہ میں گذشتہ رات کچھ شرارتی عناصر نے روہنگیا پناہ گزینوں کی جھگی جھونپڑیوں کو مبینہ طور پر آگ کے شعلوں کی نذر کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ ان شرارتی عناصر نے جھونپڑیوں کی طرف کچھ پوسٹر بھی پھینکے ہیں جن پر لکھا ہے کہ روہنگیا پناہ گزینوں کو واپس بھیجا جائے۔ یہ شرارتی واقعہ گاندھی نگر میں واقع سنجوان ملٹری اسٹیشن ( 36 بریگیڈ فوجی کیمپ) پر فدائین حملہ اور اسمبلی و اسمبلی کے باہر بھارتیہ جتنا پارٹی (بی جے پی) کے اراکین کی روہنگیا مسلمانوں سے متعلق متنازعہ بیان بازی کے پس منظر میں پیش آیا ہے۔ ایک سٹیزن جرنلسٹ نے اپنی ایک ویڈیو میں کہا کہ کچھ شرارتی عناصر چھنی راما میں واقع روہنگیا بستی میں آئے اور روہنگیا پناہ گزینوں کی جھگی جھونپڑیوں کو آگ کے شعلوں کی نذر کرنے کی کوشش کی۔ انہوںنے کہا ’جموں میں مقیم روہنگیا مسلمانوں کے خلاف پہلے سے ہی سازشیں چل رہی تھیں۔ لیکن جب سنجوان کیمپ پر حملہ ہوا تو بغیر کسی تحقیقات کے روہنگیا پناہ گزینوں کو قصوروار ٹھہرایا گیا۔ یہ سراسر غلط ہے۔ کیا جموں وکشمیر میں ہونے والے تمام حملے روہنگیا پناہ گزین کررہے ہیں؟‘۔ ویڈیو میں ایک بزرگ روہنگیائی رفیوجی کو یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے ’موٹر سائیکل پر تین افراد یہاں آئے۔ ان میں سے ایک باہر کھڑا رہا جبکہ دو اندر گھس آئے۔ انہوں نے اپنے چہرے چھپا رکھے تھے۔ ایک بندے نے تیل چھڑک دیا جبکہ دوسرے نے ماچس کی تیلی جلاکر اس پر پھینک دی۔ اس کے بعد تینوں موقع سے فوراً فرار ہوگئے۔ چہرے بند ہونے کی وجہ سے ہم انہیں پہچان نہیں پائے‘۔ ویڈیو میں ایک نوجوان روہنگیائی رفوجی کو یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے ’بستی کو آگ لگانے کی غرض سے آنے والے افراد کچھ پوسٹر چھوڑ کر چلے گئے‘۔ ان پوسٹر پر لکھا ہے کہ روہنگیائی پناہ گزینوں کو واپس بھیج دیا جائے۔ ویڈیو میں ایک خاتون کو یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے ’ہم برما میں پریشان کن صورتحال کی وجہ سے یہاں آئے ہیں‘۔ واضح رہے کہ سنجوان میں ملٹری اسٹیشن پر فدائین حملے کے تناظر میں ریاستی اسمبلی کے اسپیکر کویندر گپتا جوکہ گاندھی نگر سے بی جے پی کے ممبر اسمبلی بھی ہیں، نے ایک متنازع بیان دیتے ہوئے کہا کہ یہ حملہ علاقہ میں روہنگیا مسلمانوں کی موجودگی کی وجہ سے پیش آیا ۔ ان کا کہنا تھا ’علاقہ میں روہنگیا پناہ گزینوں کی موجودگی ایک سیکورٹی خطرہ بن گیا ہے۔ حملے میں ان پناہ گزینوں کا بھی ہاتھ ہوسکتا ہے‘۔ انہیں اس بیان پر اپوزیشن نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے اراکین کی شدید برہمی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اسمبلی میں اپنے متنازع بیان سے قبل اسپیکر گپتا نے ملٹری اسٹیشن کے باہر نامہ نگاروں کو بتایا کہ روہنگیا مسلمان پہلے سے ہی شک کے دائرے میں تھے۔ انہوں نے کہا تھا ’اس میں کوئی دو رائے نہیں کہیں کہیں سیکورٹی میں چوک ہوئی ہے۔ یہاں رہنے والے لوگ (روہنگیا مسلمانوں) پہلے سے ہی شک کے دائرے میں تھے۔ انتظامیہ نے پہلے ہی ان کے خلاف کاروائی کی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ جلد ہی ان پر کوئی فیصلہ لیا جائے گا‘۔ بی جے پی کے دوسرے ایک ممبر اسمبلی رویندر رینا جو کہ اپنی شعلہ بیانی کے لئے مشہور ہیں، نے کہا تھا کہ انہیں جموں میں مقیم روہنگیا مسلمانوں سے خطرہ ہے۔ انہوں نے ملٹری اسٹیشن کے باہر نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا ’ان کی (روہنگیا مسلمانوں کی) موجودگی بہت سنگین معاملہ ہے۔ یہ ہماری حفاظتی ایجنسیوں نے بھی کہا ہے۔ یہ روہنگیا اور بنگلہ دیشی دوسرے ممالک کے لوگ ہیں۔ میں مرکزی وزارت داخلہ سے کہتا ہوں کہ ان کا علاج کرنا بڑا ضروری ہے۔ ان کو جموں وکشمیر سے کسی دوسری جگہ منتقل کیا جانا چاہیے۔ یہاں ہمیں ان سے بہت خطرہ ہے۔ یہاں ان کا غلط استعمال ہورہا ہے۔ چونکہ یہ غریب لوگ ہیں، اس لئے آئی ایس آئی اور پاکستان ان کو پیسے دیکر گڑبڑ کراسکتے ہیں‘۔ بی جے پی اور پنتھرس پارٹی پہلے سے ہی جموں میں روہنگیائی مسلمانوں کی موجودگی کے خلاف ہیں۔ جموں میں اگرچہ مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے قریب تین لاکھ رفیوجی بھی رہائش پذیر ہیں، تاہم بی جے پی اور پنتھرس پارٹی انہیں ہر ایک سہولیت فراہم کئے جانے کے حق میں ہیں۔ حکومتی اعداد وشمار کے مطابق جموں کے مختلف حصوں میںمقیم میانمار کے تارکین وطن کی تعداد محض 5 ہزار 700 ہے۔ یہ تارکین وطن جموں میں گذشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصہ سے مقیم ہیں۔ ایڈوکیٹ ہنر گپتا جو کہ بی جے پی کی لیگل سیل کے ممبر بھی ہیں، نے ریاستی ہائی کورٹ میں مفاد عامہ کی ایک عرضی دائر کر رکھی ہے جس میں عدالت سے جموں میں مقیم برما کے روہنگیائی تارکین وطن اور بنگلہ دیشی شہریوں کی شناخت کرکے انہیں جموں بدر کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔ عرضی گذار نے الزام لگایا ہے کہ بنگلہ دیش اور میانمار سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کی جموں میں موجودگی سے ریاست میں علیحدگی حامی اور بھارت مخالف سرگرمیوںمیں اضافہ ہوگا۔ ہنر گپتا نے دائر کردہ مفاد عامہ کی عرضی میں عدالت سے یہ کہتے ہوئے میانمار اور بنگلہ دیش کے تارکین وطن کو جموں وکشمیر سے کسی دوسری جگہ منتقل کرنے کی استدعا کی ہے کہ ریاست یا اقوام متحدہ نے جموں وکشمیر کے کسی بھی جگہ کو رفیوجی کیمپ قرار نہیں دیا ہے۔ انہوں نے عرضی میں میانمار اور بنگلہ دیش کے تارکین وطن کو ریاستی خزانے سے فراہم کئے جانے والے فوائد کو روکنے کی عدالت سے ہدایات کی بھی استدعا کی ہے۔ مفاد عامہ کی عرضی میں بنگلہ دیش اور میانمار کے تارکین وطن کی تعداد میں گذشتہ چند برسوں کے دوران ہونے والے اچانک اضافے پر تشویش ظاہر کی گئی ہے۔ مفاد عامہ کی عرضی میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ بنگلہ دیش اور میانمار کے تارکین وطن کی موجودگی سے ریاست میں علیحدگی حامی اور بھارت مخالف سرگرمیوںمیں اضافہ ہوگا۔خیال رہے کہ گذشتہ برس فروری کے اوائل میں جموں شہر میں چند ہورڈنگز نمودار ہوئیں جن کے ذریعے پنتھرس پارٹی کے لیڈروں نے روہنگیائی اور بنگلہ دیشی مسلمانوں کو جموں چھوڑنے کے لئے کہا تھا۔ مرکزی سرکار کی جانب سے گذشتہ برس سپریم کورٹ میں ایک حلف نامہ دائر کیا گیا جس میں روہنگیا مسلمانوں کو ملک کی سلامتی کے لئے سنگین خطرہ قرار دیا گیا۔ تاہم نیشنل کانفرنس کے کارگذار صدر اور ریاست کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کا کہنا ہے کہ جموں وکشمیر میں یہ خطرہ مابعد 2014 ء پیش رفت کا پیدا کردہ ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا