سماج کی تعمیر و ترقی میں اْستاد کا کردار اور اہمیت

0
0

*
کالم نگار پرویز چودھری
رابطہ نمبر 9622053756
*
قلم چیز ہے کیا اس کو چلنا سکھیا کس نے
سر کو جھکاؤ اس کے اگے سر کو اٹھنا سکھیا جس نیایک خوش حال کامیاب معاشرے کا تعلیم یافتہ ہونا نہایت ہی لازمی ہے کسی بھی ملک یا قوم کو بنانے اور اس کو اونچائیوں تک لے جانے میں ایک رہبر یعنی استاد کا اہم کردار ہوتا ہے یہ بات الگ رہی کے استاد بادشاہ نہیں ہوتا لیکن بادشاہ کو بنانے والا استاد ہی ہوتا ہیاس بات میں کوئی شک نہیں کے ایک قابل اور ذہین استاد ہی اپنی محنت و لگن اور اپنے فراہض کو ایمانداری سیادا کر کے کسی بھی سماج میں ایسے ہیرے پیدا کر دیتا ہے جو اس سماج سے براہیوں کو ختم کرنے میں اپنا اہم کردار ادا کرتے ہیں ہم جب بھی کامیاب لوگوں کی سونع عمری کا نزدیک سے جاہزہ لیتے ہیں تو پھر ہمیں اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ جن بھی لوگوں نے اپنے استاد کی عظمت کا اعتراف کیا ہیوہ ہمیشہ زمانے میں سرخ روح نظر آتے ہیں گویا کہ اس بات سے ایک چیز کی تصدیق ہوتی ہے کہ استاد کا احترام کرنے والا اور استاد کو اپنے دل کے قریب رکھنے والا کبھی دنیا میں رسوا نہیں ہو سکتا کیونکہ انسانی زندگی کو بدلنے میں ایک استاد کا کرادر ہی اہم رول ادا کر سکتا ہے بقول شاعر
جو بات دوا سے نہ ہوتی ہے وہ بات دْعا سے ہوتی ہے
جب کامل استاد ملے تو بات خدا سے ہوتی ہے
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ استاد قوم وملت کی کی ترقی اور خوشحالی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے اور کسی بھی قوم کو اگر ایک خوشگوار اور تعمیری سماج کا حصہ بننا ہے تو اس میں ایک باکردار معلم رہبر یعنی استاد کا ہونا لازمی ہے اگر ہم اپنے موجودہ دور کے نشیب وفراہض کو دیکھیں تو اس کو چلانے اور ان مشکلات کے ازالے کے لیے ایک اچھے استاد کا ہونا وقت کی ضرورت ہے لیکن یہ ممکن تبھی ہو سکتا ہے جب ایک استاد بھی اپنی تعلیمی قابلیت کے ساتھ ساتھ ایک اعلی کردار کا مالک ہو کیونکہ کسی بھی انسان کی شہرت تبھی ہی ممکن ہو سکتی ہے جب وہ باکردار ہوتا ہے کیونکہ پتے کا وجود تب تک ہی مضبوط ہوتا ہے جب تک وہ ٹہنی سے جوڑا ہوتا ہے بقول شاعر
پتا گرا شجر سے بے وزن ہو گیا
اڑنے لگا جدھر کو اڑانے لگی ہوا
بس یہی مثال انسان کے کردار کی بھی ہے آج کے دور میں ہمارے استاتذہ اکرام کو ضروت ہے وہ اپنے طالب علموں کو تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ اچھے اخلاق اپنے والدین کا احترام اور باکردار ہونے کا نسخہ بھی دیے یہ تبھی ممکن ہو سکتا ہے جب نسخہ دینے والا بھی کردار کے اس مقام پر قاہم ہو کہ اس کو سننے والے اس کی بات سے متاثر ہوں آج جب کہ ہم یوم استاتذہ منارہیں ہوتے ہیں تو میں اس عظیم دن کی عظمت کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے استاتذہ اکرام کو یوم استاتذہ کی مبارک باد پیش کرتا ہوں اور یہ بات بھی کہنا مناسب سمجھتا ہوں کے اگر ہمیں واقعی ہی استاد کو وہ مقام فراہم کرنا جس مقام کے لیے استاد حقیقت میں مستحق ہے تو پھر وقت کے حالات کو بدلنے کے لیے ہمارے استاتذہ اکرام کو دل کی لگن سے کام کرنا ہو گا تبھی جا کر ہم ایک اچھا اور پروقار سماج تیار کر سکتے ہیں کیونکہ اگر کوئی بھی کام ہمت سے کیا جائے تو پھر اس کام کو انجام تک لے جانے میں دشواریاں تو آ سکتی ہیں لیکن وہ ناممکن نہیں ہو سکتا بقول شاعر
ہمت کرے تو کیا نہیں انسان کے بس میں
یہ ہے کم ہمتی جو بے بسی معلوم ہوتی ہے
استاد کا منصب ہی ایک ایسا منصب ہے جس نے زمانے کو بڑے بڑے مفکر ادیب ڈاکٹر انجینئر سائنسدان تیار کر کے دیے ہیں
آج اگر کوئی سائنسدان کوئی انجینیر کوئی ڈاکٹر بڑا کارنامہ انجام دیتا ہے تو پورا سماج اس کی سرہا نہ کرتا ہے لیکن افسوس ہے کہ اس موقع پر اس استاد کو بھلا دیا جاتا ہے جس استاد نے انہیں اس قابل بنایا تھا تاریخ گواہ ہے کہ بغیر استاد کے آج تک کسی بھی شعبے میں انسان کامیاب نہیں ہوا المختصر استاد ہی وہ منصب ہے جس نے سماج کی تعمیر میں سماج کو بلندیوں تک پہنچانے میں اپنا اہم کلیدی کردار ادا کیا ہے سماج میں سب سے زیادہ اہمیت اْستادہ کو دی جانی چاہیے تھی لیکن افسوس ہے کہ استاد کی کردار اور اہمیت کو کسی بھی موقع پر یاد نہیں رکھا جاتا موجودہ دور میں ہر فرد بڑا منصب بڑا مقام حاصل کرنا چاہتا ہے لیکن استاد کے کردار کو اہمیت نہیں دی جاتی جو اس منصب کو اہمیت دی جانی چاہیے تھی
٭٭٭

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا