سرکاری دفتر:غریب کیوں نہ ڈرے؟

0
73

ریاست جموں وکشمیرکی سرکاری مشینری کورپشن کے معاملے میں کسی سے کم نہ ہے،کبھی سرفہرست آتی ہے توکبھی دوسرے مقام پرلڑھکتی ہے،پھرمحنت کرتی ہے پہلامقام پالیتی ہے،یعنی کورپشن کی جڑیں کافی گہری ہیں جن کااعتراف اپنے اپنے وقت میں ہرکوئی وزیراعلیٰ کرچکا/چکی ہے،لیکن کورپشن کیخلاف اعلانِ جنگ میں انہیں کوئی خاطرخواہ کامیابی حاصل نہ ہوئی ہے،احتساب کمیشن کے نام پرلفظ احتساب کی بھی تذلیل ہوگئی ہے کیونکہ یہ کمیشن بھی خزانہ عامرہ پرایک بوجھ کے سِواکچھ نہیں،کورپشن کے الزامات ثابت ہونے کے بعد اگرحکومت نے کسی طرح کچھ آفیسران کی جبری ریٹائرمنٹ عمل میں لائی بھی ہوتو وہ بھی عدالت کے راستے پھربحال ہوجاتے ہیں کیونکہ حکومت عدالت میں اپنے فیصلوں کادفاع نہیں کرتی، یاکرنانہیں چاہتی اور مجموعی طورپرکورپشن کیخلاف جنگ بھی ایک بدھامذاق بن کررہ جاتاہے،دراصل کورپشن کیخلاف جنگ کے نام پرکورپشن کیخلاف سب عشق کربیٹھتے ہیں جس سے راشی عناصرکی خوب حوصلہ افزائی ہوتی ہے ، ان کیخلاف کارروائی تودورکی بات حکومت انہیں خوفزدہ کرنے، خبردارکرنے کی بھی ہمت نہیں رکھتی کیونکہ نظام اس قدرزنگ آلودہ ہے کہ یہاں ہرکوئی کورپشن کی لعنت میں لپٹاہواہے،اگرکچھ آفیسران ، بیوروکریٹ ایمانداری کاپرچم بلندرکھنے کی کوشش کرتے ہیں توانہیں طرح طرح کے چیلنجوں کاسامناکرناپڑتاہے،انہیں ہراساں کیاجاتاہے،انہیں ’کھڈے لائن‘لگایاجاتاہے،ایسے عہدوں پرانہیں تعینات ہی نہیں کیاجاتاجہاں سے مال ہڑپنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں، وہاں کورپٹ لوگوں کوتعینات کیاجاتاہے تاکہ اُوپرسے نیچے تک سب کی تجوریاںبھرنے کاکام چلتارہے،ہم 1996سے ڈاکٹرفاروق عبداللہ،2002میں مفتی محمد سعید،2005میں غلام نبی آزاد، پھرعمرعبداللہ سے محبوبہ مفتی تک سبھی وزرأ اعلیٰ کوکورپشن کیخلاف جنگ کے اعلانات کرتے بارہاسن چکے لیکن شائیدیہ محض عام لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے یاپھرزبانی جمع خرچی ہی تھا،آج ایک عام آدمی خاص طورپرایک غریب شخص کوکسی سرکاری دفترمیں کوئی کام پڑجاتاہے تواُسے جان کے لالے پڑتے ہیں،اس کاکام ہرمیزپررشوت اداکئے بغیرنہیں ہوتا،ہرسائل کی فائل نقدی کے دم پرآگے بڑھتی ہے اگرنقدی کسی میزتک نہ پہنچے توفائل وہیں رک جانتی ہے، ردی کی ٹوکری میں چلی جاتی ہے،یاپھرگم کردی جاتی ہے،صاحبِ توفیق حضرات رشوت دینااپنااخلاقی فرض سمجھتے ہیں اورراشی ملازمین ؍آفیسران کی جیبیں گرم کرتے ہیں اوراپنے کام کورفتاردیتے ہیں لیکن غریب سرکاری دفترتک پہنچنے سے خوفزدہ ہے ایسے میں عوامی خدمات ضمانتی ایکٹ کے بلندبانگ دعوے بھی زبانی جمع خرچی ہیں۔ ریاست جموں وکشمیرکی سرکاری مشینری کورپشن کے معاملے میں کسی سے کم نہ ہے،کبھی سرفہرست آتی ہے توکبھی دوسرے مقام پرلڑھکتی ہے،پھرمحنت کرتی ہے پہلامقام پالیتی ہے،یعنی کورپشن کی جڑیں کافی گہری ہیں جن کااعتراف اپنے اپنے وقت میں ہرکوئی وزیراعلیٰ کرچکا/چکی ہے،لیکن کورپشن کیخلاف اعلانِ جنگ میں انہیں کوئی خاطرخواہ کامیابی حاصل نہ ہوئی ہے،احتساب کمیشن کے نام پرلفظ احتساب کی بھی تذلیل ہوگئی ہے کیونکہ یہ کمیشن بھی خزانہ عامرہ پرایک بوجھ کے سِواکچھ نہیں،کورپشن کے الزامات ثابت ہونے کے بعد اگرحکومت نے کسی طرح کچھ آفیسران کی جبری ریٹائرمنٹ عمل میں لائی بھی ہوتو وہ بھی عدالت کے راستے پھربحال ہوجاتے ہیں کیونکہ حکومت عدالت میں اپنے فیصلوں کادفاع نہیں کرتی، یاکرنانہیں چاہتی اور مجموعی طورپرکورپشن کیخلاف جنگ بھی ایک بدھامذاق بن کررہ جاتاہے،دراصل کورپشن کیخلاف جنگ کے نام پرکورپشن کیخلاف سب عشق کربیٹھتے ہیں جس سے راشی عناصرکی خوب حوصلہ افزائی ہوتی ہے ، ان کیخلاف کارروائی تودورکی بات حکومت انہیں خوفزدہ کرنے، خبردارکرنے کی بھی ہمت نہیں رکھتی کیونکہ نظام اس قدرزنگ آلودہ ہے کہ یہاں ہرکوئی کورپشن کی لعنت میں لپٹاہواہے،اگرکچھ آفیسران ، بیوروکریٹ ایمانداری کاپرچم بلندرکھنے کی کوشش کرتے ہیں توانہیں طرح طرح کے چیلنجوں کاسامناکرناپڑتاہے،انہیں ہراساں کیاجاتاہے،انہیں ’کھڈے لائن‘لگایاجاتاہے،ایسے عہدوں پرانہیں تعینات ہی نہیں کیاجاتاجہاں سے مال ہڑپنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں، وہاں کورپٹ لوگوں کوتعینات کیاجاتاہے تاکہ اُوپرسے نیچے تک سب کی تجوریاںبھرنے کاکام چلتارہے،ہم 1996سے ڈاکٹرفاروق عبداللہ،2002میں مفتی محمد سعید،2005میں غلام نبی آزاد، پھرعمرعبداللہ سے محبوبہ مفتی تک سبھی وزرأ اعلیٰ کوکورپشن کیخلاف جنگ کے اعلانات کرتے بارہاسن چکے لیکن شائیدیہ محض عام لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے یاپھرزبانی جمع خرچی ہی تھا،آج ایک عام آدمی خاص طورپرایک غریب شخص کوکسی سرکاری دفترمیں کوئی کام پڑجاتاہے تواُسے جان کے لالے پڑتے ہیں،اس کاکام ہرمیزپررشوت اداکئے بغیرنہیں ہوتا،ہرسائل کی فائل نقدی کے دم پرآگے بڑھتی ہے اگرنقدی کسی میزتک نہ پہنچے توفائل وہیں رک جانتی ہے، ردی کی ٹوکری میں چلی جاتی ہے،یاپھرگم کردی جاتی ہے،صاحبِ توفیق حضرات رشوت دینااپنااخلاقی فرض سمجھتے ہیں اورراشی ملازمین ؍آفیسران کی جیبیں گرم کرتے ہیں اوراپنے کام کورفتاردیتے ہیں لیکن غریب سرکاری دفترتک پہنچنے سے خوفزدہ ہے ایسے میں عوامی خدمات ضمانتی ایکٹ کے بلندبانگ دعوے بھی زبانی جمع خرچی ہیں۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا