زندہ باد، مردہ باد کے نعروںکے بیچ سرمائی دارالخلافہ جموں میں دربارسج گیا

0
0

پہلے دن کا استقبال ہڑتال، احتجاج اور ریلیوں سے کیا گیا
مرتضیٰ اکثر

جموں//ریاست کے کچھ سیاسی جماعتوں اور تاجروں کی تنظیموں کے جموں بند کی کال کے درمیان ریاستی دارالحکومت جموں میں آج سخت سیکورٹی کے درمیان دربار سج گیاہے..سول سیکرٹریٹ میں وزیر اعلی محبوبہ مفتی کا استقبال روایتی طریقے سے گارڈ آف انر کے ساتھ کیا گی. جموں میں راج بھون پو لیس ہیڈ کو ارٹر سمیت دربار موو سے منسلک دیگر دفاتر نے بھی آج سے جموں میں کام کاج شروع کر دیا اور اگلے چھ ماہ تک اب حکومت جموں ہی چلے گی.دربار موو کے ساتھ ہی سول سیکرٹریٹ میں چہل پہل بڑھ گئی ہے اور سیکرٹریٹ کے اندر اور باہر سیکورٹی بڑھا دی گئی ہے. سیکورٹی کے پیش نظر سیکرٹریٹ کے باہر سے گزرنے والی سڑک پر بھی اگلے چھ ماہ کے لئے عام ٹریفک بند کر دی گئی ہے۔ اس دوران جموں میں دربا ر کھلنے پر ور وزیر اعلیٰ محبو بہ مفتی نے آپنا کام کا ج سنبھال لیا ہے ۔جموں سول سیکریٹریٹ کے ملا زموں کی الگ الگ تنظیموںنے وزیر اعلیٰ کا گرم جو شی سے استقبال کیا ۔تفصیلات کے مطابق جموں وکشمیر میں دربار مو کی ڈیڑھ صدی پرانی روایت کے تحت گرمیوں کے چھ ماہ گرمائی دارالحکومت سری نگر میں رہنے کے بعد تمام دربار مو دفاتر بشمول گورنر، وزیر اعلیٰ اور کابینی وزراء کے دفاتر پیر کے روز سرمائی دارالحکومت جموں میں کھل گئے۔ اس موقع پر سیکورٹی کے سخت ترین انتظامات کئے گئے تھے۔ سکریٹریٹ کمپلیکس کے اردگرد ریاستی پولیس اور نیم فوجی دستوں کی بھاری نفری تعینات کردی گئی تھی جبکہ ضلع انتظامیہ نے احتیاطی تدابیر کے طور پر دفعہ 144 سی آر پی سی نافذ کیا تھا۔ جموں وکشمیر کانگریس، نیشنل کانفرنس، جموں وکشمیر پنتھرس پارٹی، گوجر باڈی، ٹیم جموں، جموں بار ایسو سی ایشن اور چند دیگر سیاسی و غیر سیاسی جماعتوں نے پی ڈی پی، بی جے پی مخلوط حکومت کی مبینہ ’جموں مخالف‘ پالیسیوں کے خلاف احتجاجوں کی کال دے رکھی تھی۔ جبکہ چیمبر آف ٹریڈرس فیڈریشن (جموں) نے ریاست میں گڈس اینڈ سروسز ٹیکس (جی ایس ٹی) کے اطلاق کے باوجود دوسری ریاستوں سے درآمد ہونے والی اشیاء پر ٹول ٹیکس کی ادائیگی کا سلسلہ جاری رکھنے کے خلاف دربار مو دفاتر کھلنے کے موقع پر ’جموں بند‘ کی کال دے رکھی تھی۔ متعدد سیاسی اور غیرسیاسی جماعتوں نے اس ہڑتال کال کی حمایت کا اعلان کیا تھا۔ دربار مو دفاتر سری نگر میں 27 اکتوبر کو بند ہوئے تھے۔ ریاستی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی سیول سیکرٹریٹ پہنچیں تو انہیں گارڈ آف آنر پیش کیا گیا اور کابینی وزراء اور دیگر اعلیٰ افسران کے علاوہ سول سیکرٹریٹ کے ملازمین نے اُن کا استقبال کیا۔ استقبالیہ گارڈ آف آنر کے بعد محترمہ مفتی نے سیول سکریٹریٹ کا معائنہ کیا اور بعد ازاں اپنا دفتر سنبھالا۔ تاہم انہوں نے وہاں موجود نامہ نگاروں سے کوئی بات چیت نہیں کی۔ وزیر اعلیٰ نے اج اپناکام کاج شروع کرتے ہوئے ملا زموں کی تنظیموں کے عہدیداروں سے میٹنگ کی اور ان کو پیش آنے والی مشکلات کو سنا اور ان کو حل کرنے کی یقین دہانی کروائی ۔ ادھر دوسری طرف لکھن پور میں ٹول ٹکس مخالفت اور مہاراجہ ہری سنگھ کے جنم دن کے موقع پر چھٹی سمیت دیگر کئی مطالبات کو لے کر دی گئی جموں بند کی کال کا آج ملا جلا اثر دیکھنے کو ملا. چیمبر آف ٹریڈرذ فیڈریشن طرف دی گئی بند کی کال کو اگرچہ، تاجروں اور بہت سی دوسری تنظیموں کو حمایت نہیں دی، لیکن کانگریس، نیشنل کانفرنس ،راجپوت سبھا، بار ایسوسیشن اور ٹراسپورٹرو کے مختلف تنظیمیں نے اس کی حمایت کی ۔ ٹراسپورٹرو طرف سے دی گئی حمایت کے چلتے فلئی اور پر مکمل طور پر جام رہا جس کی وجہ سے مسافر گاڑی بند رہنے سے جہاں لوگوں کو نقل و حرکت میں مشکلات جھیلنی پڑی وہیں، ٹرکوں کے نہ چلنے پر بھی سامان کو لے جانے پر اثر دیکھا جا رہا ہے۔ دریں اثنا، جموں بند کی حمایت میں اتر پردیش کانگریس نے آج حکومت کے خلاف مورچہ کھولتے ہوئے جموں میں زوردار احتجاج کیا. پردیش کانگریس کمیٹی کے صدر غلام احمد میر کی قیادت میں پارٹی کی تمام اکائیوں نے آج شہیدی چوک سے ایک مارچ نکال کر سول سیکرٹریٹ کے گھیراؤ کی کوشش کی، اور پولیس کی طرف سے روکے جانے پر پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں نے گرفتاریاں دے کر اپنا احتجاج کیا۔.میڈیا سے بات چیت کے دوران پردیش کانگریس کمیٹی کے صدر غلام احمد میر نے بتایا کے موجودہ مخلوط سرکار ناکام سرکار کے طور پر کام کاج کر رہی ہے انہوں نے الزام لگاتے ہوئے کہا کہ موجودہ سرکار کے دعوے اب بالکل کھوکلے ثابت ہو رہے ہیں ۔اس دوران نیشنل کانفرنس نے بھی سرکا ر کے خلا ف اپنے غصہ کا اظہا ر کرتے ہوئے جموں بند کی حمایت میں ایک ریلی نکالی۔ پا رٹی کے صوبا ئی صدر دیو ندرسنگھ رانا اور سابق وزیر سُرجیت سنگھ سلا تھیہ کی سربرائی میں یہ ریلی پارٹی دفتر سے شروع ہو کراندرا چوک میں اختتام پزیر ہوئی ۔ دویندر سنگھ رانا نے کہا کے مو جو دہ سرکا ر ہر مو رچے پرر ناکام ثابت ہوئی ہے ،اور لوگوں میں سرکار کے خلاف کا فی نارضگی ہے ۔پنتھرس پارٹی کی طرف سے بھی مخلوط سرکار کو نشانے بناتے ہوئے جموں بند کی کال کی حمایت کی گئی ۔علاوہ ازیں مختلف تنظیموں نے اس بند کی کال کو کامیاب بنانے میں اپنا اپنا حصہ ڈالا ۔ واضح رہے کہ سرکاری ذرائع کے مطابق سالانہ دربار مو کے سلسلے میں ملازمین اور سرکاری ریکارڈ کی منتقلی پر ہر سال قریب 20 کروڑ روپے صرف ہوتے ہیں۔ وادی کشمیر میں عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ دربار مو ایک فضول روایت ہے جس کو ختم کردینا چاہیے اور اس فضول روایت کو زندہ رکھنے کے لئے خرچ ہونے والے پیسوں کو عوام کی فلاح وبہبود کے لئے استعمال میں لانا چاہیے۔ بتایا جارہا ہے کہ اس روایت کی داغ بیل1872 میں ڈوگرہ راج کے اُس وقت کے فرماں روا مہاراجہ رنبیر سنگھ نے ڈالی اور یہ روایت آج بھی زندہ ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے ایک بار کہا تھا کہ موسم سرماکے دوران دربار مو دفاتر سری نگر میں کام کرنا چاہیے کیونکہ اُس وقت وادی کے لوگوں کو برف باری سے بجلی کی کٹوتی اور اشیائے ضروریہ کی قلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور لوگوں کو حکومت کی مدد درکار ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا تھا کہ چونکہ موسم گرما کے دوران جموں باسیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس لئے گرما کے دوران دربار مو دفاتر جموں میں کام کرنا چاہیے۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا