زرعی ملک کے بے روزگار کسان

0
0

 

 

منیشا/مونیکا
لنکرنسر، راجستھان

ملک کی ترقی میں سب سے بڑا مسئلہ بے روزگاری ہے۔ آج بھی ہندوستان جیسے بڑے ملک میں بہت سے چھوٹے گاؤں ہیں جہاں نوجوانوں کی ایک بڑی آبادی بے روزگار ہے ۔ یا تو ان کے پاس روزگار کا کوئی ذریعہ نہیں ہے یا پھر انہیں شہروں کی طرف ہجرت کرنا پڑتا ہے۔ ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے روزگار کی طلب بھی روز بروز بڑھ رہی ہے۔ لوگوں کو مناسب روزگار نہ ملنے کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ ملک میں غربت کی شرح میں تسلی بخش کمی نہیں ہو رہی ہے۔ اس وقت جہاں ایک طرف ہندوستان دنیا کے نقشے پر ایک ترقی یافتہ ملک کے طور پر ابھر رہا ہے وہیں دوسری طرف اس ملک کے چھوٹے دیہاتوں کے لوگ آج بھی کھیتی باڑی اور مویشی پالن پر منحصر ہیں۔ اب موسمیاتی تبدیلی کے اثرات زراعت پر بھی نظر آنے لگے ہیں۔ جہاں زراعت کی پیداوار پہلے سے زیادہ متاثر ہو رہی ہے۔
اس کی ایک مثال راجستھان کے بیکانیر ضلع میں واقع گاؤں لنکرنسر ہے۔ پہلے ہی گرمی اور خشک سالی کا شکار اس گاؤں کے کسانوں کے کھیت مناسب پانی نہ ملنے کی وجہ سے سوکھ رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے کھیتی باڑی کا کام متاثر ہو رہا ہے اور تمام تر محنت کے باوجود وہ اپنی فصل کی قیمت بھی پوری نہیں کر پا رہے ہیں۔ معاشی طور پر سب سے زیادہ چھوٹے کسان متاثر ہو رہے ہیں۔ کھیتی باڑی کے ساتھ ساتھ وہ اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے یومیہ اجرت پر کام کرنے پر بھی مجبور ہیں۔ اس گاؤں میں تقریباً 130 گھر ہیں۔ جس میں صرف 2یا3 گھر ایسے ہیں جن کے ممبران سرکاری نوکری پر ہیں۔ باقی سب یا تو کاشتکاری کا کام کرتے ہیں یا پھر مویشی پالنے کے ذریعے آمدنی کماتے ہیں۔
گاؤں والوں کے مطابق وہ سال میں صرف جولائی سے اکتوبر کے مہینوں میں کھیتی باڑی سے متعلق کام کرتے ہیں اور اکتوبر میں فصل کی کٹائی کے بعد بے روزگاری کی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اس میں بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ سال میں ایک بار کی جانے والی کاشتکاری مکمل طور پر بارش پر منحصر ہے۔ اگر بروقت بارش نہ ہوئی تو فصل مکمل تباہی کے دہانے پر ہے۔ کچھ معاشی طور پر خوشحال کسان اس عرصے میں اپنے کھیتوں میں پانی کی فراہمی کے انتظامات کر لیتے ہیں لیکن چھوٹے پیمانے پر کسانوں کو سوائے مالی نقصان کے کچھ نہیں ملتا اور نہ ہی ان کے پاس روزگار کا کوئی دوسرا ذریعہ ہوتا ہے جس سے وہ اپنے مالی نقصان کی تلافی کر سکیں۔اس سلسلے میں گاؤں کے 45 سالہ کسان پریم ناتھ کا کہنا ہے کہ ان کے پاس روزگار اور ذرائع آمدنی کے نام پر زمین کے صرف چند ٹکڑے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ سال بھر کی آمدنی بھی جمع نہیں کر پاتے ہیں۔
لیکن اس کے باوجود وہ صرف اس لیے کھیتی باڑی کرتے ہیں کیونکہ ان کے پاس مستقل روزگار کا کوئی دوسرا ذریعہ نہیں ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سال بروقت بارش نہ ہونے کی وجہ سے انہیں کاشتکاری میں نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ ایسے میں ان کے لیے گھر چلانا، بچوں کی پڑھائی، گھر کے بزرگوں کی دوائی اور دیگر اخراجات مشکل ہو جائیں گے۔ پریم ناتھ کے مطابق، اب ان کے پاس یومیہ اجرت مزدور بننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ ایک اور کسان 42 سالہ گوپال کہتے ہیں کہ ہم جیسے چھوٹے کسانوں کے لیے زرعی کام مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ تاہم، حکومت بچوں کو مفت تعلیم، سرکاری ہسپتالوں سے بیماروں کے لیے مفت ادویات، اور کھاد پر سبسڈی بھی فراہم کرتی ہے۔ لیکن جب بروقت بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے فصلیں متاثر ہوتی ہیں تو ہمیں معاشی بحران سے گزرنا پڑتا ہے۔ اگر حکومت دیہات میں روزگار کے دیگر ذرائع فراہم کرے تو ایسے حالات میں بھی ہمیں معاشی بحران کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔
تاہم مالی طور پر خوشحال کسانوں کو ایسی صورتحال سے نہیں گزرنا پڑتا۔ گاؤں کے ایک نوجوان کسان 33 سالہ پربھورام شرما کا کہنا ہے کہ ان کے پاس بیس بیگھے سے زیادہ آبائی زمین ہے۔ جس کی وجہ سے سال بھر کے لیے کافی فصل ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ان کے پاس 2 گائیں بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے کھیتوں میں اتنی پیداوار ہوتی ہے کہ اس سے نہ صرف ان کے خاندان بلکہ گائے کو بھی سال بھر کا چارہ ملتا ہے۔ تاہم، پربھورام شرما تسلیم کرتے ہیں کہ گاؤں کے چھوٹے کسانوں کے لیے زرعی کام دن بہ دن مشکل ہوتا جا رہا ہے ۔ ان کی کاشتکاری مکمل طور پر بارش پر منحصر ہے۔ اگر وقت پر بارش نہ ہو تو چھوٹے کسانوں کو مالی بحران کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور انہیں اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے مزدوری کرنا پڑتی ہے۔ پربھورام شرما کا کہنا ہے کہ اگر لنکرنسر میں ایک صنعت قائم کی جاتی ہے، تو چھوٹے پیمانے پر کسانوں کے لیے آمدنی کا ایک اور ذریعہ کھل سکتا ہے۔زراعت سے کم آمدنی اور روزگار کی کمی بھی گاؤں کی خواتین اور نوعمر لڑکیوں کی زندگیوں کو متاثر کر رہی ہے۔
بہت سی خواتین اور نوعمر لڑکیاں گھر کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے لیے سلائی کا کام کرتی ہیں۔ گاؤں کی 26 سالہ گیتا کا کہنا ہے کہ اس کے والد زراعت کا کام کرتے ہیں، لیکن وہ کھیتی سے اتنی آمدنی نہیں کر پاتے کہ وہ سال بھر گھر کے اخراجات پورے کر سکیں۔ ایسے میں اسے پڑھائی چھوڑ کر سلائی شروع کرنی پڑی۔ وہ گاؤں کی خواتین کے لیے کپڑے سلائی کر کے ماہانہ دو ہزار روپے تک کما لیتی ہے اور گھر کی مالی حالت کو بہتر بنانے میں مدد کرتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ گاؤں کی آبادی کم ہونے کی وجہ سے انہیں سلائی میں زیادہ منافع نہیں ملتا۔ تاہم شادی اور تہواروں کے موسم میں وہ کپڑے سلائی کر کے آٹھ ہزار روپے تک کی اچھی آمدنی حاصل کر لیتی ہیں۔ گھر کی مالی حالت بہتر بنانے کے لیے گیتا کا بھائی بھی شہر میں کام کرتا ہے۔
تاہم، راجستھان کے کسانوں کے مسئلے کا حل ضروری ہے کیونکہ اس سے ایک طرف ان کی معاشی حالت بہتر ہوگی تو دوسری طرف گاؤں بھی بااختیار بنیں گے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ ان کے مسائل کا مستقل حل تلاش کیا جائے۔ بارش کی کمی کو پورا کرنے کے لیے دیگر آپشنز پر غور کیا جانا چاہیے تاکہ کسانوں کو زراعت چھوڑ کر مزدوری کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ حکومت کسانوں کے مسائل پر سنجیدگی سے توجہ دے گی اور ان کے حل کے لیے کسی مثبت نتائج تک پہنچے گی۔ راجستھان میں بہت جلد اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ ایسے میں دیہی علاقوں میں سیاسی جماعتوں کے درمیان یہ مسئلہ نمایاں طور پر اٹھ سکتا ہے

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا