روشنی کے بغیر تعلیم ممکن نہیں

0
116

شازیہ اختر
منڈی، پونچھ

ہندوستان کا تاج کہی جانے والی ریاست جموں و کشمیر کی تحصیل منڈی کے علاقہ بائیلہ جہاں کی آبادی ابھی بھی بجلی جیسی سہولیات سے محروم ہے ۔جس سے یہاں کے طلباء اپنی تعلیم کو ادھوری چھوڑ کر مزدوری کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں ۔اس حوالے سے مقامی 40 سال کی غلام فاطمہ کہتی ہیں کہ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں اور ہمارے گاؤں کے بچوں کو بہت پریشانی جھیلنی پڑتی ہے۔ پچھلے 20 سال سے میں شادی کر کے یہاں رہ رہی ہوں مگر ابھی تک میں نے بجلی نہیں دیکھی ہے۔ میری دو بچیاں ہیں وہ اسکول تو جاتی ہیں مگر گھر پرپڑھ نہیں پاتی ہیں۔یہاں گاؤں سے اسکول بہت دور ہے۔ وہ دن کو اسکول جاتی ہیں اور شام میں واپس گھر آتی ہیں۔ رات کو انہیں اپنا ہوم ورک کرنا ہوتا ہے مگر اندھیرے میں وہ اپنا کام نہیں کر سکتی ہیں۔وہ بتاتی ہیں کہ صرف میری ہی بچیاں نہیں بلکہ ہمارے گاؤں کی سبھی بچوں کو یہی پریشانی دیکھنی پڑھتی ہے۔ جبکہ اس دور میں تعلیم پر سب سے زیادہ زور دیا جاتا ہے۔لڑکا ہو یا لڑکی،تعلیم دونوں کے لیے اہم ہے۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ بجلی جیسی سہولیات سے محروم ہونے کی وجہ سے ہمارے بچے پیچھے رہ گئے ہیں۔ غلام فاطمہ کہتی ہیں کہ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے ہمارے بچوں کی پڑھائی پر منفی اثر پڑ رہا ہے ۔جو بچے پڑھ لکھ کر کچھ بن پاتے اور اپنا روشن مستقبل بناتے ،آج وہ ہی بچے اپنے گاؤں میںبجلی کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے اپنی تعلیم کو ادھوری چھوڑ کر مزدوری کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں ۔وہ سوال کرتی ہیں کہ ہمارے بچے اگرعلم حاصل کرنے کی عمر میںصرف اس لئے تعلیم چھوڑ کر مزدور ی کریں گے کہ انہیں پڑھنے کی سہولیات نہیں ہے توکیسے ہمارا ملک ترقی کی راہ پر آگے بڑھ سکتا ہے؟بچے ملک کا مستقبل ہوتے ہیں اور یہ مستقبل ہی تعلیم چھوڑ دے تو ملک کے روشن مستقبل کا خیال درست نہیں ہے۔

اس بات کو اگے بڑھاتے ہوئے وہیں کے مقامی بزرگ عبدل احد ،عمر 72 سال کا کہنا ہے کہ میں نے اپنے گاؤں بائیلہ سرمہ میں کبھی بجلی نہیں دیکھی ہے۔ کاغذات میں تو یہ بجلی ہر گھر میںموجود ہے لیکن اصل میں یہ ہمارے گھروں میں نہیں ہے۔ کاغذات میں اس لیے موجود ہے کہ ہمیں ہر مہینے بجلی کا بل آتا ہے جو ہمیں ہر مہینے بھرنا پڑتا ہے۔ عبدل احد کہتے ہیں کہ ہم مظلوم اور غریب عوام ہیں۔ بجلی نہ ہوتے ہوئے بھی ہم سے بجلی کا بل لیا جاتا ہے۔ ہم مزدوری کر کے بجلی کا بل بھر سکتے ہیں تو کیا ہم بجلی کی روشنی نہیں دیکھ سکتے ؟آخر کب تک ہمارے ساتھ یہ ناانصافی ہوتی رہے گی؟ آخر کب تک ہم اور ہمارے بچے اس ناانصافی کے ساتھ جییں گے؟بجلی جیسی سہولیات سے محروم ہونے کی وجہ سے ہمارے گاؤں کے بچوں کا بہت زیادہ نقصان ہو رہا ہے ۔اس محرومیت کی وجہ سے ہمارے بچے اپنی پڑھائی ادھوری چھوڑ کر مزدوری کر رہے ہیں ۔در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں ۔ہماری بچیاں بے بس اور لاچار ہو کے گھروں پہ بیٹھنے کو مجبور ہیں ۔گھر میں بجلی نہیں ہونے کی وجہ سے لڑکیوں کی تعلیم میں دلچسپی ختم ہوتی جا رہی ہے۔وہ اب صرف برائے نام اسکول جاتی ہیںکیونکہ جب گھر آکر ہوم ورک کی ضرورت ہوتی ہے تو بجلی نہیں ہونے کی وجہ سے وہ یہ کام مکمل نہیں کر پاتی ہیں۔وہیں ساتویں جماعت کی طالبہ 13 سال کی آسیہ کوثر کہتی ہے کہــ’’ ہمیں بجلی نہ ہونے کی وجہ سے بہت ہی پریشانی دیکھنی پڑتی ہے ۔صبح میں اسکول جاتی ہوں اور شام کو گھر واپس لوٹتی ہوں ۔مجھے رات کو بیٹھ کر اپنا سکول کا کام کرنا ہوتا ہے۔ لیکن میں اندھیرے میں اپنے اسکول کا کام پورا نہیں کر سکتی اور مجھے ہوم ورک اسکول میں ہی جاکرکرنا پڑتا ہے۔ میں ہی نہیں بلکہ اس اسکول میں پڑھنے والے میرے گائوںکے سبھی بچے اپنا ہوم ورک اسکول میں ہی آ کر کرتے ہیں۔‘‘

اس سلسلہ میں منڈی کے جونئیر انجینئر جاوید احمد ملک کہتے ہیں کہ بجلی کی بہتر فراہمی کے لئے مرکزی حکومت کی جانب سے ریوئپیڈ ڈسٹریبیوشن سیکٹر اسکیم (آر ڈی ایس ایس)نام سے ایک نئی اسکیم شروع کی گئی ہے۔اس کے تحت ان تمام جگہوں پر تار اور کھمبے لگائے جا ئینگے جہاں کسی وجہ سے بجلی کا کام مکمل نہیں ہو سکا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اس پر اگلے ماہ اپریل سے کام شروع ہو جائے گا۔ جس کے بعد کوئی بھی علاقہ بجلی کی کمی سے محروم نہیں رہے گا۔قابل ذکر ہے کہ آر ڈی ایس ایس یعنی نظر ثانی شدہ ڈسٹری بیوشن سیکٹر اسکیم حکومت ہند کی ایک اسکیم ہے، جس میں حکومت نے قبل از اہلیت کے معیار کو پورا کرنے اور بنیادی کم از کم حصول کی بنیاد پر سپلائی انفراسٹرکچر کو مضبوط بنانے کے لیے ڈسکام کو نتیجہ سے منسلک مالی مراعات فراہم کی ہیں۔ اسکیم کو مالی امداد فراہم کرکے اس کی آپریشنل کارکردگی اور مالی استحکام کو بہتر بنانے میں مدد کرنے کے مقصد سے منظور کیا گیا ہے۔ اس کے تحت 5 سال یعنی مالی سال 2021-22 سے مالی سال 2025-26 کے لیے 3,03,758 کروڑ روپے کا خرچ ہے۔ دیہی علاقوں میں برقی کاری کے کاموں کو بہتر بنانے والے رورل الیکٹریفیکیشن کارپوریشنز (آر ای سی) کو بھی اس اسکیم کے نفاذ میں سہولت فراہم کرنے کے لیے نوڈل ایجنسی کے طور پر نامزد کیا گیا ہے۔بہرحال بجلی کی کمی کی وجہ سے لڑکیوں کی تعلیم پر سب سے زیادہ منفی اثر پر رہا ہے۔کم عمر میں ہی ان کی شادی کر دی جا رہی ہے۔ اس کی وجہ سے ان لڑکیوں کی بھی جلد شادی ہو جا رہی ہے جو اعلی تعلیم حاصل کر اپنے پیڑوں پر کھرا ہونے کا خواب دیکھ رہی ہیں۔لیکن بجلی کی کمی ان کے خواب کو تاریک بنا رہی ہے۔ جب تک روشنی نہیں ہوگی تعلیم کیسے ممکن ہو سکتی ہے؟(چرخہ فیچرس)

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا