روزہ اور نماز زنگ زدہ دل کا ہتھیار

0
158

✍️ جعفر علی ترالی
8493045905
اپنے رب کا جتنا بھی ہم شکر کریں وہ کم ہے کیونکہ وہ ہمارا رب ہے وہ جانتا ہے۔اُسے اپنے بندے سے محبت ہے وہ اپنے بندے سے اتنی محبت کرتا ہے کہ وہ بار بار اپنے بندے کو توبہ کی توفیق دیتا ہے۔اپنے گناہوں کی مغفرت مانگنے کی توفیق دیتا ہے اپنے آپ کو سدھارنے کی توفیق دیتا ہے اور تحفے میں اِسے ماہ رمضان جیسا مہینہ عطاکرتا ہے جس میں روزہ رکھ کے تلاوت کر کے اپنے گناہوں کو دھویا جاتا ہے اپنے گناہوں کی بخشش مانگنے کا ذریعہ جو ہے وہ یہی ماہ رمضان ہے۔جب انسان روزہ رکھتا ہے تو وہ پانچ وقتوں کا نمازی کے بننے کے ساتھ ساتھ تلاوت قرآن پاک میں بھی مشغول رہتا ہے جس سے انسان کا وہ سال بھر کا گناہ کر کے جو دل سیاہ ہوا ہوتا ہے جس کو زنگ لگا ہوا ہوتا ہے وہ پھر سے زندہ ہو جاتا ہے یعنی کہ بے ہوش مردہ دل کو پھر سے تازہ کیا جاتا ہے۔رب کتنا رحم کرتا ہے اپنے بندے پہ کہ وہ ماہ رمضان جیسا مہینہ عطا کر کے ہمیں مغفرت مانگنے کی توفیق دیتا ہے لیکن ہم انسان کتنے بد قسمت ہیں کہ ہم پھر سے اُس رب کی عبادت یا اُس فرمان پہ عمل نہیں کرتے ہیں جو رب ہمیں یہ بار بار کہتا ہے کہ اے انسان آپ کا وجود ہے کیا آپ کو خاک سے پیدا کیا گیا ہے اور آپ کو پھر سے خاک ہونا ہے ذرا توجہ فرماہیں کہ آپ کو کس چیز کی ضرورت ہے آپ کو کس چیز کو تازہ کرنے کی ضرورت ہے
انسان کا وجود یعنی انسان مٹی سے پیدا ہوا ہے چک چکاتے ہوئے گارے سے پیدا کیا گیا ہے وہ جس میں کہ بدبو پیدا ہو جائے یہ ساری باتیں قرآن کہتا ہے اور ہمارے وجود کو جب کہ یہ تھک جائے کمزور ہو جائے جب جسم کی طاقت کم ہو جائے تو اس کے لیے غذا ہے جو تقویت ہے وہ بھی ساری زمین کی ہی پیدا وار ہے ہم پھل کھاتے ہیں گندم کھاتے ہیں چاول کھاتے ہیں وہ کہاں سے آتےہیں سب زمین ہی سے آ رہے ہیں اگر ہم گوشت کھاتے ہیں تو یہ بکری، گانے وغیرہ کا گوشت کس چیز سے بنا ہے وہ گھاس کھاتے ہیں وہ گھاس کہاں سے آتی ہے زمین سے ہی آتی ہے بالاخرذریعہ جو ہم کو وجود حیوانی کے لیے جو آرہی ہے وہ زمین ہے وجود رحمانیت کو بھی تقویت کی ضرورت ہے وہ بھی مزہمیل ہو جاتی ہے کمزور ہو جاتی ہے خاص طور پر جب کہ وجود حیوانیت کا اس پر غلبہ ہو جائے تب کی یہ سمجھ لیجیے کہ وہ بے ہوش ہو کر موت کے قریب پہنچ جاتی ہے۔اس کی غذا وہاں سے آئی ہے جہاں سے روح آئی ہے،وہ کلام ربانی ہے یہ روح ربانی ہے،روح کا تعلق ذاتی باری تعالی کے ساتھ ہے اسی طرح کلام ربانی کہاں سے آیا،اللہ تعالی کے پاس سے ۔ عام حالات میں کیا ہوتا ہے ہمارا یہ وجود حیوانی چھایا ہوا ہے ہمارے وجود روح کے اوپر بیچاری روح جو ہے وہ دبی رہتی ہے پسی رہتی ہے۔اگر خدا نہ خواستہ ہم گنہگار ہیں گناہ پر گناہ کر رہے ہیں یہ جو ہمارا روح ہے وہ قلب کے اندر ہے شیشے کے اندر ہے قلب جو ہے یہ شیشے کے مانند ہے جس کے اندر روح کا چراغ جل رہا ہے ۔اب یہ جو اوپر شیشہ ہے اس پہ اگر دھواں آگیا تو روشنی باہر تو نہیں آئے گی اب انسان اگر جو گناہ کرتا ہے تو قلب پر زنگ آجاتا ہے اور گناہ کرتا ہے اور زنگ آجاتا ہے اور گناہ کرتا ہے تو جتنا زیادہ گناہ کرتا اُتنا زیادہ زنگ آجاتا ہے آخر پورا قلب یعنی پورا دل سیاہ ہو جاتا ہے۔اب وہ روح اندر بند ہو جاتی ہے وہ دفن ہو جاتی اس کے لیے اب ضروری ہے اب ایک پروگرام ایسا دیا جائے کہ وہ تبدیل،پلٹ ہو جائے دن میں روزہ رکھو تاکہ وہ جو جانور چاہتے ہیں وہ دبے تاکہ جب یہ وزن جو کم ہوئے تو اس کو کچھ ریلیف ملیں گی جیسے کوئی بے ہوش آدمی پڑا ہے اسے تھوڑا ہوش آرہا ہو اور آپ اس کے اوپر پانی کی چھڑکیں ڈالیں گے تو وہ ہوشیار ہو جائے گا وہ تازہ ہو جائے گا اسی طرح جب ہم ماہیے رمضان میں کھڑے ہو کر قرآن انوار کی بارش روح انسانی کے اوپر قلب روحانی کے اوپر برساتے ہیں جس میں کہ وہ جو دفن ہے وہ زندہ ہوگی از سر نو وہ ہوش میں آئے گی تو دو کام ہوں گے ایک تو ہمیں قرآن کریم کی عظمت کا احساس ہوگا جو قرآن ہماری حیات تازہ کا ذریعہ بنتا ہے جس کے بِناہماری روحانی حیات دب گئی تھی پِس گئی تھی ،بے ہوش تھی ، نیم مردہ تھی۔اب روزےمیں قرآن کی بارشوں نے ہمارے روح حیاتی تازہ عطا فرمایی یہ جو قدر کا احساس ہوگا قرآن کا لعلکم تشکرون تاکہ تم قران کی عظمت سے واقف ہو ۔ ایک انسان اگر بھوک کی وجہ سے بے ہوش پڑا ہو اب ظاہر سی بات ہے اگر ہم اسے پانی کی چھینٹیں دیں گے تو وہ ہوش میں آجائے گا اب اگر غذا دیں گے تو وہ پوری توانائی پہ آئے گا تو معلوم ہوگا کہ اسے اس غذا کی کیا قدر و قیمت ہے اگر ہمیں بھوک ہی نہیں تو غذا بے فائدہ ہے اب اگر ہمیں پیاس ہی نہ لگے تو ہمیں کیا پتہ کہ اس پانی کے اندر کتنی بڑی عظمت ہے یہ میرے لیے کتنا بڑا احسان اورانعام ہے اللہ کا۔ اب اگر ہمیں پیاس لگی ہو جان پر بنی ہو تو ایک گھونٹ اگر کوئی ہمیں پانی کی دے تب ہمیں قدر ہوتی ہے کہ پانی کی ایک گھونٹ دنیا سے بڑھ کر انعام ہے ہمارے لیے اسی طرح جب روح دبی ہوئی تھی حیوانی وجود کے بوجھ تلے جب کہ وہ بالکل بے ہوش تھی اب دن میں روزہ رکھ کے تو اس پر سے حیوانی بوجھ کا وزن کم کیا گیا اس سے ایک راحت ملی رات کو قران مجید کے انوار البرکات اس پر جذب کیے گئے تو اس کو پوری توانائی حاصل ہوئی۔اس توانائی کا نتیجہ پہلا کیا ہوتا ہے قران کا شکر ہم ادا کرتے ہیں یہ اللہ کا شکر ادا کرنا شکر قلب کی گہرائیوں سے نکلا ہوا شُکر ہوتا ہے۔سارا شکر اس اللہ کا جس نے اپنے بندے ہمارے پیغمبر حضرت محمد ﷺ پہ یہ کتاب نازل کی جس میں کوئی کمی نہ رکھی تاکہ وہ تمام جاندار کے لیے خبردار بن جائےاس سے قران کی عظمت اور نعمت کا پتہ چلتا ہے یہ ظاہر بات ہے جب کسی نعمت کی قدر و قیمت کا احساس ہوگا اسی قدر تو ہم شکر ادا کریں گے اگر ہم کسی بچے کے ہاتھ پر ہیرا رکھ دے اسے کیا پتہ ہیرا کس بلا کا نام ہے وہ سمجھے گا یہ کانچ کا ٹکڑا ہے لیکن اب اگر یہ ہیرا کسی سنار کو دیں گے تو اُسے معلوم ہے کہ مجھے کیا چیز دی گئی ہے اس کے اندر جو شکر پیدا ہوگا وہ اس بچے کے اندر تو نہیں ہوگا جسے معلوم ہی نہیں کس چیز کی قدر قیمت کیا ہے قران کریم کی عظمت سے انسان واقف تب ہوگا جب کہ اس کے ذریعے سے اس کی روح کو ایک حیات تازہ مل جائے گی ۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ انسان اپنے آپ سے کہاں غافل ہے کیا انسان اپنے وجود حیوانی سے غافل ہوتا ہے کیا جب انسان کو بھوک لگتی ہے کیا وہ غذا کو حاصل نہیں کرتا کیا وہ غذا تلاش کرنے کی کوشش نہیں کرتا خدانخواستہ اگر کوئی بیماری لاحق ہوتی ہے تو اس کے علاج کے لیے توجہ نہیں کرتا انسان کو آرام کی ضرورت ہوتی ہے کیا وہ آرام نہیں لیتا اگر ہم انسان اس اپنے حیوانی وجود سے غافل نہیں تو پھر ہم کس وجود سے غافل ہیں ہم غافل ہیں تو روحانی وجود سے غافل ہیں ہم بھول گئے ہیں کہ ہمارے اندر روحانی وجود بھی ہے جس کا تعلق ذاتی باری تعالی کے ساتھ ہے
ہم سمجھتے ہیں کہ ہم خالصں حیوان ہیں بس ہم اپنے اس وجود کی اصل حقیقت سے ہی بے خبر غافل ہیں ہم میں یہ سب سے بڑی محرومی ہے ہمارے اس دور کی انسان اپنی اصلی شرف سے خود ہی مستعفی ہو گیا کہ ہمارا کوئی وجود ہے ہی نہیں روحانی وغیرہ روحانی کسے کہتے ہیں ہم نہیں جانتے ہم روح سے واقف نہیں ہیں بس ہم جسم سے واقف ہیں بس یہ جسم ہے ہم صرف کائنات کو جاننے والے بنے ہوئے ہیں نہ کہ اپنے رب کو جاننے والے ہم اخرت کو بھی پوری طرح بھول گئے ہیں کہ آخرت ہے بھی ہے یا نہیں ہم خالی یہی جانتے ہیں کہ یہ زندگی تو ہے بس اسے ہم جانتے ہیں
روزہ جو ہے اس پروگرام کو پھر سے معکوس کرتا ہے تبدیل کرتا ہے دن میں کھانے پینے جنسی تقاضے پر پابندی تاکہ وہ وجود حیوانی کا وزن کچھ کم ہو روح جو دبی ہوئی تھی یا سسک کر رہی تھی یا بے ہوش تھی یعنی مردہ تھی اسے کچھ راحت ملیے پھر جب ماہ رمضان میں انوار القران کی بارش ہوتی ہے یعنی مہینے رمضان میں تلاوت قرآن مجید کی بارش ، نماز کی بارش،دعاوں کی پکار ہو تو
پھر سے دل تازہ ہو جاتا ہے ۔
اللہ تعالی ہم سب کو گناہوں سے توبہ کرنے کی توفیق دے اور اللہ ہم سب کو آئندہ سال کے روزے رکھنے کی بھی توفیق دے اللہ ہم سب کی توبہ قبول فرمائے ہمارے روزے رکھنے کو قبول فرمائے ہماری شب کرنے کو قبول فرمائے شبوں میں ہماری دعائیں قبول فرمائے۔ ہمیں اپنے رب کا لاکھ لاکھ بار شکر ادا کرنا چاہیے کہ وہ ہمیں ابھی بھی زنگ زدہ دل کو صاف کرنے کی یا مردہ دل کو پھر سے زندہ کرنے کی توفیق دیتا ہے

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا