رتن سنگھ کنول کی افسانہ نگاری میں بیانیہ پر زور

0
0

رتن سنگھ کنول اردو کے ایسے افسانہ نگار ہیں جنہوں نے قلیل مدتی افسانوی سفر میں اپنے نقوش چھوڑے ہیں ۔رتن سنگھ کنول پنجابی میں زیادہ تر افسانے بنتے ہیں ۔ ”اجڑتےلمحوں کی کھتیاں “ ان کا پہلا اردو افسانوی مجموعہ ہے ۔جو 2022 میں منظر عام پر أیا ہے۔ مذکورہ افسانوی مجموعہ میں کل اٹھارہ افسانے ہیں ۔ ان افسانوں میں فنی اور تکنیکی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔اور ان میں بیانیہ اظہار دیکھنے کو مل جاتا ہے۔ افسانہ نگار سیدھے طور کرداروں کی زندگی میں جھانکنے کے بغیر منطقی طور پر اپنا مشاہدہ اور تجربہ بیان کرتے ہیں ۔ انہوں نے ان ہی کہانیوں کو اپنے افسانوی کینوس پر جگہ دے دی ہے ۔جہاں سے مشاہدات اور تجربات کے وافر ذخائر دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ شمس الرحمان فاروقی ایک جگہ لکھتے ہیں ۔
” نئے افسانے کے بارے میں عام طور پر اس تشویش کا اظہار کیاجاتا ہے کہ اس کو روایت سےاللہ واسطے کا بیر ہے۔اس میں روایت شکنی کا رجحان ہے۔ اس میں بیانیہ کی روایتی خوبیاں نہیں ہیں ، یا بہت کم ہیں افسانے سے بیانیہ کے اخراج کا ذمہ دار جدیدیت کو ٹھہرایا گیا ہے، یعنی جدیدیت کے جرائم کی فہرست میں بیانیہ کا قتل بھی شامل ہے۔“ نیا اردو افسانہ مرتبہ گوپی چند نارنگ ص نمبر 27۔
یہاں ایسا بالکل بھی نہیں دیکھنے کو ملتا ہے ۔بلکہ افسانہ نگار اپنے فن کی تجلیاں اور ضو فشانیاں اسی مصباح سےجلاتے ہیں۔جہاں ہم یہ بات بخوبی محسوس کرتے ہیں کہ افسانہ نگار روایت کے نہ صرف امین ہیں بلکہ پاسدار بھی ہیں ۔اس طرح کا عنصر ان کے بیشتر افسانوں میں ملتا ہے۔
بیانیہ افسانے کےلئے کرداروں کی داخلیت پر کم زور دینے کی اشد ضرورت ہوتی ہے ۔اور اس کے برعکس واقعات اور جزیات نگاری پر توانائی صرف ہونی چاہئے۔تب جا کے افسانے میں بیانیہ پن پیدا ہو سکتا ہے۔ رتن سنگھ کنول کے یہاں بھی یہ عنصر اکثر جگہوں پر دیکھا جا سکتا ہے۔ جس طرح شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں ۔
” کردار نگاری کا سب سے اہم عنصر وہی ہے جسے کردار کی داخلی زندگی کہتے ہیں ۔یہ عنصر جتنا کم ہوگا، فن پارے کی تعمیر میں دوسرے بیانیہ عناصر مثلا پلاٹ ،حالات کا بیان ،دوسرے واقعات کے حوالے اور بدیعات RHETORIC کا حصہ زیادہ ہوگا کامیاب بیانیہ کے لیے ضروری نہیں ہے کہ اس میں داخلی زندگی پر زور دیا جائے اور اسے تکمیل سے پیش کیا جائے ۔لیکن اسے اس کمی کو پورا کرنے کے لیے دوسرے عناصرکا استعمال کرنا ہوتا یے۔۔“ نیا اردو افسانہ ص نمبر 29
رتن سنگھ کنول کے یہاں کرداروں کی داخلی زندگیوں میں کم جھانکنے کی بجائے ان کے داخلی زندگی پر توجہ مرکوز دکھائی دیتی ہے۔ اس عمل میں ان کے یہاں کردار اور واقعات میں بین نظر أتا ہے وہ اس طرح کہ اصل زور واقعات پر مرتکز ہے۔ جس سے زیادہ سے یا دہ ان کے یہاں خارجیت نمو دار ہوتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہر جگہ یہی عمل دہراتے ہیں ۔پر اکثر جگہوں پر دیکھنے کو ملتا ہے۔ جس سے ان کے یہاں خارجی عوامل کی افسانویت میں عمل دخل ہے۔
”اندر کا أدمی“ افسانے میں افسانہ نگار ایک عجیب سی کشمکش دکھا رہا ہے ۔جب افسانے کا مرکزی کردار اندر کا أدمی باہر نکل أتا ہے تو وہ باہر کی دنیا میں عجیب نظاروں سے شناسائی پاتا ہے۔کہیں اسے جہیز کی لت میں جھگڑوں کی بھر مار سننے کو ملتی ہے۔اور کہیں اسے پرندوں کی زبان سے اشرف المخلو قات کے عجیب و غریب قصے سننے اور دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس افسانے میں انرر کے أدمی کے ساتھ ساتھ جتنے بھی کردار موجود ہیں وہ سب متحرک اور فعال ہیں اور سبوں کے اندر لالچ حسد مار دھاڑ کی لت لگی ہوئی ہے اور یہ لت بھی انہیں اسی اشرف المخلوقات سے حاصل ہوجاتی ہے۔اس افسانے میں ایک قسم کا ٹھہرا محسوس ہوتا ہے اور کرشن چندر کی طرح اپنی ہر ایک بات سے منظروں کی موجودگی دکھا کر بیانیہ پن اپناتے ہوئے اس بات کو اور زیادہ قوی بناتے ہیں کہ افسانہ نگار روایت کے امین اور پاسدار ہیں۔اس افسانے میں متکلم اس بات کو باور کرانا چاہتا ہے کہ موجودہ دور میں جو انسانوں پر بے حسی طاری ہے وہ کیونکر ہے۔اس سب کے پیچھے جو بھی وجوہ کار فرما ہیں اس حقیقت سے کسی کو مفر نہیں ہے۔افسانہ نگار کے یہاں کرداروں کی کشمکش لالچ اور بے یقینی کی صور تحال واضح دکھائی دیتی ہے۔
رتن سنگھ کنول کے بیشتر افسانوں میں انتظار حسین کی طرح کردار صرف انسانوں کی صورت ہی میں نہیں ملتے ہیں ۔بلکہ کتے، مرغے ،ریچھ ، ریچھنیاں،چیل اور کوے وغیرہ کی صورت میں بھی ملتے ہیں ۔ یہ سبھی کردار انسانوں کے کرتوت پر زوردارقہقہے مارتے ہیں ۔اور اپنی بے لالچی کوکبھی کبھار افراد سے تقابل بھی کرتے ہیں۔ جہاں سے یہی کردار ارفع و اعلی نظرأتے ہیں۔ اسی طرح ان کا افسانہ ”زندگی“ میں اس احساس کا پتہ بخوبی مل جاتا ہے۔ ایک طرف انسان جنگلوں کے بے دریغ کٹا کو جاری رکھے ہوئے ہیں اور دوسری طرف یہی جنگلی جانور انسانی بستیوں میں گھس کر بچوں اور عورتوں کو نشانہ بنا کر ان کی أنکھوں کو نوچ ڈالتے ہیں ۔ان کی پہچان مٹا دیتے ہیں ۔یہ عنصر یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ ان مسائل کی طرف افسانہ نگار کا دھیان بھر پور ہے اور عصری حالات و واقعات کو موضوع بناتے ہوئے ان پر تفصیل کے ساتھ اظہار خیال کرتے ہیں۔ ان افسانوں کے اندر کی زبان اسی معاشرے کی ہے جو مانوس بھی ہے ۔اور اسی لئے افسانہ نگار قاری کے بالکل نزدیک دکھائی دیتے ہیں ۔
افسانہ ”اجالا غم کا“ میں افسانہ”زندگی“ ہی کی طرح موضوعاتی یکسانیت دیکھی جا سکتی ہے۔ جس میں جنگلی جانورں کا بستی پر قہر ڈھانا اور اس غم کی داستان در و دیوار بیان کر رہے ہیں ۔پیش ہے یہ تراشا۔
”گھر میں ماتم کا ماحول تھا ۔عورتیں رو رو کر بین کر رہی تھیں۔غم و اندوہ کا غبار گھر کی دیواروں پر بھی تہہ بہ تہہ جم رہا تھا ۔ جوں ہی سجاد گھر میں داخل ہوا سب کچھ جیسے تھم سا گیا ۔گھر میں موجود سبھی لوگوں نے جیسے سانس لینا بھی بند کر دی ۔لیکن جوں ہی انہیں یوسف کے نہ ملنے کا پتہ چلا تو سبھی نے رونا پیٹنا پھر شروع کر دیا۔ ان کی چیخوں سے لگتا تھا کہ أسمان ابھی ٹوٹ کر گر جائے گا ۔ اب کی بار دلاسہ دینے کے لئے باہر سے بھی کوئی نہیں أیا ۔ کیوں کہ سجاد کے گھر پہنچنے تک اندھیرے کی سیاہ چادر ساری بستی پہ تن گئی تھی۔ اور لوگوں نے وحشی تیندئیں ،جنہوں نے بستی والوں کی نیندیں اڑا کر رکھ دی تھیں ۔، کے خوف سے در و دریچے بند کر دئے تھے کوئی اچک کر بھی نہیں دیکھ سکتا تھا۔بس درد و و کرب اوراداسیوں کا سمندر دور دور تک پھیلا ہوا تھا جیسے اس بستی میں اکثر ہوتا أرہاتھا۔“ صنمبر 27.
” پتہ ہے چیتا جنگل چھوڑ کر بستی یا باڑی میں کیوں أ یا تھا کیوں کہ أدمی نے جنگل سے بہت سارے پیڑ پودے کاٹ ڈالے ہیں ۔ چیتے ریچھ اور دوسرے کئی جانوروں کے گھر برباد کر دئے ہیں۔ ان کا کھانا بھی جنگل سے ختم ہو گیا ہے ۔اور ان جنگلی جانوروں کا انسانی بستیوں یا باغوں، باڑیوں کی طرف رخ کرنا قدرتی عمل ہے ۔ لگ گیا پتا۔“
افسانہ زندگی۔ص نمبر 32.
ان کے یہاں واقعات کا تسلسل اس قدر افسانوں میں سرایت کر چکا ہے کہ انسانی زندگی کا ہر ایک پہلو و لمحہ ان کے لیے کوئی کہانی سے کچھ کم نہیں ہے۔ ان کے اندر جو واقعات اور جزئیات نگاری میں سکوت اور ٹھرا ہے وہ ان کی افسانہ نگاری کی قوت ہے اور حسن و خوبی بھی ، جس کی رو سے کوئی احساس کی لہر محسوس کی جا سکتی ہے۔ افسانہ ” اجڑے لمحوں کی کھیتیاں “ میں اس عنصر کی واشگافی بخوب ہو جاتی ہے۔پیش ہے ایک تراشا ۔
”بس اڈے میں کوئی گاڑی کھڑی نہیں تھی دسمبر کی ٹھٹھرتی ہوئی شام کی ملجگی روشنی میں ، میرے ساتھ لوگوں کی ایک بھیڑ بھی گاڑی کے انتظار میں تھی۔ بے چینی کے عالم میں سبھی دھند لی سی امید لیے ادھر ادھرگھوم رہے تھے ۔شاید یہ وہ لوگ تھے جن کی گھر تک مسافت دس کلو میٹر سے کم نا تھی۔ نہیں تو یہ بھی اور لوگوں کی طرح پیدل ہی چلے گیے ہوتے ۔ جوں جوں وقت بیتتا جا رہا تھا عورت اور بھی پریشان ہو رہی تھی۔ سوچ میں ڈوبی ،بار بار سیل فون سے وقت دیکھ لیتی ۔ دو چار قدم چل کر ٹانگوں کی اکڑن دور کر لیتی اور پھر اسی شیڈ میں أکر بیٹھ جاتی اکھڑی سوچ کی لڑی کو پھر جوڑلیتی۔“
اجڑتے لمحوں کی کھیتیاں ۔۔ ص نمبر 21
اس طرح سے ہم یہ بات بلا وثوق کہہ سکتے ہیں کہ رتن سنگھ کنول موجودہ دور کے ایسے افسانہ نگار ہیں جن کے افسانوں میں بیانیہ پن دوردور تک دیکھا جا سکتا ہے۔ اور ایسا بھی نہیں ہے کہ اس سے ان کے کردار دھندلے نقوش ثابت ہوئے ہیں ۔بلکہ اور بھی اپنی بھر پور سامانیت اور حساسیت کے ساتھ ابھر کر سامنے أرہے ہیں ۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا