راجوری یونیورسٹی میں شعبہ عربی کے زیر اہتمام یک روزہ سیمینارمنعقد

0
0

افسانہ انسانی جذبات واحساسات کی ایک فنی وحدت کا نام ہے:پروفیسر جاوید مسرت
لازوال ڈیسک
راجوریباباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی کے شعبہ عربی کے زیر اہتمام ”عربی، اردو افسانہ:فن اور تکنیک“کے موضوع پر ریاستی سطح کا ایک شاندار سیمینار منعقد کیا گیا جس کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے کیا گیا ۔تلاوت گلزار احمد اسسٹنٹ پروفیسر اسلامک اسٹیڈیز نے کی۔یہ سیمینار تین نشستو ں پہ مشتمل تھا ۔پہلی نشست افتتاحی تھی جس کی صدارت پروفیسر جاوید مسرت وائس چانسلر بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری نے کی ان کے علاوہ مہمانان خصوصی واعزازی کے طور پر پروفیسر جی ایم ملک (ڈین آف دی اسکول)ڈاکٹر مظفر حسین ندوی اور ڈاکٹر ریاض توحیدی موجود تھے۔پرفیسر جاوید مسرت نے شعبہ عر بی،اردو اور اسلامک اسٹیڈیز کے صدر ڈاکٹر شمس کمال انجم کو اس بات پہ مبارک باددی کہ انھوں نے ایک اہم موضوع پہ یک روزہ سیمینار منعقد کروایا ۔انھوں نے افسانے میں فنی لوازمات پہ روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا کہ افسانہ انسانی جذبات واحساسات کی ایک فنی وحدت کا نام ہے۔ نظامت کے فرائض ڈاکٹر شمس کمال انجم نے انجام دیے۔ انھوں نے تمام مہمانوں کا استقبال کیا اور بالخصوص کشمیر سے آئے ہوے مہمانوں ڈاکٹر مظفرحسین ندوی،راجہ یوسف،ڈاکٹر ریاض توحیدی ،طارق شبنم اور ڈاکٹر بشارت حسین کاتعارف کروایا ۔انھوں نے اس ایک روزہ ریاستی سیمینار کے موضوع کی اہمیت اوراغراض ومقاصد بیان کیے۔ دوسری نشست میں عربی ،اردوافسانے کے فن اور تکنیک پہ مقالے پڑھے گئے۔جس میں پہلے عربی افسانے کا فن اور تکنیک سے متعلق مقالات پڑھے گئے ۔ اس کی صدارت ڈاکٹر مظفر حسین نے کی۔ جن مقالہ نگاران نے مقالے پیش کیے ان میںڈاکٹر شمس کمال انجم نے’عربی افسانے کی نشونما اور ارتقا‘ڈاکٹر محمد عفان نے ’عربی افسانہ اور یوسف ادریس‘ڈاکٹر محمد اعظم نے’افسانہ تکنیک اور خصوصیات‘ اور ڈاکٹر منظرعالم نے’عربی افسانہ نگاراور نجیب کیلانی ،شامل ہیں ۔نظامت کے فرائض ڈاکٹر محمد عفان نے انجام دیے اس کے بعد اردو افسانے کے فن اور تکنیک سے جن مقا لہ نگاران نے مقالے پیش کیے ان میں راجہ یوسف نے’افسانے کی بنت ایک جائزہ‘ڈاکٹر مشتاق احمدوانی نے’معاصر اردو افسانہ‘ڈاکٹر بشارت احمدخان نے’افسانے کی تنقید‘اورڈاکٹر ریاض توحیدی نے’ اردو افسانہ فن اور تکنیک‘پر مقالہ پڑھا۔ صدارت بھی ڈاکٹر ریاض توحیدی نے کی۔ان کے علاوہ ایوان صدارت میں ڈاکٹر بشارت حسین خان،راجہ یوسف،ڈاکٹر مشتاق احمدوانی بھی موجود تھے۔نظامت کے فرائض ڈاکٹر محمدآصف ملک علیمی نے انجام دیے۔ تیسری نشست میں اردو اور عربی کے کل گیارہ افسانے پڑھے گئے جس کی صدارت ریاست کے ایک معروف افسانہ نگار،ڈراما نویس سیریل رائٹر راجہ یوسف نے کی ۔راجہ یوسف وادیءکشمیر سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ا ن کے اردو اور کشمیری میں تخلیقی کارنامے ادبی حلقوں میں خاصی پذیرائی حاصل کرچکے ہیں ۔حال ہی میں ان کی کشمیری تہذیب وثقافت سے متعلق کتاب ”ویتھ“کے نام سے منظر عام پر آئی ہے جس میں انھوں نے تمثیلی اندازبیان اختیار کیا ہے۔ان کے علاوہ ایوان صدارت میں ڈاکٹر شمس کمال انجم صدر شعبہ عربی ،اردو اور اسلامک اسٹیڈیز،ڈاکٹر ریاض توحیدی اورطارق شبنم بھی موجود تھے۔ نظامت کے فرائض ڈاکٹر مشتاق احمدوانی نے انجام دیے۔اردو میں جن افسانہ نگاران نے اپنے افسانوں سے سامعین کو تحیر وتجسس میں مبتلا کیا ان میں ڈاکٹر ریاض توحیدی کا افسانہ’کالا چوہا‘راجہ یوسف کا’حصار‘ڈاکٹر مشتاق احمدوانی کا’سب کی ماں‘طارق شبنم کا’آب حیات‘ڈاکٹر شمس کمال انجم کا’غربت‘ڈاکٹر لیاقت نیر کا’مردہ زندہ ہوگیا‘ ڈاکٹر بشارت احمد خان کا’سنگ باز‘رضوانہ شمسی کا’باغی عورت‘ اور ڈاکٹر عقیلہ کا’قاتل ‘شامل ہیں ۔عربی میں جنھوں نے افسانے پیش کیے ان میں ڈاکٹر محمد عفان کا’مسافر‘ڈاکٹر منظر عالم کا’مال اور مصرف‘ اورڈاکٹر محمد اعظم کا’آصفہ‘شامل ہیں کل دودرجن مقالے اور افسانے پڑھ کر سنائے گئے ۔اس سیمینار کے اختتام پہ پروفیسر جی ایم ملک (ڈین آف دی اسکول)کے ہاتھوں طلبہ وطالبات اور سیمی نار کمیٹی کے ممبران میں اسناد تقسیم کی گئیں۔شکریے کی رسم ڈاکٹر منظر عالم نے انجام دی۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا