دنیا کو امن و سکون سے بھرنے والی امت آج خود امن کے لئے ترس رہی ہے ‘‘

0
101

 

 

 

قیصر محمود عراقی

ہمارے ملک کے حالات جو اس وقت ہو گئے ہیں وہ کسی بھی شخص سے پوشیدہ نہیں ہیں ، جو ملک ایک مدت سے امن و امان کا گہوار تھا وہ فساد و انتشار اور نفرت کی آماجگاہ بن چکا ہے ، اور اب یہ حال ہو گیا ہے کہ کوئی بھی شخص اس بات کی ضمانت نہیں دے سکتا کہ اگر وہ گھر سے نکلتا ہے تو خیریت سے واپس بھی آ سکتا ہے ، جنگل میں وحشی درندوں کے درمیان انسان تو محفوظ رہی سکتا ہے لیکن شہروں میں ، آبادیوں میں اس کی جان و مال محفوظ رہے اس کی کوئی ضمانت نہیں ۔ ان حالات میں ہمارا کیا کر دار ہو نا چاہیئے اور اس مشکل اور مسائل سے پرُ دور سے کس طرح عہدہ بر آ ہو نا چاہیئے ؟ یہ بہت غور و فکر کی بات ہے ، جذبات سے الگ ہو کر ، وقتی جوش اور گر می کو دماغ سے نکال کر اس سنگین صورتِ حال کی عقدہ کشائی کر نا ہمارے لئے بہت ضروری ہے ۔
قارئین محترم ! کوئی بھی فیصلہ کر نے سے پہلے ہم کو دنیا کے دیگر ممالک کے حالات کا گہرائی سے جائزہ لینا چاہیئے ، ان ممالک کے مسلمان جن مسائل اور حالات سے دوچار ہیں ان کو سامنے رکھنا چاہیئے ، قوموں کی زندگی میں ایک معمولی قدم بھی غیر معمولی اثر رکھتا ہے اور اس کے دور رس اور تاریخی اثرات ہو تے ہیں ، وہ قوم ہر گز تر قی نہیں کر سکتی جو عقل کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دے ۔ اس سلسلہ میں ہمارے لئے روشن مثال ہمارے اسلاف کی ہے ، جنہوں نے اس سے زیادہ مشکل حالات میں زندگی گزاری ہے ن، مصائب و تاریکیوں میں قندیل رہبانی بن کر نہ صرف خود کے لئے بلکہ دوسروں کے لئے بھی روشن مینا ر ثابت ہو ئے لیکن آج ہم مسلمانوں پر جو مشکل گھڑی آن پڑی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ہماری آزمائش کا معاملہ ہے، کیونکہ ہم اپنی زندگی بڑی غیر ذمہ داری سے بسر کر رہے ہیں ، جس کے لئے ہر طرح کی سزا کم ہے ۔ہم بھول بیٹھے ہیں کہ مسلمانوں کا معاملہ دیگر اقوام کی بہ نسبت بہت علیحدہ ہے ۔ ہم پر دین اسلام کی اشاعت کا فرض لازم ہے تا کہ دنیا میں لوگ امن و شانتی اور انصاف کے خوشگوار ماحول میں زندگی گذار سکیں ، صرف اپنی سلامتی اور عیش و آرام کے لئے تگ و دو کی بجائے سارے معاشرہ کی اصلاح ہم پر لازم ہے ۔ یہ سچ ہے کہ حالات ہمارے موافق نہیں ہیں ، ہر قدم پر مشکلات کے پہاڑ کھڑے کر دیئے گئے ہیںمگر انہیں کہساروں میں سے راہیں نکالنا بھی ہمارا فرض ہے ۔ آخر ہم کب تک دیوار سے پشت لگائے کھڑے رہینگے ؟ کب تک اپنے انسانی حقوق سے بھی دستبر دار رہینگے ؟ کب تک اپنے وطن کو فرقہ پرستی کی آگ میں جلتا دیکھتے رہینگے ؟ محترم زعماے ملت کب تک خاموش رہینگے ؟ کیا ہم ملت کی نائو کو خاموشی سے ڈوبتا دیکھتے رہینگے ؟ ۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ جو بھی کہیں جتنی بھی استطاعت رکھتا ہو، علم ، دولت ، طاقت ، شعور ، آگہی ، حقوق شہریت اور حقوق انسانی ، سرکاری ترقیاتی منصوبوں میں حصہ داری اور اقامتِ دین کے میدانوں میں جتنا بھی درک رکھتے ہو ں وہ سب اپنی صلاحیتوں کو امت کی فلاح کی سعی میں جھونک دیں ، ہر ذی حیثیت کا فرض ہے کہ آگے بڑھے اور ملت کی گر تی ہو ئی دیواروں کو تھامنے کے لئے اپنی جان لڑا دے ، نوجوانوں کے چہروں سے مایوسی کے غبار کو مٹا دیں ، کیونکہ ہمارے نوجوانوں میں صلاحیتوں کی کمی نہیں ہے ، بفضل تعالیٰ خودی بھی ہے اور جوش و جرات مندی بھی ۔
یہ ہم مسلمانوں کی خاموشی ہے کہ آج مسلمان زیادہ تر بے روزگار ہیں ، رہائش کے معاملہ میں پریشان ہیں ، حصول تعلیم ان کی دسترس سے بعید کر دی گئی ہے ۔ بد امنی اور انتشار کا شکار یہ وہ امت ہے جو امتِ وسط اور خیر امت کے لقب سے ملقب ہے ، جس کی رفعت و بلندی اور افضل و شرف کا یہ عالم ہے کہ وہ بروز قیامت دوسری امتوں پر گواہ بنائی جا ئیگی ۔ جس قوم نے پوری دنیا میں امن کا پیغام پھیلایا ہائے افسوس دنیا کو امن و سکون سے بھرنے والی یہ امت آج خود امن کے لئے تر س رہی ہے ، کیا کبھی اس امت نے یہ سوچنے کی زحمت کی ہے کہ آخر حالات میں یہ تبدیلی کیوں اور کیسے آگئی ؟
قارئین حضرات! بات دراصل یہ ہے کہ آج مسلمان کی اکثریت توحید کو چھوڑ کر شرک و بدعت کے جوہڑ میں گڑ گئی ہے ، بد اعمالیوں کو اپنا شیوا بنا لیا ہے ، فرائض و واجبات سے منھ موڑ لیا ہے ، مساجد کو ویران سا کر دیا ہے ، اسوئہ رسول ﷺ کو چھوڑ کر دوسروں کے طریقے اپنانے اور اختیار کر نے کو دین کا جز اور تقرب الہیٰ کا ذریعہ سمجھ لیا ہے اور اس کے لئے نت نئی بدعات و خرافات نے جنم لیا اور لے رہی ہے ۔ نتیجہ سامنے ہے کہ آج دوسروں کو امن سکھانے والی امت اسی امن کے لئے دوسروں کی طرف حسرت بھری نگاہوں سے دیکھ رہی ہے اور پورا عالمِ اسلام عجیب کش مکش اور اضطراب کا شکار ہے ۔
عوام تو عوام خواص اور امت کی قیادت کا دم بھرنے والے بصریت سے محروم اور تہی دامن ہیں ۔ مسلم نوجوانوں کو کوئی صحیح سمت بنانے والا نہیں ، کوئی ان کی درست رہنمائی کر نے والا نہیں یہی وجہہ ہے کہ آج جو جس طرح چاہتا ہے ان نوجوانوں کو استعمال کر لیتا ہے ، ان سے بد امنی اور خوف و دہشت کا ماحول پیدا کر نے تک کے گھنائو نے کا لئے جا تے ہیں ۔ لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ اس امت کے زعما اور قائدین اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں اور خوفِ الہیٰ کو ملحوظ رکھتے ہو یئے امت کی صحیح رہنمائی کریں ، اختلاف و انتشار اور تخریب و تفریق کی سیاست سے باز آئیں ، خوف و دہشت کے بجائے امن و سکون اور بھائی چارہ کی فضا پیدا کریں اور عوام و خواص سب کا قرآن و حدیث سے رشتہ مضبوط کریں اور امت کو یہ بتائیں کہ صراط مستقیم کر گامزن ہوں ۔ ورنہ آج جو بد امنی کی آگ پورے عالم اسلام میں لگی ہو ئی ہے اس میں سب کچھ خاکستر ہو جائے گا اور خیر امت کی جو حالت مزید بد تر ہو گی اس کا تصور بھی محال ہو گا ۔
٭٭٭

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا