دل کے دیوار و در گئے ہوتے

0
0

پگڑیاں گر نہیں گئی ہوتی
تو یقینً تھا سر گئے ہوتے
دشمنِ جاں نے زندگی بخشی
"اس سے اچھا تھا مر گئے ہوتے”
ہم کو تم سے ہی پیار تھا ورنہ
کتنے آئے قمر گئے ہوتے
وقتِ ہجراں میں شہرِ جاناں سے
کاش ہم بے خبر گئے ہوتے
آپ کے ساتھ ساتھ چلتے اگر
منزلوں تک سفر گئے ہوتے
ہم جو ہوتے وفاؤں کے پیکر
نفرتوں کے جگر گئے ہوتے
اب بھی کھلتی اگر نہ تیری زبان
جانے کتنے ہی سر گئے ہوتے
ہوتے انجامِ عشق سے واقف
اپنی اپنی ڈگر گئے ہوتے

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا