آفتاب اجمیری
نازوں کی پلی بہنا مشکل سے نہ ڈر جانا
دستور زمانہ ہے سرتاج کے گھر جانا
اللہ نے جو بخشا ہے انعام یہ بیٹی کا
قرآن میںلکھا ہے پیغام یہ بیٹی کا
ماں باپ نے خدمت کی پالا ہے سنوارا ہے
جو قرض تھا بیٹی کا وہ قرض اتارا ہے
انجانی ڈگر ہے یہ اور پیارا سفر ہے یہ
ٹھوکر نہ لگے بیٹا پتھر کا نگر ہے یہ
گردش کی چٹانوں سے مہنگائی کے دریا سے
تم ایسے لپٹ جانا جیسے کہ سنوریا سے
بابل کی فضائوں کو ،سکھیوں کو بھلا دینا
جس گھر میں بھی تم جائو فردوس بنا دینا
تم ساس سسر کو ہی ماں باپ سمجھ لینا
بعد اپنے خدا کے تم شوہر سے وفا کرنا
دیور ہیں تیرے بھائی نندیں ہیں تیری بہنیں
رشتے ہیں بڑے نازک سونے کے ہیں گہنے
ماں باپ نے بخشا ہے جو تجھ کو ہنر بیٹی
اخلاق کی دولت سے گھر تو چمکا بیٹی
تسبخہ فاطمہؓ کا انمول صلہ دے گا
روزوں کا نمازوںکا انعام خد ادے گا