دفاع صحابہ کے سرخیل؛مولانا کی رحلت سے دل کو شدید دھچکا لگا

0
46

 

 

 

 

 

محمد ہاشم القاسمی

معروف اسلامی اسکالر، نامور خطیب، خانوادہ امام اہل سنت والجماعت کے چشم و چراغ، مسلک اہل سنت کے بے باک ترجمان، تحریک عظمت صحابہ و تحفظ ختم نبوت کے سرخیل، متحدہ جمیعۃ علماء ہند کے سات سالہ ناظم عمومی، تیرہ سالہ جمیعۃ علماء ہند (الف) کے ناظم عمومی، جمییہ علماء ہند کے تاحیات نائب صدر، دار المبلغین لکھنؤ کے مہتمم، سنہ 1998ء سے تا وفات مجلس شوریٰ دار العلوم دیوبند کے رکن، دارالعلوم ندوۃ العلماء کے رکن، دینی تعلیم ٹرسٹ لکھنؤ کے چیئرمین، امیرِ شریعت اترپردیش اور بہت کچھ۔حضرت مولانا سید عبد العلیم فاروقی رحمۃاللہ علیہ ایک باوقار عالم دین، کامیاب مبلغ اور بے مثال ملی قائد تھے، آپ اتر پردیش کی راجدھانی اور نوابوں کے شہر لکھنو کے ایک علمی گھرانے میں 1948ء میں پیدا ہوئے، آپ مشہور زمانہ عالم دین مولانا عبد الشکور فاروقی لکھنوی کے پوتے اور مولانا عبد السلام فاروقی لکھنوی کے بڑے فرزند ہیں، آپ کی ابتدائی تعلیم اپنے دادا جان اور والد صاحب کی نگرانی میں لکھنو میں ہوئی جب کہ عربی تعلیم جامعہ حسینیہ محمدی لکھیم پور یو پی میں حاصل کی۔ اس کے بعد آپ نے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے مدرسہ مظاہر العلوم سہارنپور کا سفر کیا اور وہاں 1966 سے 1968 یعنی تین برس رہ کر شرح جامی (الفوائد الضیائیہ) سے مشکل المصابیح تک کی کتابیں جس میں ، فن علم حدیث، علم فقہ، تفسیر، تجوید ،فرائض، فلسفہ اور منطق کی تعلیم حاصل کی۔ان کے اساتذہ میں امیر المومنین فی الحدیث حضرت مولانا محمد یونس جونپوری رحمۃاللہ علیہ بھی شامل ہیں۔ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ علیہ کے فرزند و جانشین محمد طلحہ کاندھلوی رحماللہ علیہ سے بیعت ہوئے اور سلسلہ چشتیہ میں شامل ہوئے۔ مدرسہ مظاہر العلوم کے بعد ازہر ہند دار العلوم دیوبند کا رخ کیا اور 1969ء میں وہیں سے سند فراغت حاصل کی، آپ نے صحیح بخاری حضرت مولانا فخر الدین احمد مراد ابادی رحم?اللہ علیہ سے پڑھی۔ 1971 سے دار المبلغین لکھنو جسے آپ نے دفاع صحابہ اور حقانیت اسلام کی اشاعت کے لئے ایک پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کیا۔ آپ مجلس تحفظ ناموس صحابہ لکھنو کے صدر تھے۔ سال 1998ء سے وہ لکھنومیں سالانہ جلوس مدحِ صحابہ کا کامیاب انعقاد کرتے ارہے تھے جس میں ہزاروں مسلمان شرکت کرتے تھے۔تحریک مدح صحابہ کے سلسلہ میں آپ نے ملک و بیرون بشمول پورے خلیج، عراق، انگلینڈ، پاکستان وغیرہ کے مختلف دورے کئے جسمیں بیرون ممالک کے سیکڑوں علماء کرام نے اپ سے استفادہ کیا. آپ 24 اپریل 2024 صبح 6 بجے 76 برس کی عمر میں آخری سانس لی، جس کے بعد دینی، ملی ، اور سماجی حلقے میں سوگ کی لہر دوڑ گئی، اور اسی روز آپ کے جنازے کی نماز بعد عصر ملک کے معروف دینی ادارہ ندوۃ العلماء لکھنو میں ادا کی گئی اس موقع پر دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا ابوالقاسم نعمانی، حضرت مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی، حضرت مولانا عبدالحی بلال حسنی ندوی ، حضرت مولانا عبدالعزیز بھٹکلی، حضرت مولانا جعفر ندوی سمیت متعدد سرکردہ علماء کرام اور شخصیات نے نماز جنازہ میں شرکت فرمائی، ان کے علاوہ ہزاروں کی تعداد میں عوام الناس اور کثیر تعداد میں لکھنو، و اطراف اور دیگر ریاستوں سے ان کے محبین معتقدین، مریدین شامل ہوئے، اور دعائے مغفرت کی، نماز جنازہ کے بعد پیدل چل کر عیش باغ قبرستان لایا گیا جہاں انہیں سپرد خاک کیا گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون. نماز جنازہ کے بعد سڑکوں پر سخت گرمی کے پیش نظر ٹھنڈا پانی کا انتظام برادران وطن نے کیا جس سے انسانیت ابھی بھی زندہ ہے کی بہترین مثال قائم ہوگئی، نماز جنازہ ان کے فرزند حضرت مولانا عبدالباری فاروقی نے پڑھائی. ع آسمان تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے. سبز? نَورْستہ اس گھر کی نگہبانی کرے.
مولانا عبدالعلیم فاروقی کے سانحہ ارتحال کے بعد ملک اور بیرون ملک سے تعزیتی پیغامات کا سلسلہ جاری ہے، ان میں سے چند قارئین کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے، امیر الہند، صدر جمیعۃ علماء ہند، صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا سید ارشد مدنی مدظلہ جو اِن دنوں رابطہ عالم اسلامی کی سپریم کونسل کے ایک اہم اجلاس میں شرکت کے لیے سعودیہ عربیہ کے دارالحکومت ریاض میں ہیں، اپنے ایک تعزیتی بیان میں کہا کہ "یہ میرے لیے بہت دْکھ کی گھڑی ہے۔ مولانا کی رحلت سے دل کو شدید دھچکا لگا ہے۔ اْن کے چلے جانے سے علمی و ملّی دْنیا میں جو خلا پیدا ہوگیا ہے اس کا پْر ہونا مشکل نظر آتا ہے۔ وہ اپنی سادگی، منکسرالمزاجی، ملنساری اور انسانیت نوازی کی وجہ سے ہر طبقے کے لوگوں میں مقبول تھے۔ وہ امام اہل سنت مولانا عبدالشکور فاروقی کے پوتے اور مناظر اسلام مولانا عبدالسلام فاروقی کے جانشین اور ان کی روایتوں کے امین اور پاسبان کی حیثیت سے معروف تھے۔ انہوں نے کہا کہ مولانا کی ذات لکھنؤ کے سنیوں کے لیے ایک سہارا تھی جو ہر فتنہ و فساد کے موقع پر سد سکندری بن کر سنیوں کو مامون و محفوظ رکھتی تھی۔ مولانا کا بدل مشکل ہے، اللہ تعالیٰ ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔ مولانا مدنی نے آگے کہا کہ ان کی زندگی کا مشن حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے فضائل اور مناقب کا تذکرہ تھا۔ اور تقریباً نصف صدی سے فرقہ باطلہ کے لیے ایک شمشیر برہنہ اور ناموسِ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے علمبردار تھے۔ اس سلسلہ میں ان میں کوئی لچک نہیں تھی۔ افسوس احقاقِ حق و ابطالِ باطل کی یہ مضبوط آواز آج خاموش ہوگئی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ مولانا مرحوم ایک بہترین منتظم اور ملک و ملت کے مسائل سے آگاہ ایک ایسی شخصیت تھے جو ان مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے ہمہ وقت سرگرداں رہا کرتے تھے، میں مولانا کے پسماندگان، اعزاء واقرباء کے غم میں شریک ہوں اور صبرجمیل کی دعاء کرتا ہوں۔نیز دعاء کرتاہوں کہ اللہ تعالیٰ ان کے اولادوں کی نگہبانی فرمائے اور مولانا ہی کی طرح میدان عمل میں کام کرنے کی توفیق عطافرمائے۔آمین”. پاسبان ملت ،معروف عالم دین مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی نے کہا کہ” مولانا عبدالعلیم فاروقی عظیم خانوادے کے بہت ممتاز فرزند اور چشم و چراغ تھے، عالم ربانی تھے، مصلح تھے، ملی و قومی رہبر تھے، اور ملک و ملت کے لیے جب بھی کوئی چیلنج سامنے اتا تھا تو بہت جرات کے ساتھ بہت صراحت کے ساتھ مقابلہ کرتے تھے،
ٍ اور ملکی وفاداری اور ترقی کے لیے کوشاں رہے۔ مولانا نے کہا کہ ملک کے نازک ترین حالات ہیں اس وقت ہمارا ملک بدترین دور سے گزر رہا ہے ایسے وقت میں ایسے رہبروں کی جدائی یقینا بہت بڑا حادثہ ہے اور مجھے امید ہے کہ ان کے خاندان کے نوجوان علماء ان کے صاحبزادگان حفاظ اہل خانہ اس وراثت کے حامل ہوں گے جو ان کے جد امجد عظیم عالم ربانی امام اہل سنت حضرت مولانا محمد عبدالشکور فاروقی اور خود مولانا عبدالعلیم فاروقی کے والد ماجد مولانا عبدالسلام کی خدمات کو ان کے قابل و لائق فرزند اگے بڑھائیں گے۔ اور امید ہے ان کے خدمات کا تسلسل جاری رہے گا ہم سب کو دعا کرنی چاہیے کہ اللہ ان کے درجے بلند فرمائے اور ان کے وارثوں کو ان کی تمام حسنات کا وارث بنائے۔ انہوں نے کہا کہ تعلیمی میدان ہو ملی میدان ہو ہر چیلنجز کا مقابلہ کرتے تھے امت کی اصلاح کے ساتھ انحرافات اور گمراہیوں سے عام بھولے بھالے مسلمانوں کو بچانا وہ ہر میدان کے مرد مجاہد تھے اور ایک مجاہد خاندان کے پورے وارث تھے”۔ متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا” صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے دفاع میں مولانا پر انتہائی فخر تھا، اور میں سوچتا تھا اب عبد الشکور لکھنوی رح کے جانشین ہے، اب کون دشمن کو ان کی للکار میں للکارے گا، انتہائی افسوس ہوا. اللّٰہ مولانا کا حشر بھی صحابہ کرام رض کے ساتھ کرے، آمین”.
حضرت مولانا عبدالعلیم فاروقی کے قلمی خدمات کا اگر تذکرہ کیا جائے تو ” احتساب قادیانیت جلد نمبر: 55 میں مرزا غلام احمد قادیانی پر ایک مفصل مضمون ’’عقید? ختم نبوت اور مرزا غلام احمد قادیانی ‘‘ کے نام سے موجود ہے، اور ان کی تصانیف میں درج ذیل کتابیں شامل ہیں:(1) امیر معاویہ اور معاندین کے اعتراضات (2) آئین? مرزا (3)مذہب شیعہ کا علمی محاسبہ وغیرہ. دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ عنایت فرمائے، آمین.
9933598528

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا