خاں صاحب

0
0

افسانہ

عبد الستار
ولی مینشن،
سعد پورہ قلعہ،مظفرپور
9835666622

ایک شہر میں ایک بڑے ہی پرہیزگار اور مخلص شخص رہتے تھے۔ بڑے نیک اور خداترس۔ انکا نام تھا اسد خاں۔سبھی ان کی عزت کرتے اور احترام کے ساتھ ان کا نام لیتے تھے۔ وہ سب کے چہیتے تھے۔انہیں ہر ایک خاں صاحب ہی پکارتا تھا۔ان کا شعار ایسا تھا کہ اگر وہ سڑک سے گذرتے اور میو نی سی پلیٹی کا کوئی نَل کھلا دیکھتے تو بغیر کسی کو کچھ کہے خود ہی نل بند کر دیتے۔صبح سو یرے سیر کو نکلتے اور سڑکوں کی لائٹ جلتی ہوئی دیکھتے تو فوراً لائٹ آف کردیتے۔ یہاں تک کہ کسی کو آپس میں لڑتے جھگڑتے دیکھتے تو منع فرماتے اور کہتے کہ آپ لوگوں کی تکرار شیطان کے بہکانے کی وجہ سے ہے۔یہی انکا معمول تھا۔اکثر لوگ انکی بات مان کر اپنی لڑائی اور تکرار ختم کر دیتے اور جب وہ سوچتے تو انہیں بھی  یقین ہو جاتا کہ واقعی بات تو کچھ بھی نہ تھی خواہ مخواہ کی تکرار ہو رہی تھی۔وہ لوگ دل ہی دل میں خاں صاحب کی تعریف کرتے اور انکے لئے دل سے دعاء دیتے۔ ایک شہر میں ایک بڑے ہی پرہیزگار اور مخلص شخص رہتے تھے۔ بڑے نیک اور خداترس۔ انکا نام تھا اسد خاں۔سبھی ان کی عزت کرتے اور احترام کے ساتھ ان کا نام لیتے تھے۔ وہ سب کے چہیتے تھے۔انہیں ہر ایک خاں صاحب ہی پکارتا تھا۔ان کا شعار ایسا تھا کہ اگر وہ سڑک سے گذرتے اور میو نی سی پلیٹی کا کوئی نَل کھلا دیکھتے تو بغیر کسی کو کچھ کہے خود ہی نل بند کر دیتے۔صبح سو یرے سیر کو نکلتے اور سڑکوں کی لائٹ جلتی ہوئی دیکھتے تو فوراً لائٹ آف کردیتے۔ یہاں تک کہ کسی کو آپس میں لڑتے جھگڑتے دیکھتے تو منع فرماتے اور کہتے کہ آپ لوگوں کی تکرار شیطان کے بہکانے کی وجہ سے ہے۔یہی انکا معمول تھا۔اکثر لوگ انکی بات مان کر اپنی لڑائی اور تکرار ختم کر دیتے اور جب وہ سوچتے تو انہیں بھی  یقین ہو جاتا کہ واقعی بات تو کچھ بھی نہ تھی خواہ مخواہ کی تکرار ہو رہی تھی۔وہ لوگ دل ہی دل میں خاں صاحب کی تعریف کرتے اور انکے لئے دل سے دعاء دیتے۔ خاں صاحب پھولوں کے بڑے شوقین تھے۔وہ اپنے لان کی خالی جگہ میں مختلف قسم کے رنگ برنگ کے پھول لگاتے۔خود ہی انہیں پانی دیتے۔ایک مستقل مالی سے اسکی نگہداشت کراتے ، سوکھی پتیاں ہٹواتے اور خشک ہو چکی ٹہنیوں کو کاٹ چھانٹ کر الگ کرواتے۔کھاد وغیرہ وقت پر ڈلواتے۔جب بہار کا موسم آتا تو ان کے لان کو لوگ دور  دراز سے دیکھنے آتے اور خاں صاحب کے ذوق و شوق کو دیکھ کر بہت خوش ہوتے۔کئی لوگوں نے انہیں دیکھ کر اپنے یہاں بھی پھولوں کے پودے لگائے۔گلاب کے موسم میں خاں صاحب کے یہاں ایسے نادر اور رنگ برنگ کے گلاب کھلتے کے لوگ عش عش کر اٹھتے۔وہ جس نرسری میں جاتے کچھ پودے ضرور لیکر آجاتے۔اسے مالی سے مناسب جگہ پر لگواتے ۔وہ ہمیشہ کسان کال سینٹر کے رابطہ میں رہتے۔ان سے رہنمائی لیتے اور پودوں کی دیکھ بھال کے گُر معلوم کرتے۔کیڑے مکوڑوں سے حفاظت کے لئے پودوں کے اوپر وقفے سے چھڑکائو کرتے جسکی وجہ سے ان کے باغ میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی پھول کھلا ملتا اور ان کے پھولوں کے سائز بھی کافی بڑے ہوتے۔انکی پھلواری میں ہر قسم کے پھول لگے ہوئے تھے۔ خاں صاحب نے انگریزی سے ایم  اے کی ڈگری لینے کے بعد  Ph.D  کیا اور بڑی اچھی نوکریوں میں منتخب ہونے کے باوجود اسے نہیں قبول کیا۔وہ ایک استاد بننا چاہتے تھے۔اس لئے وہ اسی کے خواہش مند تھے۔با لآخر وہ ایک کنسٹی ٹیوئینٹ کالج میں انگریزی کے لکچرار بن گئے۔روز اول سے ہی وہ وقت کے بڑے پابند تھے لہٰذا جب وہ لکچرار مقرر ہوئے تب بھی ہمیشہ وقت پر کالج جاتے اور کالج کا وقت ختم ہوتا تب واپس آتے۔وہ کہتے کہ مجھے جتنے وقت کے لئے لکچرار بنایا گیا ہے اسی کی تنخواہ یونیورسیٹی سے ملتی ہے۔جب یونیور سیٹی ہماری تنخواہ میں کوئی کمی نہیں کرتی ہے تو میں اس کے وقت میں کیوں کمی کروں۔لڑکے آئیں یا نہ آئیں لیکن وہ کلاس میں ہمیشہ وقت پر حاضر ہو جاتے۔ اسکا اثر یہ ہوا کی طالب علم بھی انکی کلاس میں کبھی دیر سے نہیں پہنچتے۔وہ بڑی محنت سے پڑھاتے اور لڑکوں سے مشفقانہ برتائو رکھتے۔وہ ہمیشہ کہتے کہ طالب علم ہی اس ملک کا مستقبل ہیں ۔  اگر انکی نگہداشت ٹھیک سے ہوئی تو یہ ملک کی ترقی کا ضامن ہوگا۔اس لئے ان کی دیکھ بھال اور تعلیم بھی اسی طرح ہو جس طرح میں اپنے باغ میں پھولوں کی دیکھ بھال کرتا ہوں۔ وہ ہمیشہ طالب علم کو اپنا مقصد ِ حیات اور ہدف مقرر کرنے کو کہتے رہتے۔وہ ہمیشہ کہتے کہ ’’  آپ صرف امتحان پاس کرنے کے ارادے سے نہ پڑھیں بلکہ قبل کے جو بڑے لوگ گذرے ہیں اُن سے بھی آگے پہنچنے کی سوچیں ۔وہ ہمیشہ رادھا کرشنن ، راجندر پرساد  ، آئنسٹائن ، جیمس واٹ ، فلیمنگ،  اے  پی  جے  عبد الکلام وغیرہ کی مثال دیتے  اور  کہتے کہ آپ سبھی بھی انکی طرح بن سکتے ہیں۔آخر کیا وجہ ہے کہ سی  وی  رمن  کے بعد ہمار ے ملک میں کسی دوسرے فرد کو نوبل انعام سے نہیں نوازا گیا ہے۔آپ بھی اس کے مستحق ہو سکتے ہیں ۔ اس کے لئے آپ کو لگن کے ساتھ محنت سے پڑھنے کی ضرورت ہے۔ اپنا ہدف چننے کی ضرورت ہے۔وہ کہتے کہ یونیور سیٹی سے ہر ایک سبجِکٹ میں سب سے زیادہ نمبر لانے والے طالب علم کو طلائی تمغہ عطا کیا جاتا ہے۔کیا یہ ممکن نہیں کہ آپ سبھی کو ایک ساتھ سرِ فہرست مقام مل جائے اور آپ سب گولڈ میڈل کے حقدار بن جائیں۔یہ ممکن ہے۔جب آپ سبھوں کو یہ انعام ملیگا تو آپ سبھوں کا نام گینیز بُک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج ہوگا۔ خاں صاحب جب کسی غریب کو دیکھتے بغیر اسکے مانگے ہی اس کی ہتھیلی پر چپکے سے کچھ ڈال دیتے۔کبھی اخبار میں پڑھتے تو اسکی مدد کا جگاڑ کرتے۔سردیوں میں کسی تنظیم چلانے والوں کو ڈھونڈتے جو سرد راتوں میںفٹ پاتھ پر تھرتھراتے ، سرد لہر میں کانپتے لوگوں کے بدن پر کمبل اوڑھانے کیلئے جاتے تو یہ انکے ساتھ ہو لیتے۔برسات میں رین کوٹ پہن کر محلے قصبے میں نکل جاتے اور ان غریبو ں کو تلاش کرتے جنکی جھونپڑیوں سے پانی ٹپکنے کی آواز آتی وہ انہیں کچھ دیکر آگے بڑھ جاتے۔کبھی کبھی اپنے ساتھ کھانے کے تھیلے بھی لے جاتے ، غریب بچوں کو دیتے۔ایک دفعہ خاں صاحب نے اخبار میں پڑھا کہ ایک غریب بستی میں آگ لگ گئی جسکی وجہ سے تمام جھونپڑیاں جل کر خاک ہو گئیں اور جھونپڑیوں میں رہنے والے صرف بے گھر ہی نہیں ہوئے بلکہ دانے دانے کو محتاج ہو گئے۔وہ اٹھے اور اس علاقے میں پہنچ کر بہت کچھ کیا۔ابھی باز آباد کاری کرنے والے حضرات میٹنگ کرتے ، فنڈ جمع کرتے پھر ایک بڑے ٹرک پر سامان لاد کر ، ٹرک کے آ گے ایکرنگے کپڑے پر بڑا سا اشتہار لکھوا کر نکلتے تب تک کتنے ہی لوگ فاقہ کشی سے شاید تہِ خاک ہو جاتے۔انہیں نام سے مطلب تھا نہ اشتہار کی ضرورت بس چپکے سے اٹھتے اور چل پڑتے تھے خاں صاحب۔ خاں صاحب کا یہ بھی ماننا تھا کہ علم حاصل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ کسی یونیور سیٹی کی سب سے اونچی ڈگری ضرور حاصل کی جائے اور دوسروں کو اپنے علم سے فیض پہنچایا جائے۔ہر کسی علم کے سائل کو پورا وقت دیا جائے۔اس کے دل میں ایسا جذبہ پیدا کر دیا جائے کہ وہ بھی حصول ِ علم کی چاشنی سے روشناس ہو جائے اور علم سیکھنے کے لئے ایسے دوڑے جیسے پیاسا پانی کے لئے دوڑتا ہے۔لہٰذا انہوں نے    D.  Lit.  مکمل کر لیا۔وہ ملک بھر کی امارت سے رابطے میں رہتے۔مختلف موضوعات پر مشورہ طلب کرتے۔خود بھی حدیثوں کا مطالعہ کرتے اور ذہن نشیں کرتے۔اس کے مطابق لوگوں کو تلقین کرتے اور معاشرہ میں غلط راہ روی کو دور کرنے کی ہمیشہ کوشش کرتے۔انہیںکئی معاملہ میں کامیابی بھی حاصل ہوئی۔وہ بیشتر مدارس ، مساجد ، یتیم خانوں ، خانقاہوں کی مالی امداد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے مگر کوئی کام نام و نمود کے لئے نہ کسی شہرت کی خاطر بلکہ خالص اللہ کی رضا کے لئے کرتے۔ ایک دفعہ کسی دوسرے علاقہ سے کچھ لوگ مالی امداد حاصل کرنے کی خاطر انکے یہاں پہنچے۔ابھی انہوں نے دروازے کی گھنٹی پر ہاتھ رکھا ہی تھا کہ خاں صاحب کی گرجدار آواز انکے کانوں میں پڑی۔وہ گھر کے کسی فردکو بری طرح بگڑ رہے تھے کہ اس نے  LED  لائٹ کو بغیر ضرورت کیوں جلتا ہوا چھوڑ دیا۔ دوسرے شخص کی آواز تو سنائی نہیں دی مگر خاں صاحب کی آواز سے یہ اندازہ ہوا کہ وہ گڑ گڑا رہا تھا کہ اس سے غلطی ہو گئی۔یہ سب سن کر وہ لوگ لوٹ ہی جانا چاہتے تھے لہٰذا وہ گیٹ کی جانب بڑھ چلے کہ ایسے بخیل آدمی سے کیا تعاون حاصل ہوگا جو ایک چھوٹے  سےLED   جلے رہ جانے پر اتنا برہم ہو رہا ہے وہ بھلا ہمیں مالی تعاون کیا کریگا۔اچانک خاں صاحب باہر آئے۔دیکھا کہ کچھ لوگ ان کے یہاں سے بغیر ملاقات کئے ہی واپس جانے کے لئے گیٹ کھول کر لوٹ رہے ہیں۔ خاں صاحب کو بڑا تعجب ہوا۔انہوں نے انہیں روکا اور پاس بلایا۔پہلے نوکر کو آواز دیکر سبھوں کے لئے چائے اور کچھ وائے لانے کو کہہ کر ان کے پاس بیٹھ گئے۔یہ سب ماجرا دیکھ کر وہ لوگ متعجب ہوئے کہ ابھی یہ شخص معمولی سی بات پر گھر کے کسی فرد کو کتنی کھڑی کھو ٹی سنا رہا تھا اس وقت کتنی مہمان نوازی دکھا رہا ہے۔ضرور اس شخص کے دو روپ ہونگے جو گھر کے اندر کچھ ہے اور گھر کے باہر کچھ۔جب چائے وائے ختم ہو گئی تو خاں صاحب نے ان لوگوں سے تشریف آوری کا مقصد دریافت کیا۔بیچارے مدرسے والے لوگوں نے ڈرتے ڈرتے اپنے آنے کا مدعا بیان کیا۔خاں صاحب اندر تشریف لے گئے اور آکر ایک ہزار روپئے ان لوگوں کے حوالہ کیا۔یہ دیکھ کر ا نہیں بہت تعجب ہوا۔ آخر کار پوچھ ہی لیا کہ کیا ماجرا ہے؟خاں صاحب نے بڑی تفصیل سے ایک ایک بات بتائی۔اگر معمولی  LED   کوبغیر ضرورت جلایا جائے تو صرف بجلی ہی ضائع نہیں ہوگی بلکہ ہمیں اس کا بلِ بھی ادا کرنا پڑیگا۔اسی طرح اگر پانی کے نَل کو یوں ہی کھلا چھوڑ دیں اور پانی بہتا رہے۔پانی بھی اللہ پاک کی نعمتوں میں سے ایک ہے اس کی بربادی ہوگی۔ہو سکتا ہے اس کی ضرورت کسی دوسرے کو بھی ہو۔اس کے علاوہ پانی کو زمین کے اندر سے نکالنے میں بھی بجلی کا استعمال ہوتا ہے اس کا بھی بلِ ادا کرنا ہوگا۔اسی طرح بہت سارے کام ایسے ہیں جو ہمارے دھیان نہیں دینے سے ضائع ہو جاتا ہے جو دوسروں کے استعمال میں آ سکتا ہے۔کھانے کو ہی دیکھ لیں اکثر گھروں میں خا تو ن بغیر اندازے کے کھانا بناکر رکھ دیتی ہیں جو گھر کے تمام افراد کے تناول فرمانے کے بعد بھی زیادہ مقدار میں بچ جاتا ہے جسے غریب بھوکے کو دے دیا جائے تو وہ دعائیں دیگا لیکن ہماری عورتیں بچے ہوئے کھانے کو کوڑے میں ڈالدیتی ہیں جو بربادی ہے۔اگر ناپ تول کر کھانا بنائیں تو غلہ کی بربادی نہیں ہوگی۔ایک نعمت کو کوڑے پر پھینکنے کے گناہ سے بچ جائیں گے۔اس سے جو پیسے بچیں گے وہ دوسرے فلاحی کاموں میں خرچ کئے جا سکتے ہیں۔مدرسوں  ، مسجدوں ،  یتیم خانوں  وغیرہ کے خرچ میں تعاون کیا جا سکتا ہے۔اسی طرح اجناس اور بجلی و پانی کے اصراف سے بچیں تو ہم بہت سارے کام کر سکتے ہیں۔خاں صاحب کی اتنی پُر مغز باتیں سن کر مہمان بہت خوش ہوئے اور اللہ کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے لگے کہ اللہ ہم سب کو اصراف سے بچائے۔ آمین۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا