خالد سیف الدین ہمارے لئے کسی ایوارڈ سے کم نہیں:ارتکاز افضل

0
0

بے شمار اعزازات سے خالد سیف الدین کے وقار میں کوئی فرق نہیں پڑتا:انتخاب حمید
خالد سیف الدین کو ملک کے باوقار مولانامحمد علی جوہر ایوارڈ نوازےجانے پرشاندار استقبالیہ جلسہ کا انعقاد

اورنگ آباد:()شہر اورنگ آباد ہی نہیںبلکہ مرہٹواڑہ کی جانی مانی شخصیت وارثان حرف قلم کے روح رواں اور متعدد فلاحی تعلیمی ادبی اور سیاسی امور میں کلیدی کردار ادا کرنے والے میونسپل کارپوریشن کے موظف انجینئر ،اردو کے مجاہدخالد سیف الدین کوہرمحاذ پر طویل بے لوث خدمات کے عوض ملک کے باوقار مولانامحمد علی جوہر ایوارڈ سے نوازےجانے پر ان کے اعزاز میں ایک شانداراستقبالیہ تقریب کا انعقاد۱۷؍دسمبر بروز اتوار صبح ۱۱؍بجے بمقام بیت التیم قلعہ ارک میں کیاگیا۔ یہ استقبالیہ تقریب وارثان حرف وقلم، فیڈریشن آف آل مائیناریٹیز ایجوکیشنل آرگنائزیشن مسلم گریجویٹس فورم اور بزم خواتین اورنگ آباد کے زیر انصرام منعقد کی گئی۔ جس کی صدارت سابقہ ڈپٹی میئر تقی حسن خان نے کی۔ تفصیلا ت کے مطابق استقبالیہ تقریب کا آغازسیدزبیر احمد کی تلاوت کلام پاک سے ہوا۔افتتاحی کلمات پروفیسر ڈاکٹر سلیم محی الدین نے پیش کئےاورمنتظمین کی جانب سے مہمانان خصوصی کا استقبال کیاگیا۔مہمانان کے استقبال کے بعد سلیم محی الدین نے افتتاحی کلمات پیش کئے۔ بعد ازاں شرکائے محفل اور مہمانان خصوصی نے اپنے تاثرات پیش کئے ۔جالنہ سے تشریف لائے شکیل احمد خان نے کہا کہ خالد سیف الدین نے جہاں بہت سے کارہائے نمایاں انجام دئے ہیں وہیں نوجوانوں کے لئے ایک ادبی پلیٹ فارم بھی تیار کیا ہے۔ نہ صرف تیار کیا ہے بلکہ اس کی صحیح سمت میں آبیاری بھی کررہے ہیں۔سلیم صدیقی نے صاحب ایوارڈسے اپنے دیرینہ مراسم کا ذکر کیا۔مولانا آزاد کالج کے سابق پرنسپل ڈاکٹر مخدوم فاروقی نے اپنی مخاطبت میں کہا کہ خالد سیف الدین کے لئے دنیا کے تمام ایوارڈ بھی مل جائے تو کم ہےاصل اجر اور اصل ایوارڈ تو انہیں آخرت میں ہی ملے گا ان شاء اللہ۔ وہیں ڈاکٹر واسع الدین رضوی نے کہا کہ یہ اورنگ آباد والوں کی خوش قسمی ہے کہ پربھنی سے ہجرت کر اورنگ آباد کو اپنا وطن بنانے والے خالد سیف الدین کسی نعمت سے کم نہیں۔ڈاکٹر انتخاب حمید نے کہا کہ خالد میرے جگر گوشے ہیں انھوں نے مزید کہا کہ کچھ شخصیتیں ایسی ہوتی ہے جو پرستش نام نمود کی دلدادہ نہیں ہوتی انعام حاصل کرنا واہ واہی سننا ان کا کام اور مقصد نہیں ہوتا اور یہی وصف خالد سیف الدین کا ہے جو نام ونمود سے پرے قوم وملت کی تعمیر وترقی کا کام انجام دے رہے ہیں۔خالد سیف الدین کو اس طرح کے بے شمار اعزازات ملنے پر ان کے وقار میں کوئی فرق نہیں پڑتا وہ باتیں نہیں کرتےکام کرکے دکھاتے ہیں۔وہ انجماد شکن شخص ہے جمود کو ختم کرتا ہے۔ وہ تحرک آتش زیرپا ہے جیسے آگ پیر کے نیچے ہو تو پیر ایک جگہ ٹھہرتا نہیں اس طرح کی کفیت اس شخص کی ہے کہ خود بھی بے چین رہتا ہے اور دوسروں کو بھی بے چین کردیتا ہے تعمیری کاموں میں سب کو شامل کرنا ان کا اولین مقصد ہوتا ہے۔ممبئی سے تشریف لائے مشہور شاعر ڈاکٹر قاسم امام نے کہا کہ ادبی انجمنوں میں جو سکوت اور جمود طاری تھا اس کو جنبش دینے میں خالد سیف الدین کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ انھوں نے وارثان حرف و قلم کے ذریعے پورے ملک میں ادبی سرگرمیوں کو انجام دے کر دھوم مچادی ہے۔ واضح رہے کہ قاسم امام نے خالدسیف الدین پر ایک طویل مضمون’بعنوان’اورنگ آباد کا جادوئی چراغ‘‘میں ان کی شخصیت کے پہلوئوں کو اجاگر کیا ہے۔ملک کے مشہور ومعروف افسانہ نگارنورالحسنین نے کہا کہ خالد کی سب سے اہم خوبی ان کی تنظیمی صلاحیت ہے ہمارے علاقہ کے گمنام ادیبوں وشعراء کو شہرت کی بلندی پر لے جانے اور انہیں اکیلے پن کی زندگی سے باہر لاکر انہیں ان کا مقام دلانے میں خالد سیف الدین کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ مجھ جیسے گمنام شخص کا بھی انھوں نے شاندار جشن مناکرتاریخ رقم کردی۔ مشہور شاعر ونقاد وادیب ڈاکٹر ارتکاز افضل نے کہا کہ خالدسیف الدین اہلیان شہر کے لئے کسی ایوارڈ سے کم نہیں ہے۔ ہم خوش نصیب ہیں کہ ہمیں ایک متحرک شخصیت کی قیادت نصیب ہوئی جو ہمہ وقت سماجی فلاحی اور دیگر کاموں میں ہمیشہ پیش پیش رہتے ہیں۔مشہور شاعر اسلم مرزا نے کہا کہ خالد سیف الدین کی محبت عوام کے دلوں میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیںیہی وجہ ہے کہ جلسہ استقبالیہ میں کرسیاں ناکافی پڑ رہی ہیں۔محمد اختر خان لالہ نے اپنے مخصوص لب ولہجہ میں خالد سیف الدین پر لکھی نظم پڑھی۔صاحب ایوارڈ کےہم جماعت اور بچپن کے دوست غلام محمد خمیسہ (پربھنی) نے بچپن کی باتوں اور شرارتوں کا ذکرکیا اور کہا کہ وہ دھن کے پکے اور کام کے جنونی ہیں اور ان کا خاصہ یہ ہے کہ وہ ہر ایک کو ساتھ لے کر چلنے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں۔صحافی و ادیب ابوبکر رہبر نے کہا کہ صاحب ایوارڈ یقیناًاس ایوارڈ کے حقدار ہیںاور میں انہیں صمیم قلب سے مبارکباد پیش کرتا ہوںان کے ساتھ کام کرنے کے تجربہ کو ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ میںنے ان کے ساتھ مختلف محاذ پر کام کیا ہےاور ہر محاذ پر مجھے خالد سیف الدین کے ساتھ کام کرنے کا بہت کامیاب تجربہ رہا۔خصوصاً میں نے ان سے غصہ پرقابو پانا سیکھا ہے۔جوان کی بہت ساری خوبیوں میں سے ایک اہم خوبی ہے۔اپنے صدارتی خطاب میں تقی حسن خان نے خالد سیف الدین سے اپنے دیرینہ مراسم اور کارپوریشن کے دور کا تذکرہ کیا اور صاحب ایوارڈ کے کئی اہم کاموں کی طرف توجہ مبذول کروائی۔آخر میںخالد سیف الدین نے اپنی مخاطبت میں کہا کہ اس ایوارڈ کے اصل حق دار میری پوری ٹیم ہے جو مسلسل میرے ساتھ کام کرتی ہے میرے شانہ بشانہ کھڑی رہتی ہیں۔پیشانیوں پر کبھی بل نہیں پڑنے دیتی میں میری ٹیم کامیں شکریہ ادا کرتا ہوں ساتھ ہی ساتھ انھوں نے قوم کے ذمہ داران کو قوم وملت کے لئے ہر محاذ پر آگے آنے کا مشورہ دیا اور کہا کہ ہمارا اتحاد ہی سب سے بڑی طاقت ہے مسلمانوں کوپسماندگی سے اگر نکلنا ہے تو منتشر ہونے سے روکنا ہوگا۔اتحاد واتفاق کی فضاکوعام کرنا ہوگا۔کریڈیٹ کے چکر میں پڑنے سےبچناہوگا بے لوث کام کرنا وقت کا تقاضہ ہے۔یاد رہے کہ محمد علی جوہر ایوارڈ جیسے باوقار اعزاز سے سرفراز کیا جانا بھی اپنے آپ میں ایک اہم سنگ میل ہے۔ اس ایوارڈ کا اہل کہلانے کے لئے صاحب ایوارڈ کو زندگی کے مختلف نشیب وفراز کا سامنا کرنا پڑتا ہے مشکل سے مشکل حالات کا صبر آزماطریقےسے مقابلہ کرنا سخت ترین اورچیلنیجس کو قبول کرتے ہوئے تمام مراحل کو پارکرنا پڑتا ہے۔تب کہیں جاکر اس اعزاز کا حقدار ٹھہرایا جاتا ہے۔ واضح رہے کہ محمد علی جوہر اکیڈمی کے سالانہ اجلاس اور اس ادارہ کےبانی محمد سلیم خان کے یوم پیدائش کے علاوہ جامعہ ملہ اسلامیہ کے قیام کے سوسال مکمل ہونے کے ضمن میں نئی دہلی میں گذشتہ ہفتہ منعقدہ پروقار تقریب کے دوران اہم شخصیتوں کے ہاتھوں خالد سیف الدین کو محمد علی جوہر ایوارڈ سے سرفراز کیاگیا۔واضح رہے کہ شاندار استقبالیہ جلسہ کی نظامت ادیب وصحافی ابوبکر رہبر نے مخصوص لب ولہجہ میں انجام دی۔اس موقع پر اہلیان اورنگ آباد کے علاوہ شہر کے تمام اداروں سمیت، ادبی وثقافتی انجمنوں کے ذمہ داران عمائدین شہر و علاقہ مراہٹواڑہ سے کثیر تعداد میں صاحب ایوارڈ کے چاہنے والوں نے شرکت کی جن میں خصوصی طور پر محمد وصیل ، ڈاکٹر عبدالرشید ندوی مدنی،مخدوم فاروقی،ڈاکٹر عبدالمعید،ڈاکٹر شکیل احمد خان، جمیل احمد خان، سلیم صدیقی، ڈاکٹر واسع الدین رضوی، اسلم مرزا، محمد اختر خان، نورالحسنین، ڈاکٹر مسعود اختر،کے علاوہ کثیر تعداد میں محبان اردو موجود تھے۔یاد رہےکہ جلسہ استقبالیہ جشن شخص سے شخصیت ’’جشن ارتکاز‘‘ (دسواںپروگرام)کے تحت انجام پایا۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا