آنے والی نسلیں خالد حسین کی کہانیوں سے بہت کچھ سیکھ سکتی ہیں:پروفیسر ریشما پروین
شعبہء اردو،سی سی ایس یو میں ادب نما کے تحت ’’خالد حسین سے ایک ملاقات‘‘ آن لائن پروگرام کا انعقاد
لازوال ڈیسک
میرٹھ؍؍خالد حسین کے افسانوں کا بنیادی کرب یہ ہے کہ کس طرح سیاست کے ہاتھوں مجبور ہوکر جنت کو خراب کیا ہے۔آپ پنجابی،کشمیر کے محا وروں کو گرفت میں لیتے ہیں تب قلم اٹھاتے ہیں ان کی کہانیاں گھڑی ہوئی نہیں بلکہ پھیلی ہوئی ہیں۔ خالد حسین اپنی کہانیوں میں دل جوڑنے کی بات کرتے ہیں۔ افسانے میں واقعات،پلاٹ کردار کا ہو نا ضروری ہے۔ خالد حسین کے یہاں زبان کی بڑی اہمیت ہے۔وقت ہی افسانہ نگار سے افسانہ لکھواتا ہے۔ یہ الفاظ تھے سابق صدر شعبہء اردو،کشمیر یونیورسٹی کے پروفیسر قدوس جاوید کے جو شعبہء اردو، چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی اور بین الاقوامی نوجو ان اردو اسکالرز انجمن (آیوسا) کے زیر اہتمام منعقد’’خالد حسین سے ایک ملاقات‘‘میں اپنی تقریر کے دوران ادا کررہے تھے۔ اس سے قبل پرو گرام کا آغازسعید احمد سہارنپوری نے تلاوت کلام پاک سے کیا۔پروگرام کی سرپرستی صدر شعبہء اردو پروفیسر اسلم جمشید پوری نے فرمائی۔مہمانِ خصوصی کے بطور معروف اور منفردفکشن نگارخالد حسین نے آن لائن شرکت کی۔مقالہ نگار کے بطور ڈاکٹر مشتاق احمد وانی، کشمیر اور مقرر کے بطور لکھنؤ سے ایوسا کی صدر پروفیسر ریشما پروین نے شرکت کی۔استقبالیہ کلمات ڈاکٹر آصف علی،تعارف ڈاکٹر ارشاد سیانوی، نظا مت عرفان عارف اور شکریے کی رسم ڈاکٹرالکا وششٹھ نے انجام دی۔مہمان کا تعارف پیش کرتے ہوئے ڈاکٹر ارشاد سیانوی نے کہا کہ خالد حسین کی کہانیاں اردو،ہندی،انگریزی اور پنجابی زبانوں میں شائع ہوکر مقبول ہو چکی ہیں۔ ان کی کہانیاں نہ صرف ہندوستان بلکہ پاکستان اور لندن وغیرہ کے مؤقر اخبارات و رسائل میں بھی شائع ہوچکی ہیں۔آپ نے اپنی خدمات کلرک کی حیثیت سے شروع کی اور جموں و کشمیر سرکار کے اسپیشل سیکریٹری کے عہدے سے ریٹائرڈ ہوئے اور آج بھی بہت سی ادبی خدمات انجام دے رہے ہیں۔معروف فکشن نگار و نقاد اور صدر شعبہء اردو پروفیسر اسلم جمشید پوری نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ خالد حسین صاحب نے انگریزی، ہندی اور پنجابی کہانیوں کے ذریعے بین الا قوامی سطح پر مقبو لیت حاصل کی۔بلا شبہ آپ نے ادبی محفلوں کو سجایا سنوارا اور ادبی حلقوں میں پذیرائی حاصل کی۔ آج ہمیں اپنے پروگرام میں خالد حسین صاحب کو شامل کرتے ہوئے فخر محسوس ہو رہا ہے۔مقالہ نگار ڈاکٹر مشتاق احمد وانی نے اپنے مقالے میں بتایا کہ خا لد حسین نے ریاست جموں و کشمیر میں اپنی اہمیت کو منوایا ہے۔ ان کی تمام اردو کہانیوں کا مطا لعہ کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ وہ دیگر کہانی کاروں سے کہیں آگے نکل گئے ہیں۔ ان کی کہانیوں میں جموں و کشمیر کی تہذیب و ثقافت کے ساتھ ساتھ تشبیہات و استعارات نے انہیں انفرادیت عطا کی ہے۔ خالد حسین نے اردو کہانی کو لکھا ہی نہیں بلکہ جیا بھی ہے۔اس موقع پر مہمان خصوصی خالد حسین نے کہا کہ کہانی لکھنے کے لیے زبان پر عبور رکھنا ضروری ہے۔ پلاٹ کو ذہن میں لانے سے پہلے کہانی کے تانے بانے پر غور کرنا ضروری ہو تا ہے۔ موضو عات تبدیل ہو تے رہتے ہیں لیکن زبان کا جاننا ضروری ہو تا ہے۔ کہانی کا اختتام سوچنے پر مجبور کرنے والا ہو نا چاہئے۔ کہانی وہ مقبول ہوتی ہے جسے لوگ پسند کریں۔ زبان کوئی نئی نہیں ہو تی مگر اس کا ماہر ہو نا ضروری ہے تبھی ہم کوئی اچھی کہانی لکھ پاتے ہیں۔پروفیسر ریشما پروین نے کہا کہ خالد حسین کی کہا نیوں میں سماج و معاشرے کے مسائل تو ہیں ہی، ان میں بیدار کرنے والا سبق بھی ہے۔ان کی تحریریں ہمیں متاثر کرتی ہیں۔جن مصنفین نے محنت سے لکھا ہے ان کو ہمیں اپنا آئیڈیل بنانا چاہئے۔ آنے والی نسلیں ان کی کہانیوں سے بہت کچھ سیکھ سکتی ہیں۔ خالد حسین کی کہانیوں میں ایک جادو ہے۔پروگرام میں ڈاکٹر شاداب علیم،سیدہ مریم الٰہی،محمد شمشاد،شاہا نہ پروین، فیضان ظفر وغیرہ آن لائن موجود رہے۔