خارستان کا مسافر

0
0

قسط7

(خود نوشت سوانح حیات)
ڈاکٹر مشتاق احمد وانی
سابق صدر شعبۂ اُردو بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری(جموں وکشمیر)

آدمیوں کو محمدامین انجینئر صاحب کی امارت میں دہلی (مرکز بنگلے والی مسجد ) بھیج دیا گیا ،چونکہ ابھی ہماراچلّہ پورا ہونے میں بیس دن کم تھے ۔مجھے اچھی طرح یاد ہے جموں سے دہلی کی جانب جانے والی ریل رات کو تقریباً آٹھ بجے روانہ ہوئی تھی اور ریل پر سوار ہونے سے پہلے امیر جماعت جناب محمدامین انجینئر نے ہم سب ساتھیوں کو اپنی زرّیں ہدایات سے نوازاتھا ۔اُنھوں نے ریل پہ سوار ہونے سے پہلے ہم سب ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا تھا

’’میرے ساتھیو! ہم سب اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے اور دین کے مطابق زندگی بسر کرنے کے لیے ایک مخصوص وقت کے لیے اپنے گھروں کو چھوڑآئے ہیں ۔اس لیے بڑی فکر مندی  اور توجہ کے ساتھ امیرِجماعت یعنی جماعت کے ذمہ دار کا کہنا مانیں ۔اب ہمیں ریل پہ سوار ہونا ہے۔آپ کو ریل میں طرح طرح کے لوگ ملیں گے ،کسی سے کوئی فالتو بات نہ کریں ۔آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ریلوں میں چور،ڈاکو،جیب کترے ،چرسی اور شرابی ہوتے ہیں ۔اس لیے اپنے سامان اور ایمان کی خود حفاظت کریں ۔ایک ساتھ چڑھیں اور ایک ساتھ اُتریں ۔ہر ساتھی دُوسرے ساتھی کا خیال رکھے‘‘

ہم اپنے امیر جماعت کی ہدایات کے مطابق ریل میں سوار ہوئے تھے اور ساری رات ریل چلتی رہی تھی ۔سانبہ ،کٹھوعہ ،پٹھانکوٹ ،لکھن پور ،انبالہ ،جالندھر اور سارا پنجاب طے کرنے کے بعد غازی آباد ،میرٹھ وغیرہ سے ہوتے ہوئے ہم صبح دہلی پہنچ گئے تھے ۔دہلی جیسا وسیع اور گنجان آبادی والا شہر دیکھ کر میں محوِحیرت رہ گیا تھا ۔نئی دہلی ریلوے اسٹیشن پر اُترتے ہی امیر جماعت نے تمام ساتھیوں کو کھڑے کھڑے ایک گول دائرے کی صورت میں دُعا کے

لیے متوجہ کیا ۔تمام جہان میں بسنے والوں کے لیے امن وسلامتی اور ایمان کے مطابق زندگی گزارنے کی دُعا کی اور اُس کے بعد دہلی کی لوکل بس میں سوار ہوکر ہم سب بستی نظام الدّین کی طرف روانہ ہوگئے ۔تھوڑے ہی وقت کے بعد ہم بنگلے والی مسجد میں پہنچ گئے ۔بنگلے والی مسجد پوری دُنیا میں تبلیغِ اسلام کا مرکز تصور کی جاتی ہے ۔مسجد کے گیٹ پر پہنچے تو وہاں کے دو آدمیوں نے ہمارے امیر جماعت سے دریافت کیا کہ یہ کہاں کی جماعت ہے ؟اُنھوں نے جموں وکشمیر کی جماعت کہا تو فوراً رہبروں نے تمام ساتھیوں کو مسجد کی دوسری منزل پر پہنچایا اور ایک جگہ سامان رکھوایا ۔پھر ہم تمام ساتھیوں کو دوپہر کا کھانا کھلانے کے لیے تحہ خانے والی منزل میں لے گئے ۔ایک بہت بڑے ہال میں تقریباً ڈیڑھ سو آدمی کھانا کھارہے تھے اور بڑے اچھے طریقے پر بغیر شور کے سبھی کھانا تناول فرمارہے تھے ۔ہم بھی کھانے کے لیے بیٹھ گئے ۔گوشت اور نان کھانے میں مجھے جو لذت حاصل ہوئی تھی اُسے آج تک نہیں بھول پایا ہوں ۔وہاں کا بابرکت  کھانا کھاکر مجھے ایک طر ح کا اطمینان سا محسوس ہوا ۔کھانا کھانے کے بعد ہم اوپر آگئے کہ جہاں اکثر بزرگ عالم وفاضل وعظ ونصیحت کرتے رہتے ہیں۔ہائے! اُن بزرگ ہستیوں کی صحبت میں بیٹھنا اور اُن کی بصیرت افروز باتیں سُننا کسی خوش نصیب ہی کو حاصل ہوسکتا ہے ۔مولانا انعام الحسن صاحب دامت برکاتہم اپنے حجرے میں رہتے تھے اور اُنھیں ہفتے میں ایک دو بار حجرے سے باہر لاکر عوام کے دیدار کرائے جاتے یا پھر جب جماعتیں مختلف ملکوں  اور ریاستوں میں بھیجی جاتیں تو تب اُن سے دُعا ومصافحہ کروایا جاتا ۔اُن کے چہرے کی نورانیت پر عام آدمی کی نظر نہیں ٹکتی تھی ۔اُن کے علاوہ مولانا عمر پالن پوری صاحب ،مولانا سلیمان صاحب (جو 2009؁ء میں عمرہ کرنے کے دوران احرام باندھے سجدے کی حالت میں اللہ کو پیارے ہوگئے )قاری ظہیر احمد صاحب ،مولانا یعقوب صاحب ،منشی بشیر احمد صاحب اور مولانا دادود صاحب جیسے اہم اور قابل قدر بزرگوں کی دینی خدمات نے دعوت حق کے سلسلے میں  عالمی اثرات مرتب کیے ہیں ۔یہ تمام بزرگ اُس دور میں حیات تھے ،اب یہ سبھی اللہ کو پیارے ہوگئے ہیں۔قاری ظہیر احمد صاحب انتہائی مزاحیہ طبعیت کے تھے۔جب دعوت کی محنت کے اُصول وآداب اور اس کی اہمیت وعظمت سمجھاتے تو پورے مجمع پر نظر رکھتے ۔سامعین کا دل چاہتا کہ وہ اپنے مخصوص مزاحیہ انداز  میں حق کی دعوت دیتے رہیں اور وہ سُنتے رہیں ۔مولانا سلیمان صاحب سینکڑوں افراد پہ مشتمل مجمع کو بڑے دلگداز اور نرم لہجے میں سمجھاتے ہوئے کہتے :’’مولانا الیاس رحمتہ اللہ علیہ کا قول ہے کہ جو شخص بنگلے والی مسجد میں آنے کے بعد یہاں کے چھ کاموں میں نہ جڑے وہ گھر سے اپنے آپ کو یہاں آیا ہوا نہ سمجھے ‘‘اور اکثر یہ شعر دہراتے رہتے  ؎

آگاہ  اپنی  موت  سے  کوئی  بشر  نہیں

سامان  سو  برس کا  ہے پل  کی  خبر  نہیں

تقریباً تین دن تک ہماری جماعت مرکز نظام الدّین میں ٹھہری ۔تمام جماعتیں بنگلے والی مسجد کے مین گیٹ سے داخل ہو کر اُوپر کی منزلوں میں اپنا  سامان بڑے سلیقے سے رکھتیں ۔جہاں امام صاحب ،امامت کرتے تھے وہ پہلی منزل تھی اور مولانا الیاس رحمتہ اللہ علیہ نے اسی جگہ سے تبلیغ ِدین کی شروعات کی تھی ۔مسجد کے صدر دروازے کے ساتھ چند سیڑھیاں چڑھنے کے بعد پانی کا ایک خوب صورت حوض ہے جہاں نمازی وضو کرتے ہیں اور صفوں میں بیٹھتے ہیں ۔وعظ ونصیحت کا سلسلہ چلتا رہتا ہے اور تمام امور وقتِ مقررہ کے مطابق انجام دیے جاتے ہیں ۔اس ناچیز نے مولانا عمر پالن پوری صاحب کو کئی مرتبہ بہت قریب سے دیکھا اور سُنا ہے ۔اُنھوں نے تقریباً دُنیا کے سبھی ملکوں میں دین ِاسلام کا پیغام پہنچانے میں اپنی تمام عمر صرف کی ہے ۔وہ جب فجر نماز کے بعد بنگلے والی مسجد میں انتہائی نرم اور شریں زبان میں ایمان والوں کو دعوت ِ اسلام کی عظمت و اہمیت کو قرآن وحدیث کی روشنی میں سمجھانے لگتے تو سامعین کی  آنکھوں میں آنسو آجاتے ۔دُنیا کے مختلف ملکوں کی جماعتیں ہر سال تبلیغِ اسلام اور روحانی فیوض وبرکات حاصل کرنے کے لیے مرکز بنگلے والی مسجد میں آیا کرتی ہیں ۔مولانا محمد الیاس رحمتہ اللہ علیہ کے دور سے یہاں ہزاروں لوگ دو وقت کا کھانا مُفت میں کھاتے ہیں اور یہ سلسلہ برابر جاری ہے ۔بنگلے والی مسجد کی عمارت اُس زمانے میں کُل پانچ منزلوں پر مشتمل تھی جب کہ آج اس میں بڑی تبدیلی لائی گئی ہے آج یہ نو منزلوں پہ مشتمل ہے اور جدید طرز کی عمارت ہے جس میں بہ فضلِ اللہ جماعتوں کے قیام وطعام کے علاوہ تمام سہولیات موجود ہیں ۔

دوسرے دن ہماری جماعت کا رُخ طے کیا گیا ۔ہمیں جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی ،اوکھلا انکلیو ،بستی ابوالفضل اور جمنانگر کے علاقوں میں اپنا تبلیغی سفر طے کرنے کے لیے بھیج دیاگیا۔جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کی جامع مسجد میں ہماری ملاقات جناب فاروق احمد انجینئر سے ہوئی ۔وہ بھی تقریباً چار ماہ کے لیے  اللہ کے دین کی آبیاری کی خاطر گھر سے نکل آئے تھے ۔اُن کا تعلق اُوڑی ضلع بارہمولہ (کشمیر) سے ہے ۔وہ انتہائی ذہین اور باصلاحیت ،متقی اورراتوں کو اللہ  کے آگے رونے دھونے والے ہیں ۔دعوت ِاسلامی کے اصول وآداب سے بخوبی واقف ہیں ۔ناچیز کو اُن سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ہے ۔میرا حافظہ میرا ساتھ دے رہا ہے ۔جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کی جامع مسجد میں اجتماع تھا جس میں ایک نو مسلم انگریز اپنی کار گزاری انگریزی میں سُنارہا تھا اور دوسرا آدمی اُس  کے بیان کی اُردو میں ترجمانی کررہا تھا ۔یہ نو مسلم جو اپنے والدین ،بھائی ،بہنوں ،خاندان اور پوری تہذیب وروایات کو ترک کرکے دائرۂ اسلام میں داخل ہوا  تھا ،سر تا پا نبی اکرم ؐ  کی سُنتوں کو اپنائے ہوئے تھا ۔بقول اُس نو مسلم کے ’’اسلام ،دُنیا کا واحد وہ مذہب ہے جس میں تمام انسانوں کی کامیابی ،سلامتی اور بھلائی موجود ہے‘‘

ہمارا چلّہ پورا ہونے میں ابھی تقریباً دس دن باقی تھے اور ہماری جماعت بستی ابوالفضل نئی دہلی میں کام کررہی تھی کہ جناب ماسٹر محمداقبال خان قاضی کی ٹانگ میں درد پیدا ہوا اور وہ دوسرے دن واپس اپنے گھر چلے آئے۔اب میں ، جناب محمد سرفرازخان اورجناب محمد ایوب کے علاوہ بھلیسہ اور جموں کے  چند ساتھی جماعت میں رہے ۔تقریباً ہر ساتھی گشتوں ، ملاقاتوںاور دوسرے دینی امور میں حصہ لیتا تھا ۔چلّہ پورا ہونے سے دودن قبل ہم دوبارہ مرکز نظام الدّین چلے آئے تھے ۔یہاں پہنچ کر مجھے یہ معلوم ہوا کہ عصرِ حاضر کے ایک جیّد عالم وفاضل اور مفکر ِ اسلام جناب مولانا وحید الدّین خان اسی بستی میں رہتے ہیں ۔میں اُن کانام اور اُن کا معروف رسالہ’’الرّسالہ‘‘اور اُن کی چند کتابیں طالب علمی کے زمانے میں پڑھ چکا تھا ۔چنانچہ مجھے اُن سے بالمشافہ ملاقات کرنے کااشتیاق پیدا ہوا ۔مرکز بستی نظام الدّین کی بنگلے والی مسجد سے تقریباًنو بجے دن کو امیرِ جماعت جناب محمد امین انجینئر سے رُخصت لے کر میں باہر آکر مولانا وحیدالدّین خان صاحب کے دولت کدے کی تلاش میں نکل پڑا ۔اُن کے گھر کا پتہ معلوم کرتے ہوئے جب میں اُن کی عالیشان کوٹھی پہ پہنچا تو گیٹ پر ایک سپاہی کھڑا تھا ۔میںنے مولانا وحیدالدّین خان صاحب سے ملنے کی خواہش ظاہر کی تو اُس نے میرا نام وپتہ معلوم کیا اور پھر اندر جاکر مولانا وحیدالدّین  خان صاحب کی اجازت لی اور مجھے گھر میں آنے کو کہا ۔مولانا وحیدالدّین خان صاحب اپنی آرام گاہ سے اُٹھ کر میرے پاس باہر آئے ۔بالکل سیدھے سادے لباس میں ملبوس ،سفید داڑھی ،سر پر افغانی ٹوپی ،نورانی چہرہ اور پورے وجود میں متانت ،نفاست اور ایمانی حرارت موجود تھی۔اب میرے سامنے ایک ایسی قد آور اور مایہ ناز شخصیت کھڑی تھی جس نے زندگی کو فضولیات ولغویات سے بچاکر محض دین ِ محمدی ﷺ کی آبیاری اور اشاعتِ اسلام کے لیے وقف کررکھا تھا ،مزید یہ کہ جس نے اپنی تحریروں اور تقریروں سے نہ صرف موجودہ مسلمانوں کو بلکہ غیر مسلموں کو بھی خواب غفلت سے بیدار کرنے کی ہر ممکن کوششیں کی ہیں ۔میںنے اُن سے اسلام،تقدیر،کفر اور مسلمانوں کے عروج وزوال اور دعوتِ اسلام سے متعلق متعدد سوالات کیے ،تو اُنھوں نے بڑے واضح دلائل کے ساتھ جوابات دیئے ۔تقریباً ایک گھنٹہ میری اُن سے گفتگو چلتی رہی ،پھر میں اُن سے رُخصت ہوا اور اُن کے کتب خانہ پر تشریف لایا ۔میں نے اُن کی تحریر کردہ تصانیف دیکھیں ۔اسلامیات پر اُن کی نادر کتب نے مجھے حیرت میں ڈال دیا ۔تقریباً دینیات کے ہر موضوع اور پہلو پر اُنھوں نے  اپنی عالمانہ استطاعت کے مطابق کتابیں لکھی ہیں ۔

دوسرے دن ہم مرکز بنگلے والی مسجد (بستی نظام الدّین )سے رُخصت کردیئے گئے ۔بزرگوں نے ملک کے طول وعرض سے آئی ہوئی اُن تمام جماعتوں کو جن کے چلّے اور چارمہینے پورے ہوچکے تھے اوراب واپس اپنے اپنے علاقوں کی طرف جارہی تھیں ،سب کو ایک بڑے ہال میں جمع فرماکر دعوت کی عظیم محنت میں لگے رہنے کے اُصول وآداب سمجھائے اور زندگی کوقرآن وحدیث کے مطابق بسر کرنے کی تلقین کی ۔مرکز سے رخصت ہونے کو کسی بھی ساتھی کا دل نہیں چاہتا تھا ۔رات کو ہم جموں جانے والی ٹرین پہ سوار ہوئے اور صبح جموںریلوے اسٹیشن پہ پہنچ گئے ۔ذمہ داروں کے مشورے کے مطابق ہم کوگوجر نگر کی جامع مسجد میں ٹھہرایا گیا ۔یہاں اور بھی جماعتیں جو جموں کے مضافاتی علاقوں میں کام کرکے اب واپس اپنے علاقوں کی جانب جارہی تھیں ٹھہرائی گئی تھیں ۔فجر نماز کے بعد ماسٹر اسحاق صاحب بھدرواہی نے انسان کے مقصدِحیات اور صحابہ کرام ؓ کے دینی جذبے پر بڑے پُر اثر انداز میںتقریر کی  تھی۔تمام ساتھیوں کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے تھے ۔زندگی کی اصل حقیقت اور اُس کی معنویت کا پورا خلاصہ اُنھوں نے بڑے مُدلّل انداز میں ذہن نشین  کرایا تھا ۔تقریباًدس بجے دن کو ہم سبھی ساتھیوں کو ذمہ دار حضرات نے اپنی آخری ہدایات کے ساتھ رُخصت کیا تھا اور تمام ساتھی ایک دوسرے سے گلے مل کے رورہے تھے ،ایک دوسرے سے معافیاں مانگ رہے تھے ۔محبت ،خلوص اور دین داری کے جذبے سے سرشار یہ قافلہ اب آخری پڑاؤ پہ تھا ۔چالیس دن کا  یہ دینی تربیتی کورس جس کا تعلق براہِ راست حق شناسی ،خود احتسابی اور تذکیۂ نفس سے تھا تمام ساتھیوں کے دلوں اور چہروں کو ایمان کی حرارت سے منوّر کرچکا تھا ۔ہم تین ساتھی یعنی میں ،جناب سرفراز خان قاضی اور جناب محمد ایوب شیخ چوپڑہ شاپ مسجد میں آئے اور یہاں پر باضابطہ طور پر محترم حاجی عبدالرّشید  صاحب (ضلع اُدھم پور کے امیرجماعت)نے اجتماعی طور پر ہماری کارگزاری لی۔شام کو ہم تینوں مغرب نماز پہ جامع مسجد چنہنی میں پہنچے ۔دلوں میں اطمینان اور سکون تھا ۔مغرب نماز کے بعد ہم اپنے اپنے گھروں میںچلے گئے۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے پورے چلّے میں امیرِجماعت جناب ڈاکٹر عبدالمجید ،اُن کے بعد جناب محمد امین انجینئر اور پھر مرکز کے بزرگوں نے تمام ساتھیوں کو اپنے اپنے علاقوں میں چھ کام پابندی سے کرنے کی تلقین کی تھی ۔پہلا کام ،کسی ایک نماز کے بعد چلّہ لگائے ساتھی مل بیٹھیں اور یہ مشورہ کریں کہ آج کس ایمان والے بھائی سے ملاقات کریں تاکہ وہ بھی اپنی جان ،اپنے وقت اور مال کو اللہ تعالیٰ کے احکامات اور محمدؐ کے پاکیزہ طریقے کے مطابق صرف کرنے والا بنے ۔دوسرا کام،حدیث کی دو جگہوں پہ تعلیم ایک مسجد میں اور دوسری اپنے گھر میں ۔تیسرا کام،ہرروز ڈھائی گھنٹے کی ملاقاتیں جو محض دینی شعور  پیدا کرنے اور اخلاقی نوعیت کی ہوں ۔چوتھا کام ،ہفتے میں ایمان کی نسبت پر دو گشتیں ایک اپنی بستی میں اور دوسری پڑوس کی بستی میں ۔پانچواں کام ،ہر مہینے میں تین دن اللہ کے دین کی خاطر وقف کریں ۔اسی بات کو دوسرے لفظوں میں اکثر بزرگوں کو یہ فرماتے ہوئے سُنا کہ ایمان والے کے ستائس دن ٹبّر(اپنے اہل وعیال کے لیے) کے لیے اور تین دن قبر کے لیے مخصوص ہونے چاہیں ۔چھٹا کام ،ہرسال میں دُنیا اور آخرت کی کامیابی کے لیے اللہ کے دین کی خاطر چالیس دن کے لیے اپنے بیوی بچّوں ،خاندان والوں ،رشتے داروں ،ملازمت اور تجارت یہاں تک کہ اپنے ماحول سے دُور رہ کر مساجد کی نورانی فضا میںایک مخصوص عمل اور نظم وضبط کے تحت رہا جائے تاکہ ایک بگڑا ہوا شخص راہِ راست پر آجائے اور اُس میں خدا اور رسولؐ  کی محبت پیدا ہوسکے۔ بہرحال ہم چند ساتھی دعوتِ اسلام کی محنت میں لگے رہے ۔الحمدللہ دعوتِ حق سے اور بھی لوگ جُڑتے چلے گئے ۔قصبہ چنہنی کی جامع مسجد میں کہ جہاں کسی زمانے میں میری  اہلیہ کے تایا کہ جو بابو کے نام سے مشہور تھے اور پیشے سے درزی تھے ،پنجگانہ نمازی تھے ۔وہ اذان دینے کے بعد جب بستی کا کوئی بھی شخص نماز پڑھنے نہیں آتا تھا تو وہ اکیلے نماز پڑھ کے اپنے کام میں لگ جاتے تھے۔میں نے خود اس مسجد میں دو تین آدمیوں کو نماز پڑھتے دیکھا ہے ۔الحمدللہ جب دعوت وتبلیغ کی محنت کا یہاں آغاز ہوا تو اس کے خوشگوار اور عمدہ اثرات پڑے۔اب یہاں جامع مسجد سے ملحق ایک دینی مدرسہ بھی ہے۔یہاں کے ایمان والوں کی زندگی میں ایک طرح کا انقلاب برپا ہوا ہے ۔اب اس مسجد میں ہر نماز پہ تقریباً چالیس ،پچاس آدمی اللہ کے آگے سربسجود ہوتے ہیں ۔نہ صرف یہ بلکہ باضابطہ طور پر اتوار کودین کی نسبت پر گشت ہوتی ہے ۔فجر نماز کے بعد مشورہ ہوتا ہے اور تمام دینی امور اُصول وآداب کے مطابق انجام دیئے جاتے ہیں لیکن اس سب کے ہوتے ہوئے بھی ابھی دعوت وتبلیغ ِ اسلام میں لگے افراد کو نہایت صبر وتحمل ،خلوص اور استقامت سے کام کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔اسلام کی تبلیغ میں طنز ورمز اور ایک طرح کی نشتر زنی نہایت خطرناک ثابت ہوتی ہے ۔ہر فرد اپنے اچھے اور بُرے اعمال کے لیے ذمہ دار ہے ۔کسی پہ طنز ورمز کرنا نیکی برباد ،گناہ لازم والی بات ہے ۔ 1994؁ء میں میرادوسرا چلّہ جون ،جولائی کے مہینے میں بھوپال میں لگا ۔اُن دنوں میری ڈیوٹی گورنمنٹ مڈل اسکول بشٹ میں تھی اورچنہنی زون  میں کُل چار اسکول ایسے تھے جوسردیوں میںکھلے رہتے تھے اور گرمیوں کے دومہینوں میں بند رہتے تھے ،یہ اسکول تھے مڈل اسکول بشٹ ،پرائمری اسکول بیشٹی،پرائمری اسکول مانڈل اور گورنمنٹ مڈل اسکول بائیں ۔ہم چنہنی سے دو ساتھی میں اور محمد سلیم شیخ چالیس دن کے لیے اللہ کے دین کی دعوت کے اُصول وآداب سیکھنے اور اپنے نفسانی خواہشات پہ قابو پانے کی خاطر گھروں سے چلے گئے تھے۔ہماری جماعت کا رُخ جامع مسجد گوجر نگر جموں سے بھوپال کے لیے  طے ہوا تھا ۔اس جماعت میں زیادہ تر طالب علم تھے جو دسویں اور بارہویں جماعت کے امتحانات دینے کے بعد اب گرمیوں کی چھٹیوں میں اللہ تعالیٰ کے دین  کے مطابق زندگی گزارنے کی عملی مشق کی خاطر جماعت میں نکل چکے تھے ۔ماسٹر محمد صدیق صاحب ساندی (ضلع سانبہ)والے ہماری جماعت کے امیر مقرر کیے گئے تھے۔وہ بہت شریف اور کم زبان تھے ۔جموں سے ہم ٹرین میں سوار ہوکر دہلی مرکز بستی نظام الدّین بھیج دیئے گئے اور تین دن وہاں قیام کرنے کے بعد بھوپال کے لیے روانہ ہوگئے ۔تقریباً چودہ افراد پہ مشتمل یہ جماعت جس میں زیادہ تر بہت زیادہ باغی اور سرکش مزاج کے نوجوان تھے کہ جنھوںنے اپنی سرکشی کے باعث نہ صرف اپنے والدین بلکہ اپنے محلے اور علاقے کے لوگوں کا جینا حرام کردیا تھا ،اس لیے والدین نے انھیں دعوتِ حق کے ذمہ داروں کے حوالے کیاہوا تھا ۔دہلی سے ہم بھوپال جانے والی ٹرین پہ تقریباً گیارہ بجے دوپہر کو سوار ہوئے تھے ۔جھانسی،گوالیار،چمبل گھاٹی کے علاوہ کئی  اور مقامات سے ہماری ٹرین گزرنے کے بعد تقریباً رات کے بارہ بجے بھوپال پہنچ گئی تھی ۔بھوپال جیسے نوابی اور تاریخی شہر میں رہنے اور اسے دیکھنے کا میرا یہ  پہلا موقع تھا ۔بھوپال کی مہمان نوازی نے مجھے بہت متاثر کیا تھا ۔تقریباً ہر مذہب اور فرقے کے لوگ وہاں آباد ہیں ۔وہاں کی تاریخی مسجد ’’تاج المساجد‘‘دیکھ کر مجھے انتہائی مسرت اور حیرانی کا احساس ہوا تھا۔دعوت وتبلیغ ِ اسلام کا عظیم الشّان اجتماع ہرسال بھوپال شہر میں ہوتا ہے ۔چالیس دن کا یہ دعوتی سفر ہم نے بھوپال میں ہی طے کیا تھا ۔بھوپال کے ایک حیاسوز منظر کو میں شاید کبھی بھی نہ بھول پاؤں گا ۔اُس حیاسوز منظر کی یاد آتے ہی یہ سوچ کے حیران رہ جاتا ہوں کہ اس دُنیا میں آدم کی اولاد کتنے ہی حرافات اور واہیات رسموں ،رواجوں اور عقیدوں کو لے کر اپنی دُنیا وآخرت برباد کرتی ہے ۔بھوپال میں ہماری  جماعت کا قیام تقریباًچاردن سے ایک بہت بڑی مسجد میں تھا جو چوراہے والی مسجد کے نام سے مشہور تھی ۔یہ مسجد تقریباً چار منزلہ تھی اور واقعی ایک چوراہے پر واقع تھی ۔جمعہ کا دن تھا مسجد میں نمازیوں کی بہت بھیڑ تھی ۔ امام صاحب سے خطبہ سننے اور اُن کے پیچھے دو فرضوں کی ادائیگی کے بعد مقتدی سُنتوں اور نوافل سے تقریباً فارغ ہورہے تھے کہ اتنے میں ڈھول اور باجے کی سُریلی آواز کے ساتھ لوگوں کے قہقہے اور شور وغل سُنائی دیا ۔مسجد تقریباً خالی تھی صرف جماعت کے ساتھی اور اکّا دُکّا بوڑھے آدمی ذکرِ الٰہی میں مشغول تھے ۔میں ،امیر جماعت جناب  ماسٹر محمدصدیق اور محمد سیلم شیخ کے علاوہ جماعت کے چند ساتھیوں نے مسجد کی دوسری منزل کی کھڑکیوں سے جونہی نیچے جھانک کر دیکھا تو پہلی فرصت میں ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوگئے ۔لوگوں کا ایک بہت بڑا ہجوم تھا جس میں سب سے آگے دو آدمی الف ننگے تھے اور اُن کے ہاتھوں میں مور پنکھ تھے ۔اُن کے سیاہ لمبے بال اور سیاہ لمبی داڑھیاں تھیں۔ چند معزز قسم کے لوگ جھک جھک کے اُنھیں پرنام کررہے تھے ۔ہجوم کے ساتھ ساتھ عورتیں اور جوان لڑکیاں بھی ان الف ننگے آدمیوں کو دیکھ کر ہنسی کے فوارے کو روکنے کی ناکام کوشش کررہی تھیں ۔یہ ہجوم سرِبازار گزررہاتھا ۔دیکھتے دیکھے یہ ہجوم ہماری نظروں سے اوجھل ہوگیا پھر ہم نے وہاں کے ایک مقامی بزرگ سے اس عجیب وغریب معاملے کی تحقیق چاہی تو معلوم ہوا کہ ہرسال اسی مہینے میں ان لوگوں کا یہ جلوس نکلتا ہے کہ جس میں دو آدمیوں کو الف ننگے سرِبازار پھرانے کے بعد اُنھیں ایک مندر میں چھوڑ آتے ہیں !حیران ہوجاتا ہوں کہ انسان اس علمی اور سائنسی ترقی یافتہ دور میں بھی کتنی بھونڈی اور واہیات قسم کی رسموں اور عقیدوں کو لے کے جی رہا ہے ۔

پورے چالیس دن ہماری جماعت بھوپال میں رہی تھی ۔وہ نوجوان کہ جو اپنے والدین کے لیے وبالِ جان بنے ہوئے تھے ۔اب ایک مخصوص رُوحانی ماحول اور دینی واخلاقی تربیت میں رہتے ہوئے اپنی تمام خرمستیوں کو بھول چکے تھے اور اُن میں بہت حدتک خوفِ آخرت ،دین کا شوق اور شرافت وسنجیدگی کا عنصر پیدا ہوچکا تھا ۔چالیس دن کے بعد جب ہم سب ساتھی ایک دوسرے سے رُخصت ہوئے تو ہماری پلکوں پہ آنسو لرز رہے تھے اور دلوں میں  جدائی کا غم!   1995؁ء میں مجھے دعوتِ اسلام کی عظیم محنت کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ نے مدھیہ پردیش کے ضلع خرگون اور اندور میں کام کرنے کی توفیق عنایت  فرمائی ،یہ میرا تیسرا چلّہ تھا ۔تقریباً بارہ افراد پہ مشتمل ہماری جماعت کا رُخ اُدھم پور سے طے کیا گیا تھا اورجناب  عبدالرّشیدصاحب چوپڑہ شاپ والے کے چھوٹے بھائی جناب محمد بشیر کو امیرِ جماعت مقرر کیا گیا تھا ۔اس جماعت میں زیادہ تر اُدھم پور اور جموں کے ساتھی تھے ۔جون ،جولائی کے مہینے میں ہم مدھیہ پردیش جیسے گرم علاقے میں جارہے تھے ۔انتہائی گرمی کی وجہ سے خصوصی ملاقاتیں کرنا،گشت کرنا اور حدیث کی تعلیم میں بیٹھنا کسی حد تک دشوار معلوم ہورہاتھا۔اسی چلّے میں، میں  نے آنکھوں میں سرمہ لگانے،تیل لگانے اور کپڑے پہننے کا سُنتی طریقہ سیکھا تھا ۔ہمارے امیر ِ جماعت جناب محمد بشیر  نے تمام ساتھیوں پہ بہت محنت کی تھی ۔ضلع خرگون ( مدھیہ پردیش)کی جامع مسجد میں جمعہ پرمجھ  جیسے معمولی آدمی کے ذمہ عوام کو دعوتِ حق کی عظمت اور اس کی اہمیت ذہن نشین کرانا طے پایا تھا ۔میں نے تقریباً ایک ہزار آدمیوں کے مجمع میں انسان کے مقصدِ پیدائش اور مظاہرِ فطرت کے حوالے سے دین کی بات کی تھی۔میں نے صحابہ کرام ؓ  کے دینی جذبے اور اُن کی جاندار نماز کے حوالے سے یہ کہا کہ صحابہ کرام ؓ اپنے مطالبات نماز کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے پورے کرواتے تھے ۔جب اُن پہ کوئی بھی پریشانی آتی تھی تو فوراً وضو فرماتے  اور دو رکعت نماز صلوٰۃ الحاجت پڑھتے اور پورے یقین ،دھیان اور اخلاص سے اللہ  تعالیٰ سے مدد مانگتے اور اس طرح اُن کی دُعا قبول ہوجاتی ۔ایک بار صحابی کے گھر میں کھانے کو کچھ نہیں تھا ،گھر میں کئی سال کی پرانی چکّی پڑی ہوئی تھی ۔بیوی پریشان تھی ،صحابی ؓ نے وضوکیا اور مسجد میں جاکر دو رکعت نماز صلوٰۃ الحاجت پڑھی اور اُس کے بعد گھر میں آئے تو پوچھا کہ کیا کھانے کا کوئی انتظام ہوا؟بیوی نے کہا نہیں۔وہ پھر نماز پڑھنے گئے یہ سوچتے ہوئے کہ شاید میری نماز میں کوئی کسر رہ گئی ہوگی ،واپس آئے تو بیوی سے پوچھا کہ کیا اللہ نے کھانے کا کوئی بندوبست کیا؟بیوی نے نفی میں جواب دیا ۔صحابی ؓ نے تیسری مرتبہ نماز پڑھی اور اللہ سے رو رو کے دُعا مانگی ،واپس گھر میں آئے تو آٹے کی چکّی بہ فضل ِ اللہ چل رہی تھی اور آٹے کی ڈھیری اُس کے سامنے بنتی جارہی تھی ۔میں نے ایک واقعہ تو یہ بیان کیا اور دوسرا واقعہ جاندار نماز کے ضمن میں یہ بتایا کہ ایک صحابی ؓ ایک مرتبہ اپنے خچر پہ سوار سامان لادے سفر پہ جارہے تھے کہ راستے میں اُن کا خچر مرگیا ۔صحابی ؓ نے فوراً وضو کیا اور صلوٰۃ الحاجت کی نیت باندھی اور اللہ تعالیٰ سے عرض کی یااللہ آپ زندہ کو مردہ اور مردے کو زندہ سے نکالنے پہ قادر ہیں ۔میرا یہ خچر مرگیا ہے ۔قیامت کے روز آپ اسے زندہ فرمائیں گے مگر تب یہ میرے کسی کام نہیں آئے گا ۔اس لیے آج میں اپنے سامان کے لیے پریشان ہوں ۔برائے مہربانی اس خچر کو اپنی قدرت سے زندہ فرمادیجیے تاکہ میں اپنا سامان منزل مقصود پہ پہنچاسکوں ۔روایت میں ہے کہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد صحابی ؓ کیا دیکھتے ہیں کہ اُن کا خچر زندہ ہوکر گھاس چر رہا ہے ! سبحان اللہ !جمعہ نماز پڑھنے کے بعد میرے انتظار میں تقریباً چار آدمی بیٹھے رہے اور باقی تمام لوگ نماز سے فارغ ہوکر اپنے اپنے گھروںکو چلے گئے تھے۔جب میں سُنتوں اور نوافل سے فارغ ہوا تو منتظر آدمیوں نے مجھے گھیر لیا اور پوچھنے لگے ’’محترم! یہ بتائیے کہ آپ نے یہ جو دوصحابیوں کے ساتھ پیش آمدہ واقعات کا اتنے بھاری مجمع میں ذکر کیا ،کیا آپ کے پاس ان واقعات کی کوئی کتابی دلیل  موجود ہے ؟آپ نے یہ واقعات کس کتاب میں پڑھے ہیں؟ہمارے اس سوال کا جواب دیجیے‘‘  میں پہلے تو کچھ بوکھلاہٹ سی محسوس کرنے لگا اور پھر اللہ تعالیٰ نے میرے ذہن میں یہ بات ڈالی کہ سوال کرنے والا شخص دعوتِ حق کی عظیم محنت کا  سرے سے مخالف ہے ۔میں نے بڑی عاجزی سے کہا ’’میرے بھائی ! میںنے یہ دونوں واقعات کئی بار بڑے بڑے عالم وفاضل بزرگوں کی زبانی سُنے ہیں ۔البتہ میں نے خود یہ کسی کتاب میں نہیں پڑھے ہیں‘‘ مخالف شخصوں میں سے ایک نے میری باتیں سُن کر کہا  ’’اس کا مطلب ہے آپ سُنی سنائی باتوں پر عمل کرتے ہیں ‘‘  میں نے کہا ’’ایسی بات نہیں ہے ۔میں نے جن واقعات کاذکر کیا ہے وہ کسی عام آدمی یاکسی جاہل آدمی کی زبانی نہیں سُنے ہیں بلکہ معتبر اور مستند عالموںاور بزرگوں کی زبانی سُنے ہیں ‘‘ مخالفت پسند گروپ میں سے تیسرا شخص بولا ’’کچھ بھی ہو ہم آپ سے دونوں مذکورہ واقعات کی تصیحح مستند کتابی حوالے سے چاہتے ہیں ‘‘ میںنے جواب دیا ’’سُنیے میرے بھائی!میں آپ سے بحث کرنا نہیں چاہتا ۔یوں بھی ہم دعوتِ حق میں نکلے ہوئے لوگ بغیر اپنے امیر جماعت کی اجازت کے کسی سے بات تک  نہیں کرسکتے ہیں ۔ہم چالیس دن تک ایک مخصوص نورانی اور پاکیزہ ماحول میںسانس لیتے ہیں ۔چند اُصول وآداب کے تحت اپنے امیرِجماعت کے تابع رہتے ہیں ۔اس لیے آپ یہیں ٹھہریے ،میں اپنے امیرِ جماعت کی آپ سے ملاقات کراتا ہوں ۔مجھے اُمید ہے وہ آپ کو آپ کے سوال کا تسلّی بخش جواب دے سکیں‘‘ میں فوراً مسجد کی دوسری منزل پہ گیا کہ جہاں جماعت کے تمام ساتھی قیلولہ کرنے کے لیے اپنے اپنے بستر لگارہے تھے ۔میں نے اپنے امیر ِجماعت جناب محمد بشیر سے پورا معاملہ بیان کیا ۔وہ فوراً میرے ساتھ ہولیے اور ہم دونوں تبلیغ ِ اسلام کی مخالفت کرنے والوں کے پاس پہنچ گئے ۔امیرِ جماعت جناب محمد بشیر نے اُن مخالفین سے دُعا وسلام کے بعد پوچھا  ’’کہیے حضرت آپ کیا چاہتے ہیں ؟‘‘ ’’ہم یہ چاہتے ہیں کہ آپ کے ساتھی نے جمعہ نماز پہ جو دو صحابیوں کے واقعات سُنائے وہ کس حد تک صحیح ہیں اور کس کتاب کے حوالے سے انھوں نے یہ  باتیں کی ہیں ؟‘‘  امیر ِجماعت نے اُنھیں بڑے مُدلّل انداز میں سمجھایا اور فرمایا  ’’آپ اگر کسی مستند کتاب کا حوالہ چاہتے ہیں تو ’’حیاۃُالصّحابہ ‘‘ از مولانا محمدیوسف رحمتہ اللہ علیہ کی تصنیف کردہ کتاب کا مطالعہ کیجیے ۔اس کے علاوہ مولانا محمد ذکریا صاحب دامت برکاتہم کی مرتب کردہ کتاب ’’فضائل اعمال ‘‘ ( حصہ اوّل )کے باب فضائلِ نماز اور حکایات الصّحابہ کے سلسلے میں کئی ایسے واقعات  ملیںگے کہ جن کا تعلق جاندار نماز سے ہے کہ صحابہ ؓ نے اپنے ہر ایک مسٔلے کو اللہ تعالیٰ سے نماز کے ذریعے حل کروایا ہے‘‘  امیر جماعت کی مُدلّل باتیں سُن کر وہ چاروں مخالف ذہن رکھنے والے آدمی چپکے سے ہماری نظروں سے دُور چلے گئے لیکن اُنھوں نے میرے  ذہن کی تمام کھڑکیاں کھول دی تھیں ،مجھے اُن کا مخالفانہ رویّہ بہت حد تک اصلاحی اور تربیتی معلوم ہوا تھا ۔دین ودُنیا کے تقریباًتمام مسائل اور معلومات کے سلسلے میں ایک عالم ِدین کے پاس کثیرمطالعہ اور حوالہ ہونا چاہیے۔ اندور ،مدھیہ پردیش کا ایک بہت بڑا شہر ہے ۔یہاں ہمارا قیام تقریباً پانچ دن رہا ۔ہر طبقے اور پیشے کے لوگوں سے ہماری خصوصی ملاقاتیں ہوتی تھیں ،جس روز ہم نے چلّہ پورا ہونے کے بعد واپس آنا تھا ،اُس دن ہم نے رات کو ٹرین میں کھانا ساتھ لے جانے کے لیے نان اور قیمہ تیارکروایا تھا۔رات کے تقریباً ساڑھے آٹھ بجے ہم اندور سے دہلی کے لیے روانہ ہوئے تھے ۔میں اس بات پہ حیران تھا کہ قدرت نے ہمارا دانہ پانی کہاں کہاں رکھا تھا! 1996؁ء (جون ،جولائی)میںمجھے اللہ تعالیٰ نے راجوری اور پونچھ کے علاقوں میں دعوتِ اسلام کا کام کرنے کی توفیق نصیب فرمائی ۔میلی ٹینسی اپنے پورے عروج پر تھی ۔ہماری جماعت کا رُخ جامع مسجد جموں (تالاب کھٹیکاں) سے پونچھ کے لیے طے ہوگیا تھا۔ہم تقریباً سولہ افراد تھے ۔اس جماعت میں بلاور،اُدھم پور اور دو تین ساتھی جموں کے تھے ۔ جناب ماسٹر عبدالرّشید، کرمچی ( ضلع اُدھم پور) والے ہماری جماعت کے امیر تھے ۔تمام ساتھیوں کے شناختی کارڈ چیک کیے گئے تھے اور جن کے پاس نہیں تھے اُنھیں بنواکر دیئے گئے تھے چونکہ ہم جہاں جارہے تھے وہ میلی ٹینسی سے متاثرہ علاقے  تھے ۔چنہنی سے ہم صرف دو ساتھی ایک میں اور دوسرے جناب نور محمدوانی ( میٹر ریڈر) تھے ۔شعلہ بار گرمی تھی ۔میں پہلی بار راجوری اور پونچھ جارہا تھا ۔اپنی ضرورت کی ہر چیز تمام ساتھیوں نے اپنے ساتھ اُٹھائی تھی ۔کھانا پکانے کے لیے اسٹوپ،برتن اور مٹی کا تیل جسے بیت المال کا سامان کہا جاتا ہے ۔باری باری سب ساتھی تھوڑا تھوڑا کر کے اُٹھا لیتے تھے ۔صوبہ جموں کے امیر ِجماعت محترم جناب بشیر احمد زرگر ساکنہ گوجر نگر نے دُعا ومصافحے کے بعد تمام جماعتوں کو ضروری ہدایات کے ساتھ رخصت کیا اور ہماری جماعت اپنے امیرِ جماعت کے حکم کے مطابق راجوری جانے والی بس میں سو ار ہوئی تھی ۔ہم سیدھے راجوری سے تقریباً چھ کیلو میٹر آگے منجا کوٹ اُتر گئے اور وہاں کی جامع مسجد میں ہمارا قیام تقریباً تین دن رہا ۔اس مسجد سے ملحق ایک مدرسہ ہے جہاں اُس وقت تقریباً اسّی بچّے زیر تعلیم تھے ۔اس مدرسے کے مہتمم ایک نیک اور متّقی شخص تھے ۔اُنھوں نے جماعت کی بہت نُصرت کی تھی ۔چند بچّے قرآن ِپاک حفظ کرچکے تھے اور کچھ اُن میں نعت گو بھی تھے ۔تقریباً دس دن ہم منجا کوٹ کے پہاڑی علاقوں میں دعوتِ حق کا کام کرتے رہے ۔سنگلاخ چٹانوں ،اوبڑ کھابڑ راستوں پر گزرتے ہوئے میں ڈرنے لگتا تو فوراً اللہ تعالیٰ کی یاد میرے ڈروخوف کو زائل کردیتی کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے بغیر تو ایک پتّا بھی اپنی جگہ سے نہیں ہل سکتا ہے۔ دس دن منجا کوٹ میں کام کرنے کے بعد ہماری جماعت پونچھ کے لیے روانہ ہوئی تھی۔شیر ِ کشمیر پُل پار کر نے سے پہلے ہی پولیس کے سپاہیوں نے جماعت کے ہرفرد کی تلاشی لی تھی اور شناختی کارڈ چیک کیے تھے ۔بدقسمتی سے کوئی چار ساتھیوں کے پاس شناختی کارڈ نہیں تھے ۔امیر جماعت جناب ماسٹر  عبدالرّشید اور میں نے بھی سپاہیوں کو کافی یقین دلایا کہ یہ چار افراد ہماری جماعت کے افراد ہیں لیکن اُنھوں نے کوئی بھی بات نہیں مانی اور پوری جماعت کو  پولیس تھانہ پونچھ میں پہنچادیا ۔تھانیدار تھانے میں نہیں تھا ۔منشی اپنے آپ کو عاشق ِرسولؐ  سمجھتا تھا ،داڑھی نام کی کوئی بھی چیز اُس کے چہرے پہ نہیں تھی۔اُس کی آنکھیں نیلی تھیں ،سر کے بال لال رنگ کے تھے ۔بد مزاج اتنا کہ آتے ہی سب ساتھیوں پہ برس پڑا ۔کہنے لگا ’’تمہارا مشن کیا ہے ؟گھر سے بے گھر ہونے کے لیے لوگوں کو کیوں مجبور کرتے ہواور سب سے بُری بات یہ کہ تُم نماز سے پہلے اور نماز کے بعد کھڑے ہوکر زور زور سے درود شریف نہیں پڑھتے ہو‘‘ ہمارے امیرِ جماعت جناب ماسٹر عبدالرّشید کم زبان اور شریف قسم کے انسان تھے ۔اُنھوں نے منشی کو جواب دیا  ’’میرے محترم! ہمارا مشن دینِ اسلام کی تبلیغ کرنا ہے اور پوری دُنیا میں اسلام کے ذریعے امن قائم کرنا ہے ۔ہم کسی کو گھر سے بے گھر کرنا نہیں چاہتے بلکہ ایک مخصوص عرصے تک پاکیزہ ماحول میں رکھنے کے بعد واپس اپنے گھر میں بھیج دیتے ہیں ۔تیسری بات،آپ نے فرمایا کہ ہم نماز سے پہلے اور نماز کے بعد کھڑے ہوکر درود شریف زورزور سے نہیں پڑھتے ہیں ،تو سُنیے صاحب ! بات یہ ہے کہ اصل معاملہ درود شریف کے پڑھنے کا ہے ۔نہ پڑھنے والا واقعی گنہگار اور لعنتی ہے ۔آپؐ پر درود شریف پڑھنا ہر مسلمان پہ فرض ہے ۔ہم کثرت سے درود شریف پڑھتے ہیں ۔آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارے تبلیغی نصاب میں درود شریف کی فضیلت اور اُس کے پڑھنے کے بارے میں پورا باب شامل ہے ۔رہا مسٔلہ کھڑے ہوکر زور سے پڑھنے کا تو بھائی صاحب نعوذ باللہ اللہ تعالیٰ بہرہ تھوڑی ہے کہ وہ آہستہ سُنتا ہی نہیں ‘‘                                           ۔۔۔۔۔۔۔جاری۔۔۔۔۔۔۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا