خارستان کا مسافر

0
0

قسط21

(خود نوشت سوانح حیات)
ڈاکٹر مشتاق احمد وانی
سابق صدر شعبۂ اُردو بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری(جموں وکشمیر)

میںنے اسکول ایجوکیشن محکمے میں رہتے ہوئے ریاستی اور پارلیمانی انتخابات میں متعدد بار پولنگ اور پرزائڈنگ آفیسر کی حیثیت سے ڈیوٹی دی ہے ۔ علاوہ ازیں پنچایتی الیکشن میں بھی ڈیوٹی دے چکا ہوں۔مجھے اچھی طرح یاد ہے میں نے گورنمنٹ ہائی اسکول موڑ،مڈل اسکول چلیہاڑ،ہائی اسکول سین ٹھکراں،بٹل بالیاں اور لاٹی دھونہ میں الیکشن ڈیوٹی دی ہے ۔2010ء میں جب مرکزی سرکار نے جموں کشمیر میں مردم شماری کروائی تو میری ڈیوٹی چنہنی (ضلع ادھم پور)کے علاقہ مادا میں بحیثیت نگران لگائی گئی ۔میری نگرانی میں پانچ ٹیچر تھے جن میں کچھ پرائمری اسکولوں میں اور کچھ مڈل اسکولوں میں درس وتدریس کے پیشے سے وابستہ تھے۔طرح طرح کے لوگوں سے میرا واسطہ رہا ہے لیکن میں نے غصے اورجوش میں ہوش کھونے سے احتراز کیا ہے اور کسی کوبھی بلاوجہ پریشان نہیں کیا ہے۔یادوں کا ایک سلسلہ دل ودماغ میں محفوظ ہے۔ 15،اکتوبر2020ء کو پروفیسر جاوید مسرت صاحب کی رخصتی کے بعد باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری میں ایک طرح کا سناٹا سا چھا گیا۔کچھ ہی دنوں کے بعد کٹرہ ماتا ویشنو دیوی یونیورسٹی کے وائس چانسلر جناب سریندر کمار سنہا کو وقتی طور پر چارج دیا گیا ۔اُن کے پاس یہ چارج 12فروری 2021ء تک رہا۔اُس کے بعد 17فروری 2021ء کوپروفیسر اکبر مسعود صاحب نے بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری میں بحیثیت وائس چانسلر جوائن کیا۔وہ ایک اصول پرست،خوش اخلاق اور اردو شعروادب کے شیدائی ہیں ۔اعظم گڑھ سے اُن کا تعلق ہے ۔لکھنو میں اُن کا سسرال ہے، اسی لئے لکھنوی تہذیب اُن کے مزاج میں گھل مل گئی ہے۔جس روز اُنھوں نے جوائن کیا اُن کے استقبال کے لئے یونیورسٹی کے تقریباًتمام شعبہ جات کے اساتذہ نے باری باری انھیں گلدستے پیش کرکے اُن کا استقبال کیا ۔شعبہ ء اردو کے صدر ڈاکٹر شمس کمال انجم ،میں،ڈاکٹر لیاقت حسین نیئر ،ڈاکٹر محمد آصف ملک اور ڈاکٹر رضوانہ شمسی ہم سب نے بھی پروفیسر اکبر مسعود صاحب کو گلدستہ پیش کرکے اُن کو مبارک باددی ۔پروفیسر اکبر مسعود صاحب کے ایک گہرے دوست اور میرے بھی شفیق ورفیق محترم پرفیسر ارتضی ٰ کریم نے دہلی سے مجھے فون پہ یہ ذمہ داری سونپی کہ میں اُن کی جانب سے ایک شال اور گلدستہ مبارک باد کے طور پر پروفیسر اکبر مسعود صاحب کو پیش کروں ۔میں نے 18فروری2021ء کو ایک شال اور گلدستہ پیش کرنے کے علاوہ اپنی ایک تحقیقی وتنقیدی مضامین کی کتاب’’تناظر وتفکّر‘‘بھی پروفیسر موصوف کو پیش کی۔پروفیسر اکبر مسعود صاحب کشمیر یونیورسٹی میں تقریباً32سال کا طویل زمانہ گزارچکے ہیں ۔وہ سائنس کے پرفیسر کی حیثیت سے بہترین خدمات انجام دے چکے ہیں لیکن اردو شعر وادب کے شیدائی ہیں اسی لئے انھیں کچھ عرصے تک کشمیر یونیورسٹی کے شعبہء اردوکا صدر بھی بنایا گیا۔اُن کی بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی میں آمد کے ساتھ ہی انتظامیہ اور تدریسی شعبوں میں اک ہلچل سی شروع ہوگئی ۔وقت کی پابندی کے ساتھ تمام ملازمین نے اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھانا شروع کردیں ۔ پروفیسر اکبر مسعود صاحب کی وائس چانسلر شپ کا ایک تاریخ ساز کارنامہ جو سنہرے حروف سے لکھے جانے کے لائق ہے وہ یہ ہے کہ اُنھوں نے تمام شعبہ جات میں داخلے کی فیس پچاس فی صدی کم کروادی ۔کورونا وائرس کے باعث تمام ہوسٹل بند پڑے تھے۔تمام احتیاطی تدابیر کو اپناتے ہوئے آخری سمسٹر کے طلبہ وطالبات کو یونیورسٹی میں آنے کا نوٹس جاری کیا گیا ۔ہوسٹل میں رہائش پذیر طلبہ کے لئے کھانا پکانے والوں کو بھی ہدایات جاری کی گئیں کہ وہ ماسک ودیگر ضروری احتیاطی تدابیر کا خیال رکھیں۔اس طرح سے یونیورسٹی میں کلاس کلچر قائم کیا گیا۔پروفیسر جاوید مسرت صاحب نے 2017ء میں ایم اے اردو پروگرام شروع کروایا تھا لیکن دسمبر 2020ء میں اُنھوں نے اسے اکیڈمک کونسل میں اردو کا شعبہ منظور کروالیا ۔البتہ وہ شعبہء اردو کا آڈر نہیں نکال پائے تھے۔پروفیسر اکبر مسعود صاحب نے اپنی وائس چانسلر شپ میں باضابطہ شعبے کا آرڈر جاری کیااور مجھ جیسے معمولی آدمی کوشعبہء اردو کا رابطہ کار(Coordinator)بنایا گیا۔میں یہ نہیں چاہتا تھا کہ مجھے یہ ذمہ داری سونپی جائے لیکن اس کے باوجود میرے نام حکم نامہ جاری کیا گیا۔ علاوہ ازیں اسلامک اسٹڈیز پروگرام کو بھی شعبے کی حیثیت دی گئی اورڈاکٹر نسیم گل کو اس کارابطہ کار بنایا گیا۔ پروفیسر اکبر مسعود صاحب کی وائس چانسلر شپ کا ایک اور تاریخ ساز کارنامہ یہ بھی ہے کہ انھوں نے ہندی ،فارسی ،گوجری اور پہاڑی زبانوں میں ماسٹر ڈگری پروگرام کو منظوری دی۔ 25،اپریل2021کو بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی کے آئی ٹی ہال میں اُردو کا ایک مشاعرہ منعقد کیا گیا ۔ مشاعرے سے پہلے میری تحقیقی وتنقیدی کتاب’’ترسیل وتفہیم‘‘کی رسم رونمائی محترم پروفیسر اکبر مسعود ، جناب پروفیسر جی ایم ملک،جناب پروفیسر اقبال پرویز ،جناب محمد اسحاق رجسٹرار اورڈاکٹر شمس کمال انجم کے ہاتھوں ہوئی۔تقریباً مئی 2021 کے پہلے ہفتے میں کورونا وائرس کی دوسری لہر شروع ہوگئی ۔تمام ہندستان کی جامعات کی طرح بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری بھی بند کردی گئی۔میں جموں اپنے گھر چلا آیا ۔گھر میں رہتے ہوئے کچھ عرصے کے بعد ایم اے اردو کے چوتھے اور دوسرے سمسٹر کے امتحانات آن لائن شروع کئے گئے ۔تفصیلی سوالات کے بجائے 60 معروضی سوالات کے پرچے تیا ر کروائے گئے ۔امتحان کی تاریخ اور دوسرے ضروری امور کی ترسیل وآگہی سب آن لائن ہونے لگی۔میں ذاتی طور پر اپنے عزیز ساتھی ڈاکٹر محمد آصف ملک اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ اردو کا شکرگزار ہوں کہ اس میرے ساتھی نے گھروں میں بیٹھے طلبہ کے لئے تیار کیا ہواسوال نامہ بذریعہ لینک بھیجنے کی ذمہ داری نہایت خوش اسلوبی اور کامیابی سے نبھائی ۔وہ مجھ سے طلبہ کا ارسال کردہ جوابی لینک Award Roll کی صورت میں بھیجتے اور میں تمام طلبہ کے رول نمبر اور اُن کے حاصل شدہ نمبرات کو چیک کرنے کے بعد رابطہ کار کی مہر ثبت کرکے محترمہ نبیلہ نازنین ڈپٹی کنٹرولرکی میل پر بھیج دیتا۔کورونا وائرس کی دوسری لہر کے لاک ڈاؤن میں ،میںنے متعدد ادبی مضامین لکھے۔اُن کے علاوہ ’ ’آج میں کل تُو‘‘۔’’زندہ ماتم‘‘۔’’لاٹھی پہ ٹکا وجود‘‘۔’’کار بے کاراں‘‘۔’’پندرہ سولہ‘‘ اور’’کورونا کلچر‘‘جیسے افسانے لکھے ۔کورونا وائرس کی دوسری لہر میں کئی لوگ دُنیا سے چل بسے۔خاص کر اردو کے بڑے ادیب وشاعر راحت اندوری ،پروفیسر مظفر حنفی،پروفیسر شمیم حنفی،پروفیسر مناظر عاشق ہرگانوی،شمس الرحمن فاروقی،پروفیسر مولا بخش،مشرف عالم ذوقی،شوکت حیات،ترنم ریاض، پروفیسر ظفر احمد صدیقی،پروفیسر بیگ احساس اور مولانا وحید الدّین خان جیسے جیّد عالم دین وفات پاگئے۔میں نے مارچ2021ء سے اگست2021ء تک شعبہء اردو کی ذمہ داریاں نبھائیں ۔میرے ہی دور میں تین ریسرچ اسکالروںعرفان احمد ٹھوکر،ظفر اقبال نحوی اور سائمہ قیوم میرنے اپنے تحقیقی مقالے یونیورسٹی میں جمع کرائے۔ اُس کے بعد ڈاکٹر شمس کمال انجم صاحب کو یہ اعزاز دوبارہ حاصل ہوا کہ اُنھیں شعبہ ٔ اردو کا صدر منتخب کیا گیا۔مجھے بہت خوشی ہوئی ،میں نے شکرانے کے طورپر دو نفل پڑھے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر سے ایک بھاری ذمہ داری اُٹھوادی۔2021 ء میں میرے نام لکھے گئے مشاہیر ادب کے خطوط کو کشمیر کے ایک نوجوان محمد یونس ٹھوکر طٰہٰ نے ’’خوشبوؤں میں بسی یادیں ‘‘کے نام سے ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس دہلی سے شائع کرایا۔یہ کتاب 167صفحات پر مشتمل ہے جو ادبی حلقوں میں اپنے نام ومواد کے لحاظ سے بہت پسند کی گئی ہے۔غالباًجولائی 2021ء میں میزان پبلشرز سری نگر (کشمیر)نے بیک وقت میری تین کتابیں’’تنقیدی فکر وفن ‘‘( تحقیقی وتنقیدی مضامین )’’کہکشان خیال ‘‘( تحقیقی وتنقیدی مضامین ) اور’’زبان وبیان‘‘( تحقیقی وتنقیدی مضامین ) اپنے ادارے سے شائع کرائیں ۔ان کتابوں کی اشاعت سے مجھے بہت زیادہ خوشی اس لئے ہوئی کہ میزان پبلشرز نے انھیں اپنے خرچے پر شائع کیا تھا۔یہ بات بھی میری خوشی میں شامل ہے کہ 2021ء ہی میں میری اہلیہ اردو کی سینئر لیکچرر گریڈ میں آئی۔ اگست2021ء میں ایک اتوار کومیں نے تحصیل بدھل دیکھنے کا پروگرام بنایا ۔ بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی سے اپنی گاڑی میں سوار ہوا ۔ایک خوب صورت پہاڑی سلسلے کی سیر کرتے ہوئے میں جب کوٹ رنکا پہچا تو اسلامک اسٹڈیز کا ایک شریف ریسرچ اسکالر محمد اعظم میرا انتظار کررہا تھا ۔ وہ میری گاڑی میں بیٹھا ۔اونچے اونچے پہاڑی سلسلے کو عبور کرتے ہوئے ہم نے بدھل اور کوٹ رنکا کے درمیان سڑک سے نیچے ایک جگہ مچھلی گھر دیکھا ۔فوٹو کھینچے ۔دُور دُور تک ہرے بھرے مکئی اوردھان کے کھیت دیکھے۔پھر جب ہم خاص بدھل پہنچے تو وہاں کا ڈگری کالج دیکھنے چلے گئے ۔کالج کی جگہ اور عمارت بہت اچھی معلوم ہوئی ۔ایک ہوٹل پہ میں نے اور اعظم نے دن کا کھانا کھایا ۔اُس کے بعد نمازِظہر وہاں کی جامع مسجد میں پڑھی ۔تقریباً دن کے چار بجے ہم واپس راجوری کی طرف چل پڑے ۔اعظم، کوٹ رنکا کے پیٹرول پمپ پر اُتر گیا اور میں رات کو بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری کے مولانا آزاد ہوسٹل میں آگیا۔ 2،3نومبر2021ء کو گڑہنگل (مرمت) میں میرے سگے بھانجے آزاد کی شادی ہوئی تو میں یکم نومبرکو ہی اپنی اہلیہ اور بچّوں کے ساتھ مرمت اپنے آبائی علاقے میں چلاگیا۔میرے بڑے بھائی نذیر احمد وانی ،بھابھی،اُن کا بیٹا، بہواور پھول جیسے دو پوتے ساحر اور ذیشان بھیا کی گاڑی میں تھے اور ہم اپنی گاڑی میں ۔عسر(ضلع ڈوڈہ) چیک پوسٹ پرجونہی پہنچے تو ایک پولیس سب انسپکٹر نے میرے بیٹے رضاالرحمن کی گاڑی کا کورٹ چالان کردیا۔چالان اس بات پر کیا کہ ہماری گاڑی کے آلودگی سرٹیفکیٹ کی تاریخ ختم ہوچکی تھی ۔اُس نے ہمیں جلدبازی کی وجہ سے خواہ مخواہ مصیبت میں ڈالا ۔ہمیں ڈوڈہ کاچکر لگاناپڑا لیکن عدالت میں متعلقہ آفیسر نہ ہونے کی وجہ سے ہم گڑہنگل کی طرف چلے گئے ۔3نومبر2021ء کو برات تھی ۔میں اور میرا بیٹا براتیوں میں شامل تھے ۔برات گوہا سے ہوتے ہوئے میری اپنی جائے پیدائش سروال، گاؤں بہوتہ جارہی تھی ۔میری سب سے بڑی خالہ کی پوتی، محمد الطاف وانی کی بیٹی کے گھر یہ برات جارہی تھی ۔میں جب گوہا پہنچاتو اپنی پڑھائی کے دن یاد آئے وہ گلیاں ،کھیت کھلیان اور اپنے اساتذہ یاد آنے لگے ۔پھر جب ہم درنگا پہنچے تو اپنے وہ سارے دوست وساتھی یاد آنے لگے جن کے ساتھ میں جون ،جولائی کے مہینے میں درنگا نالے پر نہایا کرتا تھا۔کچھ ہی وقت کے بعد برات گواڑی (بہوتہ) پہنچی۔میرے خاندان کے چاچے،چاچیوں،چچیرے بھائیوں ،بہنوں اور گاؤں کے کئی بزرگوں اور جان پہچان والوں سے ملاقات ہوئی ۔مجھے اپنا بچپن ،لڑکپن ،جوانی اور ملازمت کا زمانہ یاد آیا۔علاقہ مرمت کے پہاڑوں ،ندی نالوں ،جنگلوں ،بیابانوں ،اوبڑ کھابڑ راستوں ،مکئی اور دھان کے کھیتوں کو دیکھتے دیکھتے خیالوں ہی خیالوں میںمیرے پورے وجود پہ مایوسی کی اک لہر دوڑ گئی ۔میری آنکھیں میرے گاؤں، خاندان اور علاقے کے بہت سے مرحومین کو دیکھنے کے لئے ترس رہی تھیں!یہ سوچ کے رہ گیا کہ آخر دُنیا سے جانے والے چلے جاتے ہیں کہاں! 15دسمبر2021ء کو بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری کے آڈی ٹوریم میں یوم تاسیس کی تقریب نہایت دھوم دھام سے منائی گئی ۔اسی پروگرام میں میرے افسانوں کا چھٹا مجموعہ’’آج میں کل تُو‘‘اور ڈاکٹر شمس کمال انجم کی تالیف کردہ کتاب’’بیاباں سے گلشن ہزار رنگ تک‘‘( بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی اور اُس کے بانی وائس چانسلرڈاکٹر مسعود احمد چودھری پر مبنی)کو وائس چانسلر محترم پروفیسر اکبر مسعود ،پروفیسر جی ایم ملک،پروفیسر اقبال پرویز اور رجسٹر رامحمد اسحاق کے ہاتھوں اجرا کیا گیا۔یوم تاسیس پروگرام کی شروعات ڈاکٹر ذاکر ملک بھلیسی کی تیار کردہ صدابند تصویری ویڈیوکے ساتھ کی گئی تھی اس ویڈیو میںباباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی کا مختصر تاریخی پس منظر بیان کیا گیا تھا۔ 28 ،اکتوبر 2021ء تک جناب ڈاکٹر شمس کمال انجم شعبۂ اردو کے صدر رہے ۔ اُس کے بعد جب اُنھیں ایسوسی ایٹ ڈین بنایا گیاتو اُنھوں نے وائس چانسلر محترم پروفیسر اکبر مسعود کی خدمت میں اپنی عرضی پیش کی کہ وہ اردو کے کسی اسسٹنٹ پروفیسر کو رابطہ کار(Coordinaror) بنائیں۔بہرحال اُن کی عرضی کو شرف قبولیت حاصل ہوگیا جس کے نتیجے میں ڈاکٹر لیاقت حسین نیرؔاسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ اردو کو رابطہ کار (Coordinaror) کی ذمہ داری سونپی گئی ۔اُن کے دور میں عرفان احمد ٹھوکر،ظفر اقبال نحوی اور سائمہ قیوم میر کا زبانی امتحان( Viva Voce )ہوا۔10جنوری2022ء کوعرفان احمد ٹھوکر کا آن لائن وائیواہوا ،اُس کے ممتحن جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے پروفیسر خواجہ اکرام الدّین تھے۔11جنوری2022ء کو ظفر اقبال نحوی کا آن لائن وائیوا ہوا،اُس کے ممتحن کلکتہ یونیورسٹی کے شعبۂ اردو کے صدر جناب پروفیسر دبیر احمدتھے۔18جنوری کو سائمہ قیوم میر کا آن لائن وائیوا ہوا ،اُس کے ممتحن سابق صدر شعبۂ اردوکشمیر یونیورسٹی کے پروفیسر قدوس جاوید تھے۔اس طرح بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری کے شعبۂ اردو کے یہ پہلے تین ریسرچ اسکالر زہیں جنھیں 2022 میںپی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی گئی ۔ دسمبر 2021ء میں ڈاکٹر محمد حسین وانی کے تحقیقی مقالے ’’مشتاق احمدوانی:حیات اور ادبی خدمات‘‘کو قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی نے اشاعت کے لئے54000 روپے مالی تعاون کے طور پر منظورکئے۔یہ بات میرے اور ڈاکٹر محمد حسین وانی کے لئے بہت بڑی خوشی کی بات ثابت ہوئی ۔ڈاکٹر محمد حسین وانی کو دسمبر 2018 ء میں اندور یونیورسٹی (مدھیہ پردیش ) نے ’’مشتاق احمد وانی:حیات اور ادبی خدمات‘‘کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض کردی تھی ۔وہ اپنے اس تحقیقی مقالے کوکتابی صورت دینا چاہتا تھا جس کے لئے وہ مالی طور پر تیار نہیں تھا۔ڈاکٹر شیخ عقیل احمد (ڈائریکٹر قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی )کو میں اور ڈاکٹر محمد حسین وانی تادم حیات نیک دُعاؤں میں یاد رکھیں گے کہ جس مخلص اور علم وادب کے شیدائی نے اس مقالے کو اس لائق سمجھا کہ اسے مالی معاونت دی جائے ۔بہرحال ڈاکٹر محمد حسین وانی کا تحقیقی مقالہ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس دہلی نے جنوری2022ء میں دیدہ زیب کتابی صورت میں شائع کردیا۔میرے نام وپتے پہ ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس نئی دہلی نے 20کاپیاں جموں بھیج دیں ۔کتاب کو دیکھ کر میری خوشی کی کوئی انتہا نہیں رہی ۔مجھ جیسے معمولی آدمی کو اللہ نے کتنی عزت دی،شہرت دی اور کیاکیا نہ دیا ۔اس احساس نے مجھے یہ سوچنے پر آمادہ کیا کہ اگر میں زمین کے چپے چپے پر ناک ر گڑتے ہوئے اللہ کا نام لے لے کر سجدہ کروں تب بھی میں اللہ کا شکر ادا نہیں کرپاؤں گا۔دراصل یہ سب اللہ کی مجھ پہ نظر کرم ہے کہ میں نے جس بھی نیک کام کو کرنا چاہا تو اللہ تعالیٰ کی غیبی مدد قدم قدم پہ میرے شامل حال رہی ۔2022ء جنوری ہی میں میرے شاگرد ڈاکٹر ظفر اقبال نحوی نے میری ادبی تصانیف پر لکھے مشاہیر ادب کے مضامین کو ’’مشتاق احمد وانی کی فنکارانہ صلاحیتیں‘‘کے نام سے ترتیب دیا اور اس کتاب کو بھی ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس دہلی ہی نے شائع کیا ۔اس کتاب میں 36قلمکاروں کے مضامین شامل ہیں ۔اس کتاب کے اندرونی وبیرونی گیٹ اپ کو دیکھ کر میرا دل خوشی سے جھوم اُٹھا۔میرے دل سے بے ساختہ طور پر اپنے عزیز شاگرد ڈاکٹر ظفر اقبال نحوی کے لئے نیک دُعائیں نکل گئیں ۔اللہ اس محنتی اور شائستہ نوجوان کو کامیابیوں سے نوازے ،آمین!ا س کے علاوہ اپریل 2022ء میں ڈاکٹر ظفر اقبال نحوی نے میرے تبصرے،تجزیے اور انٹرویوز کو ’’ہر لفظ سے خوشبو آئے‘‘کے نام سے مرتب کرکے ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس دہلی سے شائع کرایا ۔ میں نے 22۔2021میں جنتی بھی کتابیں شائع کروائی وہ یکے بعد دیگرے محترم پروفیسر اکبر مسعود کو پیش کیں ۔انھوں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے مجھے مبارک باد دی۔وائس چانسلر محترم اکبرمسعود شریف،محنتی اور اصول پرست آدمی کو بہت پسند کرتے ہیں۔ اب ڈاکٹر ظفر اقبال نحوی میرے 26نمائندہ افسانوں کو ’’مشتاق احمد وانی کے بہترین افسانے‘‘کے عنوان سے شائع کروانے جارہا ہے۔اللہ کرے اُس کی یہ کتاب بھی بہت جلد زیور طباعت سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آجائے۔ 17 فروری 2022ء کو جب میں جموں سے بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری میں آیا تو میں نے اُسی دن ڈاکٹر ظفر اقبال نحوی کی مرتب کردہ کتاب ’’مشتاق احمد وانی کی فنکارانہ صلاحیتیں‘‘محترم پروفیسر اکبر مسعود وائس چانسلر کو پیش کی ۔اُن کے خوبصورت کشادہ کمرے میں جناب پروفیسر اقبال پرویز ڈین آف اکیڈمک افئیرس اور جناب محمد اسحاق رجسٹرار بھی بیٹھے ہوئے تھے ۔محترم پروفیسر اکبر مسعود مجھے دیکھ کر خوش ہوئے ۔کتاب دیکھ کر مجھے مبارک بادی ۔پھر میں نے اُن سے یہ خواہش ظاہر کی کہ آپ کے ساتھ ایک تصویر کھچوانے کی تمنّاہے ۔وہ فوراً اُٹھ کھڑے ہوئے ،جناب اقبال پرویز اور جناب محمد اسحاق کو بھی اپنے ساتھ کھڑے ہوکر فوٹو کھچوانے کو کہا۔میری یادوں کے البم میں ایک اور اضافہ ہوگیا ۔پھر اُنھوں نے قہوہ منگوایا ہم سب قہوہ پینے لگے ۔اُنھوں نے بہت مفید باتیں بتائیں ۔میرا دل خوش ہوا ۔اسی روز ایک بجے اُنہی کی فرمائش پر آئی ٹی کانفرنس ہال میں مشاعرہ رکھا گیا تھا ۔جس میںیونیورسٹی اور راجوری قصبے سے تعلق رکھنے والے شاعروں نے اپنا کلام سنایا ۔ 21فروری2022ء کو بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری کے شعبۂ اسلامک اسٹڈیز کے ایک کم گو ،ذہین،خوش اخلاق،محنتی ،انگریزی،اردو اور گوجری کے امام چالیس کتابوں کے مصنف جناب ڈاکٹر رفیق انجم کا ایک ایسا خواب شرمندۂ تعبیر ہوا کہ جو اُنھوں نے جاگتی آنکھوںایک طویل مدت سے دیکھا تھا اور اُن کا وہ خواب تھا کہ یونیورسٹی میں گوجری،پہاڑی اور کشمیری ان تینوں زبانوں کا ایک خاص مقام پہ ریسرچ سینٹر ہو ۔اللہ کے فضل سے جناب ڈاکٹر رفیق انجم کی انتھک محنت اورکوششیں رنگ لائیں کہ اُنھوں نے بڑے ذوق وشوق سے اس سینٹر کو یونیورسٹی کے احاطے ہی میں سب رنگ کے پاس محترم وائس چانسلر پروفیسر اکبر مسعود کے ہاتھوں افتتاح کرایا ۔21فروری چونکہ دُنیا میں یومِ مادری زبان کے طور پر منایا جاتا ہے ،اس لئے اس روز ایک مخلوط مشاعرے کا بھی اہتمام کیا گیا جس میں جناب ڈاکٹر شمس کمال انجم نے صدارت کی ۔ڈاکٹر رفیق انجم نے گوجری میں غزل سنائی،پرویز ملک نے پہاڑی میں،ڈاکٹر لیاقت حسین نیئر نے بھی پہاڑی میں اپنا کلام سنایا،ڈاکٹر نسیم گل نے کشمیری میں ،میں نے اپنی رفیقۂ حیات کی مادری زبان ڈوگری میں نظم سنائی۔ڈاکٹر شمس کمال انجم نے عربی اور اردو میں غزل ترنم سے سُنائی ۔ڈاکٹر رفیق انجم کی ایک تمنا یہ بھی تھی کہ یونیورسٹی کے کوارٹر وں میں رہائش پذیر ملازمین کے بچّوں کے کھیلنے کے لئے کوئی پارک ہو۔دسمبر 2021ء کے آخری ہفتے ہیں اُنھوں نے وائس چانسلر محترم پروفیسر اکبر مسعود سے مشورہ کرکے سب رنگ کے قریب ایک خالی پڑی جگہ کو ’’بازیچۂ اطفال ‘‘کانام دیا اور وہاں ایک پارک تعمیر کروائی۔ 3مارچ2022ء کو میں ان شا اللہ اس دُنیا میں62سال کا ہوجاؤں گا ۔یعنی اس جہان فانی کے سرد وگرم موسم ،یہ چاند ،سوج اور ستارے ،آگ، پانی اور ہوا،شہروں اور دیہاتوں کی زندگی ،چرندے ،پرندے اور درندے، دشت وصحرا ،پہاڑ،دریا ،ندی نالے اور سمندر غرضیکہ ان تمام مظاہر فطرت کو دیکھتے دیکھتے اور زندگی کے مسائل ومعاملات کو سلجھاتے سلجھاتے اب میں بوڑھا ہورہا ہوں بالکل اُسی پھلدار پودے کی مانند کہ جو گردش دوراں میں تناور درخت کی صورت اختیار کرلیتا ہے ۔پھل دیتا ہے اور پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ اُس میں پھل دینے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے ۔اُس کی شاخیں ٹوٹ پھوٹ جاتی ہیں اوربالآخر وہ ایک ٹھونٹھ کی طرح رہ جاتا ہے۔ مجھے خوشیوں ،تلخیوں ،ناانصافیوں اور کامیابیوں کے شیریں وکڑوے گھونٹ پینے کا موقع ملا۔لیکن بہ فضل اللہ میں نے ہمت وحوصلے سے کام لیا ۔میں اللہ کے رحم وکرم سے زندہ تھا،زندہ ہوں زندہ رہوں گا۔یعنی کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جب تک حلال ختم نہیں ہوگا حرام نہیں کھاؤں گااور جب تک سچ ختم نہیں ہوگا جھوٹ نہیں بولوں گا۔اللہ رب العزت نے چاہا تو میں31مارچ 2022ء کو باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری کے شعبہ ء اردو سے بحیثیت اسسٹنٹ پروفیسر سبکدوش ہوجاؤں گا۔کل کیا ہوگا ؟یہ اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ہے ۔دنیا اُمید وں پہ قائم ہے۔میں یہ سطور18فروری2022کو رات کے 9بجے لکھ رہاہوں۔ زندگی کے سفر میں مجھ سے کون کہاں ملا اور کہاں بچھڑ گیا ۔یہ ذکر کرنے بیٹھوں تو سینکڑوں صفحات کی ضروت پڑے گی ۔میںنے دوستی کے نام پہ دشمنی کا زہر بہت پیا ہے ۔البتہ یہ بات میری خوشی اور خوش نصیبی میں شامل ہے کہ میری دوستی کا حلقہ نہ صرف ہندوستا ن بلکہ بیرون ہند تک پھیلا ہوا ہے۔ادب کی دُنیا میں سانس لینے والوں میں جن کے ساتھ میرے ادبی تعلقات رہے ہیں اُن میں صوبہ جموں کے جناب نذیر قریشی،محمد نذیر قریشی، عبدالسّلام بہار، ولی محمد بٹ اسیر کشتواڑی،جناب جگدیش راج راناعشاق ؔکشتواڑی،خالد حسین ،بلراج بخشی ،آنند سروپ انجم، آنند لہر(مرحوم) محمدامین بنجارا( بنجارا صاحب کے بھی مجھ پر بہت سے احسانات ہیں)ٹی آر ۔رینہ،محمد امین بانہالی،مشتاق فریدی،ڈاکٹر یش پال شرما،ڈاکٹر کرن سنگھ،پیارے ہتاش،اوم پرکاش شاکر،شام طالب،ہریش کیلا،کے ڈی مینی،ذلفقار علی نقوی،ڈاکٹر دلجیت ورما،ڈاکٹر عاشق چودھری،ڈاکٹر مول راج،پروفیسر مشتاق قادری، ڈاکٹرجاوید راہی ،ڈاکٹر شاہد رسول،ڈاکٹر امجد علی بابر،سوتنتر دیو کوتوال،مہاراج کرشن، نواب دین کسانہ ،ڈاکٹر طارق تمکین کشتواڑی، ڈاکٹر شاہ نواز،ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی ،ڈاکٹر محمد اعظم،نثار راہی ،خورشید احمد بسملؔ، پروفیسر بشیر ماگرے ،پروفیسر جاوید مغل ، ایم کے وقار، ڈاکٹر شکیل رعنا،اقبال رعنا ، اقبال نازش ،عبدالقیوم نائیک ،عمرفرحت،علمدار عدم ،ڈاکٹرعاشق چودھری، ڈاکٹر ریاض احمد پونچھی،الطاف حسین جنجوعہ، ارشد کسانہ(میرے اس عزیز نے میرے افسانوں کو یوٹیوب کے ذریعے عوام تک پہنچانے میں میرا ساتھ نبھایا ہے) محتشم احتشام اور منشور بانہالی وغیرہ شامل ہیں ۔ میرے سسرالی قصبہ چہنینی میں جن احباب کے ساتھ میرا وقت گزرا ہے یا جن کو میں نے اپنی طبعیت کے ہم آہنگ پایا ہے اُن میں جناب پرشوتم چند انتال،جناب راجندر چند انتال رٹائرڈ زونل ایجوکیشنل آفیسر چہنینی، جناب اشوک کمار کھجوریہ،سریندر کمار رٹائرڈ لیکچرراقتصادیات اور سدھ مہادیو کے کلدیپ کمار کساتہ کہ جن کے ساتھ میرے دوستانہ تعلقات برقرار ہیں ۔میں جناب پرشوتم چند انتال رٹائرڈ لکچرر انگریزی کا شکریہ ادا کرنا لازمی سمجھتا ہوں کہ جس زمانے میں، میں روہیل کھنڈ یونیورسٹی بریلی سے اردو میں ڈی لٹ کررہا تھا تو فارم بھرنے سے لے کر ڈگری تفویض ہونے تک بہت سے دفتری دستاویزات میں نے انگریزی میں انتال صاحب سے لکھوائے تھے۔اُن کی شرافت اور سلیقہ شعاری نے مجھے بہت متاثر کیا ہے ۔اسی طر زفکر وطرز عمل کے جناب اشوک کمار کھجوریہ بھی ہیں وہ چہنینی ہائر اسکنڈری اسکول میں انگریزی کے لکیچرر کی حیثیت سے سبکدوش ہوچکے ہیں ۔ جموں اور راجوری کے درمیان دریا کے کنارے ایک خوب صورت شہر بسا ہے جسے اکھنور کہتے ہیں یعنی آنکھ کا نُور ۔اس شہر میں میرے ایک دوست جناب اوم پرکاش شاکرؔ(اوپی شاکر) رہتے ہیں ۔اردوکے افسانہ نگار اور شاعر کی حیثیت سے لوگ اُنھیں جانتے ہیں ۔شرافت،سادگی اور سفید کاغذ جیسا دل ودماغ رکھنے والے اس شخص کے ساتھ میرے دوستانہ تعلقات میری یادوں کے البم میں محفوظ ہیں ۔ہماری فون پہ آپس میں باتیں ہوئی ہیں اور گاہے بگاہے ملاقاتیں بھی ہوئی ہیں ۔ جموں کے مقابلے میں کشمیر میں میرے ادب نواز وادب شناس بزرگوں اور دوستوں کی تعداد زیادہ ہے۔کشمیر کے وہ ادبا وشعرا کہ جنھوں نے میری حوصلہ افزائی کی یا جن کی تحریریں پڑھ کر میں نے لکھنا سیکھا،اُن میں جناب نُور شاہ،غلام نبی خیال،محمد یوسف ٹینگ، شبنم قیوم، شیخ بشیر احمد، وحشی سعید، پروفیسر محمد زماں آزردہ ،رفیق راز،شفق سوپوری،نذیر آزاد،ڈاکٹر نذیر مشتاق،نذیر جوہر،راجہ نذر بونیاری، پریمی رومانی،دیپک کنول، ابن اسماعیل، اشرف آثاری،ڈاکٹر مشتاق احمد گنائی،ڈاکٹر تسکینہ فاضل ،دیپک بُدکی،پروفیسر بشیر احمد نحوی، علی شیدا،رحیم رہبر،مقبول فیروزی، اشرف عادل ،بشر بشیر،ستیش ومل، ترنم ریاض،شبنم عشائی ،رخسانہ جبیں،نسرین نقاش،زاہد مختار،جاوید آزر،ش م احمد،عرفان ترابی ،کے علاوہ میرے ہم عمر وہم عصر دوستوں میں ڈاکٹر پرویز اعظمی،ڈاکٹر راشد عزیز،ڈاکٹر نصرت جبیں اور ڈاکٹر الطاف نقش بندی ،پرویز مانوس، ڈاکٹر ریاض تو حیدی،ناصر ضمیر،راجہ یوسف،طارق شبنم،سلیم سالک ،سلیم ساغر ،ڈاکٹر مشتاق حیدر،ڈاکٹر عرفان عالم، ڈاکٹر الطاف انجم ،ڈاکٹر منصور احمد منصور،ڈاکٹر گلزار احمد وانی،نیلوفر ناز نحوی،ڈاکٹر نگہت فاروق نظر،ڈاکٹر فیض قاضی آبادی،ڈاکٹر محمد اقبال لون،خالد بشیر تلگامی،ڈاکٹر شاہ فیصل ،مشتاق مہدی ، ڈاکٹر محمد شفیع ایاز،ڈاکٹر فلک فیروز،ڈاکٹر فردوس احمدبٹ،سبزار احمد بٹ،سہیل سالم،زاہد ظفراور بشیر اطہر خانپوری یہ وہ ادیب ہیں جن کو میںنے اخبارات ورسائل میں کہیں کہیں ضرور پڑھا ہے ۔نئی نسل میں بھی کچھ باصلاحیت نوجوان اردو ادب کی طرف بڑی شان وشوکت سے آرہے ہیں ۔اُن میں ڈاکٹر محمد حسین وانی،ڈاکٹر غلام نبی کمار ، ارشد کسانہ،ایس معشوق احمد اورڈاکٹر محمد یونس ٹھوکرشامل ہیں ۔ صوبہ لداخ میں عبدالغنی شیخ لداخی اردو ادب کا ایک مینار ہے جن کی ادبی خدمات کا اعتراف ملک بھر کے اہم ناقدین ومحققین نے کیا ہے ۔میں نے ذاتی طور پر عبدالغنی شیخ لداخی کی بہت سی کہانیاں اورمضامین پڑھے ہیں ۔ایک اچھے ادیب کی تمام خوبیاں اُن میں موجود ہیں ۔عبدالرّشید راہگیر اورشبیر مصباحی بھی لداخ سے تعلق رکھتے ہیں جن کے نام سے میں واقف ہوں اور فون پر بھی اُن سے باتیں ہوئی ہیں ۔ آیئے اب میں آپ کوجموں کشمیر سے باہر کے اُن ا دیبوں ،شاعروں اور میرے خیر خواہوںکے بارے میں بتاؤں کہ جو میرے حلقہ ء احباب میں شامل ہیں ۔میں یہاں اُن تمام دوست واحباب کے نام بھی درج کروں گا جو اب دُنیا میں نہیں ہیں اور اُن کے نام بھی جو حال حیات ہیں ۔ مشرقی پنجاب (چندی گڑھ ) کے مشہور فکشن نگار کشمیری لال ذاکر (آنجہانی)، شرون کمار ورما(آنجہانی) ڈاکٹر نریش،سلطان انجم،محترمہ رینو بہل،محمد بشیر ملیر کوٹلوی،سالک جمیل براڑ،روبینہ شبنم،ملکیت سنگھ مچھانا،اشرف محمود نندن ،کیول دھیر ،ایم انوار انجم کا تعلق ملیر کوٹلہ پنجاب سے ہے۔ دہلی، ہندوستان کا دل کہی جاتی ہے ۔اس بڑے شہر اور ہندوستان کے دارالخلافہ میں ادیبوں کی ایک بہت بڑی دُنیا آباد ہے ۔ میرا جن ادیبوں سے واسطہ رہا ہے اُن میں بہت سے اب اس د ُنیا میں نہیں ہیں۔ پروفیسر مظفر حنفی (مرحوم ) محترم پروفیسر گوپی چند نارنگ ، پروفیسر ارتضی ٰ کریم،ڈاکٹر خلیق انجم (مرحوم )،پروفیسر غضنفر علی،پروفیسرقاضی عبیدالرحمن ہاشمی،پروفیسر شہزاد انجم،ڈاکٹر خالد اشرف،فاروق ارگلی،حقانی القاسمی،خان رضوان،ڈاکٹر شیخ عقیل احمد،پروفیسر ابن کنول،پروفیسر محمد حسن (مرحوم )،پروفیسر انور پاشا،پروفیسر عبدالحق،ڈاکٹر شمع افروز زیدی،نگار عظیم،مخمور سعیدی (مرحوم )،مشتاق صدف،انیس امروہوی،پریم گوپال متّل، صدیق الرحمن قدوائی ،شاہد حسین ،جوگندرپال (آنجہانی)،پروفیسر محمد صادق،پروفیسر قمر رئیس (مرحوم )،اظہار اثر (مرحوم )،اقبال انصاری،پروفیسر عتیق اللہ،خواجہ اکرام الدّین،علی جاوید،انجم عثمانی (مرحوم ) رفعت سروش(مرحوم ) اے۔ آر۔ رحمن ، ڈاکٹر پرویز شہر یاراور ڈاکٹر احمد علی برقی اعظمی۔میرٹھ میں میرے دوست اور مشہور فکشن نگار پروفیسر اسلم جمشید پوری ،بی ایس جین جوہرؔ (آنجہانی) ،ڈاکٹر ارشاد سیانوی اور ڈاکٹر ابراہیم افسر کو میں بہتر جانتا ہوں۔اسی طرح علی گڑھ میں پروفیسر ابولکلام قاسمی( مرحوم) مجیب شہزر،رفیق شاہین،طارق چھتاری،احمد رشید،قاضی عبدالسّتار(مرحوم ) صلاح الدین پرویز(مرحوم )شافع قدوائی،جبار راجن(مرحوم )پروفیسر محمد زاہد (مرحوم )پروفیسر شہاب الدّین ثاقب کو میں جانتا ہوں۔رام پور میں میرے انتہائی شفیق ،مخلص اور میرے خیرخواہ ڈاکٹر شریف احمد قریشی صاحب کے احسانات میں کبھی بھول نہیں سکتا ۔ڈاکٹر اطہر مسعود کے ساتھ بھی میری رفاقت ہے۔روہیل کھنڈ یونیورسٹی بریلی کے آر۔ کے۔ ناگراور رتن لعل مجھے یاد ہیں ۔اُن کے ساتھ میں نے موبائل فون پہ اور بالمشافہ بھی ملاقاتیں کی ہیں ۔ڈاکٹر محمد مستمر میرا دوست ہے ۔الہ آباد میں پروفیسر علی احمد فاطمی،شائستہ فاخری،نظام صدیقی ،شمس الرحمن فاروقی(مرحوم) اور اجے مالوی کو میں نے دیکھا ہے اُن سے باتیں ہوئی ہیں ۔ بہار سے تعلق رکھنے والے اردو ادب کے جن ستاروں سے میں نے روشنی حاصل کی ہے، اُن میں مناظر عاشق ہرگانوی صاحب کانام سرفہرست ہے ۔اُن کے علاوہ عبدالصّمد،مشتاق احمد نوری،اختر آزاد،شوکت حیات،حسین الحق(مرحوم)امتیاز احمد کریمی،شموئل احمد،ڈاکٹر حسن رضا،منصور خوشتر،پروفیسر وہاب اشرفی(مرحوم)،محترمہ ذکیہ مشہدی، قمر جہاں،ولی اللہ ولی،ڈاکٹر مشتاق احمد،مراق مرزا،محمد کاظم،گوہر شیخ پوروی،ڈاکٹر اعجاز علی ارشد ،قاسم خورشید،عطا عابدی،فاروق راہب(مرحوم)الیاس احمد گدی(مرحوم)،علیم اللہ حالی،عبدالحی خان اور شاہد اختر ،قسیم اختر،ڈاکٹر احمد علی جوہر،پٹنہ یونیورسٹی سے وابستہ ڈاکٹر اسلم آزاد،ڈاکٹر شہاب ظفر اعظمی،پروفیسر جاوید حیات،ڈاکٹر زرنگاریاسمین محترمہ کہکشاں انجم، محترمہ کہکشاں پروین اوراحمد صغیر۔جھارکھنڈ میں ڈاکٹر ہمایوں اشرف،ڈاکٹر اقبال حسین ،شان بھارتی( مرحوم) ایم اے حق( مرحوم) مدراس میں علیم صبا نویدی اردو شعر وادب کے ایک روشن مینار کی حیثیت رکھتے ہیں ۔اُن کی بہت سی کتابیں میرے پاس موجود ہیں ۔لکھنو میں رام لعل (آنجہانی) ا نیس اشفاق ،پروفیسرفضل امام (مرحوم ) مخمور کاکوروی،عذراپروین صاحبہ،غزال ضیغم،ریحانہ عاطف خیر آبادی،حیدر آباد میںمیرے چاہنے والوں میں مجتبیٰ حسین(مرحوم)پروفیسر بیگ احساس( مرحوم) ڈاکٹر محمد انوار، پروفیسر مجید بیدار،پروفیسر ابولکلام، محترمہ ڈاکٹر عرشیہ اور افروز سعیدہ۔ مہاراشٹر میں پروفیسر حمیداللہ خان، محترمہ صادقہ نواب سحر،نورالحسنین،معین الدّین عثمانی ، پونے میں نذیر فتح پوری، ڈاکٹر محبوب راہی ،خلیل انجم(مرحوم) مالیگاؤں میں ہارون اختر،ایم مبین، عتیق احمد عتیق ، احمد عثمانی(مرحوم)ہارون بی اے(مرحوم)۔بمبئی میں افتخار امام صدیقی(مرحوم)سلام بن رزاق ،امتیاز گورکھپوری اور نور جہاں نور۔بنگلور میںمحترمہ فریدہ رحمت اللہ،راجستھان میں محمد شاہد پٹھان ،ثروت خان صاحبہ اور عزیزاللہ شیرانی کے ساتھ میرے دوستانہ تعلقات ادبی بنیادوں پر قائم ہیں ۔آگرہ میں دل تاج محلی اور سید اختیار جعفری،محمد قیوم مئیو( مرحوم)۔ کلکتہ میں نوشاد مومن ،شبیر احمد، حلیم صابر ، محترمہ شہنازنبی اورپروفیسر دبیر احمد۔ وشاکھا پٹنم میں عثمان انجم(مرحوم)۔ مدھیہ پردیش کے عبدالوحید واحد اور رونق جمال۔ ہماچل پردیش میں ڈاکٹر شباب للت(آنجہانی) اورڈاکٹر یوگ راج میرے چاہنے والوں میں شمار ہوتے ہیں۔ پاکستان کے مشہور پبلشر ارسلان رضا میرے دوست ہیں ۔فون پر کبھی کبھی ملاقات ہوجاتی ہے ۔مجھے اس بات کی بھی خوشی ہورہی ہے کہ وہ میری کتاب’’اردو ادب میں تانیثیت‘‘کو اپنے اشاعتی ادارے سے شائع کرنا چاہتے ہیں ۔یہاں یہ بات یاد رہے کہ بہت سے نام میری یاداشت میں نہیں رہے ہیں میں یقین سے کہتا ہوں کہ میرا واسطہ اور بھی بہت سے لوگوں کے ساتھ رہا ہے۔ میں نے آج تک جن سیمیناروں،کانفرنسوں،ورک شاپس اورمختلف کالجوں میں لیکچر دینے کے علاوہ آن لائن ادبی پروگراموں میں حصہ لیا ہے۔اس حوالے سے بھی میری یادوں کے البم میں کچھ اوراق محفوظ ہیں ،چاہتا ہوں اُن کا بھی یہاں ذکر کردوں ۔20دسمبر2002ء میں جب میں گورنمنٹ کالج آف ایجوکیشن جموں میں بی ایڈ کی ٹرینگ کررہاتھاتومیں نے 9دن کا این ایس ایس کیمپ جوائن کیاتھا۔30،اکتوبر 2013ء کومیرے ایک دوست ڈاکٹر رشید خان نے مجھے اور ڈاکٹر طارق تمکین کشتواڑی کو اپنے کالج گورنمنٹ ڈگری کالج بیروہ( کشمیر) میں یک روزہ سیمینار میں مدعو کیا ۔یہ سیمینارقومی کونسل کے مالی اشتراک سے منعقد کیا گیا تھاجس کا موضوع تھا’’اردو افسانے میں قومی یکجہتی اورحبّ الوطنی‘‘میں نے اس سیمینار میں ’’صوبہ جموں کے اردو افسانے میں قومی یکجہتی‘‘ پر اپنا مقالہ پیش کیا تھا۔16جون 2014 ء سے 21جون 2014ء تک میں نے اسٹیٹ انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن جموں میں اساتذہ کو اردو تدریس پر لیکچر دیا۔مارچ 2014ء سے مئی 2014ء تک میں نے جموں کے ایک پرائیویٹ ادارے میں کمپیوٹر کورس کیا(اُن دنوں میری ڈیوٹی گورنمنٹ ہائی اسکول بجالتہ،زون گاندھی نگر(جموں)میں تھی ،میں اسکول سے چھٹی کے بعد دوگھنٹے کچی چھاونی جموں میں کمپیوٹر سیکھنے جاتا تھا)۔15،16مارچ2014ء کو میں نے افسانہ کلب ملیر کوٹلہ پنجاب کے زیر اہتمام دوروزہ قومی سیمینار میں شرکت کی جس میں میں نے پنجاب کے ایک گمشدہ افسانہ نگار پر مقالہ پڑھا۔11نومبر2014ء کو میں نے گورنمنٹ ڈگری کالج ادھم پور میں’’ اردو ادب میں تانیثیت‘‘ پر لیکچر دیا۔8جون 2015ء سے 13جون 2015ء یعنی پانچ دن تک میں نے اسٹیٹ انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن جموں میںاردو تدریس پر اساتذہ کو لیکچر دیا۔19دسمبر سے23دسمبر 2015ء تک میں نے نیشنل کونسل آف ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹرینگ(NCERT) نئی دہلی میںپانچ دن کی ایک ورک شاپ میں حصہ لیا۔جموں سے ہوائی جہاز کے ذریعے دہلی پہنچا ۔اس ورک شاپ میں ہندوستان کی چند ریاستوں کے اساتذہ نے شرکت کی تھی ۔پروفیسر قاضی عبیدالرحمن ہاشمی،پروفیسر شاہد حسین اور پروفیسر غضنفر علی کے لیکچرز سننے کا موقع ملا تھا۔9،10مئی 2015ء کو ملیر کوٹلہ پنجاب کے دوروزہ قومی سیمینار میں شرکت کا موقع ملا۔ محمد بشیر ملیر کوٹلوی اور سالک جمیل براڑ نے اس سیمینار کو منعقد کیا تھا۔اس سیمینار کے ایک سیشن میں میں نے اپنامقالہ پڑھا تھا اور دوسرے سیشن میں اپنا مختصر افسانہ ’’سر گوشی ‘‘پڑھا تھا۔23،24مارچ 2016ء کو کشمیر یونیورسٹی کے فاصلاتی نظام تعلیم کے زیر اہتمام’’اردو افسانہ :مزاج ومنہاج‘‘کے موضوع پر دو روزہ قومی سیمینار منعقد کیا گیا تھا ،مجھے بھی اس سیمینار میں شریک ہونے کا موقع ملاتھا۔میں اور میرے ساتھ پنجاب کے ایک سینئر فکشن نگار محمد بشیر ملیر کوٹلوی ایک ساتھ سنجواں جموں سے کشمیر کے لئے روانہ ہوئے تھے بانہال تک میرے ہم ذلف عبدالحق تانترے نے میری گاڑی چلائی تھی ۔وہ وہاں سے میری گاڑی چلاکر واپس جموں چلے آیا تھا اور ہم رات کو بانہال ایک ہوٹل میں ٹھہرے تھے ۔دوسرے دن بانہال سے ریل میں سوار ہوکر کشمیر یونیورسٹی میں پہنچ گئے تھے۔اس سیمینار میں پروفیسر غضنفر علی اور ترنم ریاض بطور خاص مہمان شریک ہوئے تھے ۔میں نے اس سیمینارکے افتتاحی اجلاس کے دوسرے سیشن میں اپنا تحریر کردہ افسانہ ’’ہاتھ میں ڈنڈا منہ میں گالی ‘‘پڑھ کر سُنایا تھا اور دوسرے دن ڈاکٹر عرفان عالم ایسوسی ایٹ پروفیسر اردو سینٹرل یونیورسٹی آف کشمیرکے لکھے افسانہ’’ ستی‘‘پر ایک تجزیاتی مضمون پڑھاتھا۔اُسی روز میں نے گھر سے یہ مایوس کن خبر سُنی تھی کہ میرے چچا عزیزالدّین وانی دُنیا سے چل بسے!میں اُسی روز ایک ٹیمپو میں سوار ہوکر رات کو چہنینی پہنچ گیا تھا۔13،نومبر2016ء کو اپنے ایک دوست کی دعوت پر میں یک روزہ قومی سیمینار میں شرکت کے لئے دہلی چلا گیا تھا جہاں میں نے جموں وکشمیر کا اردو سے رشتہ‘‘کے موضوع پر مقالہ پڑھا تھا۔اس سیمینار کا موضوع تھا ’’اردو اور دیگر ہندوستانی زبانوں کا لسانی اور تہذیبی رشتہ‘‘۔14،فروری سے17فروری2017ء تک میں نے جموں ستواری ہائی اسکول میں اردو تدریسی وتحقیقی مرکز سپرون سولن (ہماچل پردیش)کی جانب سے منعقدہ ایک ورک شاپ میں اساتذہ کو تدریس اردو پر لیکچر دیا تھا۔ میرے دوست ڈاکٹر یوگ راج اردو ٹیچینگ اینڈ ریسرچ سینٹر کے ڈائریکٹر نے مجھے اس ورک شاپ میں مدعو کیا تھا۔15اور16،مارچ 2017ء کو میں نے گورنمنٹ پوسٹ گریجویٹ کالج راجوری میں دوروزہ قومی کانفرنس میں شرکت کی تھی جس میں، میں نے ’’اکیسویں صدی میں اردو تنقید ‘‘پر اپنا مقالہ پڑھا تھا۔اس قومی کانفرنس کا موضوع تھامخلوط سائنسی اورانسانی علوم۔11،اپریل2017ء کو میں نے بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری کے شعبۂ عربی کے یک روزہ سیمینار میں شرکت کی تھی جس کا موضوع تھا’’خطہ ٔ پیر پنچال کی زبانوں پر عربی کے اثرات‘‘25،اپریل2017ء کو میں نے بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری کے شعبۂ عربی کے زیر اہتمام منعقدہ یک روزہ سیمینار میں شرکت کی اور’’معاصر اردو افسانہ‘‘کے عنوان سے اپنا تحریر کردہ مقالہ پڑھاتھا۔ 9مئی 2017ء کو میں نے پوسٹ گریجویٹ کالج راجوری میں ڈاکٹر صابر مرزا کی حیات وادبی خدمات کے حوالے سے یک روزہ قومی سیمینار میں شرکت کی تھی۔11،مئی 2017ء کو بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری کے شعبۂ الیکڑیکل انجیئرنگ کے ایک پروگرام میں شرکت کی تھی ۔24،اکتوبر2017ء کو میں نے گورنمنٹ ڈگری کالج مہنڈر( ضلع پونچھ) میںیک روزہ قومی سیمینار میں شرکت کی اور سرسید احمد خان پر مقالہ پڑھاتھا۔3،4فروری 2018ء کو میں نے ملیر کوٹلہ پنجاب میں دوروزہ قومی سیمینار میں شرکت کی اور’’مشرقی پنجاب میں معاصر اردو افسانہ‘‘کے عنوان سے مقالہ پڑھا۔3،4،اکتوبر2018ء کو جموں اینڈ کشمیر اکیڈیمی آف آرٹ کلچر اینڈ لینگویجز نے ’’جموں وکشمیر کا معاصر اردوادب‘‘ کے موضوع پر دوروزہ قومی سیمینار منعقد کرایا تھا۔مجھے بھی اس میں مدعو کیا گیا تھا۔میں بذریعہ ہوائی جہاز جموں سے سرینگر گیاتھا۔وہاں مجھے ایک ہوٹل میں ٹھہرایا گیا تھا۔دوسرے دن میں نے سیمینار میں شرکت کی تھی اور ’’جموں وکشمیر میں اردو ناول‘‘پر مکالمہ کیا تھا۔ٹیگور ہال میں یہ دوروزہ سیمینار ہوا تھا۔اس سیمینار میں دو دو مقالہ نگاروں کو ایک ساتھ بٹھایا گیا تھا جن سے شرکا ء اُن کے موضوع سے متعلق سوالات پوچھتے ۔میرے ساتھ ڈاکٹر محی الدّین قادری زور کو بٹھایا گیا تھا۔ناصر ضمیر نے ہم دونوں کا تعارف پیش کیا تھا۔تیسرے دن میں واپس ہوائی جہاز میں جموں پہنچ گیا تھا۔19 ،20مارچ2018ء کو میں نے گورنمنٹ ڈگری کالج تھانہ منڈی کی(ضلع راجوری)یک روزہ قومی سائنس کانفرنس میں شرکت کی ۔31،اکتوبر 2018ء کو میں نے گورنمنٹ ڈگری کالج مہنڈر (ضلع پونچھ)میں اپنے گہرے دوست ڈاکٹر لطیف میر کی فرمائش پر یک روزہ سیمینار میں شرکت کی تھی ۔اس سیمینار کا موضوع تھا’’ادب،انسانیت اور سماج‘‘میں نے اس سیمینار میں ’’اردو افسانوں میں جمہوری اقدار‘‘کے عنوان سے اپنا مقالہ پیش کیا تھا۔24ستمبرتا28ستمبر2018کو میں نے بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری کے میڈیا سینٹر میں ایک ہفتے کا کورس مکمل کیاتھا۔ 4جنوری2019ء کو میں جموں سے اپنی دو کتابوں کی اشاعت کے سلسلے میں دہلی چلا گیا تھا ۔دہلی سے میں نے اپنے گہرے دوست اور اردو فکشن نگار پروفیسر اسلم جمشید پوری صاحب کو فون پہ کہا کہ میں آپ کے پاس دن کو میرٹھ آنا چاہتا ہوں ۔وہ خوش ہوئے ،میں کھڈا کالونی سے ایک آٹو رکشے پہ سوار ہوااور آنند وہار پہنچ گیا ۔وہاں سے میرٹھ کی بس میں سوار ہوا اور تقریباً دو گھنٹے میں میرٹھ پہنچ گیا۔اسلم صاحب نے چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی کا ایک طالب علم مجھے لینے کے لئے بس اڈّے تک بھیجا۔یونیورسٹی پہنچ کر ڈاکٹر اسلم جمشید پوری صاحب مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے ۔بڑے پُر تپاک انداز میں مجھ سے گلے ملے۔ میرے عزیزڈاکٹر ارشاد سیانوی بھی یونیورسٹی میں موجود تھے ۔اُنھوں نے میرے لئے چائے پانی کا انتظام کیا۔تقریباً ساڑھے گیارہ بجے ایک ادبی نشست رکھی گئی تھی ۔میںنے اس ادبی نشست میں اپنی ایک تحریر کردہ کہانی ’’غشی‘‘پڑھ کر سنائی تھی جسے تمام سامعین نے بہت پسند کیا تھا۔میرے علاوہ اسلم صاحب نے بھی ایک افسانہ سُنایا تھا۔جمعہ کا دن تھا ۔میں ،اسلم صاحب اور ارشاد سیانوی یونیورسٹی کے قریب ہی ایک مسجد میں جمعہ نماز پڑھنے گئے تھے ۔اُس کے بعد اسلم صاحب نے مجھے اپنے کوارٹرپر لیا تھا جہاں ہم نے میرٹھ کی لذیز بریانی کھائی تھی ۔اُس کے بعد انھوں نے مجھے رخصت کیا تھا۔ڈاکٹر ارشاد سیانوی کو بس اڈّے تک میرے ساتھ بھیجا تھا۔میں شام کو دہلی چلا آیا تھا ۔19،20جنوری 2019ء کو میں نے پوسٹ گریجویٹ کالج راجوری میں دوروزہ کانفرنس میںشرکت کی تھی ۔اس کانفرنس کا موضوع تھا’’سائنس،سماجی سائنس اور انسانیت میں حالیہ رجحانات‘‘میں نے تحقیق کے طریقۂ کار پر اپنا مقالہ پیش کیا تھا۔29جنوری2019ء کو میں نے بابا غلام شاہ شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری کے آئی سی سی حال میں ایک ورک شاپ میں حصہ لیا تھا۔28جنوری2019سے یکم جنوری 2019تک میں نے بابا غلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی راجوری کے پالیٹکنک کالج میں ایک ٹرینگ پروگرام میں شرکت کی تھی۔23مارچ2019 ء کو میں نے گورنمنٹ ڈگری کالج کھٹوعہ میں منعقد ہ یک روزہ قومی سیمینار میں شرکت کی تھی ۔ ۔۔۔۔۔ جاری۔۔۔۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا