حیدرآباد کی تہذیب میں محبت کا اثر

0
0

مانو میں مکرم جاہ یادگاری خطبہ۔ علامہ اعجاز فرخ، پروفیسر عین الحسن و دیگر کے خطاب
لازوال ڈیسک
حیدرآباد؍؍حیدرآبادکی داستان ایک تہذیب کی داستان ہے ، نہ حسنِ کشمیر ہے نہ صبح بنارس کی دلکش تصویر ہے بلکہ یہ ایک من موہنی تہذیب ہے۔ یہاں کی تہذیب میں محبت کا اثر ہے ۔ دوسروں کو جگہ دینے کی خصوصیت زیادہ ہے۔ غدر کے بعد ہندوستان کے گوشے گوشے سے لوگ آئے ۔ وہ اپنے ساتھ اپنی تہذیب لے کر آئے اور اس کے اثرات یہاں کی تہذیب و ثقافت پر واقع ہوئے جس کے باعث یہاں کی تہذیب مشترکہ تہذیب کا نمونہ بن گئی ۔ یہاں کبھی بھی ذات پات، رنگ و نسل اور زبان کا جھگڑا نہیں رہا۔ حیدرآباد کا اپنا ڈاک نظام اورریلوے تھا ۔ اپنی کرنسی تھی ،اپنی عدالت تھی ، کوئی چیز انگریزوں کے تسلط کی نہیں تھی ۔ ان خیالات کا اظہار حیدرآباد کے ممتاز دانشور علامہ اعجاز فرخ نے مرکز مطالعاتِ اردو ثقافت ، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے زیر اہتمام کل منعقدہ مکرم جاہ بہادر یادگاری خطبہ پیش کرتے ہوئے کیا۔ پروفیسر سید عین الحسن، وائس چانسلر نے صدارت کی۔ علامہ نے مزید کہا کہ حیدرآباد کی ترقی کا آغاز میر محبوب علی خاں کے دور سے ہوتا ہے۔ چومحلہ پیلیس مظفرالملک ناصر جنگ کے زمانے کا پیلیس ہے۔ اس کی مثال ایران میں بھی نہیں ملتی۔ اس کا ڈائننگ ٹیبل اتنا وسیع ہے جہاں 200 افراد کی گنجائش ہے ۔تہذیب و ثقافت اور علم و فنون کی ترویج و توسیع میر محبوب علی خاں کے زمانے میں بڑے پیمانے پر ہوئی ۔ یہاں کا تعلیمی نظام میر محبوب علی خاں کا قائم کردہ ہے۔ لیکن ان کے بعد میر عثمان علی خاں کے دور میں بھی حیدرآبادکی بہت ترقی ہوئی۔ خصوصاً تعلیمی اعتبار سے یہاں بڑے بڑے کارنامے انجام دیے گئے ۔ مادری زبان میں تعلیم کا حصول اور جامعہ عثمانیہ میں دارالترجمہ کا قیام میر عثمان علی خاں کا کارنامہ ہے۔ پروفیسر سید عین الحسن نے صدارتی خطاب میں کہا کہ میرا پہلا تعارف 1984ء میں حیدرآباد سے ہوا تھا جب میری ملاقات یہاں کے ایڈیٹرس اور اساتذہ سے ہوئی تھی۔ اس وقت روزنامہ منصف کے ایڈیٹر نے مجھے مدعو کیا تھا۔ گولکنڈہ کے ایک مشاعرے میں شرکت کی غرض سے میںیہاں آیا تھا ۔ میرے کلام کو بہت پسند کیا گیاتھا۔ انہوں نے اس موقع پراپنی غزل کا ایک شعر بھی سنایا جو اس وقت کے مشاعرے میں انھوں نے پڑھا تھا اور جس پر انہیں دادوتحسین سے نوازا گیاتھا۔ انھوںنے یہاں کی شاعری کی خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ میرنے ولی کا رنگ لیا۔ میر جب اپنی نزاکتوںمیں الجھتے ہیں تو ولی کی طرف دیکھتے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ جو بات یہاں کے ’’ہَو‘‘ میں ہے وہ ہاں میں نہیں اور جو بات نکّو اور نئیں میں ہے وہ ’’نہیں‘‘ میں نہیں ۔ محترمہ اندرا دیوی دھن راجگیر نے اس خطبے میں آن لائن شرکت کی اور اس کامیاب پروگرام کے انعقاد کے لیے ذمہ داران پروگرام کو مبارکباد پیش کی۔ مہمان خصوصی جناب شاہد حسین زبیری نے مکرم جاہ بہادر کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات اور ہم کاری کا خصوصی طور پر ذکر کیا اور کہا کہ مکرم جاہ کی جو شخصیت ہے انہیں میں مرحوم کہہ ہی نہیں سکتا ۔ انھوں نے مکرم جاہ ایجوکیشنل ٹرسٹ قائم کیا تھا۔اس کی مالیت اس دور میں نظام چیریٹبل ٹرسٹ سے بہت زیادہ تھی ۔ آج متعدد تعلیمی ادارے اس ٹرسٹ کے زیر پرستی چل رہے ہیں ۔ انھوں نے کہاکہ مکرم جاہ جیسی شخصیت پیدا ہونا مشکل ہے۔ جلسے کا آغاز جناب محمد طیب قاسمی، ریسرچ اسکالر مرکز مطالعاتِ اردو ثقافت کی تلاوت کلام پاک سے ہوا ۔پروفیسر عزیز بانو ، ڈین اسکول برائے السنہ ، لسانیات و ہندوستانیات نے استقبالیہ کلمات پیش کیے۔ پروفیسر شاہد نوخیز اعظمی ، ڈائرکٹر مرکز نے کارروائی چلائی۔ اس موقع پر پروفیسر شاہد نوخیز اعظمی کی دو تصانیف ’’عشرت کدۂ آفاق: چندو لعل شادان‘‘ اور ’’دفتر عشق : کلیاتِ ماہ لقا چندا‘‘ کی شیخ الجامعہ کے ہاتھوں رسم رونمائی انجام دی گئی ۔علاوہ ازیں مرکزمطالعاتِ اردو ثقافت کے زیر اہتمام شائع ہونے والے جریدے ’’ادب و ثقافت‘‘ شمارہ نمبر17 کا بھی اجراعمل میں آیا ۔ڈاکٹر احمد خان ، اسوسی ایٹ پروفیسر ، مرکز مطالعاتِ اردو ثقافت کے شکریہ پر پروگرام کا اختتام عمل میں آیا ۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا