یواین آئی
نئی دہلی؍؍لوک سبھا میں کانگریس کے لیڈر ادھیر رنجن چودھری نے پیر کو ایوان میں کہا کہ حکومت کو پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس میں خواتین کے ریزرویشن بل کو پاس کرنا چاہئے ۔مسٹر چودھری نے پارلیمنٹ کے خصوصی اجلاس کے پہلے دن پارلیمنٹ کی پرانی عمارت میں ایوان کی کارروائی کے آخری دن اپنے خطاب میں کہا کہ کانگریس کی سابق صدر سونیا گاندھی نے خواتین ریزرویشن بل پاس کرانے کی کوشش کی تھی۔ حکومت کو اب یہ بل پاس کرانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ امید ہے کہ حکومت ان کا مطالبہ مان لے گی۔مسٹر ادھیر رنجن نے لوک سبھا اسپیکر اوم برلا سے مطالبہ کیا کہ اپوزیشن کو اپنے خیالات کا اظہار کرنے اور مفاد عامہ کے مسائل کو حکومت کے سامنے پیش کرنے کے لیے اپوزیشن جماعتوں کے لیے ہفتے میں ایک پورا دن مختص کیا جانا چاہئے۔ملک کی ترقی کے لیے کئی سابق وزرائے اعظم کے تعاون پر بات کرتے ہوئے مسٹر چودھری نے کہا کہ پنڈت جواہر لال نہرو نے جدید ہندوستان کی بنیاد رکھی۔ پنڈت نہرو نے انڈین اسپیس ریسرچ آرگنائزیشن (اسرو) جیسے ادارے قائم کیے جس کی وجہ سے ملک چندریان 3 کو چاند پر اتارنے میں کامیاب رہا۔ سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی نے بینکوں کو قومیا کر ملک کی اقتصادی ترقی میں بہت بڑا تعاون کیا۔ سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی نے ملک کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں اتنا خوشحال بنایا کہ آج ہم ڈیجیٹل انڈیا کی بات کر تے ہیں۔کانگریس کے لیڈر نے کہا کہ سابق وزیر اعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ کام زیادہ اور بات کم کرتے تھے۔ انہوں نے عالمی معاشی کساد بازاری کے دوران ملک کی معیشت کو اچھی طرح سنبھالا۔انہوں نے کہا کہ کانگریس کے دور حکومت میں پنچایتی راج بل لا کر گرام پنچایتوں کو مضبوط کیا گیا۔ اطلاعات کے حق سے متعلق قانون بنا کر عام آدمی کو اطلاعات حاصل کرنے کا حق دیا گیا۔ حق تعلیم کا قانون بنا کر پانچ سے 14 سال کی عمر کے بچوں کے لیے تعلیم کا انتظام کیا گیا۔ راشٹریہ مہاتما گاندھی ایمپلائمنٹ گارنٹی ایکٹ بنا کر غریبوں کو روزگار کے مواقع فراہم کیے گئے۔ فوڈ سیکورٹی قانون لا کر غریبوں کو مناسب نرخوں پر غذائی اجناس کی فراہمی کو یقینی بنایا گیا۔مسٹر چودھری نے کہا "ہمیں اہم چیزوں کو نہیں بھولنا چاہئے، ہم پرانی چیزوں کو نہیں بھولیں گے۔ جب ہم واسودیو کٹمبکم کہتے ہیں تو ہمیں ہر ایک کی فکر ہونی چاہیے۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے جان برٹاس نے پارلیمنٹ کے 75 سال کے سفر پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ ملک میں مذہب اور فرقہ کے نام پر تقسیم بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کمیونسٹ حکومت نے ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے اور کیرالہ میں برائے نام غریبی ہے۔ کانگریس کے دور حکومت کی تعریف کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت آئینی اداروں کے حقوق کو سلب کر رہی ہے۔راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی) کے منوج کمار جھا نے کہا کہ سماج میں ہم آہنگی ختم ہو رہی ہے اور جارحیت بڑھ رہی ہے جبکہ اس سے کچھ حاصل نہیں ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ معاشرے میں نفرت، درد اور تقسیم تیزی سے بڑھ رہی ہے جس کے خطرناک نتائج نکل سکتے ہیں۔ انہوں نے دستور ساز اسمبلی کی کارروائی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی آزادی کا مقصد سماجی اور اقتصادی آزادی میں جھلکنا چاہیے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا ہے تو سیاسی آزادی ختم ہوجاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بہار میں ذات پات کی مردم شماری کی مخالفت اس ناکامی کو ظاہر کرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ روزگار کا حق دیا جائے۔ بے روزگاری پورے سیاسی نظام کو تباہ کر دے گی۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں سنگول کے ساتھ آزادی پسندوں اور آئین ساز اراکین کی تصاویر بھی لگائی جانی چاہئے۔اس بحث میں ٹی ایم سی ایم کے جی کے واسن اور بھارت راشٹرا سمیتی کے کے۔ کیشو راؤ نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ جنتا دل یونائیٹڈ کے رام ناتھ ٹھاکر نے پارلیمنٹ اور اسمبلیوں میں خواتین کے لیے ریزرویشن کا مطالبہ کیا۔آسام گن پریشد کے ویریندر پرساد ویش نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں اور اراکین کو ہمیشہ قومی مفاد کو ذہن میں رکھنا چاہئے۔ انہوں نے نئے ہندوستان کی طرف بڑھنے کے لیے اتحاد کو اہم قرار دیا۔ کے سی ایم کے جوس کے منی نے کہا کہ پارلیمنٹ کی نئی عمارت کے ساتھ ہندوستانی جمہوریت بھی ایک نئی سمت میں آگے بڑھ رہی ہے۔نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے پرفل پٹیل نے پارلیمنٹ کی نئی عمارت کے لیے وزیر اعظم نریندر مودی کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ ملک کو اپنے جمہوری سفر پر فخر ہے۔ پوری دنیا ہندوستانی جمہوریت کا حوالہ دیتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ کی نئی عمارت نوجوان ہندوستان کی امنگوں کو پورا کرنے میں کامیاب ہوگی۔بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی ) کے بھونیشور کالیتا نے کہا کہ ہندوستانی جمہوریت نے اب تک بہت کامیاب سفر طے کیا ہے۔ سب کو قوم کو سپریم سمجھنا ہو گا، تب ہی ہندوستان کو نئی بلندیوں پر لے جا یا جاسکے گا۔بحث میں حصہ لیتے ہوئے وائی ایس آر کانگریس کے سرینواسلو ریڈی نے کہا کہ پارلیمنٹ کی اس عمارت سے ان کے جذبات وابستہ ہیں۔ انہوں نے اس باوقار عمارت میں کئی تاریخی فیصلے ہوتے دیکھے ہیں۔ اسی عمارت میں انہوں نے آندھرا پردیش کی تقسیم کا مشاہدہ کیا لیکن حکومت نے آندھرا پردیش کو خصوصی درجہ دینے کا وعدہ پورا نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کہ ممبر پارلیمنٹ بننا خوش قسمتی کی بات ہے کیونکہ ملک کے 140 کروڑ عوام میں سے صرف 543 لوگ ہی منتخب ہوکر اس ایوان میں آتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ اہم ہے اور اس ایوان کے ذریعے ریاستوں کو ان کے مکمل اختیارات دے کر طاقتور بنایا جائے۔جنتا دل (یونائیٹڈ) کے گردھاری یادو نے پارلیمنٹ کی پرانی عمارت میں آخری دن کی کارروائی کے دوران عمارت کو سلام کیا اور کہا کہ اس عمارت میں لوک سبھا کی کارروائی بہت اچھی طرح سے چلائی گئی ہے۔ اس عمارت میں آئین لکھا گیا ہے اور ملک کو ایک نئی سمت مل گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جمہوریت عوام کے اصولوں پر چلتی ہے اور جمہوریت کو چلانے کے لیے اس اصول کو برقرار رکھنا چاہیے۔ آئین کے ساتھ کھلواڑ نہیں کیا جانا چاہئے لیکن آج پارلیمنٹ کے قوانین کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ انہوں نے اسی پارلیمنٹ ہاؤس میں تین تین افراد، اٹل بہاری واجپئی، ایچ ڈی دیوگوڑا اور اندر کمار گجرال کو وزیر اعظم بنتے دیکھا ہے۔بیجو جنتا دل کے بھرتری ہری مہتاب نے کہا کہ یہ ان کے لیے جذباتی لگاؤ کا لمحہ ہے۔ نئی عمارت میں جائیں گے تو اس سے نئی امیدیں وابستہ ہوں گی اور عمارت نئی ٹیکنالوجی اور نئے انتظامات سے مزین ہوگی۔ ایک نئی عمارت وقت کی ضرورت تھی، اس لیے امرتکال میں اس پرانی عمارت کی یادیں تازہ کرتے ہوئے میں اس عمارت کو سلام کرتا ہوں۔مسٹر مہتاب نے کہا کہ زبان، فرقہ یا ذات پات ملک کو متحد نہیں کرتی۔ اگر ایسا ہوتا تو تمام مسلم ممالک ایک ہو جاتے اور آندھرا پردیش اور تلنگانہ دو ریاستیں نہ بنتیں۔ چھتیس گڑھ-مدھیہ پردیش یا اتر پردیش اور بہار کی کوئی تقسیم نہیں ہوتی ،قومی علامتیں ہمیں جوڑتی ہیں۔ دوسری بات یہ کہ تبدیلی بھی وقت کے مطابق ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ پہلی آئینی ترمیم 1951 میں کی گئی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آئین کے نافذ ہونے کے ایک سال کے اندر ملک کو تبدیلیاں کرنے کی ضرورت تھی تو وہ کر دی گئی۔ اس آئینی ترمیم کے ذریعے خامیوں کو دور کرنے کا کام کیا گیا ہے۔بیجو جنتادل کے لیڈر نے ون نیشن ون الیکشن کی بھی حمایت کی اور کہا کہ جمہوریت میں عوام کی توقعات پر پورا اترنے کے لیے ہر سال انتخابات کرانا درست نہیں ہے۔ پانچ سال کے لیے ایک بار مینڈیٹ لیں اور عوامی جذبات کے مطابق کام کرتے رہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کی پارٹی بیجو جنتا دل ایسی واحد پارٹی ہے جو چاہ ایوان میں نہیں آتی اور اس نظام پر عمل کیا جانا چاہئے۔بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے راکیش سنگھ نے کہا کہ ملک اور دنیا کے کئی واقعات تاریخ میں درج ہیں اور ان میں سے کچھ واقعات تاریخ کے لئے باعث فخر ہیں۔ آج یہ واقعہ بھی ان میں سے ایک ہے۔ اس کا کریڈٹ وزیر اعظم نریندر مودی کو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ G-20 سمٹ کے دوران انڈیا پویلین میں نمائش ‘انڈیا، دی مدر آف ڈیموکریسی’ کا انعقاد کیا گیا اور پہلی بار یہ پہچان مؤثر طریقے سے دنیا کے سامنے لائی گئی کہ ہندوستان جمہوریت کی ماں ہے۔مسٹر سنگھ نے کہا کہ لفظ جمہوریہ نو بدھ مت کے ادب میں رگ وید اور اتھرو وید کے ساتھ ظاہر ہوا ہے۔ الیگزینڈر کے حملے کے 20 سال بعد یونانی سفیر میگاسٹینیز نے ہندوستان کے جمہوری نظامِ حکومت
کی بہت مؤثر عکاسی کی ہے۔ آئین ساز اسمبلی سے لے کر اب تک کے پارلیمانی سفر کا ذکر کرتے ہوئے مسٹر سنگھ نے کہا کہ جون 1975 سے مارچ 1977 کے درمیان جمہوریت کی راہ میں صرف ایک بار خلل پڑا تھا۔بی جے پی کے لیڈر نے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو کے اس قول کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے راستے میں آنے والی برائیوں کو ختم کرنے میں کوئی سستی نہیں دکھائیں گے اور ہم عہد کے ساتھ ان برائیوں کو ختم کریں گے۔ انہوں نے سوال کیا کہ کیا ملک میں بدعنوانی سب سے بڑی سماجی و اخلاقی برائی نہیں ہے۔ کیا اچھا ہوتا اگر کانگریس پارٹی بدعنوانی کے خاتمے کی کوششوں کو سراہتی، جس کے ایک لیڈر نے کہا تھا کہ اگر ہم ایک روپیہ بھیجتے ہیں تو 15 پیسے پہنچتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم مودی نے کہا کہ غربیبی بے بسی اور لاچاری ہے۔ ہم کب تک عوام کو بھوکا یا غریب رکھ کر ووٹ حاصل کریں گے؟ مودی سرکار نے ان غریبوں کے گھروں کو بجلی کے باقاعدہ کنکشن فراہم کیے جن کے گھروں میں دیوالی کے موقع پر چراغ بھی نہیں جلتے تھے۔مسٹر سنگھ نے کہا کہ ایوان نے تاریخ کی غلطیوں کو درست کرنے کا بھی کام کیا ہے۔ ملک کے وزیر داخلہ امت شاہ نے اس ایوان میں جموں و کشمیر سے آئین کے آرٹیکل 370 اور 35A کو ہٹانے کے لیے کام کیا۔ آج جموں و کشمیر ترقی کی نئی داستان لکھ رہا ہے۔ 1400 ایسے قوانین کو ختم کر دیا گیا جو اپنی افادیت ختم کر چکے تھے۔ انہوں نے تعمیری اپوزیشن کے کردار پر بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) کی سپریا سولے نے کہا کہ ہندوستان کی شناخت تنوع میں اتحاد ہے۔ خواتین کے ریزرویشن کے سلسلے میں راکیش سنگھ کے طنز کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کانگریس نے ملک کو پہلی خاتون وزیر اعظم، پہلی خاتون صدر، پہلی خاتون لوک سبھا اسپیکر دیا ہے۔ انہوں نے لوک سبھا کے اجلاسوں اور کام کے دنوں کی تعداد بڑھانے کی بھی وکالت کی۔انہوں نے نئی پارلیمنٹ میں میڈیا پر پابندی کا معاملہ بھی اٹھایا اور کہا کہ پرائیویٹ ممبر بل کو بھی مضبوط کیا جائے۔ بدعنوانی کے معاملے پر انہوں نے چیلنج کیا کہ این سی پی کے کسی بھی معاملے کی مکمل چھان بین کی جائے اور اگر بدعنوانی پائی جاتی ہے تو کارروائی کی جائے۔بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کے گریش چندر نے کہا کہ ملک کی آزادی کو 75 سال ہوچکے ہیں لیکن دلت آج بھی اپنے حقوق سے محروم ہیں۔ راجستھان اور مدھیہ پردیش سمیت پورے ملک میں دلتوں کا استحصال ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ نئے پارلیمنٹ ہاؤس میں حکومت سوچ بدلنے کا عہد کرے گی تاکہ دلتوں کا استحصال ختم ہو سکے۔سماج وادی پارٹی کے ایس ٹی حسن نے کہا کہ آج پہلی بار ہم نے وزیر اعظم سے مثبت باتیں سنی ہیں، جو کہ اچھی بات ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب وہ پہلی بار ایوان میں آئے تھے تو انہوں نے یہاں باپو کا گلدستہ دیکھا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ملک کو آزادی دلانے کے لیے جس پلیٹ میں لوگ کھانا کھاتے تھے آج اسی پلیٹ کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ یہ ملک پیار محبت اور بھائی چارے کے ساتھ آگے بڑھے گا۔ ہمیں محبت، بھائی چارے، ہم آہنگی اور وسودھئیو کٹمبکم کے راستے پر چلنے کی ضرورت ہے۔کانگریس کے منیش تیواری نے کہا کہ پارلیمنٹ کے اجلاس کو 120 سے 130 دن تک چلانے کے لیے پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں قانون بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے انحراف مخالف قانون پر بھی غور کیا جانا چاہیے۔ حالیہ دنوں میں جو واقعات سامنے آئے ہیں ان کے پیش نظر انسداد انحراف قانون پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔مسٹر تیواری نے کہا کہ آزادی کے بعد آئین بننے کے بعد سب کو برابری کا حق دیا گیا۔ ہندوستان کے آئین سازوں نے آرٹیکل 17 بنا کر ملک سے چھوا چھوت کو ختم کرنے کا کام کیا۔ اسی طرح آرٹیکل 18 میں بادشاہ مہاراجہ کی روایت کو ختم کر دیا گیا۔ جبری مشقت جیسی برائیوں کو ختم کر کے سب کو برابر کے حقوق دیے گئے۔بی جے پی کی لوکیٹ چٹرجی نے کہا کہ پچھلے 75 برسوں سے ہندوستان مسلسل ترقی کی نئی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ G-20 کی حالیہ کامیابی نے ملک کا سر فخر سے بلند کیا ہے۔ اب جب دنیا کے لوگ ہندوستان آئیں گے تو وہ سانپوں کا کھیل نہیں دیکھیں گے بلکہ سائنس اور ٹیکنالوجی دیکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں ملک طاقتور اور خوشحال ہو رہا ہے۔بی آر ایس کے ناگیشور راؤ نے نئے پارلیمنٹ ہاؤس خواتین ریزرویشن بل کی منظوری کا مطالبہ کیا اور ایوان کو طویل مدت تک چلانے پر زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ ملک کی 75 سالہ تاریخ میں ایوان 150 دن کام کرتا تھا جو اب کم ہو کر 56 دن رہ گیا ہے اس لیے اس پر بھی سوچنے کی ضرورت ہے۔نیشنل کانفرنس کے حسنین مسعودی نے کہا کہ اسی ہاوس میں متفقہ طور پر جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ دیا گیا تھا لیکن 5 اگست 2019 کو ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا جو کہ آئین کی روح کے خلاف ہے۔بھارتیہ جنتا پارٹی کے بھونیشور کالیتا نے کہا کہ نئے پارلیمنٹ ہاؤس میں اراکین ملک اور عوام کے مفاد میں نئے عزم اور قوت ارادی کے ساتھ مل کر کام کریں گے، جس سے ہندوستان کو ترقی یافتہ اقوام کے زمرے میں لانے میں مدد ملے گی۔عام آدمی پارٹی کے وکرم جیت سنگھ ساہنی نے کہا کہ ملک اس وقت امرتکال کے دور سے گزر رہا ہے لیکن یہ بھی ضروری ہے کہ اس دوران لوگوں کو تعلیم، صحت اور بنیادی حقوق کا امرت بھی ملے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ پارلیمنٹ کی نئی عمارت میں تمام اراکین صحت مندانہ بحث کریں گے اور خلل کم ہوگا تاکہ آزادی پسندوں کے خوابوں کو پورا کرنے کے لیے کام کیا جاسکے۔ ملک کی تقسیم کے وقت کو یاد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت جو لوگ مہاجر بن کر ملک میں آئے تھے انہوں نے محنت سے اسے آگے لے جانے میں اپنا حصہ ڈالا۔ یہ ان کی حب الوطنی کی ایک مثال ہے۔بیجو جنتا دل کی ممتا موہنتا نے کہا کہ مختلف حکومتوں کی جانب سے خواتین کے لیے بنائی گئی اسکیموں اور مختلف شعبوں میں خواتین کی بڑھ چڑھ کر حصہ داری کی وجہ سے خواتین کو بااختیار بنایا گیا ہے اور وہ قوم کی تعمیر میں مردوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کام کر رہی ہیں۔بی جے ڈی کے امر پٹنائک نے کہا کہ گزشتہ 70 برسوں میں مختلف حکومتوں کے دور میں پارلیمانی جمہوریت مضبوط ہوئی ہے۔ انہوں نے ریاستوں کو مالی طور پر خود مختار بنانے کا مطالبہ کرتے ہوئے خواتین ریزرویشن بل کو منظور کرنے کا مطالبہ کیا۔ڈی ایم کے کے تروچی سیوا نے کہا کہ جمہوری نظام میں علاقائی پارٹیوں کی اپنی اہمیت ہے اور ان کا باقی رہنا تمام طبقات کی نمائندگی کے لیے ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ کچھ عرصے سے حکومت آرڈیننس لانے پر اصرار کر رہی ہے جو کہ درست نہیں۔وائی ایس آر کانگریس کے ایس نرنجن ریڈی نے کہا کہ ہمارا آئین وقتاً فوقتاً مختلف چیلنجوں کا مقابلہ کرتا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایوان بالا ریاستوں کی کونسل ہے، اس لیے ریاستوں کے مسائل کو اس میں آواز دی جانی چاہیے اور ان معاملات میں لوک سبھا کی پیروی نہیں کرنی چاہیے۔