حساس و نازک مزاج ، حقوقِ نسواں کی علمبردار ’ ہاجرہ مسرور ‘

0
0

 

 

 

 

ڈاکٹرجی ایم پٹیل

9822031031

آغاز مضمون بین ا لا قومی شہرت یافتہ عظیم و معرو ف مزاح نگار‘ افسانہ نگار ‘ شاعر ، مترجم ‘ ‘ نقاد ‘ معلم ‘ برطانوی ہندوستان کے ماہر نشریات سیّد احمد شاہ المعروف پطرس بخاری صاحب کے چند انمول جملوں سے کیا جاتاہے جو انہوں نے بطور نذرانہ عقیدت ہاجرہ مسرور کے افسانوی مجموعہ ’ چوری چھپے ‘ کے اوراق پر دیباچہ کی صورت ثبت کر دئے ہیں ، ملاحظہ ہو !’’ شخصی رشتوں کی دنیا محدود سہی لیکن پا یاب نہیں۔اسکی گہرائیاں آفاق کی وسعتوں سے کم نہیں۔اس لئے یہ غلط فہمی ہے کہ خواتین کا ادب مردوں کے مقابلے میں ہمیشہ دبا دبا رہے گا۔ فطرت نسوانی نے پہنائی اور وسعت کو اپنے اوپر حرام کر لیا ہو، عمق کو اپنے اوپر حرام نہیں کر سکتی۔یہ خصوصیت یعنی شخصی رشتوں میں انہماک اکثر ادیب خواتین میں ملے گی جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ اپنی فطرت کو جھٹلاتی نہیںبلکہ خلوص اور دیانت داری سے لکھتی ہیں ۔ سچ پوچھئے تو اس معاملے میں انکا ’ نامۂ اعمال ‘ مردوں سے زیادہ روشن ہے۔ بے شک ادیب خواتین تعداد میں زیادہ نہیں ،لیکن شخصی اور ذاتی رشتوں کی روئیداد جس کی جرأت اور بے ساختگی کے ساتھ انہوں نے پیش کی ہے۔اس سے ہمارے مردانہ ادب کی ریاکاری کے گھو نگھٹ الٹتے پڑے ہیں اور سب اُردو ادب کو انکی بدولت تازہ ہوا نصیب ہوئی ہے۔ ہاجرہ مسرور کا یہ مجموعہ تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔ ان کے پہلے مجموعوں میں بھی انہوں نے اپنی نسوانی فطرت ہی کو نبھایا ہے اور یہاں بھی وہ اپنی فطرت ہی کو نبھا رہی ہیں۔ ان کی نظر میں پہلے سے کہیں زیادہ بلند اور گہری ہے لیکن شخصی اور ذاتی رشتوں کے جال وہ یہاں بھی بن رہی ہے۔‘‘ ہاجرہ مسرور نے خواتین کے استحال اور جنسیت کے موضوع کے خلاف لکھا ہے۔مسرور نے اپنی تحریروں کے ذریعے اُردو ادب کی دنیا میں ایک نمایاں مقام حاصل کر لیا ہے اور آج بھی قارئین کے دلوں میں اپنا ایک اعلیٰ ادبی مقام بنائی ہوئی ہیں۔ہاجرہ مسرور ۱۷ جنوری ۱۹۳۰ کو لکھنؤ میں ڈاکٹر طہور علی خان کے ہاں پیدا ہوئیں ۔ آپ کے نام ’ہاجرہ ‘ کا ذکر بھی بے تکلف اور یاد داشت کے طور پر ذہن پر نقش ہے۔ محترم دادا جان نے کہا ’’ اس نوزائد بچی کا نام ’احمد بی بی ‘ رکھو ۔والدہ کو اعتراض تھا وہ جل گئیں اور کہا ‘ بڑے میاں کو تو ایسے ہی خواب نظر آتے ہیں۔ نو زائد بچی کا نام تو ’ ہاجرہ ‘ ہوگا ،اور والد محترم نے کہا ’ مسرور ‘ ہونا چاہئے۔ننھی سی جان ان تینوں ناموں میں گھسٹتی پھر یںاور آخر کار ’ ہاجرہ مسرور‘ طئے کیا گیا۔ ابتدائی تعلیم لکھنؤ کے علاوہ یو پی کے چھوٹے چھوٹے قصبوں میں گھرپر ہی ہوئی۔ اس سلسلے میں آپ کی یادیں بے حد تکلیف دہ تھیں کہ اس گھریلو ابتدائی طریقہ تعلیم میں شام میں ایک عددماسٹر اور ہر صبح ایک مولوی صاحب کا سامنا ضروری تھا۔ یہی سلسلہ اس وقت جاری رہا جب آپ کا داخلہ ایک مشنری اسکول کی کسی جماعت میں ہوا۔گھر کا ماحول کافی دلچسپ تھا۔ تنخواہ سے پہلے والدین اگلے مہینے کا بجٹ میں جٹ جاتے اور خصوصی طور سے ایک اچھی خاصی رقم ادبی کتابوں ،رسالوں میں صرف کرنا لازمی ہوتا ۔بچیوںکے کھلونوںاور دیگر تفریح کی اہمیت صفر تھی۔بچیوں اور زنانہ کے عمدہ ر جریدے ’’ نگار‘‘ ۔’’کلیم ‘‘ ۔’’ ہمایوں‘‘ ۔ ’’ادبی دنیا‘‘ اور کچھ دینی رسالے اور کتابیں باقاعدگی سے گھر ارسال ہو جاتیں ۔والد محترم کا جہاں کہیں تبادلہ ہوجاتا ان کے حلقہ آباد میں مردانہ حصہ میں ادبی محفلیں ہوتیں ،جہاں ادبی ،سیاسی اور شاعری کا ماحول سے سجتیں،سنورتیں ۔ اسی دوراں والدہ محترمہ کا ادبی سفر اور والد محترم کا صحافت کی مصروفیت بھی عروج پر تھے۔ بچپن میں ہاجرہ مسرور کو کہانیاں سننے کا بے حد شوق تھا،آپکی بہن خدیجہ مستور بھی پہل کرتیں۔ہاجرہ مسرور کے والد محترم ڈاکٹر سید طہور علی خان برطانوی فوج کے میڈیکل افسر تھے۔اچانک دل کا دورہ پڑنے سے ان کا انتقال ہوا ۔مسرور کی بہن خدیجہ مستور ایک معرو ف ناو ل نگا ر تھیں ،ایک چھوٹے بھائی خالد احمد خان ،جو شاعر، ڈرامہ نگار اور اخبار ی کالم نگار بھی تھے ۔آزادی کے بعد خالد احمد خان، خدیجہ مستور اور ہاجرہ مسرور پاکستان ہجرت کر گئے اور لاہو میں آباد ہوئے۔ والد محترم ڈاکٹر طہور علی خان کی موت کے بعد ہاجرہ کے سوچنے کا انداز ہی بدل گیا ۔ ہاجرہ کے ذہن میں طوفاں سا برپا رہا، برداشت کی قوت بالکل نہیں تھی اور اسی صدمہ میں ان کے قلم سے ادبی تحریروں کی دھارا پھوٹ پڑتی اور اسکے بعد آپ کے ذہن کے تمام ادبی وتخیل کے دروازے کھل گئے اور انہیں حالات نے آپ کو ایک معروف افسانہ نگار بنایا۔ہاجرہ مسرور نے ۱۳ سال کی عمر میںپہلا افسانہ لکھا تھا جو بچوں کے ایک رسالہ میں شائع ہواتھا۔اس افسانے میں ’’ بھوک ‘‘ کا شدید ا حساس ہوتا ‘ جو اس وقت آپ کا خاندان ایک بد ترین نازک دور سے گذر رہا تھا۔ دو سال بعد جب آپ کا افسانہ ’’ ہائے اللہ ‘‘ ننھے میاں ‘‘ اور ساقی میں شائع ہوا ۔اس افسانے کے موضوع کی وجہ کچھ شدت پسند بزر گوں نے ہنگامہ مچایا ،ہر طرف سے تنقیدوں کی برف باری ،زالہ باری سے مسرور بے حد پریشان رہیں ۔آپ کی خالہ جان جو علی گڑھ میں زیر تعلیم تھیں اور ایک ہاسٹل میں مقیم تھیں۔’ ہائے اللہ ‘ کے موضوع سے ان کے ساتھیوں، احبابوں اور استادوں کی تنقید کی وجہ سے ا تنی زیادہ دل برداشتہ ہوئیں کہ انہوں نے ہاجرہ کو سخت الفاظ میں خط لکھا اور سخت تاکید کی اور آگا ہ کیا کہ اس طرح کے مو ضوعات سے سخت پرہیز کریں ۔آپ کے ماموں نے بھی سخت الفاظ میں کہا کہ ’ لکھو ضرور ، لیکن حق و سچی اور حقیقی بات کو اچھے الفاظ میں لکھنا ضروری ہے‘۔ ہاجرہ مسرور کا فی پست ہمت ہوئیں ۔ لیکن آپ کی والدہ محترمہ کی رہنمائی اور حوصلہ افزائی نے آپ میں ایک نئی روح پھونک دی ۔ ہاجرہ اب اس قدر سہم گئیں کہ ہر تحریر کو کافی سنجیدگی سے ،ناپ تول کر لکھنا شروع کیا اور ترقی کی بلندی کی طرف گامزن رہیں۔ اب تو آپ اپنی ہر ادبی تحریر ہی نہیں کچھ سطروں کے خطوط بھی لکھتیں تو ان پر والدہ محترمہ کی نظر ثانی بے حد ضروری تھی اورر اس کے بعد ہی وہ منظر عام پر لے آتیں۔ردو افسانہ نگاروں میں بلا شبہ ہاجرہ مسرور کا اپنا ایک اعلیٰ مقام ہے۔اپنی بڑی بہن ’’ خدیجۃ مستور‘‘ کے ہم اثر اپنے ادبی زندگی کا آغاز بچپن ہی میں شروع کیا ۔ہاجرہ نے اپنے افسانوں میں متوسط طبقہ ، نچلے طبقہ کی زندگی اور دیہی علاقوں میں جاگیر دارانہ عیاشی اور خصوصی طور سے خواتین پر تشدد کی عکاسی کی ،دل کو چھو لینے والی کی تخلیق قارئین کے نظر کرتیں ’آپ کی اُرد و ادب کے معروف انقلابی شاعر اور فلمی نغمہ نگار ’ ساحرؔ لدھیانوی سے منگنی ہوئی تھی ،لیکن ایک حادثہ یوں ہوا ایک ادبی محفل میں ساحرؔ لدھیانوی نے کسی غلط تنقیدی لفظ کا استعمال کیا تو ہاجرہ نے اس تنقید پر بے حد ناراض ہوگئیں اور منگنی کا رشتہ ٹوٹ گیا۔ہاجرہ مسرور اپنی چھوٹی سی عمر ہی سے افسانے لکھنا شروع کیا۔’ ساقی ‘ اس مشہور ادبی رسالہ میں شایع ہونے والے آپ کے افسانوں کو خوب پذیرائی ملی۔جرأ ت مندانہ تخیل اور
غیر روایتی انداز میں سادہ لیکن موثر نثر اور اپنے ایک الگ انداز میں افسانے لکھتی تھیںاور ہاجرہ نے اُردو افسانوں کی تاریخ میں اپنا نام رقم کر لیا۔آپ نے احمد قاسمی کے ساتھ ادبی رسالہ ’’ نقوش ‘‘ کی ادارت کی۔نقوش ایک ادبی جریدہ جس کا اجراء مارچ ۱۹۴۸ میںہوا۔ اس جریدہ کے اولین مدیر اُردو کے نامور شاعر ، نقاد اور صحافی ہاجرہ مسرور کے خاوند ’ احمد ندیم قاسمی اور خود ایک آپ تھیں۔‘ نقوش کے پہلے شمارے میں جن ادیبوں کے تخلیقات شامل ہوئے ان میں ’’ کرشن چندر ‘ احمد ندیم قاسمی ‘ ہاجرہ مسرور ‘ عزیز احمد ‘ حفیظ جالندھر ‘ سیمآب اکبر آبادی ‘ یوسف ظفر ‘ قتیل شفائی ‘ اثر لکھنؤی ‘ اختر شیر وانی ‘ فراق گورکھپوری ‘ حفیظ ہوشیار پوری ‘ علی سردا ر جعففری ‘ عبدالحمید عدم ‘ خالد قادری ‘ مختار صدیقی ‘ سیف الدین سیف ‘ اور عبد العزیز فلک پیما ‘ جیسی معروف ہستیاں ، ادبا و شعرہ حضرات تھے۔خواتین کے سماجی ،سیاسی ،قانونی اور معاشی حقوق تحریک آپ کا عین مقصد تھا۔ ہاجرہ مسرور’’ ترقی پسند مصنفین‘‘ کی تحریک کی مشعل بردار ہونے کے ساتھ ساتھ بر صغیر میں حقوقِ نسواں کے علمبرداروں میں سے ایک تھیں۔ہاجرہ مسرور یک بابی ڈراموں ایک مجموعہ اور افسانوں کے چھ مجموعے شائع ہوئے ۔ ’’ ۱۔ چاند کے دوسری طرف‘ ۲ تیسری منزل‘ ۳۔ اندھیرے اجالے ‘ ۴۔ چوری چھپے ‘ ۵۔ ہائے اللہ ‘ ۶۔چرکے ‘ اپنے ڈراموں میں اپنے ماضی کا انتقام لیا ہے ۔اسکول زمانے میں ایک ڈرامہ حصہ لینے کا موقعہ ملاتومارے ہیبت اور گھبراہٹ سے بے ہوش ہوگئی اور زمیں پر گر پڑیں ۔ اب ڈرامہ نگاری میں مصروف رہیں اور تمام ایک بابی ڈرامے لکھے ہیں ‘‘کھلی ھڑکیاں ‘‘ ۔ ’’ دستک ‘‘ ۔ ’’ فاطمہ‘‘۔ ’’گوری خالہ‘‘ وغیرہ یکبابی ڈراموں کو کالج اور دیگر کئی ادروں نے نے انہیں کھیلا۔’’چوری چھپے‘‘ اس شمارے میںہاجرہ مسرور کے قابل ذکر اٹھارہ افسانوںکو جمع کیا گیا ۔اس تصنیف کے اوّل صفحہ پر ہاجرہ نے اپنے ’ پیش لفظ ‘ میں لکھا ہے کہ ’’ محترم مولانا مصطفیٰ خان مداح ِ حرم اور مرحوم محترمہ اکبری بیگم صاحبہ کے نام جنہوں نے ہماری یتیمی کی تپتی ہوئی دھوپ پر اپنے مہربان وجود کا ٹھنڈا سایہ ڈالا اور جن کے کردار کی عظمت کے نقوش میرے ذہن میں کبھی نہ دھندلا سکیں گے ‘‘۔ مسرور کی کے افسانے لازوال معلو م ہوتے ہیں ۔خاص طور پر تقسیم کے بعد کے واقعیات سے متعلق ہیں اور کئی افسانوں مین ذہنی خلفشار، فکر مندی اور مختلف طبی مسائل شامل ہیں۔ اگرچہ تقسیم ’’ موت اور دودھ ‘‘ جیسی کہانیوں میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے ،جو ایک دور دراز گاؤں میں تشدد اور خرو ج کی تصویر کشی کرتی ہے۔ ’’ The deceased Nation ‘‘جس میں پناہ گزینوں کے کیمپ کی تلخ تفصیلات تحریر کئے گئے ہیں اور زیادہ تر افسانے زندگی کی تلخ حقیقتوں کی عکاسی ہے۔ خواتین کے اندرونی زندگی کی آہیں، ان کی اذیتیں اور تکالیف اور مجروح زخموں کا درد اود صدمات کے طور پر قلم کے تیز نکیلے خنجر نما قلم سے اور ان کے لہو سے لکھی گئی داستانیں اس ماحول میں اپنا سر پیٹ پیٹ کر تلملاتی ہوئی چینخ رہی ہیں لیکن پرسان حال کوئی نہیں ۔۔۔۔!! مشہور زمانہ افسانہ ’’ بندر کا گھاؤ‘ جو و ایک ایسا مسئلہ جو کبھی حل نہیں ہوتا ، ایسا رستا آبلہ، متعدی زخم جو کبھی نہیں بھرتا نہیں ،کیوں کہ اس میں ضرورت سے زیادہ اخلت ہوتی ہے۔مسرور نے کس موثر انداز میں اس ظلم کو بیان کیا ہے جو تعریفِ قابل ہے۔فسانہ ’’ تیسری منزل ‘‘ یہ افسانہ کا مرکزی خیال ’ عورت کی وفاداری اور مرد کی خود غرضی ‘ ہے۔ دراصل کرچی اپارٹمنٹ کی عمارت تیسری منزل پر بار روم کی رقاصہ ایک عیسائی خاتون مس ڈور رہتی ہے جسے رقص کا بے حد شوق ہے۔ وہ ایک مسلم شو میکر حنیف کو اپنی فینسی ڈا نس سکھاتی ہے اس پر کافی مہرباں ، حنیف کی بیوی بچوں کو خوش دلی سے قبول کر لیتی،حنیف کا کا روبا ر کو ترقی دیتی ہے ۔ لیکن حنیف ایک بے وفا مرد ثابت ہوتا ہے

ہاجرہ مسرور یک بابی ڈراموں ایک مجموعہ اور افسانوں کے چھ مجموعے شائع کئے ۔۱۔ چاند کے دوسری طرف‘ ۲ تیسری منزل‘ ۳۔ اندھیرے اجالے ‘ ۴۔ چوری چھپے ‘ ۵۔ ہائے اللہ ‘ ۶۔چرکے‘ ان تمام افسانوں کو ۱۹۹۰ میں شایع ہونے والے ایک ’ افسانوی مجموعہ کلیات ’’ سب افسانے میرے ‘‘ اس عنوان ایک ہی جلد میں شائع کی گئی۔ اس شمارے میں مسرور کے قابل ذکر اٹھارہ افسانوںکو جمع کیا گیا ۔اس تصنیف کے اوّل صفحہ پر ہاجرہ نے اپنے ’ پیش لفظ ‘ سے قبل لکھا ہے ’’ محترم مولانا مصطفیٰ خان مداح ِ حرم اور مرحوم محترمہ اکبری بیگم صاحبہ کے نام جنہوں نے ہماری یتیمی کی تپتی ہوئی دھوپ پر اپنے مہربان وجود کا ٹھنڈا سایہ ڈالا اور جن کے کردار کی عظمت کے نقوش میرے ذہن میں کبھی نہ دھندلا سکیں گے ‘‘ احترام ،پرخلوص اور محبت آمیز جملے واقعی دل کو چھو لیتے ہیں ۔آپ کے نام ہاجرہ کا ذکر بھی بے تکلف اور یاد داشت کے طور پر ذہن پر نقش ہے۔ محترم دادا جان نے کہا ’’ اس نوزائد بچی کا نام ’احمد بی بی ‘ رکھو ۔والدہ کو اعتراض تھا وہ جل گئیں اور کہا ‘ بڑے میاں کو تو ایسے ہی خواب نظر آتے ہیں۔ نو زائد بچی کا نام تو ’ ہاجرہ ‘ ہوگا ،اور والد محترم نے کہا ’ مسرور ‘ ہونا طچاہئے۔ننھی سی جان تینوں ناموں میں گھسٹتی پھر ی اور آخر کارط ’ ہاجرہ مسرورط‘ طئے کیا گیا۔
مسرور کی کے افسانے لازوال معلو م ہوتے ہیں ۔خاص طور پر تقسیم کے بعد کے واقعیات سے متعلق ہیں اور کئی افسانوں مین ذہنی خلفشار، فکر مندی اور مختلف طبی مسائل شامل
ہیں۔ اگرچہ تقسیم ’’ موت اور دودھ ‘‘ جیسی کہانیوں میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے ،جو ایک دور دراز گاؤں میں تشدد اور خرو ج کی تصویر کشی کرتی ہے اور ’’ The decesed Nation ‘‘جس میں پناہ گزینوں کے کیمپ کی تلخ تفصیلات تحری کئے گئے ہیں اور زہادہ تر افسانے زندگی کی تلخ حقیقتوں کی عکاسی ہے ،خواتین کے اندرونی زندگی کی آہیں، ان کی اذیتیں اور تکالیف اور مجروح اخموں کا درد اود صدمات کے طور پر قلم کے تیز نکیلے خنجر نما قلم سے اور ان کے لہو سے لکھی گئی داستانیں اس ماحول میں اپنا سر پیٹ پیٹ کر ۔تلملاتی ہوئی چینخ رہی ہیں لیکن پرسان حال کوئی نہیں۔ مشہور زمانہ افسانہ ’ بندر کا گھاؤ‘ جو و ایک ایسا مسئلہ جو کبھی
حل نہیں ہوتا ،ایسا راستہ متعدی زخم جو کبھی نہیں بھرتا ،کیوں کہ اس میں ضرورت سے زیادہ اخلت ہوتی ہے۔عورت کا بدن پر پدرانا شاہی کا وہ رستہ آبلہ ،جو ان کا مرتکب ہوتا ہے۔ زہریلے ناخن سے کردہ ایک تازہ قخم ،اندر ہی اندر ایک پھوڑا، ایک گہرہ زہریلازخم بن جاتا ہے۔ خاتون ایسے ماحول سے گزری جہاں عورت کی حیثیت غلام یا باندی سے زیا دہ نہیں تھی۔مسرور نے کس موثر انداز میں اس ظلم کو بیان کیا ہے تعریفِ قابل ہے۔عنفوان اپنے اپنی محبت کر جنون میں نفسیاتی طور پر اپنے پڑوسی طالب علم کی محبت میں گرفتار ہوجاتی ہے اور اس سے ملنے کی خاطر رات کے اندھرے میں چھت پر چڑھتی ہے لیکن مارے خوف و ہیبت کی وجہ سے لکڑی کے کمزور زینوں سے پھسل جاتی ہے اور نیچے گر جاتی ہے اور ایک دھماکہ سے گھر کے افراد جاجاتے ہیں اور پھر والد اور بھائی کی غیرت جوش میں آجاتی ہے اور وہ دونوں اسے بے تہاشہ ،خوب پیٹتے ہیں اپنی حیوانی وحشت کی ایک بے ہودہ مثال قائم کرتے ہوئے با پ اپنی بیٹی کو اور بھائی اپنی سگی بہن عنفوان کو ’’ ادھ مری‘‘
حالت میں اسے سسک سسک کر زندہ رہنے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں۔
’’چاند کی دوسری طرف‘‘ اس افسانے میں لڑکے اور لڑکیوں کے رشتوں کے دوران ہونے والے مکرو و فریب پر مبنی ہے ۔وہ نیا نیا صحافی بنا تھا اور اپنے ایک تھانیدار دوست جبار کے پاس ہر روز ایک نئی خبر لینے جایا کرتا۔اس دن بھی جبار کے پاس تھا کہ اچانک ایک شخص منع کرنے کے باوجود تھانے میں جبار کے پاس چلا آیا ۔اس شخص نے اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے تھانیدار سے کہا ’ اس نے اپنی بے حد خوبصور ت بیٹی کے لئے ایک اہل رشتہ طئے کیا تھا۔جب نکاح ہوا تو پتہ چلا کہ دو دولہا وہ لڑکا نہیں تھا جسے اس نے پسند کیا تھا،بلکہ وہ تو ایک ادھیڑ عمر کا شخص تھا۔اس سے مایوس ہوکر پہلے تو اس نے داماد کو ختم کرنے کے بارے میں سوچا ،مگر اپنے مقصد میں ناکام رہنے کے بعد اس نے اپنی بیٹی ہی کو قتل کر دیا۔ اافسانہ ’’ تیسری منزل ‘‘ دراصل کرچی اپارٹمنٹ کی عمارت تیسری منزل مس ڈور ،ایک عیسائی خاتون رہتی ہے جسے رقص کا بے حد شوق ہے۔مس ڈور ایک بال روم ڈانسر ہے وہ ایک مسلم شو میکر حنیف کو اپنی فینسی ڈا نس سکھاتی ہے اور اپنی بے لوث محبت میں کے لئے اپنی تمام جذبو ں کو فنا کر دیتی ہے ،حنیف کا کا روبا ر کو ترقی دیتی ہے اور حنیف کے بیوی بچوں کو بھی خوش دلی سے قبول کر لیتی ہے۔ لیکن حنیف ایک بے وفا مرد ثابت ہوتا ہے ۔؟؟؟؟ ایشیز ‘‘ میں نو جوان خواتین کا ایک گرہ کھلے عام بغاوت پر ہے۔انہیں اس بات کی قطعی پرواہ نہیں کہ ان کے دوپٹہ کیسے سر سے گر جاتے ہیں اور خاندان کے مردوں سے چرائی سگریٹ نوشی میں مگن ہوجاتی ہیں اور محبت اور عشق میں نظمیں ،نغمے لکھتے ہیں۔یہاں تک کہ باری آپا جو ہر وقت سنجیدہ اور متین رہتی ہیں ۔انکا ایک خفیہ محبت کا رشتہ ہے۔’’ دی سلیپ‘‘ میںخوبصورت نجمہ کی شادی اسکی مرضی کے خلاف ایک درندہ صفت آدمی سے صرف اس لئے کر دی گئی وہ امیر ،دولت مند ہے سے ہے اور اس کے پرانے شعلہ سے ملتا سے ملتا رہتا ہے۔یہ بغاوتیںعموماََ خوشی یا پدارانہ نظام سے فیصلہ کن وقفے پر ختم نہیں ہوتیں ’’ ایشیز‘‘ کا روی ایک نئے پڑوسی ضیا ء سے پیار کرتا ہے۔’ہائے اللہ ‘‘ بچپن ہی سے لڑکیوں پر بے جا بندشوں کے نتائج میں بتایا گیا ہے کہ دادی اپنی پوتی کو ننھی کو اپنے چچا زاد بھائی صلو بھیا کے ساتھ بھی کھیلنے سے منع کرتی اور وقتاََ فوقتاََ مختلف قسم کی تنبیہیں اور دھمکیاں دیتی رہتی ہیں۔نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس ننھی کی رغبت اپنے چچا زاد بھائی صلو کی طرف بڑھتا رہتا ہے اب وہ شباب کی دہلیز پر قدم رکھتی ہے تو ایک نامعلوم جذبہ کی تحت اپنے چچا زاد بھائی کے کمرے میں پہنچ جاتی ہے ۔ صلو بھیا سو رہے تھے ،اس کے بکھرے ہوئے بال اور بھیگی ہوئی مسیں دیکھ کر اور دادی ماں کی زیس دتیاں یاد کرکے اس کا دل مغلوب ہو جاتا ہے اور اپنا سر صلو بھیا کے سینے پر رکھ دیتی ہے۔ اسی وقت دادی ننھی کی تلاش کی تلاش میں کرتی ہوئے اس کمرے میں پہنچ جاتی ہی ان کے پوپلے منہ سے ’’ ہائے اللہ ‘ ‘ کے سوا کچھ نہیں نکل پاتا۔ عورت‘‘ میں عورت کی عزت و نفس اور انتقام کو بنیاد بناکر لکھی گئی اس کہانی میں تصدق اور قدسیہ آپس میں محبت کرتے ہیں لیکن شادی نہیں ہو پاتی اور لیکن قدسیہ کا بیاہ کاظم سے ہو جاتا ہے۔تصدق پر اس کا نفسیاتی ردّ عمل یہ ہوتا ہے کہ وہ غلط روی کا شکار ہو جاتا ہے ۔ایک دن قدسیہ سے ملنے آتا ہے تو کاظم قدسیہ سے حسد کی آگ میں جلتا ہوا زہریلی ناگن سا مخاطب ہوتا ہے اور قدسیہ خود پہ پستول کی گولی سے خود کرلیتی ہے اورکاظم کو گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ طبقاتی کشمکش کو بیان کرتی ہوئی ’’ کمینی‘‘ اس افسانے میں ’ چھٹکی ‘ ایک فقیر کی بیٹی کو فقیری یہ پیشہ کبھی پسند نہیں آیا۔ جب اس کے والد کا انتقال ہو جاتا ہے تو وہ کسی گھر جھاڑو پونچھا کا کام شروع کیا۔جہاں ’ معراجو میاں ‘ سے اسکی آشنائی ہو جاتی ہے اور ااس آشنائی کا نتیجہ نکاح کی میں ظاہر ہوتا ہے۔سارا خانداان جب معراجو میاں کا بائیکاٹ کردیتا ہے وہ دونوں میاں بیوی الگ ہو جاتے ہیں۔ادھر خاندان والوں کو خون جوش مارتا ہے اور ایک تقریب میں دونوں کو مدعو کیا جاتا ہے ،لیکن وہاں چھٹکی کے ساتھ سوتیلا برتاؤ سے چھٹکی دل برداشتہ ہو جاتی ہے اور معراجو کو برداشت نہیں ہوتا چھٹکی کو گھر سے بے دخل کر دیتا ہے۔ دی سلیپ‘‘ میںخوبصورت نجمہ کی شادی اسکی مرضی کے خلاف ایک درندہ صفت آدمی سے صرف اس لئے کر دی گئی کہ وہ امیر ،دولت مند ہے ۔یہ بغاوتیںعموماََ خوشی یا پدارانہ نظام سے فیصلہ کن وقفے پر ختم نہیں ہوتیں۔’ہائے اللہ ‘‘ بچپن ہی سے لڑکیوں پر بے جا پا بندیو ں کے بد ترین انجام کو بہترین انداز میں بیان کیا گیا ہے۔عورت‘‘ میں عورت کی عزت و نفس اور انتقام کو بنیاد بناکر لکھی گئی اس کہانی میں طبقاتی کشمکش کو بیان کیا گیا ہے۔
۱۹۶۰ میں آپ کی فلمی اسکرپٹ اور اسکے مکالمے بھی لکھیں۔آپ کو فلم کا ’بہترین اسکرپٹ کے لئئے ’’ نگار اعزاز ‘‘ سے نوازہ گیا۔‘’ آخری اسٹیشن‘‘ کے بعد آپ نے دیگر فلموں کی کہانیاں،فلمی اسکرپٹ اور مکالمہ لکھنے سے انکار کر دیا۔ ۱۹۶۲ میںاس آپ کو’’ مجلس ترقی ِ ادب ‘‘ نے آپ کے یکبابی کامیاب ڈراموں کے مجموعہ ’’ وہ لوگ‘‘
کے لئے ‘‘ رائٹر آف دی ائیر‘‘ اس اعزاز سے آپ نوازی گئیںَ۔اس ڈراموں کے مجموعے کے دیباچے ’’ فیض احمد فیض ‘‘ اور ’’ امتیاز علی تاج ‘‘ نے تحریر کئے ہیں۔
محترمہ ہاجرہ مسرور ۱۵ ستمبر ۲۰۱۲ کو کراچی میں انتقال کر گئیں ۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا