بل کی ادائیگی

0
0

ڈاکٹر عبدالمجید بھدرواہی

گوبند رام کی بیوی لمبی بیماری کے بعد اس جہاں سے رخصت پا گئی۔اب وہ خود بھی بیمار رہنے لگا ، کبھی یہ بیماری تو کبھی وہ بیماری ، کبھی اس ڈ اکٹر کے پاس جانا تو کبھی اس حکیم کے پاس جانا مگر بیماری تھی کہ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔جتنا روپیہ پیسہ تھا سب خرچ ہوگیا ۔ کمزوری بڑھتی گئی اور صحت یابی کی کوئی امید نظر نہ آنے لگی۔اس نے ادھر ادھر سے روپیوں کا انتظام کیا اور گڑگاو ں کے پرائیو ٹ اسپتال جانے کا ارادہ کیا۔وہاں کے ڈاکٹروں نے بیماری کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے اسے فوراََ داخل کیا۔
گوبند رام کے دو بیٹے تھے ۔بڑا بیٹااسکول میں پہلے ہی دن سے شرارتیں کرتا تھا۔ اس کی شرارتوں سے تنگ آکر ایک دن پرنسپل نے اس کے باپ کو اپنے دفتر بلایا اور اس سے کہا کہ وہ اپنے بچے کو یہاں سے لے جائے کیونکہ ہم اس کی شرارتوں سے تنگ آچکے ہیں۔یہ سب سن کر گوبند رام کی بڑی بے عزتی ہوئی۔ اس نے بیٹے سے کہا چل گھر اب تجھے مزہ چکھاؤں گا۔ڈر کی وجہ سے بیٹا گھر کے بجائے کسی ڈرائیور کے ساتھ بطور کنڈیکٹر کام پر لگ گیا۔باپ کو تشویش ہوئی اور اس نے تلاش شروع کردی ، تھانے میں بھی رپورٹ لکھوائی مگر کوئی خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہ آیا۔
چھوٹا بیٹا انجینئرنگ کرکے کسی ٹریول ایجنٹ کے ذریعہ قطر چلا گیا اور وہاں ایک کمپنی میں اچھی تنخواہ پر ملازم ہوگیا۔ایک سال تک سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا ۔ وہ گھر والوں کو بھی پیسے بھیجتا تھا اور خود بھی خوش تھا۔
شومئی قسمت ایک دن اپنے ہی ساتھی سے گرما گرمی ہوئی اور بات لڑائی جھگڑے تک جا پہنچی۔ کیس پولیس کے پاس گیا اور بعد میں عدالت نے دونوں کو ایک ایک سال کی سزا دی۔اس واقعے سے باپ بیٹا دونوں پریشان ہوئے۔پرائے ملک میں صبر کے سوا کیا کیا جاسکتا تھا۔
ایک سال گزر جانے کے بعد اسے رہائی ملی اور پھر زبردستی اسے ہندوستان بھیج دیا گیا۔جیب میں تو کچھ نہیں تھا وہاں کی حکومت نے اپنے دیش سے نکالا بھی اور واپسی کا ٹکٹ بھی دے دیا۔
گھر پہنچ کر اسے معلوم ہوا کہ والدہ کب کی فوت ہوچکی ہیں اور باپ گڑگاؤں کے پرائیوٹ اسپتال میں داخل ہے۔
وہ سیدھے گڑگاؤں پہنچا ،وہاں باپ کی نازک حالت کو دیکھ کر بہت پریشان ہوا۔اس کی پریشانی میں مزید اضافہ ہوا جب اسپتال والوں نے بل کی ادائیگی کے لیے روپیے جمع کرنے کو کہا۔
اسپتال سے باہر نکل کر اس نے اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں میں لیا اور رونا شروع کر دیا۔وہ سوچ رہا تھا کہ بل کی رقم کہاں سے ادا کرے گا اور اگر ایشور نہ کرے باپ نے اسپتال میں وفات پائی تو یہ تب تک لاش نہیں دیں گے جب تک بل کی ادائیگی نہیں ہوگی۔اسی کشمکش میں تھا کہ ایک شخص اس کے قریب آیا اور بڑی ہمدردی سے اس سے اس کی پریشانی کی وجہ دریافت کرنے لگا۔ باتوں باتوں میں اس شخص نے اس کا نام پتہ بھی پوچھ لیا۔ اس نے کہا کہ میرا نام امریش ہے، میرے باپ کا نام گوبند رام ہے، ہم دھرم پور سے ہیں۔
اس انجان شخص نے اسے یہ کہہ کر گلے سے لگایا کہ تم میرے چھوٹے بھائی ہو اور میں تمہارا بڑا بھائی امت ہوں۔دونوں ایک دوسرے کے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے اور اپنی قسمت کو کوسنا شروع کردیا۔
بھائی اب کیا کریں گے۔۔۔۔۔
ابھی بات شروع ہوئی ہی تھی کہ وارڈن بوائے نے انہیں بتایا کہ گوبند رام وفات پاچکے ہیں ۔یہ خبر سن کر دونوں جلدی جلدی اندر گئے اور زار وقطار رونا شروع کیا۔
اتنے میں اسپتال کے ملازم نے لاش کے سرہانے سے کاغذکا پرچہ نکالا جس پر ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں بیان نزع لکھا تھا۔ اس پرچی پر لکھا تھا کہ اسپتال والوں نے میرا بہت خیال رکھا ، مجھ میں سکت نہیں کہ میں بل ادا کر سکوں۔ مجھے تو یہ بھی خبر نہیں کہ میرے دونوں بیٹے کہاں اور کس حال میں ہیں۔اس لیے میں اپنی لاش اسپتال والوں کے سپرد کرتا ہوں وہ جو چاہیے میری لاش کے ساتھ کرے۔
دونوں بیٹوں نے اس وصیت کے سامنے سر جھکایا اور یوں بل کی ادائیگی کی پریشانی دور ہوئی۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا