بانڈی پورہ عدالت نے ’انسانی اسمگلنگ‘کیس میں ضمانت کی درخواستوں کو رد کیا

0
62

یواین آئی

سری نگر؍؍پرنسپل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج بانڈی پورہ نے ‘انسانی اسمگلنگ’ کے ایک مقدمے میں ضمانت کی متواتر درخواستوں کو مسترد کر دیا ہے۔پرنسپل سیشن جج بانڈی پورہ امیت شرما نے نذیر احمد چوپان ساکن حاجن بانڈی پورہ اور فیاض اضمد پرے ساکن سمبل بانڈی پورہ کی ضمانت کی درخواستوں کو مسترد کیا ہے۔
مذکورہ ملزمین نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ ان کی ضمانت اس بنیاد پر منظور کریں کہ اس عدالت میں چارج شیٹ پیش کی گئی ہے اور مقدمے کی سماعت بھی شروع ہوچکی ہے۔انہوں نے اپنے وکیل کے ذریعے استدعا کی کہ: ‘مقدمے کے قبل ان کو حراست میں لینا سزا کے مترادف ہے اور شواہد کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا خدشہ بھی مکمل طور پر ختم ہوا ہے’۔سرکاری وکیل نے کہا: ‘صورتحال میں کسی تغیر کے بغیر متواتر ضمانت کی درخواستیں قابل سماعت نہیں ہیں’۔
انہوں نے کہا: ‘اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس عدالت میں چالان پیش کیا گیا ہے لیکن ملزموں کے خلاف فرد جرم عائد کرنا ابھی باقی ہے نیز متواتر ضمانت کی درخواستوں میں جن بنیادوں پر مقدمہ درج کیا گیا ہے ان کی پہلے ہی جانچ کی گئی ہے اور فیصلہ لیا گیا ہے’۔عدالت نے مشاہدہ کیا کہ قبل ازیں پیش کی گئی درخواست 2 فروری کو مسترد کر دی گئی تھی اور مذکورہ ضمانتی درخواست کو نمٹاتے وقت عدالت نے ان دونوں ملزموں کے رول پر تفصیلی بحث کی تھی۔
مذکورہ ملزموں نے سیکشن 370 (افراد کی سمگلنگ) اور 109 کے تحت جرائم کے ارتکاب کے لئے پولیس اسٹیشن حاجن میں درج ایف آئی آر زیر نمبر 116 آف 2023 میں ضمانت کی درخواست دائر کی تھی۔یہ مقدمہ روہنگیا خواتین کی خرید و فروخت کے لئے ان کو ملک کے ایک حصے سے دوسرے حصے میں منتقل کرنے کے متعلق ہے۔عدالت نے مشاہدہ کیا: ‘جس طریقے سے اس جرم کا ارتکاب کیا جا رہا ہے وہ ملک کی قومی سلامتی کے لئے براہ راست ایک خطرہ ہے کیونکہ ان خواتین کو نکاح کی تقریب کے انعقاد کے لئے دوسرے ممالک سے لایا جا رہا ہے اور اس کے بعد انہیں غیر قانونی طور پر ملک کے اندر ہی آباد کیا جا رہا ہے، یہ لوگ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ یہ طریقہ کار سراسر ملکی مفادات کے خلاف ہے’۔
عدالت نے مشاہدہ کیا کہ جو لڑکیاں اس ‘انسانی اسمگلنگ کے کاروبار’ کی شکار ہوتی ہیں ایک طرف ان کی اپنے خاندان سے جڑوں کو اکھاڑ دیا جاتا ہے تو دوسری طرف ان کو ایجنٹوں کے ذریعے ملک کے ایسے نامعلوم مقامات پر آباد کیا جاتا ہے جہاں سے ان کا اپنے خاندانوں کے ساتھ دوبارہ متحد ہونے کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی ہے۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا