یواین آئی
سری نگر؍؍جموں وکشمیر کی پانچ لوک سبھا سیٹوں میں سے بارہمولہ لوک سبھا سیٹ پر انتہائی دلچسپ اور پْر جوش مقابلہ تھا جہاں سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ اور پیپلز کانفرنس کے چیئرمین سجاد لون جیسے بڑے لیڈر ایک غیر معروف سیاسی جماعت کے تہاڑ جیل میں بند سربراہ انجینئر رشید کے خلاف بر سر میدان تھے۔تاہم محبوس انجینئر نے منگل کے روز دونوں عمر عبداللہ اور سجاد لون کو ناقابل یقین مارجن سے شکست دے کر اپنے بلند و بالا سیاسی قد کا اعلان کر دیا اور ان کے بیٹوں 23 سالہ ابرار اور 21 سالہ اسرار نے الیکشن مہم چلا کر اپنے والد کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے میں کلیدی کر ادا کیا۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق انجینئر رشید نے کل 4 لاکھ 72 ہزار 8 سو 81 ووٹ حاصل کرکے اپنے نزدیکی حریف عمر عبداللہ کو 2 لاکھ 4 ہزار 1 سو 42 ووٹوں سے شکست دے دی۔
انجینئر رشید کون؟
عبدالرشید شیخ جو سیاسی و عوامی حلقوں میں انجینئر رشید کے نام سے مشہور ہیں، کا تعلق شمالی کشمیر کے ضلع کپوارہ کے قلم آباد لنگیٹ سے ہے۔وہ جموں وکشمیر عوامی اتحاد پارٹی کے سربراہ ہیں اور سال 2019 سے مبینہ ملی ٹنسی فنڈنگ کیس میں غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ ( یو اے پی اے) کے تحت تہاڑ جیل دلی میں بند ہیں۔
انہوں نے سال 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں حصہ لینے کے لئے بارہمولہ سیٹ پر جیل سے ہی کاغذات نامزدگی جمع کراکے نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ اور پیپلز کانفرنس کے چیئرمین سجاد لون جیسے قد آور لیڈروں کے خلاف لڑنے کا فیصلہ کر دیا۔انجینئر رشید، جو پیشے سے ایک انجینئر تھے، نے سال 2008 میں سرکاری نوکری کو خیر باد کرکے لنگیٹ اسمبلی حلقے سے انتخابات لڑ کر اپنے سیاسی کیرئر کا کامیاب اور شاندار آغاز کیا اور پہلی ہی کوشش میں کامیابی کا جھنڈا گاڑ کر لوگوں خاص کر سیاسی مبصروں کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔
بعد ازاں انہوں نے سال 2014 میں اپنے منفرد سیاسی منشور کے بل پر ایک بار پھر اسمبلی انتخابات میں کامیابی حاصل کر لی۔تاہم ان کے منفرد سیاسی منشور اور انداز کے باعث ان کا سیاسی سفر تنازعات سے بھر پور رہا اور انہیں اسمبلی میں بار ہا احتجاج پر دیکھا گیا۔سال 2015 میں وہ ‘بیف پارٹی’ کا انعقاد کرنے پر سرخیوں میں رہے اور اسمبلی میں بی جے پی – پی ڈی پی کی مخلوط سرکار کے دوران ان پر بی جے پی کے کچھ اسمبلی ممبروں نے حملہ کر دیا۔
بعد ازاں دلی کے پریس کلب میں ضلع اودھم پور کشمیری ٹرک ڈرائیور کی لنچنگ پر اپنے تاثرات کے اظہار پر ان پر سیاہی چھڑکی گئی۔کہا جاتا ہے کہ اجنیئر رشید کا سیاسی نظریہ علاحدگی پسندوں کے نظریے سے قریب ہے۔ وہ اپنی شعلہ بیانی کے لئے بھی سیاسی و صحافتی عوامی حلقوں میں اپنی ایک منفرد پہچان رکھتے ہیں۔سال 2019 کے پارلیمانی انتخابات میں انجینئر رشید نے بارہمولہ لوک سبھا سیٹ سے میدان میں اتر کر کاغذات نامزدگی جمع کردئے۔ انہیں اس وقت جموں وکشمیر سے تعلق رکھنے والے پہلے آئی اے ایس ٹاپر شاہ فیصل کی حمایت حاصل تھی، جنہوں نے اس وقت سیاسی میدان میں اتر کر اپنی سایسی جماعت بنائی تھی۔
ان انتخابات میں انجینئر رشید زائد از ایک لاکھ ووٹ حاصل کرکے تیسرے نمبر پر رہے تھے۔سال 2019 کے پارلیمانی انتخابات کے چند ماہ بعد ہی 5 اگست کو جموں و کشمیر کے خصوصی درجے کو ختم کر دیا گیا اور اس کو دو حصوں میں منقسم کر دیا گے۔اسی برس انجینئر رشید کو مبینہ ملی ٹنسی فنڈنگ کیس میں یو اے پی اے ایکٹ کے تحت گرفتار کرکے تہاڑ جیل دلی میں بند کر دیا گیا۔ان کی غیر موجودگی میں ان کے بیٹوں ابرار رشید اور اسرار رشید نے اپنے والد کے حق میں الیکشن مہم چلائی اور ہمدردی کی بنیاد پر لوگوں کا ووٹ حاصل کیا۔مبصرین کے مطابق انجینئر رشید کے بیٹوں کی الیکشن ریلیوں میں لوگوں کا جم غفیر جمع ہوجاتا تھا جو بالآخر ان کا مضبوط ووٹ بینک بن گیا۔