بابری مسجد ہماری ذمہ داریاں۔۔۔

0
583

ہندوستانی مسلمان عدالت عظمیٰ سے انصاف کا طلبگار۔۔!

  • اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے ،توم ہی سر بلند رہو گے اگر تم حق پر قائم رہو۔۔تمام مساجد اللہ کا گھر ہیں، حدیث مبارکہ ہے بے شک زمین میں الہ تعالیٰ کے گھر مسجدیں ہیں، اور اللہ تعالیٰ کہ ذمہ حق ہے کہ جو شخص ان میں اللہ کی زیارت کو جائے اس کا اکرام فرمائیں۔۔اور ایک حدیث مبارکہ ہئے بے شک اللہ تعالیٰ کے گھرئوں کو آباد کرنے والے اللہ کے خاص لوگ ہیں، یہ دونوں حدیثیں جامع صغیر جلد ایک صفحہ نمبر ۹۰۔۹۱ میں ہیں اور ان میں مساجد کو اللہ کے گھر فرما یا گیا ہے۔ مسجد کے معنی لغت میں سجدہ گاہ کے ہیں  اور اسلام کی اصطلاح میں مسجد اس جگہ کا نام ہے جو مسلمانوں کی نمازکے لئے وقف کردی جائے ۔مسجد مسلمانوں کی عبادتگاہ کا نام ہے۔اسلام کی تاریخ رہی کہ جب سب سے پہلی مسجد مدینہ طیبہ میں تعمیر کی گئی تو اللہ کے رسول ﷺ نے اس مسجد کی اراضی کو خرید کر مسجد کی تعمیر فرما ئی۔تاریخ اسلام کی پہلی مسجد جو مدینہ منورہ سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر واقع بستی قباء میں واقع ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق 8 ربیع الاول 13 نبوی بروز دو شنبہ بمطابق 23 ستمبر 622ئکو یثرب کی اس بیرونی بستی میں پہنچے اور 14 روز یہاں قیام کیا اور اسی دوران اس مسجد کی بنیاد رکھی۔جب مدینہ کی جانب ہجرت کا سلسلہ شروع ہوا تو اس بستی میں آنے والے مسلمانوں نے مسجد بنائی جس میں بیت المقدس کی جانب منہ کرکے نماز پڑھی جاتی تھی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہجرت فرمائی اور قباء￿  میں قیام فرمایا تو اسی مسجد میں نماز ادا کی اور یہ "مسجد تقویٰ” کہلائی۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے ،توم ہی سر بلند رہو گے اگر تم حق پر قائم رہو۔۔تمام مساجد اللہ کا گھر ہیں، حدیث مبارکہ ہے بے شک زمین میں الہ تعالیٰ کے گھر مسجدیں ہیں، اور اللہ تعالیٰ کہ ذمہ حق ہے کہ جو شخص ان میں اللہ کی زیارت کو جائے اس کا اکرام فرمائیں۔۔اور ایک حدیث مبارکہ ہئے بے شک اللہ تعالیٰ کے گھرئوں کو آباد کرنے والے اللہ کے خاص لوگ ہیں، یہ دونوں حدیثیں جامع صغیر جلد ایک صفحہ نمبر ۹۰۔۹۱ میں ہیں اور ان میں مساجد کو اللہ کے گھر فرما یا گیا ہے۔ مسجد کے معنی لغت میں سجدہ گاہ کے ہیں  اور اسلام کی اصطلاح میں مسجد اس جگہ کا نام ہے جو مسلمانوں کی نمازکے لئے وقف کردی جائے ۔مسجد مسلمانوں کی عبادتگاہ کا نام ہے۔اسلام کی تاریخ رہی کہ جب سب سے پہلی مسجد مدینہ طیبہ میں تعمیر کی گئی تو اللہ کے رسول ﷺ نے اس مسجد کی اراضی کو خرید کر مسجد کی تعمیر فرما ئی۔تاریخ اسلام کی پہلی مسجد جو مدینہ منورہ سے تین کلومیٹر کے فاصلے پر واقع بستی قباء میں واقع ہے۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق 8 ربیع الاول 13 نبوی بروز دو شنبہ بمطابق 23 ستمبر 622ئکو یثرب کی اس بیرونی بستی میں پہنچے اور 14 روز یہاں قیام کیا اور اسی دوران اس مسجد کی بنیاد رکھی۔جب مدینہ کی جانب ہجرت کا سلسلہ شروع ہوا تو اس بستی میں آنے والے مسلمانوں نے مسجد بنائی جس میں بیت المقدس کی جانب منہ کرکے نماز پڑھی جاتی تھی۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ہجرت فرمائی اور قباء￿  میں قیام فرمایا تو اسی مسجد میں نماز ادا کی اور یہ "مسجد تقویٰ” کہلائی۔ آج تک مسلمان جہاں جہاں بھی مساجدیں تعمیر کروائی کسی کی زمین پر ناجایز قبضہ کرتے ہوئے تعمیر نہیں کی ۔ یہ نبی ﷺ کی تعلیمات ہیں یہ اسلام ہے اللہ کے رسول ﷺ کی تعلیمات کا حصہ ہیں۔اس بات کی تاریخ شاہد ھیکہ مساجدوں کی تعمیر ناجائز اراضی پر نہیں ہوئی ہے۔۔لیکن ہندوستان میں آزادی کے بعد سے آج تک ملک میں فرقہ پرست تنظیموں نے عوام کو گمراہ کرتے ہوئے قومی یکجہتی کی فضاء کو مکدر کئے ہوئے ہیں اور ہندوستان میں تاریخی مساجد و تاریخی عمارتوں کے نام پر اپنی سیاسی روٹیاں سیکھنے میں مصروف ہیں۔ تاکہ انکی سیاسی دوکانیں ہمیشہ قائم رہیں ملک کی قومی یکجہتی کی فضاء مکدر ہوتی ہے تو ہونے دیں عوامی مسائل  سبوتاج ہوتے ہیں تو ہونے دیں ملک کی ترقی عوامی مسائل سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں۔۔۔؟اسی لئے آج تک ملک ترقی کی منزلیں طئے کرنے کے بجائے زوال پزیر ہو تا جا رہا ہے ملک کی معشیت مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے ،ملک مقروض ہو چکا ہے ۔ ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔مذہبی جنونیوں نے آج بھی مسجد اور مندر کے جھگڑئوں میں معصول عوام کو الجھا کر رکھا دیا۔ اس تباہی کے ذمہ دار کون۔۔۔لیکن بابری مسجد اور رام مندر کی تعمیر کے نام پر آج بھی ملک کی سیات گرم ہے۔ایودھیا میں مندر بنانے سے کس نے روکا جہاں چاہئے بنا لو مگر مسلمانوں کی بابری مسجد کی اراضی کو چھوڑ کر۔۔۔اسلام امن بھائی چارہ کا درس دیتا ہے یہ ہمارے نبی ﷺ کے اُسوئے حسنہ ہیں۔ ٭بابری مسجد کی شہادت، ہندوستانی مسلمان آج بھی انصاف کے طلبگار ہے آخر کب ملے گا انصاف؟جب بھی /6ڈسمبر آتا ہے بابری مسجد کی شہادت کی یاد تازہ ہو جاتی ہے۔  بری مسجد کی شہادت کی ہندوستانی مسلمانوں نے سلور جبلی منا چکے ہیں۔ مگر بابری مسجد کی اراضی سے متعلق ملکیت اراضی سے متعلق آج تک فیصلہ محفوظ ہے اور عدالت کی کوشش رہی کہ اس مسئلہ کو افہام تفہیم کے ذریع مل بیٹھ کر سلجھا لیا جا ئے اس کا حل تلاش کر لیا جائے ۔تاحال اس ضمن میں مرحوم  انڈیا میں بابری مسجد اور رام جنم بھومی تنازعے میں بابری مسجد کے لیے آواز اْٹھانے والے ہاشم انصاری 96 سال کی عمر میں ایودھیا میں انتقال کر گئے ہیں۔ ٭ہاشم انصاری مرحوم۔۔60 سال سے زیادہ عرصے تک بابری مسجد کے لیے قانونی لڑائی لڑنے والے ہاشم انصاری کے مقامی ہندو سادھو سنتوں سے رشتے کبھی خراب نہیں رہے۔ اپنی زندگی میں بہت کوششیں کر لی اور ادھوری خواہش کے ساتھ دارِفانی کو کوچ کر گئے ہیں ۔ ہندوستانی کی فرقہ پرست تنظیمیں اس یوم یوم فتح مناتی آرہی ہے اور اسی طرح مسلمان اس یوم کو یوم سیاہ کے نام سے جمہوری انداز میں اپنے احتجاج کو جاری رکھے ہوئے ہیں کہ اس اُمید کے ساتھ کسی نہ کسی دن عدالت ان کے ساتھ انصاف کریگی۔ اس امید کے ساتھ ہندوستانی مسلمانوں اور سیکولر ذہن رکھنے والے اس انتظار میں پچیس برس گزار چکے ہیں کہ مسئلہ آج نہیں تو کل حل ہو گا۔ ایک طرف فرقہ پرست جنونیوں کے یہ دعوے کہ متنازع اراضی پر مندر بنانے کے دعویدار کرتے ہوئے عدالت عظمی کی توہین کے مرتکب ہو رہے ہیں ۔۔؟ اور دوسری جانب مظلوم مسلمان عدالت سے انصاف کی اُمید لگائے بیٹھے ہیں۔ کیا یہی ملک کی جمہوریت ہے ۔۔؟ سوال یہ پیدا ہو تا ھیکہ ہندوستان میں جمہوریت کے دعوے کرنے والے سیاسی قائدین کی یہی ذمہ داری ھیکہ بابری مسجد کی شہادت اور اراضی سے متعلق ۔ آج بابری مسجد کی شہادت کی 25 ویں برسی کے پیش نظر ہندوستان بھر انتہائی سخت  ترین سکیورٹی انتظامات کئے گئے ہیں۔ ایودھیا میں شہید بابری مسجد کی برسی کی وجہ سے۔ملک کی مختلف  ریاستوں میں  بابری مسجد کی شہادت کی 25 ویں برسی کے موقع پر مختلف مسلم تنظیموں نے یوم سیاہ منا رہے ہیں۔۔۔؟ آج سے 25 سال پہلے 6 دسمبر 1992ء کو ایودھیا میں واقع تقریبا 500 سال پرانی تاریخی بابری مسجد کو انتہا پسند ہندؤں نے شہید کیا۔ بابری مسجد کے مسمار کیے جانے کے موقع پر بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینیئر رہنما لال کرشن ایڈوانی، مرلی منوہر جوشی، ونے کٹیار اور اوما بھارتی سمیت متعدد ہندو لیڈران بھی موجود تھے۔ بابری مسجد کی جگہ وہاں پر ایک عارضی مندر تعمیر کر دیا گیا۔ بعض ہندوؤں کا عقیدہ ہے کہ ان کے بھگوان رام اسی مقام پر پیدا ہوے تھے۔ اس لیے وہ وہاں ایک عظیم الشان مندر تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ بابری مسجد کے انہدام کے بعد اس ملک کے کئی علاقوں میں فرقہ ورانہ فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ جس میں بڑی تعداد میں مسلمان مارے گے تھے۔ بابری مسجد رام مندر تنازع تقریبا 500 سال قدیم بابری مسجد کی ملکیت کے حوالے سے مختلف عدالتوں میں تقریباً ساٹھ سال کا سفر مکمل کر چکا ہے، بابری مسجد کی 1527 میں تعمیر کے بعد ہی انتہاپسند ہندؤں کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا مگر اس تنازع نے شدت اس وقت اختیار کی جب  1949 میں انتہاپسند ہندوؤں نے رات کے وقت بابری مسجد میں مورتیاں رکھ دیں جس کے بعد مسلمانوں اور ہندوؤں نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ حکومت نے اس مسجد کی جگہ کو متنازع قرار دے کر بندکروا دیا۔ بابری مسجد کیس کی سماعت پہلے ایودھیا کے ضلع فیض آباد کی عدالت میں ہوتی رہی تاہم گزشتہ کئی برسوں سے الہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنئو بنچ اس کیس کی سماعت کر رہی تھی جو تین ججز پر مشتمل ہے۔ مقدمے کی سماعت کے دوران کئی جج ریٹائر اور کئی کے تبادلے بھی ہوئے۔ مقدمے کے دوران ہی انتہاپسند ہندو تنظیموں نے بابری مسجد کے خلاف مہم چلائی اور بالآخر 6 دسمبر 1992 میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور وشوا ہندو پریشد کے رہنماؤں کی موجودگی میں ہزاروں انتہاپسند ہندوؤں نے بابری مسجد کو شہید کر دیا، مسجد شہید کرنے کے اس واقعہ کے دس دن کے بعد جسٹس لبراہن کمیشن کا قیام عمل میں آیا تھا اور اسے تین ماہ کے اندر یعنی  16 مارچ 1993 تک اس بات کا پتہ لگا کر اپنی رپورٹ دینی تھی کہ کن حالات کے نتیجے میں بابری مسجد مسمار کی گئی۔ لیکن یہ ہندوستان کی تاریخ کا سب سے طویل انکوائری کمیشن ثابت ہوا اور اس کی مدت کار میں ریکارڈ 48 مرتبہ توسیع کی گئی اورکمیشن میں متعدد مرتبہ توسیع دیے جانے کے باعث لیبرہان کمیشن کافی عرصے سے تنازعات کا شکار رہا اور بالاخر17 سال بعد جسٹس لیبرہان نے 30 جون 2009 کو رپورٹ ہندوستانی وزیراعظم کو پیش کردی اور یہ رپورٹ نومبر2009 کو ہندوستانی پارلیمنٹ میں پیش کی گئی۔ تاہم اس دوران بابری مسجد کی عدالتی کارروائی بھی جاری رہی اور دونوں فریقوں کی جانب سے15 ہزار صفحات پر مشتمل دستاویزات بھی پیش کی گئیں اوراس وقت سب کی نظریں اس ملک کی سپریم کورٹ پر لگی ہوئی ہیں اور فیصلے کے انتظار میں ہیں۔ تاہم آج دنیا بھر میں عدالتیں متعلقہ مقدمات کو مقررہ وقت پر نمٹا کر مظلوم کو انصاف فراہم کرنے کی کوشش کرتی ہیں لیکن ہندوستان کی عدلیہ نے ایک انتہائی اہم نوعیت کے مقدمہ کو گزشتہ 25 سال سے لٹکا کر رکھا ہوا ہے اور اس عرصے میں قتل و غارت میں ملوث کئی اہم مجرم اس دنیا سے رخصت ہوگئے ہیں جبکہ کئی دندناتے پھر رہے ہیں۔ شہادت بابری مسجد کے بعد پھوٹ پڑے فسادات میں ہزاروں مسلمان لقمہ اجل بن گئے، لبراہن کمیشن بھی اپنی رپورٹ پیش کرچکا ہیلیکن حکومت نے آج تک کوئی ایکشن نہیں لیا آج دنیا کا ہر باشعور انسان ہندوستان سے یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ ایک جمہوری اور سیکولر ملک کا دعویدار ہونے کے ناطے اس اہم مقدمہ میں ملوث افراد کو کیفر کردار تک پہنچائے گا اور ہندوستان کی سب سے بڑی اقلیت یعنی مسلم آبادی کے مطالبات کو پورا کرے گا۔ اس لئے بھی کہ آج سے کئی سال قبل ہندوستانی قوم سے خطاب کرتے ہوئے اس وقت  کے وزیراعظم نرسمہاراؤ نے مسلمانوں سے وعدہ کیا تھا کہ بابری مسجد اسی مقام پر تعمیر ہوگی لیکن آج تک اس وعدے پرعمل نہ ہوسکا۔ کانگریس کا اقتدار ختم ہوا حکومتیں بلدیں مگر بابری مسجد کی اراضی کا مسئلہ جوں کا توں ہے اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ بابری مسجد رام جنم بھومی کا مسئلہ آج بھی متنازعہ بنا ہوا ہے۔ اس مسئلے کے سلسلے میں ویشو ہندو پریشد کی نگاہیں بی جے پی کے رہنما اوراس ملک کے وزیراعظم نریندرمودی پرلگی ہوئی ہیں جبکہ بابری مسجد ایکشن کمیٹی اور سنی وقف بورڈ سپریم عدالت کے فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں اورکچھ لوگ کوشش کر رہے ہیں کہ یہ مسئلہ فیض آباد اور ایودھیا کے عوام  کے درمیان باہمی سمجھوتے سے طے کر لیا جائے۔ بابری مسجد کی شہادت ہندوستان کی جمہوریت پر بدنما داغ : ہندوستان جیسے ملک کے لئے حکومت او ر حکام کے ذریعہ برتی جا رہی جانب داری بہت خطرناک ہے۔ حق کو دبانا اور انصاف کی پامالی کسی بھی ملک کے بہتر مستقبل اور ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ مظلومین کو انصاف اور مجرمین کو سزا بروقت دی جانی چاہے تھی۔انصاف میں تاخیر سے جرائم پیشہ افراد کے حوصلے بلند ہوتے ہیںہر شہری کے جان و مال اور عزت و آبرو کا تحفظ حکومت کی اولین ذمہ داری ہوتی ہے مگر بدقسمتی سے وطن عزیز میں اس سنگین معاملے میں بھی تعصب کا مظاہرہ کیا جاتاہے۔ مگر کب ہندوستانی عوام بالخصوص مسلمانوں کو انصاف ملیگا بابری مسجد کا مسئلہ ہو یا پھر مسلمانوں کی تعلیمی روزگار جیسے مسائل ہو ں۔۔؟ مسلمانوں کا ایمان و یقن اللہ کی ذات پر ہے بے شک مساجداللہ کا گھر ہے اس کی حفاظت وہی کریگا جس طرح اس اپنے گھر خانہ کعبہ کی حفاظت فرمائی تھی سورہ فیل میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔۔یہ سورت ایک نہایت اہم تاریخی حادثے  واقع سے تعلق رکھتی ہے، مگر نہایت مضبوط آیات کے ضمن میں بیان کرتی ہے اور بیان کرتی ہے کہ خداوند متعال نے ۔ مکہ پر حملہ کرکے کعبہ کو ویران کرنے کا ارادہ کرنے والے حبشی سپہ سالار ابرہہ پر ۔ کس طرح بلا نازل کردی اور ابرہہ اور اس کے لشکر پر پرندوں کی فوج بھیج دی جنہوں نے ان کو سجیل (پکی ہوئی مٹی کے پتھروں) کا نشانہ بنایا۔ (واضح رہے کہ تیسری آیت میں ابابیل سے مراد در حقیقت سارس نامی پرندوں کی ہیئتِ پرواز ہے سو خدا کے حکم پر ابرہہ کے لشکر پر حملہ آور پرندے سارسوں کی اڑان اڑتے تھے چنانچہ ابابیل  ابرہہ کے ارادوں کو ناکام بناکر اُسے ہلاک کردیا۔ ہم اہل ایمان مسلمانوں پر یہ ذمہ داری بنتی ھیکہ ہم نماز قائم کرتے ہوئے مساجد کو آباد رکھیں۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا