ایک پَل

0
0

ش۔ شکیل
اورنگ آباد (مہاراشٹر)
9529077971
’’اپنی گلی محلے گندگی کی آمجگاہ بنے ہوئے ہیں۔اُن کی گلیاں دیکھوصاف ستھری مسکراتی مونا لیزا کی مسکراہٹ کی طرح لگتی ہیں۔ ‘‘
’’ہم لوگوں کو کیا ہو گیاہے؟معمولی معمولی بات پر مرنے مارنے پر آمادہ ہوتے ہیں۔ایف آئی درج کرکے کورٹ کچری میں کھینچنے کی بات کرتے ہیں۔‘‘
’’گھر میں بزرگوں کی قدر و قیمت نہیں ہے۔اُن کے ساتھ عزت و احترام سے پیش نہیں آتے ہیں۔اور نہ ہی سیدھے منہ سے بات کرتے ہیں۔‘‘
دوسرا پَل
گندگی کی بات کرنے والا صبح سویرے منہ اندھیرے دو کیاری بیگ جن میں کچرا بھرا ہوا تھا ۔ایک بند دروا زے کے سامنے رکھ کر نو دو گیارہ ہو گیا۔ایک کتا آیا اُن کیاری بیگ کو سونگھتے ہوئے نوچ ڈالا سارا کچرا بکھر گیا۔چلتے پھرتے کچھ لوگوں نے بھی اپنا کچرا وہیں ڈال کر چلتے بنے۔
مرنے مارنے کی بات کرنے والا اپنے پڑوسی سے لڑ کر مارنے کی دھمکی دیتا ہوا پولیس چوکی میں کمپلین درج کرانی کی بات کررہا تھا۔ جب کہ سامنے کا پڑوسی اپنے ہی دروازے کے سامنے چلو بھر پانی سے اپنی اُنگلیاں دھوئی تھی۔
جو بزرگوں کے عزت و احترام کی بات کررہا تھا۔وہ اپنے بزرگ ماں باپ کو اس طر ح کہہ رہا تھا۔’’اب آپ لوگ بوڑھے ہو گئے ہو‘کھلا رہے ہیں پلارہے ہیں۔چپ چاپ کھاتے پیتے رہو۔ہمیں نصیحت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔آپ کا زمانہ الگ تھا‘ہمارا زمانہ الگ ہے۔ اگر یہی سب کرتے رہنا ہے تو گھر سے چلے جائو۔جاکر دوسروں کو پند و نصیحت کرتے اخلاقیت کا درس ساری دُنیا کو دیتے گھومو‘سمجھ گئے کیا؟ہمیں اخلاقیت مت پڑھائو۔‘‘
سات اور ستر
دادا پوتا باتیں کررہے تھے۔پوتا دادا سے سوال پوچھا۔ ’’ دادا جان جب آپ میری عمر کے تھے توآپ کیا کرتے تھے۔؟‘‘دادا جان پوتے کی طرف دیکھتے ہوئے مسکر اتے ہوئے کہنے لگے۔’’جیسے تو شراتیں کرتا ہے ویسے ہم بھی کرتے تھے کھیلتے کودتے تھے۔لیکن ہمارے ماں باپ ہمارے دادا دادی اور ہمارے بزرگ اور اُستا د جن باتو ں کو کرنے سے مانا کرتے تھے ہم وہ باتیں نہیں کرتے تھے۔شرارتوں پر مار پڑتی تو مار کھا لیتے تھے ۔کوئی بزرگ ہم کو ڈانٹتے تو اُن کی ڈانٹ پی لیتے تھے۔اُستا د لوگ ہماری غلطی پر مارتے تو مارکھا لیتے تھے۔یعنی ہم اُن تمام لوگوں سے ڈر کر رہتے تھے۔ساتھ ہی ہم لوگ۔۔۔‘‘پو تا دادا جان کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔’’کیا دادا جان ۔۔۔آپ میری عمر کے تھے تو اتنے ڈرپوک اور ڈر کر رہنے والے تھے۔۔۔اب مجھے دیکھو ابا امی کچھ کرنے کو کہتے ہیں تو ایسے انداز میں بات بناتا ہوں کہ وہ کہہ دیتے ہیں ٹھیک ہے جو تیرا کام ہے وہ کرہم کر لے نگے۔ راہ چلتے ہم بزرگ لوگ کیسے چلتے ہیں اُن کی نقل کرتے ہیں۔ توبزرگ لوگ ہماری نقل دیکھ کر ہنستے ہیں۔ کلاس میں شرارت کرنے پر یا پڑھائی کرتے وقت غلط جواب دینے پر ہمیں مارنے کے لئے ہاتھ اُٹھاتے ہیں تو ہم کہتے ہیں ’کیا سر تھوڑی سے شررات پر ہمیں کیوں مار رہے ہو دوسرے کلاسوں کے بچے ہم سے زیادہ شرارتیں اور مستیاں کرتے ہیں تو اُنہیں کوئی کچھ نہیں بولتا ۔۔۔ غلط جواب دینے پر مارنے لگتے ہیں تو کہتے ہیں۔ ایک آدھ سوال کا جواب نہیں دے پائے تو کیاہوا؟دُنیا میں کون ہے؟جس نے سو میں سے سو نمبرات لیا ہے؟سر لوگ اتنا سنتے ہی جہاں کے تہاں رُک جاتے ہیں۔دیکھا دادا جان ہم کیسے بہادر اور نڈر ہیں!‘‘دادا جان مسکراتے ہوئے پُر تفکر لہجے میں بولے ۔’’ہاں پوتے صاحب تم بالکل سچ کہہ رہے ہو ۔۔۔ جب ہم سات سال کے تھے تو اللہ نے ہمیں سات سال کا ہی دماغ سوچ اور خیال عطا کیا تھا۔ موبائل جو کہ تمہارا بیسٹ فرنڈ ہے۔ آئے دن تم لوگوں کو کچھ نہ کچھ سکھاتے پڑھاتے رہتا ہے۔ ویسا ہمارا کوئی فرنڈ نہیں تھا۔ورنہ ہم بھی سات سال کی عمر میں تمہاری طرح ستر سال والے نڈر اور بہادر بے باک بچے بن جاتے ۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا