ڈاکٹر مشتاق احمد وانی
09419336120
اسسٹنٹ پروفیسر :شعبہ اُردو،باباغلام شاہ بادشاہ یونیورسٹی
ایک زمانہ تھاجب علم وادب کے سرچشموں پہ صرف مردوں کی اجارہ داری ہوا کرتی تھی۔عورت کی شعروادب میں شمولیت کو معیوب خیال کیا جاتا تھا۔لیکن جب عورت نے علم وادب کے میدان میں قدم رکھا تو اس نے بڑی بے باکی۔حکمت عملی اور جرات مندانہ طور پر مردوں کے ان تمام خود ساختہ اور عیارانہ آہنی حصاروں کو طشت ازبام کیا جنکے تحت وہ ایک طویل زمانے سے مغلوب۔مقہور اور مجبور محض شے بن کے رہ گئی تھی۔مغربی خواتین نے اس معاملے میں پہل کی ہے تاریخی حقائق کی روشنی میں یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ فرانس۔اٹلی۔جرمنی۔انگلینڈ۔امریکہ اور یورپی دانشور و بیدار ذہن عورتوں نے اپنے حقوق اور تحفظ عزت نفس کی خاطر باضابطہ طور پر ایک تحریک کی صورت میں آواز بلند کی اور احتجاجی رویہ اپناکر حکومت وقت سے اپنے مطالبات تحریری صورت میں منواے۔تانیثی تحریک کا قیام دراصل عورتوں پہ مردوں کے ظلم وزیادتی اور انکے حقوق سے روگردانی کے خلاف ایک طرح کا انتقامی رد عمل ہی کہا جاسکتا ہے۔دنیا کی مختلف زبانوں کے شعروادب کی طرح اردو شعروادب میں بھی خواتین قلمکاروں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے۔جنھوں نے شعروادب کی مختلف اصناف میں نہایت سنجیدگی سے اپنے جزبات واحساسات۔تجربات ومشاہدات اورخاص کرمرد غالب معاشرے میں عورت کی تاریخی۔تہزیبی اور سماجی حیثیت کو موضوع بنایا۔انھوں نے اپنی محققانہ کاوشوں سے یہ ثابت کردیا ہے کہ مردوں نے عورتوں کو نہ صرف سماجی۔ثقافتی اورتاریخی اعتبار سے مرکز کے بجائے حاشیے پہ رکھا ہے بلکہ شعروادب میں بھی انھیں قابل اعتنا نہیں سمجھا ہے۔
اکیسویں صدی۔سائنسی۔تکنیکی۔ ثقافتی تکثیریت اور بین الاقوامی رابطے کی صدی ہے۔بیسویں صدی کی وسطی دہائیوں میں جو کچھ تھا وہ آج نہیں ہے۔تغیروتبدل اور تیز رفتار سائنسی۔تکنیکی اور علمی ترقی نے بہت حد تک آج کے انسان کو ایک طرح کے مشینی ذہن سے ہمکنار کیا ہے۔اسکی سوچ فکر۔طرز بود وباش اور طرز حیات کو یکسر بدل دیا ہے۔عصری معاشرے کی عورت اگرچہ ترقی کے تمام زینے طے کرچکی ہے۔لیکن اسکے باوجود مرد غالب معاشرے کی عیاری۔ مکاری۔استحصالی اور جنسی ذہنیت کا عفریت اسے پر فریب طریقوں سے لوٹ رہا ہے۔آج بھی عورت طلاق کے صدمے۔جہیز ہراسانی۔مرد کی بے وفائی۔اسکے ظلم وستم کے سبب خودکشی پہ مجبور ہے۔وہ پیار۔محبت۔عشق۔لو میریج جیسے بھونڈےاور پر فریب حربوں کی شکار ہوکر بالآخر پچھتاتی ہے۔ یا پھر کہیں کہیں عورت ہی عورت کی دشمن نظر آتی ہے۔ان تمام مسائل اور زیادتیوں کو اردو ادیباوں نے ایک مخصوص نقطئہ نظر کے تحت ادبی وشعری جامہ پہنایا ہے۔شاعری میں غزل کے بعد خواتین شعرا نے جس صنف کو خصوصی اہمیت دی وہ نظم ہے۔قافیہ بند نظموں کے علاوہ نظم معری۔اورآزاد نظموں کی صورت میں اپنے جزبات و احساسات اور تجربات ومشاہدات کا اظہار نہایت عمدگی سے کیا ہے۔جہاں تک منتخبہ موضوع کا تعلق ہے۔اس سلسلے میں یہ بات واضح کردینا لازمی معلوم ہوتا ہے کہ اکیسویں صدی کی ڈیڑھ دہائی کے دوران وہی نظم نگار خواتین اپنی تخلیقی سرگرمیوں میں سرگرم عمل ہیں جنکا شعری یا نثری سفر بیسویں صدی کی ساتویں یاآٹھویں دہائی میں شروع ہوا تھا ۔البتہ اس فہرست میں ایک دو نام نئے ضرور شامل رہیں گے۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مز کورہ موضوع میں اس بات پر خصوصی توجہ دی جاے گی کہ اکیسویں صدی کی نظم نگار خواتین نے کن موضوعات کو اپنایا ہے۔یا آجکے سائنسی۔تکنیکی ثقافتی ترقی یافتہ دور میں وہ حیات وکائنات کو کس زاویئہ نظر سے دیکھتی ہیں اور کن مسائل ومعاملات پہ شعری مکالمہ کررہی ہیں۔ظاہر ہے موضوع کے مطابق زیادہ تر ان چند نظم نگار خواتین کو انکی نظموں کے حوالےسے متعارف کرایا جاے گا جنکا شعری سفر بیسویں صدی کی آٹھویں دہائی یا اس سے چند برس پہلے شروع ہوا تھا۔ مزید برآں ان معتبر اردو نظم نگار خواتین کو بھی اس مضمون میں خصوصی طور پر ترجیح دی جاے گی جو برصغیر ہند وپاک سے باہر یعنی کنیڈا۔ امریکہ جیسے مغربی ممالک میں اردو کی شمع جلاے بیٹھی ہیں۔اس لیے یہاں بہتر معلوم ہوتا ہے کہ پہلے بیرون ہند میں رہائش پزیر نظم نگار خواتین سے ہی یہ سلسلہ شروع کیا جاے۔
پروین شیر معاصر شاعرات اردو میں ایک ایسا نام ہے۔جنھوں نے اپنی شاعری اور مصوری کے اعلی’ نمونوں سے اردو ادبی حلقوں میں ایک دھوم سی مچادی ہے۔وہ کنیڈا میں مقیم ہیں اور پورے جوش وجزبے کے ساتھ شاعری کررہی ہیں۔”کرچیاں”(2005) انکا شعری مجموعہ ہے۔جس میں ان کی غزلیں اور نظمیں شامل ہیں۔پروین شیر ایک درد مند دل۔وسیع النظر اور بے قرار روح کی شاعرہ ہیں۔انکی نظمیں موضوعات کے اعتبار سے متنوع ہیں ہی اپنی طرز ادا ئگی کے لحاظ سے بھی منفرد اورپر کشش ہیں۔پروین شیر عورت کی اس فطری صلاحیت کو بیان کرتی ہیں جسکے تحت وہ جنس مخالف کو محبت کی چھاوں میں رکھ سکتی ہے۔مگر ساتھ ہی اسے مرد کی بے وفائی اور دھوکہ بازی کا دھڑکا بھی لگا رہتا ہے۔اسی طرح انھوں نے اپنی نظموں میں کہیں عورت کی ازلی محرومیوں کا ذکر کیا ہے تو کہیں وہ انسانی زندگی کے ارتقا کو بڑے لطیف پیراے میں بیان کرتی ہیں۔اس سلسلے میں پروین شیر کی نظم "تکمیل” بطور مثال پیش کی جاسکتی ہے کہ جس میں انھوں نے عورت کے ارتقائی سفر کو بحسن وخوبی پیش کیا ہے۔نظم ملاحظہ—
"وہ نازک تن
لچکتی جھومتی ڈالی
کھلنڈری سی
جسے بس کھیلنا۔ اٹھکیلیاں کرنا ہی بھاتا تھا
بہت ناداں تھی اپنے اس لڑکپن کی بلوغت میں
یہ سوچا تک نہیں تھا اس نے آخر زندگی کیا ہے
کسے تکمیل کہتے ہیں کہ جینے کا کوئی
مقصد بھی ہے آخر؟
یکا یک اک روپیلی صبح کے جھلمل اجالوں میں
لچکتی جھومتی ڈالی پہ اک رنگین شگوفہ لہلہا اٹھا
گلابی نرم ریشم سایہ کیسا معجزہ ہے؟
خود سے جیسے پوچھتی ہے وہ نئی دنیا میں کھوئی اپنی بانہوں میں سمیٹے اپنے دلکش پھول کو وہ مسکراتی ہے بہت نازاں وہ اپنے زیست کا مقصد سمجھ کراب نئے جذبات کی شبنم میں بھیگی کھلکھلاتی ہے اسے معلوم ہے وہ اب تک بالکل ادھوری تھی یہی تکمیل ہے اسکی¡
مندرجہ بالا نظم میں پروین شیر نے بڑی خوبصورتی سے اس عورت کے وجود اور اسکے جزبات واحساسات کو شعری پیکر میں ڈھالا ہے۔جو فطری ارتقا کی مختلف منزلوں سے گزر کر بالآخر ایک ماں کی حیثیت اختیار کرتی ہے۔نظم کے تمام اشعار میں ایک ایسا آہنگ موجود ہے جو قاری کو کچھ دیر تک سوچنےپر آمادہ کرتا ہے۔پروین شیر کی شاعری اس عہد کی شاعری ہے جو مجموعی طور پر محرومی۔آنسووں اور غموں سے عبارت ہے اوربہت حد تک انکی شاعری میں یونانی دیو مالائی عناصر نے بھی جگہ پائی ہے۔
شکیلہ رفیق کی حیثیت اردو ادب میں ایک افسانہ نگار۔مضمون نگار اور شاعرہ کی ہے ۔وہ ٹورینٹو کنیڈا میں رہ رہی ہیں۔بہترین شعری وادبی خدمات کے اعتراف میں انھیں کئی ایوارڈ سے نوازہ جاچکا ہے۔جن میں سب سے اہم حکومت کنیڈا کی جانب سے دیا جانے والا”پرائڈ آف پرفارمینس ایوارڈ”(1992) مانٹریال کی اردو کونسل آف کنیڈا نے(1993) انھیںBest urdu writer award دیا۔اسکے علاوہ لاس اینجلز(امریکہ) کی اردو رئٹرس سوسائٹی نے2004 میں انھیں بہترین اردو تخلیق کار ایوارڈ دیا۔شکیلہ رفیق نے نثر نگاری کے ساتھ ساتھ شعرو شاعری میں خاطر خواہ دلچسپی کاثبوت فراہم کیا ہے۔انکی غزلیہ شاعری کی طرح انکی نظمیہ شاعری بھی موضوعاتی اور فنی پختگی کی حامل ہے۔شکیلہ رفیق اپنی داخلی کیفیات و محسوسات کے اظہار میں نہایت متحرک ذہن کی حامل معلوم ہوتی ہیں۔اپنے ذاتی دردوکرب اوراحساساتی تحرک کو وہ کس شاعرانہ طور پر اظہاری صورت عطا کرتی ہیں۔اسکے لیے انکی ایک نظم بعنوان” اپنی ذات کا خول”قابل توجہ ہے۔نظم کا پہلا بند ملاحظہ ہو۔
"میں اپنی ذات کے خول میں گم تھی
طعنے ملے۔ تشنے ملے .اپنی ذات کے خول سے باہر آ…….دنیا دیکھ ۔اپنی کہہ ۔پرائی سن
میں…………..باہر آگئی اپنی کہی ۔ پرائی سنی
دنیا دیکھی۔ تب………دکھ ملے درد ملے۔آنسو ملے روحانی اذیتیں ملیں پھر.
آنسووں کو پلکوں میں دبائے
دل میں روح کا کرب چھپائے
درد کی ٹیسیں دامن میں سمیٹے
میں……………
اپنی ذات کے خول میں واپس چلی گئی
شکیلہ رفیق کی اس نظم میں ایک نسوانی صدائے پر درد تو ہے ہی۔نظم کا ہیتی آہنگ بھی منفرد ہے۔دردو کرب۔سسکیاں۔آہیں اور آنسو کہ جن کا تعلق عورت کی ذات سے
کچھ زیادہ ہی رہا ہے۔کچھ دیر کے لیے نظم کا مجموعی تاثر قاری کو حزن ویاس میں مبتلا کر دیتا ہے۔غم جاناں اور غم دوراں سے پرے وہ اپنے حصار ذات کا کرب اور حسرتوں کا طوفان لیے اپنے ذاتی خول سے باہرآنے کی جستجو میں سرگرداں ہے۔
محترمہ آصفہ نشاط صاحبہ امریکہ میں مقیم ہیں۔وہ پاکستان میں پیدا ہوئی ہیں لیکن اب امریکہ کی ہوکے رہ گئ ہیں۔اردو زبان وادب سے گہری دلچسپی کے سبب انکے کئ افسانے۔مضامین تبصرے اور غزلیں ونظمیں موقرو معیاری رسائل وجرائد کی زینت بنتی رہی ہیں۔” سورج سے شکایت”انکا شعری مجموعہ ہے۔جس میں انکی زیادہ تر غزلیں اور نظمیں شامل ہیں۔حالات کی نا خوشگواری۔احساس محرومی اور رشتوں کی ناپائداری کے علاوہ نسائی درد وکرب کی ایک پر سوز صدا کا احساس انکی نظموں سے ہوتا ہے۔میرے اس بیان کے لیے بطور ثبوت انکی ایک نظم”میری تنہائی” سے ماخوذ یہ چند اشعار ملاحظہ ہوں۔۔
"میری تنہائی جو ڈستی ہے مجھے
اک تاسف کہ رگ وپے میں اتر آتا ہے
دل یہ کہتا ہے کہ تھوڑا سا سکوں۔ تھوڑی خوشی
اک گل تر کی تمنا میں سلگتا یہ وجود
رتجگے دہکے ہوئے انگارے
اور مدھر نیند کا خواب
اک محض خواب ہی بن کر رہ جائے
دل نے اب تک تو بہت ضبط کیا ہے لیکن
مرے دکھ اور پریشانی مری
کیا مرے صبر کی حد توڑیں گے
رضیہ فصیح احمد کاآبائی وطن کراچی پاکستان ہے ۔لیکن اس وقت شکاگو۔متحدہ ریاست امریکہ میں رہ رہی ہیں۔ان کی حیثیت اردو ادب میں ایک ناول نویس۔افسانہ نگار اور شاعرہ کی ہے۔انکے اردو میں بارہ ناول اور آٹھ افسانو ی مجموعے چھپ چکے ہیں۔اسکے علاوہ چار سفر نامے اور دو شعری مجموعے بھی ادبی خلقوں میں موضوع بحث بنے ہوئے ہیں۔ رضیہ فصیح احمد کے پاس متفکر ذہن اورحساس دل ہے۔جسکے سبب وہ ہر وقت ادبی وشعری سرگرمیوں میں اپنی صبح کو شام کرتی ہیں۔”چاک قفس” اور قفس زاد”انکےشعری مجموعے ہیں۔جن میں انکا کلام اس بات کا مظہر ہے کہ وہ حیات وکائنات کو اسکے وسیع تر پس منظر و پیش منظر میں دیکھتی ہیں۔ اس سلسلے کی ایک اہم کڑی انکا شخصی اظہاریہ بھی ہے جو وہ حالات وواقعات کی وقوع پزیری کے دوران بڑے پر اثر مکالمے کے ساتھ کرتی ہیں۔
جاری