’ انڈیا‘ بمقابلہ’ اکھنڈ بھارت‘

0
0

محمد اعظم شاہد
اگلے سال 2024 میں ہونے جا رہے لوک سبھا انتخابات سے قبل اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد پر کئی ایک سرگرمیاں دیکھی جا رہی ہیں۔بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے ملک کی اہم اپوزیشن پارٹی کانگریس کے ساتھ مل کر اپوزیشن کو متحد کرنے مشاورتی ملاقاتوں کا سلسلہ پچھلے کئی ماہ سے شروع کر رکھا تھا، گزشتہ ماہ جون میں پٹنہ میں مودی اور بی جے پی مخالف سیاسی پارٹیوں کا پہلا اجلاس منعقد ہوا، جس میں 16 پارٹیوں کے سر براہوں اور نمائندوں نے بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کرنے کی ابتدائی مرحلے کی حکمت عملی پر غور و خوص کیا، اگلے مہینے یعنی جولائی میں شملہ میں ہونے والی دوسری اپوزیشن میٹنگ بالآخر 18-17 جولائی کو کرناٹک کے بنگلور میں منعقد ہوئی، United we Stand ’متحد ہو کر کھڑے ہو سکتے ہیں‘، اس موضوع پر بنگلور میٹنگ میں مودی کے جارحانہ اور ملک مخالف پالیسیوں پر بحث ہوئی۔ 26 اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد پر مبنی انڈیا۔ INDIA یعنی Indian National Developmental Inclusive Alliance،’ قومی ترقی کے لیے شمولیاتی اتحاد‘ کا قیام عمل میں آیا۔ تمام سیاسی اپوزیشن پارٹیوں کی بی جے پی کے خلاف حکمت عملی میں شراکت داری کے مختلف پہلووؤں پر باہمی مشاورت کی گئی ہے۔ سال 2004 اور 2009ء میں کانگریس کی زیر قیادت یو پی اے حکومت قائم ہوئی تھی،مگر اب بی جے پی کے زیر قیادت این ڈی اے سے انڈیا کا مقابلہ ہوگا۔ کانگریس اور بی جے پی کے درمیان اپوزیشن اتحاد کے معاملے کو لے کر بیان بازی کا سلسلہ دراز ہے۔
کئی بار وہ مودی جو اپنا سینہ تان کر یہ کہتے رہے کہ وہ ایک اکیلے ہی سب پر بھاری ہیں، یعنی کسی بھی طرح کے اپوزیشن سے انہیں کسی بھی طرح کی پریشانی نہیں ہے۔ جب انہیں محسوس ہونے لگا کہ دیر ہی سے سہی ان کی امیج کا کرشمہ اور ان کی دھاڑتی تقریر کا جادو چند ریاستوں میں بے اثر ہونے لگا ہے۔ بالخصوص کرناٹک اسمبلی انتخابات میں مودی کے طوفانی دورے اور ریلیوں کا اثر کوئی رنگ نہیں لا سکا، جبکہ ساری منصوبہ بند تدبیریں کانگریس کو نا کام کرنے کی ادھوری ہی رہ گئیں، ایسے میں اپنی اکثریت سے حکومت قائم کرنے والی بی جے پی کو اب دوبارہ این ڈی اے کی یاد ستانے لگی۔ اپنی اقتدار واپسی کے لیے بی جے پی ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔ اس لیے اس کے دعووؤں کے مطابق 38 این ڈی اے حامی سیاسی پارٹیوں کے ساتھ مودی کی صدارت میں دِلّی میں میٹنگ منعقد ہوئی۔ یہ میٹنگ 18 /جولائی کو ہی طے پائی، جس دن بنگلور میں بی جے پی مخالف سیاسی پارٹیوں کی میٹنگ منعقد تھی، یعنی ایک ہی دن سیاسی دنگل کے دونوں فریقوں کی جانب سے مقابلے کے لیے آواز دی گئی ہے۔
مودی نے این ڈی اے میٹنگ کو ملک کے مفاد میں اہم قدم بتایا ہے، وہ ہمیشہ اپنا کہا ہو ہر جملہ، ہر اقدام ملک کی بھلائی کے نام پر ہی بتاتے رہے ہیں، مودی نے دعویٰ کیا ہے کہ ملک کے عوام این ڈی اے کے ساتھ ہیں، وضاحت کرتے ہوئے مودی نے بتایا کہ 2014 لوک سبھا انتخابات میں این ڈی اے کو 38 فیصد ووٹ شیئر حاصل ہوا تھا، 2019 کے انتخابات میں یہ فیصد بڑھ کر پینتالیس ہو گیا تھا، اب تیسری بار 2024میں این ڈی اے کو پچاس فیصد ووٹ شیئر ملے گا، اپنے وثوق کا اظہار کرتے ہوئے مودی نے ملک کی معیشت کی بتدریج بہتری کی دہا ئی دیتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی سطح پر ملک کی دسویں پوزیشن تھی، جواب ترقی کے باعث این ڈی اے کے دور حکومت میں پانچویں پوزیشن پر پہنچی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ جب این ڈی اے 2024 میں تیسری بار اقتدار حاصل کرلے گی، تو ملک میں خوشحالی کا تناسب بڑھے گا اور ملک عالمی سطح پر تیسرے نمبر پر پہنچ جائے گا۔
کانگریس کے بشمول پچیس سیاسی پارٹیوں نے یہ اعلان کر دیا ہے کہ ان کا گٹھ بندھن ’’انڈیا جس کے آگے کوئی کامیاب نہیں ہو سکتا، پہلے کی بہ نسبت اب اپوزیشن پارٹیوں میں متحد ہو کر آپسی مشاورت سے بی جے پی کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کی مستعدی، پر جوش نظر آ رہی ہے۔ جمہوری نظام کی درستگی، آئینی نظام کی سلامتی نفرت و عدم رواداری کے خاتمے، علاحدگی پسند فسطائی نظریات کو بے وقعت کرنے اور بالخصوص بی جے پی کے اکھنڈ بھارت ایجنڈے کو بے نقاب کرنے اپوزیشن تیاریاں کر رہا ہے، مختلف ریاستوں میں جیسے دِلّی، تملناڈو، مغربی بنگال، جھارکھنڈ میں علاقائی پارٹیاں برسراقتدار ہیں، ان ریاستوں میں ان کی پارٹیوں کی کامیابی اور قومی سطح پر لوک سبھاانتخابات میں بی جے پی کا سامنا کرنے کی حکمت عملی کو قطعیت دینے مزید مشاورتی اجلاس کی ضرورت محسوس کرتے ہوئے اپوزیشن انڈیا نے اپنی اگلی میٹنگ مہاراشٹر اممبئی میں منعقد کرنے کے اشارے د یئے ہیں۔ پچھلے دو ہفتوں سے جو سیاسی ہلچل برسراقتدار بی جے پی اور اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد کو لے کر دیکھی جارہی ہے، اس سے تو یہی لگ رہا ہے کہ جس طرح کرناٹک اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کیا گیا ہے اور جس نوعیت کی حکمت عملی اپنائی گئی، اس سے اپوزیشن کی اُمید یںروشن ہونے لگی ہیں،مگر جب بھی ایک عام مقصد کے لیے مختلف پارٹیوں کا اتحاد عمل میں آتا ہے اس میں باہمی اعتماد اور بقائے باہمی کے نکتہ کو اوّلین ترجیح دینالازمی بن جاتا ہے۔ ورنہ ایک ہلکی سی غلط فہمی بھی اپوزیشن کے توازن کے بگاڑ کا باعث بن جاتی ہے۔ بی جے پی سے لوہا لینے اور مودی فیکٹر سے لڑنے کے لیے غیر معمولی حکمت عملی اور متحدہ اپوزیشن کو مستعد اور متحرک ہونا چاہیئے۔

azamshahid1786@gmail.com cell : 9986831777

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا