انقلاب ورومان کا نقیب: ساحرؔ لدھیانوی

0
0

 

 

 

پروفیسر مشتاق احمد
پرنسپل، سی۔ایم کالج، دربھنگہ (بہار)
:9431414586

عبد الحی ساحرؔ لدھیانوی (8؍ مارچ1921۔25؍ اکتوبر1980ئ) شاعر یا ادیب اپنے عہد کا عکاس ہوتا ہے ۔وہ جس ماحول کا پروردہ ہوتا ہے اس کے افکار ونظریات اسی کے آئینہ دارہوتے ہیں کہ کوئی بھی شخص اپنے گردو پیش سے بے خبر نہیں رہ سکتا۔ اس لئے ادیب یا فنکار اپنے ماحول سے اثر انداز ہوتا ہے تو اسے اپنے فکر وفن کی صورت میں لوٹاتا بھی ہے۔ کیوں کہ اگر کوئی واقعہ اس کے گرد وپیش میں رونما ہوتا ہے تو اس سے وہ بھی متاثر ہوتاہے۔ ایک عام آدمی اور فنکار میں بس یہی فرق ہے کہ عا م آدمی کے اوپر جو کچھ گذرتا ہے وہ اسے اپنے آپ تک ہی محدود رکھتا ہے جب کہ ایک فنکار اور ادیب اپنے اوپر ہوئے اثرات کو اوروں تک بھی منتقل کرنے کا کام کرتا ہے۔ساحرؔ کا یہ شعر اسی حقیقت کا ترجمان ہے ؎
دنیا نے تجربات وحوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں
عالمی ادب میں اپنی مستحکم شناخت رکھنے والے معروف مفکر تینؔ (Tain) نے بڑے پتے کی بات کہی ہے کہ:
’’فن کوئی ایسی شئے نہیں جو اپنے ماحول سے منقطع اور بے نیاز ہو لہٰذا اسے سمجھنے کے لئے ہمیں اس عہد کے ذہنی اور معاشرتی حالات ومحرکات کا لازمی طورپر مطالعہ کرنا ہوگا جو اس کی تخلیق کا باعث ہوئے ہیں‘‘(فلاسفی آف آرٹ)
ساحرؔ لدھیانوی کے حالاتِ زندگی پر سرسری نگاہ ڈالنے سے یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ ساحرؔ ایک ایسے فنکار تھے جن کا مقدر ہی احساس کی بھٹی میں جل کر کندن بنا تھااور ہم سب اس ازلی وابدی حقیقت سے بھی آگاہ ہیں کہ کوئی بھی فن اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک کہ اس کا خالق احساس کے شعلوں میں جل کر اپنے خونِ جگر سے اس فن کی تخلیق نہیں کرتا۔جیسا کہ علامہ اقبالؔ نے کہا ہے کہ ؎
نقش ہیں سب نا تمام خونِ جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خونِ جگر کے بغیر
ساحرؔکی شاعری کے مطالعے سے یہ عقدہ اجاگر ہوتا ہے کہ ساحرؔ نے اپنے فن کی تخلیق خونِ دل میںانگلیاں ڈبو کر کی ہے۔انہوں نے اپنی تخلیقات میں وہی کچھ پیش کیا جو اپنی آنکھوں سے دیکھا اور دل میںمحسوس کیا ۔ہم سب اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ ایک سچا ادیب وہ ہے جس کا ادب اورفن اپنے عہد کا آئینہ ہوتا ہے ۔اس قول کی روشنی میں ساحرؔ ایک سچا ادیب وفنکار ہے کہ ان کا فن اپنے عہد کی ہو بہو عکاسی کرتا ہے ۔ساحرؔکے دور میں جو سیاسی بحران اورسماجی برائیاںتھیں،مزدوروں اور کسانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ ٹوٹ رہے تھے، عورتوں کاجس طرح استحصال ہو رہا تھا ساحرؔ نے ان تمام حقائق کو اپنی آنکھوں سے نہ صرف دیکھابلکہ انہیں اپنے فکرو فن کے ذریعے ہمارے سامنے پیش بھی کیا۔مختصر اً ساحرؔ لدھیانوی کی شاعری ان کے تجربات اور مشاہدات کا ہی ثمرہ ہے۔
یہاں یہ ذکر بھی لازم ہے کہ ساحرؔ لدھیانوی نے دیگر ترقی پسندوں کی طرح صرف اور صرف گھن گرج کی شاعری نہیں کی ہے۔ ان کی نظمیں ہوں کہ غزلیں ، موضوعی اعتبار سے ترقی پسندیت کی ترجمان ضرور ہیں لیکن ان کے یہاں ایک ایسی آہستگی ہے جو کلاسیکیت کی آنچ معلوم ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کی فلمی شاعری بھی ادب عالیہ کی بہترین مثال ہے اور ادبیت کی فضا سے لبریز ہے۔دیگر فلمی شاعروں کے یہاں یہ وصف دیکھنے کو نہیں ملتا ، یہی وجہ ہے کہ ساحرؔ لدھیانوی اپنے ہم عصر فلمی شاعروں کی صف میں بھی قد آور رہے اور دنیائے ادب میں بھی انہیں امتیاز حاصل رہا۔ساحرؔلدھیانوی کے سینکڑوں اشعار زبان زدِ خاص وعام ہیں تو اس کی واحد وجہ ان کا منفرد اسلوب ہے اور ادبیت سے بھرپور فکرونظر کی ترجمانی ہے ۔
ساحرؔایک حساس دل کے مالک تھے اور جب ان کی آنکھوں نے دیکھا کہ غریب، مزدور ، کسان اور سماج کے پسماندہ طبقے کے افرادکودبایا وکچلا جا رہاہے،عورتوں کو محض ایک کھلونا تصو ر کیا جا رہا ہے تو وہ خون کے آنسو روتے ہیں اور ان تمام مظالم کے خلاف اپنے قلم کو جنبش دیتے ہیں ؎
مرے سرکش ترانوں کی حقیقت ہے تو اتنی ہے
کہ جب میں دیکھتا ہوں بھوک کے مارے کسانوں کو
غریبوں ، مفلسوں کو ، بیکسوں کو بے سہاروں کو
سسکتی نازنینوں کو ، تڑپتے نوجوانوں کو
حکومت کے تشدد کو ، امارت کے تکبر کو
کسی کے چیتھڑوں کو اور شہنشاہی خزانوں کو
تو دل تابِ نشاطِ بزم عشرت لا نہیں سکتا
میں چاہوں بھی تو خواب آور ترانے گا نہیں سکتا
(نظم۔میرے گیت)
میرے خیال میںجس طرح اردو افسانہ نگاری میں پریم چندؔ او ر راجندر سنگھ بیدی ؔنے عورتوں کے دکھ درد کو اپنی تخلیقات کے ذریعے اجاگرکیا ہے ٹھیک اسی طرح شاعری میں ترقی پسند شعرا بالخصوص ساحرؔ لدھیانوی نے عورتو ں پر ہو رہے ظلم وستم کی کھلے دل سے مذمت بھی کی اور ان کی عظمتوں کو قبول کرنے کے لئے ہمارے ضمیر کو دعوتِ فکر بھی دی ہے ۔ انہوں نے عورت ذات سے جس قدر محبت اور ہمدردی جتائی ہے اس کی مثال ہم عصر اردو شاعری میں کہیں اور دیکھنے کو نہیں ملتی۔ وہ کہتے ہیں ؎
لوگ عورت کو فقط جسم سمجھ لیتے ہیں
روح بھی ہوتی ہے اس میں یہ کہاں سوچتے ہیں
جبر سے نسل بڑھے ظلم سے تن میل کریں
یہ عمل ہم میں ہے بے علم پرندوں میں نہیں
ہم جو انسانوں کی تہذیب لئے پھرتے ہے
ہم سا وحشی کوئی جنگل کے درندوں میں نہیں
ساحرؔ تمام عمر انسانوں کے مسائل پر سوچتے رہے اور بھوک ، افلاس اور عورتوں کے استحصال کے مسائل کو اپنے غوروفکر کامحور بناتے رہے اس لئے جب وہ سالِ نو کا بھی گیت گاتے ہیں تو ان کی نگاہوں میں بھوک اور افلاس کا ہی منظر ہوتا ہے ۔ سالِ نو کے گیت میں لکھتے ہیں ؎
اک مفلس دہقاں کی بیٹی
افسردہ مرجھائی ہوئی سی
جسم کے دکھتے جوڑ دباتی
آنچل سے سینے کو چھپاتی
مٹھی میں ایک نوٹ دبائے
جشن منائو سالِ نو کے
بھوکے زرد گداگر بچے
کار کے پیچھے بھاگ رہے ہیں
وقت سے پہلے جاگ اٹھے ہیں
پیپ بھری آنکھیں سہلاتے
سر کے پھوڑوں کو کھجلاتے
وہ دیکھو کچھ اور بھی نکلے
جشن منائو سالِ نو کے
(نظم۔صبح نو روز)
ہم اس حقیقت سے بھی آگاہ ہیں کہ ساحرؔ نے جہانِ ادب میں اس وقت آنکھ کھولی جب دوسری عالمی جنگ کے شعلے اپنے شباب پر تھے۔ انسان گاجر، مولی کی طرح کاٹے جا رہے تھے، انسانی خون کی قیمت پانی سے بھی کم ہوگئی تھی، ہر ایک طرف افراتفری کا ماحول تھا۔ ساحرؔ کے دل میں نہ صرف انسانیت کی اعلیٰ قدروں کا احترام تھابلکہ وہ امن کے علمبردار بھی تھے۔ انہوں نے جب اپنی آنکھوں سے انسانیت کے شیرازے کو بکھرتے دیکھا تو ان کا ہمدرد دل تڑپ اٹھا اور وہ جنگ کے خلاف آواز بلند کرنے لگے۔انہوں نے امن وشانتی کا پیغام گھر گھر پہنچانے کا عہد کیاجس میں انہیں کامیابی بھی نصیب ہوئی۔ وہ کہتے ہیں ؎
خون اپنا ہو یا پرایا ہو
نسلِ آدم کا خون ہے آخر
جنگ مشرق میں ہو کہ مغرب میں
امنِ عام کا خون ہے آخر
بم گھروں پر گرے کہ سرحد پر
روحِ تعمیر زخم کھاتی ہے
کھیت اپنے جلیں کہ غیرو ں کے
زیست فاقوں سے تلملاتی ہے
ساحرؔ لدھیانوی دوسری عالمگیر جنگ کا رونا تو روتے ہی ہیں ساتھ ہی آنے والی نسلوں کو تیسری جنگِ عظیم سے ہوشیار رہنے کی تلقین بھی کرتے ہیں ؎
گذشتہ جنگ میں گھر ہی جلے مگر اس بار
عجب نہیں کہ یہ تنہائیاں بھی جل جائیں
گذشتہ جنگ میں پیکر جلے مگر اس بار
عجب نہیں کہ یہ پرچھائیاں بھی جل جائیں
ساحرؔ نے امن وسلامتی کے موضوع پر بے شمار اشعار لکھے ہیں اس سلسلے کی ایک نظم ’’پرچھائیاں‘‘ ہے جو اپنے موضوع وفن کے اعتبار سے اردو ادب میں بے مثال شاعری کی حیثیت رکھتی ہے۔ جیسا کہ خواجہ احمد عباس نے اس نظم کے متعلق کہا تھا کہ ’’پرچھائیاں‘‘ جس کا لفظی ترجمہ سائے ہیں ، اس میں ایک ایسے موضوع پر قلم اٹھایا گیا ہے جو عالمگیر بھی ہے اور ابدی بھی اور جو بین الاقوامی سطح پر اخبار کی سب سے اہم اور نمایاں سرخی بن گیا ہے یہ بہت ضروری ہے کہ ایک شاعر اس کے حق میں آواز اٹھائے اور سلامتی کا ترانہ گائے ۔
بیسویں صدی ادبی تحریکات اور رجحانات کی صدی رہی ہے ۔ بالخصوص ترقی پسند تحریک اور پھر بعد میں حلقہ اربابِ ذوق سے وابستہ شعراء اپنی شاعری میں سماجی، معاشرتی ، ثقافتی ، سیاسی اور مذہبی جبر واستحصال کے موضوعات کو بطور منشور پیش کرنے لگے تھے کہ ان شعراء وادبا کے فکر ونظر میں تبدیلی کے چراغ روشن ہو چکے تھے۔ اردو کے نامور ناقد پروفیسر قمر رئیس نے بجا لکھا ہے کہ :
’ ’وہ فکر واحساس کی نئی اور توانا لہروں کے سہارے زندگی کی بدلتی حقیقتوں کو زیادہ عقلی اور معروضی زاویوں سے دیکھ رہے تھے اور ادب میں اپنی سوچ کا زیادہ بیباکی اور آزادی سے اظہار کرنے پر مصر تھے‘‘۔(ترقی پسند ادب کے معمار)
ساحرؔبھی ترقی پسند نظریہ کے پاسدار اور امن پسند انسان تھے۔ ان کا دل انسانیت کے درد سے لبریز تھا اس لئے جب کبھی وہ ایک انسان کو دوسرے انسان سے لڑتے جھگڑتے دیکھتے ہیں تو ان کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔ ان کا پیغام تھا کہ جنگ کسی مسئلہ کا حل تلاش نہیں کر سکتی جیسا کہ انہوں نے اپنی ایک نظم میں ان خیالات کا اظہاریوں کیا ہے ؎
ظلم کی بات ہی کیا ظلم کی اوقات ہی کیا
ظلم بس ظلم ہے آغاز سے انجام تلک
خون پھر خون ہے سو شکل بدل سکتا ہے
ایسی شکلیں کہ مٹائو تو مٹائے نہ بنے
ایسے شعلے کہ بجھائو تو بجھائے نہ بنے
ایسے نعرے کہ دبائو تو دبائے نہ بنے
(نظم’’خون پھر خون ہے‘‘)
اور ایک دوسری نظم میں کہتے ہیں ؎
جنگ تو خود ہی ایک مسئلہ ہے
جنگ کیا مسئلو ں کا حل دے گی
آگ او ر خون آج بخشے گی
بھوک اور احتیاج کل دے گی
اس لئے اے شریف انسانو!
جنگ ٹلتی رہے تو بہتر ہے
آپ اور ہم سبھی کے آنگن میں
شمع جلتی رہے تو بہتر ہے
(نظم۔اے شریف انسانو)
میرے خیال میںساحرؔمذہب انسانیت کے علمبردار تھے ۔ وہ انسان پرستی کو ایک عبادت سمجھتے تھے۔ فرقہ پرستی ان کے سامنے ایک بد ترین شئے تھی وہ ہمیشہ فرقہ پرستی سے نفرت کرتے رہے۔ ان کے سامنے کوئی بھید بھائو نہ تھا وہ دنیا کے تمام مذاہب کو ایک سا تسلیم کرتے تھے ۔ جیسا کہ وہ کہتے ہیں ؎
نفرت جو سکھائے وہ دھرم تیرا نہیں ہے
انساں کو جو روندے وہ قدم تیرا نہیں ہے
قرآن نہ ہو جس میں وہ مندر نہیں تیرا
گیتا نہ ہو جس میں وہ حرم تیرا نہیں ہے
اور ایک دوسری جگہ کہتے ہیں ؎
کعبے میں ہو یا کاشی میں ،مطلب تو اسی کی ذات سے ہے
تم رام کہو کہ رحیم کہو، مقصد تو اسی کی ذات سے ہے
مجموعی طورپر جب ہم ان کی شاعری کی روشنی میں ساحرؔ لدھیانوی کے متعلق کوئی حتمی رائے قائم کرتے ہیں تو اس حقیقت کا اعتراف کرنا ہی پڑتا ہے کہ ساحرؔ اپنے عہد کے کامل عکاس تھے اور مذہبِ انسانیت کے عظیم نمائندہ!
یہ حسنِ اتفاق ہے کہ ان دنوں ساحرؔصدی تقریبات قومی اور بین الاقوامی سطح پر منعقد ہو رہی ہیں اور ساحرؔ کی ہمہ جہت شخصیت اور افکار ونظریات کی اہمیت وافادیت کا اعتراف کیا جا رہاہے ۔میری یہ حقیر کوشش بھی ساحرؔ لدھیانوی کی ہمہ جہت شخصیت اور ان کی کائناتی فکر ونظر کا اعترافیہ ہے۔میں اپنی طالب علمی کے زمانے سے ہی ساحرؔ لدھیانوی کی شاعری سے متاثر رہا ہوں ۔میری پہلی کتاب ’’تنقیدی بصیرت‘‘ (1996)میں بھی ساحرؔ لدھیانوی کے
افکار ونظریات پر مبنی ایک مقالہ شامل ہے۔حال ہی میں میں نے اپنے ریسرچ جرنل ’’جہانِ اردو‘‘ بابت ماہ جنوری تا مارچ 2024میں ساحرؔ لدھیانوی کی شخصیت وفکر وفن پر ایک گوشہ شائع کیاہے۔
میرے خیال میں ساحرؔ صدی تقریبات کی مناسبت سے ساحرؔ کی شاعرانہ عظمت کا اعتراف کیا جانا نہ صرف ساحرؔ جیسے اردو کے نمائندہ شاعر کے تئیں میرااظہارِ محبت ہے بلکہ اردو شاعری کو غیر اردو داں کے دلوں کی دھڑکن بنانے والے عظیم فنکار کو خراجِ عقیدت پیش کرنا بھی ہے۔واضح ہو کہ ساحرؔ نے اپنی فلمی شاعری اور نظمیہ وغزلیہ شاعری سے اردو شاعری کے ساتھ ساتھ اردو زبان کے فروغ کے لئے کارہائے نمایاں انجام دئیے ہیں۔مگر افسوس صد افسوس کہ اردو تنقید کے باب میں ساحرؔ کو وہ مقام حاصل نہیں ہو سکا ہے جس کے وہ متقاضی ہیں۔
:rm.meezan@gmail.com
٭٭

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا