واشنگٹن، //امریکہ نے اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ‘اونروا’ سے ناراض ہو کر اس کے لیے فنڈنگ روک دی ہے۔ امریکہ نے فلسطینیوں کے لیے ریلیف کا کام کرنے والے اس ادارے کے خلاف یہ اقدام ان اطلاعات کی بنیاد پر کیا ہے کہ اس کے 12 کارکنوں کے اسرائیل پر حملہ کرنے میں ملوث ہونے کا الزام سامنے آیا ہے۔
العربیہ کے مطابق امریکہ نے یہ فنڈنگ روکنے کا اعلان جمعہ کے روز کیا ہے۔ تاہم اہم بات یہ ہے کہ یہ امریکی سخت اقدام اور اقوام متحدہ کے خلاف ناراضگی محض بعض کارکنوں پر الزام کے ساتھ ہی سامنے آگیا ہے۔ امریکی اقدام کی شدت اور ناراضگی کی سنگینی کی اندازہ اس سے بھی کیا جا سکتا ہے کہ ‘اونروا’ نے اپنے بعض کارکنوں کو برطرف بھی کر دیا ہے۔
امریکی دفتر خارجہ کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ‘امریکہ ‘اونروا’ کارکنوں کے خلاف ان الزمات سے بہت پریشان ہوا ہے۔ اس لیے اس نے اضافی فنڈنگ روک دی ہے۔’
امریکہ نے یہ انتہائیی اقدام ایسے وقت میں کیا ہے جب اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں 26 ہزار سے زائد فلسطینی غزہ میں شہید ہو چکے ہیں۔ 65 ہزار کے لگ بھگ زخمی ہیں اور بیس لاکھ سے کہیں زیادہ بے مسلسل بمباری سے بے گھر کر دیے گئے ہیں۔ اس صورت حال میں اسرائیل کو اقوام متحدہ سمیت اس کے ارکان کی غالب اکثریت غزہ میں جنگ بندی کا مسلسل مطالبہ کر رہی ہے۔ البتہ امریکہ اسرائیل کی طرح جنگ بندی کے حق میں نہیں ہے۔
‘اونروا’ کے خلاف الزامات کے بارے میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے بھی غیر معمولی سنجیدگی کا تشویش کے انداز میں اقوام متحدہ کے سے سیکرٹری جنرل سے مطالبہ کیا ہے کہ اس واقعے کی فوری طور پر مکمل تحقیقات کرائی جائیں۔ تاہم امریکہ نے تحقیقات سے پہلے ہی ‘اونروا’ کو سزا دیتے ہوئے اس کی اضافی فنڈنگ روک دی ہے۔
امریکی دفتر خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے ‘ہم اقوام متحدہ کی طرف سے ایک جامع اور آزادانہ تحقیقات کے اعلان کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ کیونکہ سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملے میں ملوث ہر شخص کا احتساب ضروری ہے۔ واضح رہے امریکی دفتر خارجہ کے مطابق اسرائیل پر حملے میں ‘اونروا’ کے 12 کارکنوں پر یہ الزام لگایا ہے کہ وہ اسرائیل پر حملوں میں ملوث ہوئے ہیں۔
‘اونروا ‘ کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ‘متعدد ملازمی