اسپیکرنارویکر کافیصلہ ،ایک اور "لکھا ہوا” فیصلہ!

0
131

 

جاویدجمال الدین

مہاراشٹر کو گزشتہ چار سال کے دوران سیاسی بحران کاسامنارہااور اتھل پتھل جاررہی۔پہلے شیوسیناکے سربراہ ادھو ٹھاکرے نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی)کے خلاف بغاوت علم بلندکیااورکانگریس،این سی پی کے ساتھ ملکر مہاوکاس اگھاڑی(ایم وی اے)ادھو کی قیادت میں تشکیل عمل میں آئی اور ادھوکواس عرصے اور کوویڈ19 کی وبائ￿ کے دوران حالات کابہتر انداز میں مقابلہ کیا۔جون 2022 میں ایک دن شیوسینا میں بغاوت کروادی گئی اور باغی لیڈر ایکناتھ شندے کو وزیراعلی مقررکردیاگیا۔
دراصل ادھو ٹھاکرے کی قیادت والی شیوسینا نے سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن کادروازہ کھٹکھٹایا۔الیکشن کمیشن سے زیادہ تواقعات نہیں تھیں اور ایسا ہوا بھی یعنی ایک منصوبے کے تحت شندے گروپ کو بال ٹھاکرے کی شیوسیناکا نشان اور اختیارات دے دیئے گئے۔اسی طرح اسمبلی میں بھی یہی طریقہ کار اپنایا گیا ہے۔
سپریم کورٹ کے حکم پراسپیکرراہل نارویکر کو فیصلہ سنانا تھا،اور اْنہوں نے اپنا فیصلہ سنا دیا،یہ حقیقت ہے کہ عدالت نے وقت کا تعین نہیں کیا ہوتا تو یہ ممکن ہی نہیں تھاکہ مقررہ تاریخ پر فیصلہ سنایا جاتا بلکہ متعدد سال گزر جاتے اور کوئی پرسان حال نہیں ہوتا اب عدالت عالیہ نے پہلے 31 دسمبر 2023 مقرر کی تھی پھر اس تاریخ میں توسیع کردی۔واضح رہے کہ اس قسم کے ہزاروں معاملات ہیں جوکہ برسوں تاخیر کا شکار رہے ہیں،دراصل بی جے پی اور شیوسینا شندے گروپ آئندہ اسمبلی انتخابات تک اقتدار میں۔ رہ کر سیاسی فائدے اٹھانا چاہنے کے حق میں ہیں۔ان۔انتخاباتمیں۔پہمے لوک سبھا اور پھر اکتوبر میں ریاستی اسمبلی کے الیکشن طے ہیں۔اب جبکہ ان میں چند ماہ سے زیادہ کا فاصلہ نہیں ہے۔انہیں کرسی سے بندھارہنا ہے۔
اس طرح کے متنازع فیصلہ کے بعد خود کو اصل شیو سینا قرار دینے والے ایکناتھ شندے وزارت اعلیٰ کے عہدہ پر برقرار رہیں گے اور بی جے پی کے اشارے پر کام کرتے رہیں گے۔
اگرنارویکر کے فیصلہ کو الیکشن کمیشن کی نقل کہاجائے تو غلط نہیں ہوگا۔قانونی ماہرین کا خیلات ہے کہ معاملہ کو اگر سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جائے گا تو اس طرح کامقدمہ عدالت میں ٹک نہیں پائے گا۔ ایسا خیال کیا جارہا ہے۔ کیونکہ اسمبلی اسپیکر نے چند بنیادی باتوں کا خیال نہیں رکھا ہے۔ اس لیے عدالت میں سماعت کے دورکئی تنازعات کھڑے ہوں گے۔عام طورپرخیال ہے کہ جب کسی پارٹی کے اراکین کا ایک گروپ اپنی پارٹی سے راہ فرار اختیار کرتا ہے تو اْن اراکین کو ایک دوسری پارٹی میں ضم ہونا پڑتا ہے۔ یہی قانونی جواز ہے ،اور آئین کے مطابق الگ ہونے والے شندے گروپ کو کسی دوسری پارٹی کا دامن سنبھال لینا چاہئیے تھالیکن اس کے برعکس شندے نے خود کواصل شیوسینا قرار دیا،حالانکہ ادھو ٹھاکرے سرکاری طور پر صدر ہیں اور پوری مجلس انتظامیہ ہے جبکہ پارٹی کے صدر ہی کو تمام فیصلوں کا اختیار ہوتا ہے۔ اگر کوئی فیصلے سے روگردانی کرے تو اسے پارٹی سے علحیدگی اختیار کر لینا چاہئیے۔ایک نقص یہ ہے کہ شندے گروپ کے اراکین نے استعفیٰ نہیں دیا اور شیو سینا سے وابستہ رہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اْسی پارٹی سے وابستہ رہے جس کے صدر اْدھو ٹھاکرے ہیں۔لیکن اس کے باوجود تمام باتوں اور قانون کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پہلے گورنر کوشیاری نے انہیں بی جے پی کی مبینہ ایمائ￿ پر حلف برداری کروائی اور ایوان میں ڈھنگ سے اکثریت بھی ثابت نہیں کرائی گئی۔اور نتیجتاً شندے و،یراعلی بنے رہے۔
سپریم کورٹ نے بھی گورنر کے طریقہ کار پر سخت اعتراض کیا اور باغیوں کی مدد اور بی جے پی کی حمایت سے حکومت کی تشکیل کو غیر قانونی بتادیا مگر ادھو ٹھاکرے سے کہاکہ آپ استعفیٰ دے چکے ہیں،اس لیے کچھ نہیں کیا جاسکتا ہے،اس کا مطلب یہ ہے پورا کھیل ڈھٹائی سے کھیلا جارہا ہے۔
جہاں تک پارٹی کی بات ہے شندے کواْدھو کے احکام کو تسلیم کرنا ضروری تھا اور اْنہوں نے اس پر عمل نہیں کیااور نہ نضمام کا راستہ اپنایا گیا۔ شندے منحرف گروپ کو لے کر الگ ہوئے اور استعفیٰ نہیں دیا تو اب اْن کیلئے ضروری تھا کہ وہ بی جے پی میں یا کسی دوسری پارٹی میں شامل ہوجاتے۔ اس لیے ان کے گروپ کو اصل پارٹی نہیں کیا جاسکتا ہے،بلکہ ناانصافی کہہ سکتے ہیں۔یہ طریقہ ہی غلط تھا کیونکہ صرف 34 اراکین نہیں کہہ سکتے ہیں کہ وہ ہی پوتی پارٹی کے ناخدا ہیں ہیں اور پارٹی اراکین سن کے ساتھ ہیں ،یہ صرف اور صرف بی جے پی اور سرمایہ داروں کے تعاون اور ایمائ￿ پر جاری و ساری ہے۔
لیکن شندے گروپ اسمبلی میں یہی ظاہر کیا ہے اورصرف ان باغی اراکین کو پیش کیا اس بات کا کسی کو علم نہیں کہ پارٹی کے کارکنان کتنی بڑی تعداد میں ان۔کے ساتھ ہیں۔ نارویکر نے بحیثیت اسپیکر جانبداری کامظاہرہ کیا ہے انہیں انصاف کرنا تھاجونہیں کیاگیا بلکہ اسے ایک اور لکھا ہوا فیصلہ کیاجائے گا۔ظاہری بات ہے کہ یہ معاملہ اب سپریم کورٹ جائیگا اور وہاں اس کا فیصلہ ہوگا تب مہاراشٹر اسمبلی انتخابات ہوجائیں گے،سنجے راوت شیوسیناکے ایم پی اور ترجمان ہیں اور ان کے مطابق ” یہ فیصلہ نہیں بلکہ ایک سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ ہے۔”بلکہ اس کی 1200 صفحات پر مشتمل اسکریپٹ کہیں اور لکھی گئی ہے کیسا کہ ماضی میں بھی کئی موقعوں پر لکھی گئی ہے۔
[email protected]
9867647741

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا