اسپتالوں میں ماہرمعالجین کی قحط سالی!

0
0

جموںکے بڑے سرکاری اسپتالو ں میں بڑے ڈاکٹروں کی زیارت بڑے نصیبوں سے ہونے لگی ہے،ہرکوئی یہ شکوہ کرتاہے کہ جب بھی علاج ومعالجہ کیلئے اسپتال جاناہوتاہے تووہاں زیرتربیت ڈاکٹروں کے رحم وکرم پہ انہیں چھوڑدیاجاتاہے،سینئرڈاکٹریعنی ماہرڈاکٹراسپتال میں نایاب ہوتے ہیں،ایل جی سنہاکی انتظامیہ میں جوابدہی اورشفافیت کے بڑے چرچے ہیں اوریقینابائیومیٹرک نظام کے بعد سرکای دفاترمیں حاضری میں بہتری ضرور آئی ہے لیکن جس طرح کورپشن کیخلاف جنگ محض پٹواریوں،کلرکوں تک محدودرہتے ہوئے بڑے مگرمچھوں تک نہیں پہنچ پاتی تھی اُسی طرح یہ بائیومیٹرک والی جوابدہی بھی چھوٹے ملازمین کیلئے ہی ہے،بڑے آفیسران بائیومیٹرک سے مستثنیٰ دکھائی دیتے ہیں کیونکہ اکثروہ دفاترمیں نظرنہیں آتے،اِسی کاایک پہلوسرکاری اسپتالوں میں سینئرڈاکٹروں کانایاب ہونابھی ہے، کیونکہ ان کے پاس غائب رہنے کے بے شمار جوازہیں ،جن کی آڑمیں یہ اسپتال کے نظام کودرہم برہم کئے ہوئے ہیں، بدقسمتی کی بات ہے کہ یہی سینئرماہرڈاکٹرجواسپتال میں نظرنہیں آتے آسانی سے شہرمیں چل رہے ملٹی سپلشلٹی کلینکوں میں دستیاب ہوتے ہیں ،کلینک چلاناان کاحق ہے ،حکومت نے اس کی کھلی چھوٹ بھی دی ہے ، اس میں کوئی برائی نہیں لیکن اسپتال میں اپنی ڈیوٹی کے دوران ان کادستیاب ہونالازمی ہے، وہاں جانے والے مریضوں کی پریشانیوں کودورکرناان کا فریضہ ہے، کیونکہ اسپتال میں دوطبقے جاتے ہیں ایک غریب اورایک وہ جنہیں نجی کلینکوں نے لوٹ کھسوٹ کے بعد نااُمیدکرکے اسپتالوں کوروانہ کردیاہو، کسی بھی مرض میں مبتلامریض کونجی اسپتال و کلینک تب تک بحیثیت گراہک اپنے پاس رکھتے ہیں جب تک اُس کی حالت قابومیں رہتی ہے جب مرض ان کے قابوسے باہرہوجاتاہے تو وہ مشکل گھڑی میں کو گورنمنٹ اسپتال ریفرکردیتے ہیں جس سے ثابت ہوتاہے کہ ان کامقصد علاج ومعالجہ نہیں بلکہ محض بھاری رقومات بٹورناہوتاہے،غریب لوگ ڈاکٹروں کی ہزاروں میں فیس معہ تجویز کردہ ٹیسٹ ،اودیات سمیت اِتنا بوجھ برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتے اورمجبوراًسرکاری اسپتال میں ہی جاتے ہیں لیکن وہاں اُنہیں ماہرین معالج نہیں ملتے ،اس رجحان کی ہرکوئی شکایت کرتاہے،جسے دورکرنامحکمہ صحت وطبی تعلیم کافرجِ اولین ہے، صحت وطبی تعلیم کے انتظامی سیکریٹری ایک قابل آئی اے ایس بھوپیندرکمارہیں جنہیں چاہئے کہ وہ شعبہ صحت کے بکھرے شیرازے اورسرکاری اسپتالوں کے ماہرین سے ویران ہونے کے سلسلے کوختم کرنے کیلئے اصلاحات لائیں اورجوابدہی اورشفافیت کاعنصراپنے نظام میں پیداکریں، یہاں یہ اعتراف کرنابھی ناانصافی ہوگی کہ متعددماہرسپرسپیشلسٹ ڈاکٹرصاحبان ہیں جو اپنے فرائض کو بخوبی نبھاتے ہیں اور چارقدم آگے ہی بڑھ کرمریضوں کی خدمات کرتے ہیں ان میں سپرسپیشلٹی اسپتال کے ڈاکٹروں کاذکرلازمی ہے جومثالی کارنامہ انجام دے رہے ہیں لیکن ایسے انسان دوست ڈاکٹرکی تعدادبہت کم ہے بلکہ دولت کمانے کی دوڑمیں لاپتہ ڈاکٹروں کی تعداد زیادہ ہے۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا