"استاد اور ملازم میں فرق جان کر جیو”

0
0

ارشد چوہان

 

پانچ ستمبر

، یہ دن آزاد جمہوریہ ہند کے دوسرے صدر سروا پالی رادھا کرششنن کا جنم دن ہے اور اسے ملک بھر میں اساتذہ کے قومی دن کے طور پر منایا جاتا ہے – ویسے اساتذہ کا بین الاقوامی دن پانچ اکتوبر کو ہوتا ہے جو پوری دنیا میں منایا جاتا ہے – بلا شبہ اساتذہ ایک عظیم نعمت ہیں اور انسان کے پاس جو ہوتا وہ اس نے کسی نہ کسی سے سیکھا ہوتا ہے – جب ہم یوم اساتذہ کی بات کرتے ہیں تو عمومی طور پر پہلی چیز جو ذہن میں آتی ہے وہ ان اداروں جن سے ہم پڑھے ہوتے ہیں میں تعینات ملازم یاد آتے ہیں – اس ضمن میں کل ایک دوست، ڈاکٹر غلام مصطفیٰ ضیا کی برقی دیوار پر ایک پوسٹ پڑھنے کے بعد اپنی زندگی پر نظر دوڑائی تو پچانویں فی صد لوگ جو میرے اداروں میں تعینات رہے کو کسی بھی صورت میں استاد نہیں مان سکتا اور نہ ہی لغت میں دیئے گئے استاد کے لفظ پر وہ کسی زاویے سے پورا اترتے ہیں – ان دنوں اتر پردیش کے مظفر نگر کی ایک ویڈیو قومی و بین الاقوامی میڈیا میں کافی چرچا میں ہے – ٹرپتا تیاگی نامی اسکول ٹیچر ایک بچے کو کلاسز کے دوسرے بچوں سے مذہب کی بنیاد پر پٹوا رہی ہے – اسکولوں میں ذات پات اور مذہب کی بنیاد پر بھید بھاؤ ایک تلخ حقیقت ہے – اس تحریر میں آگے چل کر اسکا ذکر آئے گا جسکا میں خود شکار رہا یا میں نے اپنی آنکھوں سے دوسروں کے ساتھ بھید بھاؤ ہوتے دیکھا –

پانچ ستمبر ہو یا پانچ اکتوبر آتے ہی فیس بُک، ایکس اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز نیز نیوز پیپرز میں اساتذہ کو ہدیہ تہنیت پیش کرنے کا تانتا بندھ جاتا ہے – اچھی بات ہے، استاد کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے لیکن لوگوں کی اکثریت لفظ استاد سنتے ہی ذہن میں اسکو استاد سمجھنے لگتے ہیں جو نجی یا سرکاری اسکول میں پڑھاتا ہو – یہ حقیقت نہیں، دنیا کی کوئی بھی لغت اٹھا لیجیے اس میں یہ کہیں نہیں ہے کہ ایجوکیشن محکمہ میں کام کرنے والا ہی استاد ہے – اگر یہ حقیقت ہوتی تو تاریخ میں ایسے نامور فلسفی شخصیات گزری ہیں جنہوں نے با ضابطہ کوئی رسمی ادارہ جوائن نہیں کیا لیکن وہ بھی استاد رکھتے تھے – اصل استاد وہ ہوتا ہے جس سے آپ زندگی کا کوئی سبق سیکھتے ہیں نہ کہ نصاب کا رٹا – یہ استاد راستے میں چلتا ایک عام آدمی بھی ہو سکتا ہے – آج کے دور میں تو ویسے بھی نصاب پڑھانا کوئی بڑی بات نہیں – ٹیکنالوجی نے اتنی آسانیاں پیدا کر دی ہیں کہ نصاب میں دی گئی چیزیں ادارے یا کلاس سے باہر بھی سیکھی جا سکتی ہیں اور نئی انڈرائیڈ جنریشن یہ کر بھی رہی ہے – یہاں میں یہ بھی نہیں کہہ رہا کہ ایجوکیشن محکمہ میں تعینات سارے لوگ ہی نااہل ہوتے ہیں کہ وہ اسٹوڈنٹ کی صحیح رہنمائی نہیں فرما سکتے – ایسے ٹیچرز بھی ہیں جن کی شفقت اور رہنمائی زندگی بھر یاد رہ جاتی ہیں – میری زندگی میں ایسے پانچ فی صد لوگ ہی آئے ہیں – باقی اداروں سے باہر چوراہوں، گلی کوچوں، کتب اور راستے چلتے ہوئے مجھے ملنے والے اساتذہ کی تعداد زیادہ ہے – پچانویں فی صد لوگ جو میرے اداروں میں تعینات رہے کو میں کیوں استاد نہیں مانتا تین مثالیں دیتا ہوں – یوں تو ایسی ڈھیروں واقعات ہوئے لیکن اختصار کی وجہ سے تین ہی پیش کر رہا ہوں :-

غالباً ساتویں جماعت کی بات ہے – اسکالرشپ کے لئے فارم لگ رہے تھے – آج پتہ نہیں کتنا ہے لیکن اسوقت چار پانچ سو ہوتا تھا – سبھی ٹرائبل بچے حاضری ٹیچر کے پاس اپنے نام دے رہے تھے – اسی اثنا میں ایک یتیم طالب علم نے فارم پر کر دیا لیکن وہ گجر نہیں تھا – حسب معمول شکایت کرنے کی بچوں کی جو عادت ہوتی ہے ساتھی بچوں نے اسکے خلاف ٹیچر کو بولا کہ یہ گجر نہیں ہے – اس ٹیچر کے الفاظ آج بھی مجھے یاد ہیں – بھری کلاس میں متعلقہ اسٹوڈنٹ کو بولتی ہے کہ اسکالرشپ لینے کے لئے اپنی ماں کو گجروں کے پاس سلا دیا – کلاس میں تو خیر قہقہہ اٹھا – یہ سنتے ہی اسٹوڈنٹ رونے لگا، مجھے اسکے آنسوؤں بالکل تازہ تازہ دکھائی دے رہے ہیں –

اسی طرح آٹھویں جماعت کا فائنل امتحان تھا – گاؤں کے ہائی اسکول میں گردو نواح کے چار مڈل اسکولوں کے آٹھویں جماعت کے طلباء کا سنٹر بھی تھا – امتحان میں بیٹھنے میں سیٹنگ پلان یہ تھا کہ سبھی اسکولوں کا رول نمبر ایک ، پھر رول نمبر ٹو……… اسی طرح آگے بھی – جو ماسٹر وہاں رول نمبر بول رہا تھا اس نے جب میرا رول نمبر بولا، شائد اٹھارہ تھا کہ فلاں اسکول کا رول نمبر اٹھارہ – چونکہ طلبا کی بھیڑ بہت زیادہ تھی تو بھیڑ سے نکلتے ہوئے یس سر یس سر کہتے ہوتے آگے بڑھتے جا رہا ہوں – دس سیکنڈ لیٹ کیا ہوا کہ اس ٹیچر نما شے نے کھوتے کی طرح لات ماری میرے تو چودہ طبق روشن ہوگئے – اصل میں، میں نے والد صاحب کی کیسیو گھڑی پہن رکھی تھی جو انہوں نے کسی سعودی کے حاجی سے لے تھی – اتنی شدت سے لات ماری کہ گھڑی کے پچاس سے زیادہ ٹکڑے ہو گئے – ساتھ میں اس نے جو الفاظ بھولے وہ ابھی یہ تحریر لکھتے ہوئے یاد آ گئے ” سورے گجراں غی چوٹے چوسی چوسی سنائی نہیں دینا’- لات کا درد اتنا شدید تھا کہ ہال میں امتحان کے دوران میں لگا تار روتا رہا –

ایک بار ساتویں کلاس کی بات ہے ایک میڈم عید پر مضمون سن رہی تھی – کلاس کی مانیٹر سے کہا کہ سبھی سے سنو اور خود جرسی بننے میں محو ہو گئی – میری ہم جماعت جب مجھ سے سننے لگی تو میں نے اپنی طرف سے سنانا شروع کیا جو پکا ڈنگا جموں سے چھپنے والے ملہوترہ گائیڈ سے نہیں رٹا گیا تھا – اسٹوڈنٹ نے مجھے کھڑا رہنے کو کہا، میں نے احتجاج کیا کہ میں عید پر صحیح مضمون سنا رہا ہوں – ہم جماعت طالبہ نے ٹیچر کو کہا یہ کھڑا نہیں ہو رہا، میں نے ٹیچر کو بھی کہا کہ میڈم مجھے آتا ہے – ٹیچر نے مجھے اپنے پاس بلایا اور اپنے ہاتھ میں ملہوترہ گائیڈ سے مضمون نکالا اور بولی ہاں سنا، میں سنانے لگا – چونکہ ملہوترہ سے لفظ بہ لفظ نہیں تھا – کچھ الفاظ بولے تو ٹیچر کہنے لگی یہ سب تو یہاں نہیں ہے – میں نے کہا کہ الفاظ وہ نہیں ہیں لیکن میرے مضمون میں کوئی غلطی نہیں – یہ کہنا تھا کہ ٹیچر آگ بگولہ ہو گئی اور تھپیڑوں سے میرے منہ کو لال کر دیا –

اصل استاد وہ ہوتا ہے جو طالب علم کے سوالوں کو اپنی توہین نہیں بلکہ سوال کرنے والے طلباء پر فخر محسوس کرئے – افلاطون ارسطو کا استاد تھا لیکن ارسطو نے افلاطون کی اکیڈمی میں کام کرتے ہوئے اپنے استاد کے فلسفوں اور نظریات کو چیلنج کیا کرتا تھا –

مارے ہاں اکثر اسکولوں، کالجوں میں تعینات لوگ تعصب اور تعفن سے رچے ہوتے ہیں – کلاسز میں بچوں کیساتھ ناروا سلوک، جس بچے کی فیملی یا والدین کیساتھ نہ بنتی ہو اس بچے کو دوسرے درجے کا شہری ٹریٹ کرنا، کلاس میں بچوں کے عجیب و غریب نام رکھنا، ذات پات، رنگ و نسل اور مذہب کی بنیاد پر سوتیلا سلوک ایک عام سی بات ہے – قارئین اپنے آس پاس نظر دوڑائیے تو ایجوکیشن محکمہ میں تعینات بعض لوگوں کو پڑھانے سے زیادہ سرکاری ٹھیکوں اور کچہری کے کاموں میں زیادہ مشغول پائیں گے – انہیں اچھی خاصی تنخواہ مل رہی ہے، غریبوں کے بچے جائیں بھاڑ میں –

(کالم نگار جواہر لال نہرو یونیورسٹی میں ہوتے ہیں)

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا