اردو اساتذہ اور اردو زبان کی تدریس

0
0

حافظ کرناٹکی
شکاری پوری،کرناٹک

اردو اساتذہ بیداری مہم کا اصل مقصد اردو اساتذہ کے جذبے کی تجدید ہے۔ تاکہ اردو زبان و ادب کی تدریس اور اس کے فروغ کی راہیں ہموار ہوسکے۔ ہم جانتے ہیں کہ جب تک نگہبان جاگتے رہتے ہیں تب تک کوئی خطرہ نہیں رہتاہے۔ اور نگہبان تب تک جاگتے رہتے ہیں جب تک انہیں خطرے اور ذمہ داری کااحساس رہتا ہے۔ اساتذہ بھی قوم و ملت کے نگران ونگہبان ہوتے ہیں۔ وہی اتالیق بھی ہوتے ہیں، جب وہ ماحول سے مطمئن ہوجاتے ہیںتو ان کے کام کرنے کا جذبہ سرد پڑ جاتا ہے۔ مگر جب وہ بے اطمینانی کا شکار ہوجاتے ہیں تو بڑی تیزی دکھانے لگتے ہیں۔ میںکہنا چاہتاہوں کہ اساتذہ کے اطمینان کی سانس لینے کا وقت ختم ہوچکا ہے، کیونکہ خطرہ بڑھتا جارہا ہے۔ روز بہ روز اردو طالب علموں کی تعداد گھٹتی جا رہی ہے۔ اردو اسکول اور اردو شعبوں کی چمک ماند پڑتی جارہی ہے۔ اس لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ اساتذہ ایک بار پھر چین و آرام چھوڑ کر خدمت کے جذبے کے ساتھ بیدار ہوجائیں، اور اتحاد و یکجہتی کی فضا بنا کر اردو زبان کی تعلیم و تدریس کی نئی منزلیں سرکریں۔ یہ بات ہم تمام لوگوں کو دل سے مان لینی چاہیے کہ سب سے اہم چیز اردو زبان و ادب اور تہذیب کا فروغ ہے۔ اور ہم سب اس کے خادم ہیں۔ جب تک زبان زندہ ہے تب ہی تک ہم استاذ ہیں، شاعر ہیں، ادیب ہیں، دانشور ہیں، اگر زبان ہی نہیں رہی تو پھر ہم کیا؟ اور ہماری شناخت کیا؟ اس لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ ہم تمام لوگ مل جل کر ایک مُہِم شروع کردیں ۔ اور تب تک خاموش نہ بیٹھیں جب تک اردو اسکول طالب علموں سے نہ بھر جائے۔ اور لوگوں کے دلوں میں اپنی زبان اور تہذیب کا جذبہ انگڑائی نہ لینے لگے۔
اردو زبان کی تعلیم میں ہمہ گیری لانے کے لیے اورطلبا اور والدین کو ہر طرح کی احساس کمتری سے نکالنے کی لیے ضروری ہوجاتا ہے کہ بچوں کو ایسی تعلیم و تربیت سے آراستہ کیا جائے جو اسے زندگی کی کامیابی سے قریب تر کردے۔ اردو زبان کی تعلیم کے سلسلے میں اردو اساتذہ بیداری مہم کے سلسلے میں ہم کئی چیزوں پر روشنی ڈال چکے ہیں۔ اسے یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں ہے، مگر اس میں سے چند چیزوں کا اعادہ ضروری ہے۔
اسکولوں میں کئی طرح کی چھٹیاں ہوتی ہیں۔ مثلاً گاندھی جینتی، کنڑا راجیہ اُتسو ،وغیرہ۔ ایسے موقعوں پر عموماً اسکولوںمیں طرح طرح کے پروگرام ہوتے ہیں۔ تقریریں ہوتی ہیں، اور بھی بہت کچھ ہوتاہے۔ مگر یہ اَلمیہ ہے کہ عموماً یوم میلاد النبیؐ کی چھٹی کے موقع سے بیشتر اسکولوں میں کسی طرح کے پروگرام کا اِنعقاد نہیں کیا جاتاہے ۔ حالانکہ اس موقع سے فائدہ اٹھا کر اسکولوں میں کئی طرح کے پروگرام کیے جاسکتے ہیں۔ جس میں نبی اکرمؐ کی سیرت بیان کر کے بچوں کی ذہنی تربیت کی جاسکتی ہے۔ خود بچوں کو تقریر کرنے پر آمادہ اور تیار کیا جاسکتا ہے۔ جس سے وہ نبی اکرمؐ کی سیرت سے متعلق بہت ساری باتوں کو حفظ کرسکتے ہیں۔ اور تقریر کرتے ہوئے اپنی صلاحیت کو پہچان سکتے ہیں۔ اس موقعہ سے نعت خوانی کا بھی اہتمام کیا جاسکتا ہے۔ جس سے بچوں کے ذوق کی تربیت ہوگی۔ اور وہ عظمت رسول پاکؐ سے آگاہ ہوں گے۔ اس طرح جہاں تعلیمی مقاصد پورے ہوں گے وہیں ملت کے جذبے کو فروغ ملے گا۔ روحانی ترقی کے دروازے کھلیں گے۔ رحمتِ عالمؐ کے ذکر کی برکت سے دلوں میں علم کا نور پیدا ہوگا۔
ہر اسکول میں اس بات کی کوشش کی جائے کہ ایک انجمن قائم ہو جس کے صدر، سکریٹری اور ناظم طلبا ہوں، جو ہفتہ واری پروگرام کریں۔ جس میں تقریریں ہوں، نظم و غزل خوانی ہو۔ ڈرامے ہوں، اہم موضوعات پر مکالمہ بازی ہو۔ اور اگر ممکن ہو تو دیواری (جِداری) پرچہ بھی نکالا جائے جس میں بچے مضامین لکھیں معلومات عامہ، لطائف اور نظم و غزل کا انتخاب جمع کریں۔ اسکول میں ایسی لائبریری ہو جہاں بچوں کے پسندیدہ اخبارورسائل آئیں، اور ان کی پسند کی کتابیں ہوں، جس سے بچے علم و ادب کے ذوق کی سیرابی حاصل کریں۔
ممکن ہوتو اسکول میں اساتذہ نصابی کتابوں کے علاوہ ایک آدھ غیرنصابی کتاب وقت نکال کر بچوں کو پڑھائیں جس سے ان کی تخلیقی قوت اور ادب شناسی کے ذوق میں اضافہ ہو،کتاب کا انتخاب اساتذہ اپنی سہولت اور بچوں کے ذوق کے مطابق خودکریں۔
آج اردو اسکولوں میں طالب علموں کی تعداد گھٹتی جارہی ہے۔ ذرا غور کریں کہ آپ جس اسکول میں استاذ ہیں، اسی اسکول میں اپنے بچوں کو کیوں نہیں پڑھاتے ہیں۔ کیا اس کا تعلیمی ماحول اور معیار قابل اعتبار نہیں ہے؟ اگر نہیں ہے تو ذمہ دار کون ہے؟ آیئے سچے دل سے ایسا تعلیمی معیار بنائیں کہ ہم اپنے بچوں کو فخریہ اپنے اسکولوں میں داخل کرسکیں۔ اس سے اردو برادری کا اعتماد بحال ہوگا اوروہ اپنے بچوں کو اسکول میں داخل کر کے خوشی محسوس کریں گے۔ حکومت ہر طرح کے مضامین کی تدریس کے لیے اساتذہ کی تربیت کا انتظام کرتی ہے۔ مگر اردو زبان و ادب کی تعلیم و تربیت سے متعلق اساتذہ کی تربیت کا اہتمام نہیں کرتی ہے۔ یا نہیں کرپاتی ہے۔ انشاء اللہ آئندہ اکیڈمی اس طرف توجہ کرے گی۔ ممکن ہوا تو حکومت سے اس سلسلے میں تعاون کی درخواست کرے گی۔ اور گنجائش نکلی تو اکیڈمی اپنے طور پر بھی اس طرح کے تربیتی پروگرام کے انعقاد کی کوشش کرے گی۔ اساتذہ کا اجلاس اس لیے بھی بلایا جاتا ہے کہ ہم آپس میں صلاح و مشورہ کر کے اپنے مسائل کا حل تلاشنے کی کوشش کریں۔ جہاں دوسرے اداروں کے تعاون کی ضرورت ہو وہاں اس طرح کے ادارے کو تعاون دینے کی طرف راغب کریں۔ اور ہم سب ایک جٹ ہو کر اردو کی ایسی فضا بنائیں جہاں تعلیم و تدریس کا ایک نیا جذبہ اور جوش پیدا ہوجائے۔
اس بات پر یقینا غور کرنا چاہیے کہ آخر اردو اسکولوں میں طلبا کی تعداد کیوں کم ہوتی جارہی ہے۔ کیا اردو تعلیم بچوں کے مستقبل کو محفوظ نہیں کر پارہی ہے۔ یا یہ کہ تعلیم کا جو مقصد ہے وہ پورا نہیں ہو پارہا ہے۔ سب سے پہلے تو اردو اسکول کا ایک واضح تصور قائم کرنا پڑے گا۔ ایسا تصور کے لوگ جان سکیں کہ اردو تہذیب کیا ہوتی ہے۔
اردو اسکول کی ترتیب میں اردو تہذیب کا خاص خیال رکھا جائے۔ اسکول کی صفائی اور ماحول کی سادگی و پاکیزگی کے ساتھ ساتھ آداب و اخلاق اور طور طریقے کی صحت پر دھیان دیا جائے۔ سروشکشا کے تحت حکومت اسکولوں کو کافی امداد دے رہی ہے۔ اس کا فائدہ اٹھا کر اچھے اور خوبصورت چارٹ اور پوسٹر کا استعمال کیا جائے۔ امیرخسروؔ، قطبؔ شاہ، بہادرشاہ ظفرؔ، اقبالؔ، میرؔ، غالبؔ وغیرہ جیسے اہم ترین اور عظیم فنکاروں کی تصویریں جا بہ جا لگائی جائیں۔ کوشش یہ ہو کہ ان کی تاریخ پیدائش اورتاریخ وفات بھی تصویر کے ساتھ تحریر ہو اور ممکن ہو تو ان کے اہم کارناموں کا بھی ذکر ہو۔
وقتاً فوقتاً اسکول میں تہذیبی پروگرام کا انعقاد کیا جائے جس میں اردو کے اہم ترین فنکاروں کی حیات و خدمات پر سمینار ہو۔ ڈرامہ ہو۔ اور ان کا ماڈل بن کر طالب علم اسی انداز میں تقریر کرے یا مشاعرہ پڑھے۔
اسکول کی تعلیم کو دلچسپ بنانے کے لیے اور بچوں کی صلاحیتوں کو جلا بخشنے کے لیے ڈرامہ، اداکاری، لطائف، ادباء و شعراء اور تاریخی رہنمائوں کے علاوہ دوسرے دانشوروں کی حیات و خدمات کے اہم ترین واقعات کو پیش کیا جائے۔ مباحثہ، مناظرہ، فی البدیہہ تقریر اور بیت بازی کو فروغ دیا جائے۔ طلبا کو اچھی نظمیں یاد کرنے پر آمادہ کیا جائے۔ اس طرح خاص قسم کا ماحول بنے گا، زبان و ادب اور تہذیب سے محبت پیدا ہوگی۔ اور طلبا میں مضمون لکھنے، کہانی لکھنے، خبر بنانے، رپورٹنگ کرنے، اسکرپٹ لکھنے، مکالمہ لکھنے اورتحقیق کرنے کا مادہ پیدا ہوگا۔ جب اس طرح تعلیم ہوگی تو روزگار کا بھی بہت کچھ مسئلہ حل ہوجائے گا۔
آخر میں ایک اہم ترین بات یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ میں سے بیشتر اساتذہ کرام حکومت کی مردم شماری مہم میں شریک ہوں گے۔ اس لئے آپ کا فرض بنتا ہے کہ نہایت ذمہ داری کے ساتھ مردم شماری کے فارم میں جہاں مادری زبان کا خانہ بنا ہوا ہے۔ وہاں اردو لکھیں۔ تاکہ اردو کو دوسری سرکاری زبان کادرجہ دلانے کی راہ ہموار ہو۔ اگر ہم تمام لوگ بیدار ہوجائیں اور اساتذہ جو کسی بھی قوم کی ضمیر سمجھے جاتے ہیں جاگ جائیں تو انشاء اللہ ہمارے تمام مسائل حل ہوجائیںگے۔

٭٭٭

 

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا