اب جموں میں کڈنی ٹرانسپلانٹ

0
0

جموں کشمیر میں طبی نگہداشت کے نظام میں بہتری آرہی ہے ۔جموں وکشمیر میں صحت کی دیکھ بھال کانظام بہتر ہورہا ہے اور جموں و کشمیر میں لوگوںکو بہتر طبی خدمات کی فراہمی کے حوالے سے اب تک متعدد اقدامات اُٹھائے جارہے ہیں ۔ اس سلسلے میں ایک کڑی کے بطور جی ایم سی جموں کو ہیومن آرگن ٹرانسپلانٹ ایکٹ اور ٹشو ایکٹ 1994 کے تحت پانچ سال کی مدت کے لیے رجسٹریشن سرٹیفکیٹ جاری کیا گیا ہے۔ اس کے بعد گردے کی پیوند کاری جی ایم سی کے تحت کی جا سکتی ہے۔جموں و کشمیر میں گردوں کے امراض میں مبتلا مریضوں کے لیے راحت کی خبر ہے۔ اب انہیں کڈنی ٹرانسپلانٹ کے لیے دوسری ریاستوں پر انحصار نہیں کرنا پڑے گا۔ صحت اور خاندانی بہبود کی وزارت کے ڈائریکٹوریٹ جنرل آف ہیلتھ سروسز نے جی ایم سی جموں کو ہیومن آرگن ٹرانسپلانٹ ایکٹ اور ٹشو ایکٹ 1994 کے تحت پانچ سال کے لیے رجسٹر کرنے کا سرٹیفکیٹ جاری کیا ہے۔ اس کے بعد گردے کی پیوند کاری جی ایم سی کے تحت کی جا سکتی ہے۔سپر اسپیشلٹی ہسپتال جموں میں گردے کی پیوند کاری کی سہولت شروع کرنے کی مشق کئی سال پہلے شروع کی گئی تھی۔ اس کے بعد شعبہ کے سابق سربراہ ڈاکٹر ایس کے بالی کی قیادت میں انفراسٹرکچر تیار کیا گیا۔ لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر ٹرانسپلانٹ کی سہولت شروع نہیں ہو سکی۔ ہسپتال کے شعبہ نیفرالوجی میں روزانہ کی بنیاد پر تین شفٹوں میں 30 سے 40 مریضوں کا ڈائیلاسز کیا جا رہا ہے۔ہسپتال کی او پی ڈی میں ماہانہ 500-600 مریضوں میں سے 100 سے 150 نئے مریض آتے ہیں۔ ان میں سے بہت سے مریضوں کو گردے کی پیوند کاری کی ضرورت تھی لیکن جموں صوبے میں ایسی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے انہیں دوسری ریاستوں میں علاج کے لیے جانا پڑتا تھا۔صحت کے میدان میں یہ اہم سہولت ہے لیکن اس سے بڑھ کر کئی اور کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ماضی قریب کے کووڈ کے حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے صحت کے میدان میں کئی اہم کارہائے نمایاں انجام دینے کی ضرورت ہے تاکہ اُن حالات کو یاد رکھ کر انتظامیہ کو مزید ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ جموں وکشمیر کے لوگوں کو باہر کی ریاستوں میں اپنے علاج و معالجہ کیلئے نہ جانا پڑے ۔ جموں وکشمیر کے عوام اپنے بہتر علاج و معالجہ کیلئے پی جی آئی چندیگڑھ جاتے ہیں جہاں انہیں سفر میں کئی طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس دوران ان کی جیب پر بھی اس کا کافی اثر پڑتا ہے ۔اگر جموں وکشمیر میں ایسی سہولیات میسر ہو جائیں کہ یہاں کے لوگوں کو علاج و معالجہ کیلئے باہر نہ جانا پڑے تو اس کافی فائدہ ہو سکتا ہے۔

 

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا