اب انہیں اذان کا احترام بھی یاد آیا

0
42
  • ملک کے سربراہ کو مسلمانوں کی نمازی ٹوپی پہننے سے اختلاف رہا۔ اس عظیم ملک کے بھانت بھانت کی ٹوپیاور پگڑی پہننے میں انہیں کسی طرح کی رکاوٹ ہر گز محسوس نہ ہویٔ۔مگر عام مسلمان جو ٹوپی پہنتا ہے اُس کو پہننا آپ نے عجیب سمجھاْقبراستان کے لیے ریاستوں میں جگہ مختص کرنے اور شب برات کو بجلی کی آسان فراہمی پر بھی آپ نے سوال اُٹھانے سے گریز نہیں کیا۔اور اب بڑے دنوںں بعد انہیں گنگا جمنی مشترکہ تہذیب کاالہام ہونے لگا ہے۔” ــاکھنڈتا” کے غرور میں مُبتلا انہیں اب وقت کے ساتھ نئی نئی باتیں کہنے نئے نئے فتنے برتنے اور نئی نئی حرکتیں کرنے کی سوچ لگی ہے۔اور ان دنوں حیرت انگیز طورپر ــــــــــــــ”اذان؛؛کااحترام بھی ان سے ہونے لگا ہے۔اپنی دہاڑتی تقاریرکے دورا ن پاس کی مساجدسے ہورہی اذانوں کے احترام میں اپنی تقریر کو روکے رہنا معمہ سے کم نہیں لگتا۔پورے ملک پر اپنے اقتدار کی چھاپ قائم کرنے کے مقصد سے اپنے نئے نئے حربے آزمائے جا رہے ہیں ۔اب ان نئی نئی باتوں اور حرکتوں سے ان کی رفتار اور گفتار پر نظر رکھنے والوں کو اچھنبا تو نہیں ہے۔ہر رنگ میں رنگ بدلنے والامعاملہ ان کا شیوہ رہا ہے۔ اپنے بیرونی ممالک کے دوروں کے دوران تاریخی مساجد میں حاضری دینا بھی ان کی ڈپلومیسی کا حصّہ مان بھی لیا جائے تو اندرون ملک مسلمانوں سے متعلق ان کے ہمنواجس نوعیت کی زبان درازی اور غیر ذمہ دارانہ حرکتیں کرتے ہیں۔اور ملک کے دستوری مراعات کے برخلاف جب بھی فرقہ واریت کی آڑ میںنفرتوں کی آگ بھڑکائی جاتی ہے۔حسب مخالف یعنی اپوزیشن اورملک کے روشن خیال لوگوں نے جب بھی ان بیان بازیوں اور حرکتوں کی مذمت کی ہے اور یہ اُمید ظاہر کی ہے کہ ملک کے سربراہ اس ضمن میں کچھ تو بولیں گے۔مگر اُن پر ایک پُر اسرار خاموشی چھائی رہتی ہے وہ کُھلی آنکھ سے سب کچھ دیکھ اور آپنی آنکھوں سے سُن کر بھی ان دیکھے اور ان سُنے رہ جاتے ہیں اپنے بے نیازی اور بے بسی کے نئے ریکارڈ قائم کرنے چلے آرہے ہیں اکا دُکا کبھی کبھی مُسلمانوں کے حق کی بات اور مُلک کی تہذیب اور ترقی میں مسلمانوں کے رول کے بارے میںوہ بات بھی کر تے ہیں تو لائق اعتبار نہیں لگتیں۔اُن کی باتیںاپنا اُلو سیدھا کرنے کے فن میں مہارت رکھنے والوں کے نئے پُرانے حربے اور خُوش کرنے کے apeasementsکے نئے انداز سے اُن دلوں میں خوشی ظاہر ہے کہ محسوس نہیں ہو ئی کیونکہ ان دلوںمیں رہتے زخموں کے گھائوناسُور بن کر اب بھی چُھبنے لگتے ہیں۔کس کس دُکھ ،رنج و الم کی با ت کریں کہ وہ آج بھی دو غلوں کی اجا را داری ہے۔چہرے پر چہرہ لگا کر جینے والوں کو نہ شرم آتی ہے اور نہ ہی اُن میں احساس ندامت۔مگر ایسے ضمیر فروشوں کے ساتھ چند نام نہاد مسلمان بھی ان کی آواز میں آواز ملا کرآپنی عافیت تلاش کرتے ہیں ۔فرقہ پرستوں کی شاطر چالوں میں چند مسلما ن اپنی خوشامد کے لئے کم ظرفوں کے قدموں میں گرے رہتے ہیں ۔فسطائیت اور فرقہ پرستی یا مسلم دشمن نظریہ ان کرایے کے مسلمانوں کو کچھ فرق ہی نہیں پڑتااور زعفرانیت کے سائے تلے چھوٹے موٹے عہدوں کے لئے دُم ہلاتے رہتے ہیں ۔ یہ حقیقت بھی ہے کہ ا نتخابات جیسے قریب ہوتے ہیں اور پھر یا اپنی حکومت کی میعاد ختم ہونے کے دہانے رہتی ہے توموقع پرست سیاستدانوں کوبھولی بسری عادتیں اور اچھائیاں یاد آنے لگتی ہیں ۔اور جب یاد آتی ہے تو شدّت سے آنے لگتی ہیں چاہے وہ اذان کا احترام اور اُس دوران تقریرروکنے کا نیا طریقہ ہو یا پھر مسلمانوں کو ہندوستان کا حصّہ کہنے کی کار فرمائی۔

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا