۰۰۰
ریاض فردوسی
9968012976
۰۰۰
اور کتاب میں ابراہیم کو یاد کرو بیشک وہ صدیق نبی تھے(سورہ مریم۔آیت۔41)
سیدنا ابراہیم علیہ السلام وہ پہلے نبی تھے جن کو اللہ نے مْسلمان، نبی،پیغمبر،ابو الانبیاء ،خلیل اللہ،امام الناس اور حنیف کہہ کر اپنی کتاب میں خطاب فرمایا ہے۔مؤرخوں نے ابراہیم کا سلسلہ نسب یوں بیان کیا ہے :ابراہیم بن تارخ بن ناحور بن ساروغ بن ارغو بن فالغ بن عابر بن شالخ بن ارفخشد بن سام بن نوح۔ یہ سلسلہ نسب انجیل میں سے لیا گیا ہے۔ اکثر علما نے ابراہیم کو عجمی قرار دیا ہے۔ اس لفظ کی کئی صورتیں بیان کی ہیں مثلاََ اِبراھام، اِبراہم، ابرہم، ابراہیم، براہم اور براہمہ۔ انجیل کے پْرانے عہد نامے کے مطابق خْدا ابراہیم سے یہ فرماتا ہے کہ تیرا نام پھر ابرام نہیں کہا جائے گا بلکہ ابراھام(ابورھام کا مطلب بہت زیادہ اولاد والا یا گروہ کثیر کا باپ) ہوگا۔
سیدنا ابراہیم علیہ السّلام کے نام سے قرآن مجید میں ایک سورت بھی ہے جو قرآن مجید کی چودہویں سورت ہے اور مکہ میں نازل ہوئی۔
اللہ نے انھیں اْمت اور امام النّاس کے لقب سے پْکارا اور انھیں بار بار حنیف بھی کہا۔قرآن مجید میں اْن کو مسلمان یا مسلم بھی کہا گیا ہے،اور یہ کہا گیا ہے کہ ابراہیم ملتِ حنیفہ تھے۔
اللہ نے آلِ ابراہیم کو کتاب و حکمت سے نوازا اور انھیں ملکِ عظیم عطا کیا۔اللہ تعالیٰ نے انھیں خْلّت کا شرف بخشا انھیں خلیل اللہ (اللہ کا دوست ) کہا اور سب اْمتوں میں انھیں ہر دلعزیز بنایا۔اکثر انبیائے کرام ان کی اولاد سے ہیں۔قرآن مجید میں حضرت ابراہیم کے احوال و اوصاف بالصّراحت مذکور ہیں۔
قرآن میں اللہ تعالی نے اپنے اس دوست برگزیدہ اور پیارے نبی کو قرآن مجید میں امام الناس (البقرہ: 124) حنیف اور مسلم (آل عمران: 67)
امتہ (النحل : 120) کے ناموں سے بار بار یاد کیا ہے۔اکثر انبیائے کرام انہی کی اولاد سے ہیں۔ابراہیم علیہ السلام کے نام کی وجہ تسمیہ کے بارے میں بائبل کا بیان ہے کہ خدا تعالی ان سے مخاطب ہو کر کہتا ہے۔دیکھ میرا عہد تیرے ساتھ ہے اور تو بہت قوموں کا باپ ہو گا۔اور تیرا نام ابرام نہیں بلکہ ابراہام ہو گا۔ کیونکہ میں نے تجھے قوموں کا باپ بنایا ہے۔ (پیدائش 170:5)
بعض مفسرین کے نزدیک ابراہام یا ابراہیم بھی لفظ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ پہلے آپ کا نام ابراہم ہو اور پھر ابراہام یا ابو رہام ہو گیا ہو۔مْسلمان اْن کو خلیل اللہ (اللہ کا دوست) کہتے ہیں۔ ابراہیم کی نسل سے کئی پیغمبر پیدا ہوئے، جن کا تذکرہ عہدنامہ قدیم میں ہے۔قرآن مجید میں بھی بہت سارے ایسے انبیائ علیھم السّلام کا ذکر ہے جو ابراہیم کی نسل میں سے تھے۔اللہ کے آخری نبی حضرت مْحمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی ابراہیم کی نسل میں سے ہیں۔
سیدنا ابراہیم علیہ السّلام کے بارے میں یہ تو کہیں وضاحت نہیں ہوئی کہ کیا وحی ان پر نازل ہوئی تھی یا ان کی بعثت محض روحانی تھی؟ البتہ قرآن مجید میں ایک جگہ اس امر کی تصدیق ہوئی ہے کہ اللہ تعالی آپ سے ہمکلام تھا۔اہل تاریخ کے نزدیک متعدد صحیفے تھے جو ابراہیم پر نازل ہوئے۔ایک صحیفہ جو ان کی طرف سے منسوب ہے یونانی سے انگریزی میں ترجمہ ہو کر شائع ہو چکا ہے۔قرآن مجید کی تقریباً بائیس سورتوں میں حضرت ابراہیم کا ذکر آتا ہے۔ آپ مسلمانوں کے رسول مقبول حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے جد امجد ہیں۔ گویا مسلمان نہ صرف امت محمدیہ سے تعلق رکھتے ہیں بلکہ امت براہیمیہ سے بھی متعلق ہیں۔مسلمان حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ساتھ حضرت ابراہیم اور ان کی اولاد پر بھی درود بھیجتے ہیں
حضرت ابراہیم علیہ السلام کو بچپن سے ہی قلبِ سلیم عطا کیا گیا تھا، چنانچہ انہوں نے ابتدا ہی سے بت پرستی کی مخالفت کی۔ اللہ کی مخلوقات میں غور وفکر کے بعد انہیں یقین ہوگیا تھا کہ ساری کائنات کو پیدا کرنے والا ایک معبودِ حقیقی ہے، جس کا کوئی شریک نہیں ہے، جیساکہ فرمانِ الٰہی ہے:
’’اور اس طرح ہم ابراہیم کو ا?سمانوں اور زمین کی سلطنت کا نظارہ کراتے تھے، اور مقصد یہ تھا کہ وہ مکمل یقین رکھنے والوں میں شامل ہوں، چنانچہ جب ان پر رات چھائی تو انہوں نے ایک ستارہ دیکھا، کہنے لگے: یہ میرا رب ہے، پھر جب وہ ڈوب گیا تو انہوں نے کہا: میں ڈوبنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔ پھر جب انہوں نے چاند کو چمکتے دیکھا تو کہا کہ: یہ میرا رب ہے، لیکن جب وہ بھی ڈوب گیا تو کہنے لگے: اگر میرا رب مجھے ہدایت نہ دے تو میں یقینا گمراہ لوگوں میں شامل ہوجاوں، پھر جب انہوں نے سورج کو چمکتے دیکھا، تو کہا: یہ میرا رب ہے، یہ زیادہ بڑا ہے، پھر جب وہ غروب ہوا تو انہوں نے کہا: اے میری قوم! جن جن چیزوں کو تم اللہ کی خدائی میں شریک قرار دیتے ہو، میں اْن سب سے بیزار ہوں۔ میں نے تو پوری طرح یکسو ہوکر اپنا رْخ اْس ذات کی طرف کرلیا ہے جس نے اسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘
(سور الانعام: 74-79)۔
سیدنا ابراہیم علیہ السّلام کی صفات کتاب اللہ کی روشنی میں!
(1) امام و پیشوا۔
(2) مقامِ ابراہیم۔
(3) دینِ ابراہیمی۔
(4) حنیف ( ہر باطل سے جدا)۔
(5) اتباع ملتِ ابراہیمی کا حکم۔
(6) نشانیاں۔
(7) کتاب، حکمت، عظیم ملک۔
(8) خلیل اللہ (اللہ کا دوست)۔
(9) بہت آہیں کرنے والا اور متحمل۔
(10)بہترین مہمان نواز۔
(11)رجوع کرنے والا۔
امام فخر الدین رازی فرماتے ہیں : اس سور کا (بنیادی) مقصد توحید، رسالت اور حشر کو بیان کرنا ہے اور توحید کا انکار کرنے والے وہ لوگ تھے جو اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو(اپنا) معبود مانتے تھے، پھر ان لوگوں کے بھی دو گروہ تھے، ایک گروہ زندہ اور عقل و فہم رکھنے والے انسان کو معبود مانتا تھا اور یہ عیسائیوں کا گروہ ہے، اور ایک گروہ بے جان اور عقل و فہم نہ رکھنے والی جَمادات کو معبود مانتا تھا اور یہ بتوں کے پجاریوں کا گروہ ہے اور یہ دونوں گروہ اگرچہ گمراہی میں مْشترک تھے لیکن دوسرا گروہ (پہلے کے مقابلے میں) زیادہ گمراہ تھا، چنانچہ اس سے پہلی ایات میں اللہ تعالیٰ نے پہلے گروہ کی گمراہی بیان فرمائی اور اب یہاں سے دوسرے گروہ کی گمراہی بیان فرما رہا ہے، چنانچہ جب حضرت زکریا اور حضرت عیسیٰ عَلَیہِمَا الصَّلْٰ وَالسَّلَام کے واقعے کا اختتام ہوا تو گویا کہ ارشاد فرمایا ’’اے حبیب! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ، اپ نے حضرت زکریا عَلَیہِ الصَّلْٰ وَالسَّلَام کا حال ذکر کردیا اور اب حضرت ابراہیم عَلَیہِ الصَّلْٰ وَالسَّلَام کا حال بیان کریں۔ حضرت ابراہیم عَلَیہِ الصَّلْٰ وَالسَّلَام کا حال بیان کرنے کا حکم دینے کی وجہ یہ ہے کہ تمام لوگ اس بات سے واقف تھے کہ نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ، اپ کی قوم اور اپ کے صحابہ کرام رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنہْم کتابوں کا مطالعہ کرنے اور پڑھنے لکھنے میں مشغول نہ تھے تو جب اپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے یہ واقعہ کسی کمی زیادتی کے بغیر جیسا واقع ہوا تھا ویسا ہی بیان کر دیا تو یہ غیب کی خبر ہوئی اور سیّد المرسَلین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ(کاغیب کی خبر دینا اپ) کی نبوت کی دلیل اور اپ کا معجزہ ہوا۔(تفسیرکبیر، مریم، تحت الای: 41، 7/ 541)
کتاب اللہ میں بطورِ خاص مکہ کافروں اور مشرکوں حضرت ابراہیم عَلَیہِ الصَّلْٰ وَالسَّلَام کا واقعہ بیان کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عرب کیمشرکین اپنے ا?پ کومِلّتِ ابراہیمی کے پیروکار کہتے تھے، اس میں انہیں سمجھایا جارہا ہے کہ اگرتم ملت ابراہیمی کے پیروکار ہو توبتوں کی پوجا کیوں کرتے ہو؟ تمہارے باپ حضرت ابراہیم عَلَیہِ الصَّلٰوْ وَالسَّلَام توبتوں کی پوجانہیں کرتے تھے بلکہ وہ تو اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت کیا کرتے تھے اور اس میں کسی کوشریک نہیں ٹھہراتے تھے۔ اگرتم ملت ابراہیمی پرقائم ہو توان کے دین کواپناؤ اور بت پرستی چھوڑو۔
علامہ احمد صاوی فرماتے ہیں : ہر نبی صدیق ہے لیکن اس کا عکس نہیں (یعنی ہر صدیق نبی نہیں ،اسی طرح) ہر صدیق ولی ہے لیکن اس کا عکس نہیں (یعنی ہر ولی صدیق نہیں ) کیونکہ صِدِّیقِیَّت کا مرتبہ نبوت کے مرتبے کے نیچے (اور اس کے قریب) ہے۔( صاوی، مریم، تحت الای: 41، 4 / 1237)
اللہ نے ابراہیم (علیہ السلام) کو صدیق اور نبی کہا۔ صدیق سے یہ بھی مفہوم کہ وہ بہت ہی سچے تھے اور یہ بھی نکلتا ہے کہ وہ بہت تصدیق کرنے والے تھے۔ دونوں معنی حضرت ابراہیم کی شخصیت کے ساتھ مناسب ہیں۔
حضرت ابراہیم انبیاء کرام علیھم السلام کی پاک و مطہر کڑیوں میں نہایت ہی حلیم الطبع کردار والے نظر آتے ہیں اور اللہ کی مشیت پر راضی ہونے والے شخص تھے۔ان کی شخصیت کے یہ خدوخال ان کے الفاظ ‘ ان کے انداز کلام سے بھی اچھی طرح معلوم ہوتے ہیں جن کی حکایت کتاب اللہ نے عربی میں بیان کی ہے۔ نیز ان کے اقدامات سے اور والد کی جہالت کے مقابلہ کے سلسلے میں ان کے رویہ سے بھی ان کی شخصیت واضح ہو رہی ہے۔ لیکن اللہ کی طرف سے ان کے اس کردار اور ان کے ان اوصاف کا صلہ بھی ان کو خوب ملا۔
ان کے مشرک باپ اور مشرک فیملی کی جگہ اللہ نے ان کو ایسی صالح اولاد دی جن سے ایک بڑی امت پیدا ہوئی۔ اس امت میں بڑے بڑے انبیائو صالحین پیدا ہوئے لیکن ان کے بعد ایسے ناخلف لوگ بھی پیدا ہوئے جنہوں نے نمازوں کو قائم نہیں کیا،شریعت اسلامیہ کی پیروی سے ہٹ کر اپنی خواہشات نفسانیہ کی پیروی کرنے لگے اور اس راہ سے وہ منحرف ہوگئے ‘ جو ان کے لیے ان کے باپ ابراہیم نے تجویز کیا تھا،اور انہوں نے حضرت ابراہیم کا دین تک ترک کردیا اور مشرکین مکہ انہی لوگوں کے سر خیل تھے۔بت پرستی کے خلاف ابراہیم کے جہاد کا ذکر بھی قران کریم میں کئی بار آیا ہے
قرآن حکیم میں حضرت ابراہیم اور آذر کے اختلاف عقائد کو جس طرح نمایاں کیا گیا ہے اور جس طرح آپ اپنی قوم کے شرک سے متنفر اور متصادم ہوئے۔ اس سے ہم آپ کی عظمت و جلالت کی حقیقت کو بھی پاسکتے ہیں۔ اور اپنے لیے شمع ہدایت بھی روشن کر سکتے ہیں۔ اس وجہ سے مسلمانوں کو ملت براہیمی ہونے پر فخر ہے۔
سورہ النحل آیت۔123 میں ارشاد باری تعالٰی ہے۔
پھر ہم نے آپ کی طرف وحی کی ہے کہ آپ ابراہیم کی ملت کی پیروی کریں جو ایک اللہ کی طرف ہو جانے والے تھے اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے۔
اللہ تعالی کی نازل کردہ شریعت میں تضاد نہیں ہے،جیسا کہ تم نے یہودیوں کے مذہبی قانون اور شریعت محمدی کے ظاہری فرق کو دیکھ کر گمان کیا ہے،بلکہ دراصل یہودیوں کو خاص طور پر ان کی نافرمانیوں کی پاداش میں چند نعمتوں سے محروم کیا گیا تھا ، جن سے دوسروں کو محروم کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔
ق دوسرا جزء یہ ہے کہ محمد کو جس طریقے کی پیروی کا حکم دیا گیا ہے وہ ابراہیم علیہ السلام کا طریقہ ہے اور تمہیں معلوم ہے کہ ملت ابراہیمی میں وہ چیزیں حرام نہ تھیں جو یہودیوں کے ہاں حرام ہیں۔ مثلاً یہودی اونٹ نہیں کھاتے ، مگر ملت ابراہیمی میں وہ حلال تھا۔ یہودیوں کے ہاں شتر مرغ ، بطخ ، خرگوش وغیرہ حرام ہیں ، مگر ملت ابراہیمی میں یہ سب چیزیں حلال تھیں۔اس جواب کے ساتھ ساتھ کفار مکہ کو اس بات پر بھی متنبہ کر دیا گیا کہ نہ تم کو ابراہیم سے کوئی واسطہ ہے نہ یہودیوں کو ، کیونکہ تم دونوں ہی شرک کر رہے ہو۔ ملت ابراہیمی کا اگر کوئی صحیح پیرو ہے تو وہ یہ نبی اور اس کے ساتھی ہیں ، جن کے عقائد اور اعمال میں شرک کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا۔