آج کے افسانچے 

0
0
افسانچہ
نورین خان پشاور
عورت کی دینی تعلیم
سعدیہ کو اسکےدادا کی وراثت سے لاکھوں کی مالیت کی دولت ملی جو اس کے نام ہوئی دادا نے سعدیہ کی دینی اور دنیاوی تعلیم کے لئے کافی کچھ چھوڑا۔
پورے خاندان میں اس بات کا چرچہ کیا گیا۔جس میں سعدیہ کے والدین بھی شامل تھے۔سب لوگ خوش تھے کہ یہ دولت تعلیم و تربیت پر خرچ ہوگی اسکے والدین کتنے اچھے ہیں۔
وقت نے ثابت کیا کہ وہ ساری دولت سعدیہ کے بھائی کے تعلیم و تربیت اور ویزے پر خرچ ہو گئے۔
دقیانوسی سوچ
ابا جان میں نے فیصلہ کر لیا ہے۔میں شادی نرملا سے ہی کرونگا۔
بیٹا نرملا ہندو ہے اور تم مسلمان تم دونوں کی شادی نہیں ہو سکتی۔
مگر ابا جان یہ اکیسویں صدی ہے دنیا چاند پر پہنچ گئی ہے اور آپ ابھی تک دقیانوسی سوچ رکھتے ہیں؟ کمال ہے۔
کسی بھی شخص کی بات کو نظرانداز کرنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، چاہے وہ کوئی بھی سیاسی لیڈر ہو یا مذہبی لیڈر ہو،
لیکن یاد رہے کہ قرآن کو اگر نظرانداز کیا تو اللہ تعالیٰ آپ کو نظرانداز کر دے گا، تاریخ کے ہر پہلو پر بات کرنے کی گنجائش ہے، اور تاریخ پر شاید شکوک شبہات اور سازشی تھیوری میں ردوبدل ہو سکتا ہے۔ لیکن قرآن جو اللہ کا حتمی فیصلہ ہے۔ اس میں نہ کوئی شک ہے، اور نہ ہی کوئی ردوبدل، کی گنجائش۔
جب کوئی بھی معاملہ شک میں مبتلا کرے، تو باقی صرف قرآن کا حکم قائم و دائم ہے۔
شریعت خداوندی! میں کوئی اگر مگر کوئی گنجائش نہیں بس جو رب العالمین کا فرمان وہی حکم ہے۔
میں معافی چاہتا ہوں ابا جان میں بہک گیا تھا۔
کھونا
دیکھو سلمی میں تم سے شادی نہیں کر سکتا۔ میرے والدین تمھیں پسند نہیں کرتے۔
مگر کیوں سلیم کیوں؟ میں اچھے خاندان سے ہوں، خودمختار ہوں خود کماتی ہوں۔اور سب سے بڑی بات میں تم سے سچی محبت کرتی ہوں۔تمھارے ماں باپ تمھارے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں۔
خدا کے لئے مجھے مت ٹھکراو۔
سلیم سلمی کو چھوڑ کے چلا جاتا ہے کیونکہ وہ اپنے ماں باپ سے بہت محبت کرتا ہے۔
کئی سال گزر جاتے ہیں پچھلے سال سلیم کے والد گزر جاتے ہیں، اور اب اس کی ماں بستر مرگ پر تھی۔اماں کھانا کھا لو سلیم اسکی منتیں کرتا ہے۔
اس کی ماں کے چہرے پر ایک مکروہ مسکراہٹ آتی ہے، اور ایک عجیب سے چمک اسکی آنکھوں میں ہوتی ہے۔کھانستے کھانستے اس کی ماں سلیم کو کہتی ہے کہ لگتا ہے میرا وقت قریب آ گیا ہے۔مگر میری ایک بات سن لو۔
میں اور شفیق تمھارے اصلی ماں باپ نہ تھے۔بلکہ بچپن میں ہم نے تمھارے والدین کو قتل کرکے اسکی جائیداد پے قبضہ کر لیا تھا اور تمھیں کہا کہ ہم تمھارے والدین ہیں اور تم نے ہماری اچھی خدمت کی۔یہ کہتے کہتے اسکی گردن لڑھک گئی۔
سلیم کو سلمی کی آواز سنائی دے رہی تھی ایک دن تم مجھے کھو دو گے۔
تڑپ
اماں میں نے کپڑے پہن لئے بس اب مجھ سے انتظار نہیں ہوتا۔میں جارہا ہوں۔
غلام عباس میرے بچے تم کہاں جارہے ہو؟
اماں عاشورہ کا جلوس نکلنے والا ہے کراچی کے مین بازار میں وہی جارہا ہوں۔
مگر بیٹے وہاں تو کرفیو لگا ہے سنا ہے دہشت گرد شہر میں آئے ہیں۔تم ابھی مت جاو۔
کل اپنے بڑے چچا کیساتھ چلے جانا۔
غلام عباس ماں کی بات ان سنی کرکے چلا جاتا ہے۔
ٹی وی پر عاشورہ جلوس کی ویڈیو میں بھگڈر کی خبر آتی ہے۔
ماں دوڑتی مرتی عاشورہ کے جلوس کے میدان میں جاتی ہے۔اور بالآخر
شہدا کی لاشوں میں اسے اپنا اکلوتا غلام عباس مسکراتے چہرے کیساتھ کفن میں لپٹا نظر آتا ہے۔
مقدر
دیکھو مہدی کے ابا ان دنوں تم شہر سے باہر مت جاو محرم کا مقدس مہینہ ہے۔جگہ جگہ کرفیو اور ناکہ بندی ہے۔
کل ہی پولیس والوں نے اعلان کیا ہے کہ شہر میں شر پسند لوگ داخل ہو چکے ہیں۔
ارے نسیم بیگم تم خوامخوا شک کرتی رہتی ہو۔محرم کا مہینہ ہے ہمارے اس پڑوس والے سوگ میں ہیں تم انکے گھر چلی جاو۔
دوسرے دن اسکو خبر ملتی ہے کہ الم ناک حادثے میں اسکے شوہر کی موت ہو جاتی ہے۔اور محرم کے مہینے میں وہ اپنے شوہر کو کھو دیتی ہے۔
تم نے سچ کہا تھا مہدی کے ابا اب میں روتے دھوتے اپنے بچوں کی دیکھ بھال کرونگی۔
جانتے ہوئے
جدائی
آپ اداس کیوں ہے آج ؟ سلمی اپنے شوہر سے پوچھتے ہوئے۔
سلمی بچے کہاں ہیں؟ انکو لے آو تاکہ ان سے مل سکوں۔
ابھی آ جائینگے باہر کھیل رہے ہیں۔مگر بات کیا ہے۔
دراصل میری ڈیوٹی لگی ہے بلوچستان کے دورداراز علاقے میں اور محرم کا مہینہ بھی ہے۔
بہادر انسپکٹر اپنی بیوی اور بچوں سے آخری الوداع کرکے رخصت ہو جاتا ہے۔حالانکہ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ وہ زندہ کبھی واپس نہیں آئے گا۔
احساس
عاشورہ کے جلوس میں بھگڈر مچ گئی تھی۔ہزاروں لوگ قدموں تلے روندے گئے۔ماں،باپ،بہن بھائی اپنے جگر گوشوں کو پاگلوں کیطرح کربلا کے میدان میں تلاش کر رہے تھے۔
مگر ایک بیوہ عورت اس بھیڑ میں ایک جگہ آرام سے بیٹھی ہوئی تھی۔
ارے بہن اس عورت کو دیکھو سب لوگ پاگلوں کیطرح اپنے جگر گوشوں کو ڈھونڈ رہے ہیں اور یہ یہاں آرام سے بیٹھی ہوئی ہے۔
وہاں ایک بوڑھا آدمی آگے آتا ہے اور جواب دیتا ہے۔کہ دراصل اسکو اپنے اکلوتے بیٹے کا خون آلود کپڑا کربلا کے میدان میں ملا ہے۔اس لئے یہ آرام سے بیٹھی ہے۔اور اسے احساس ہو چکا ہے کہ غلام علی چلا گیا ہے۔
خوشبو
کیا بات ہے برخوردار میں روز دیکھتا ہوں تم روز جلوس سے پہلے یہاں دشت نینوا میں آ کے بیٹھ جاتے ہو۔آخر ماجرا کیا ہے؟
وہ سات سال کا بچہ نظریں اٹھا کے دیکھتا ہے اور کہتا ہے۔چچا جان پچھلے سال اسی جگہ دشت نینوا میں میرے والدین جلوس میں رش کیوجہ سے فوت ہو گئے تھے۔
جب میں یہاں آتا ہوں تو مجھے انکی خوشبو آتی ہیں چچا جان۔
سچ کہا بیٹے شہید زندہ ہوتے ہیں۔
حقیقت
کیا بات ہے میرے دوست اس محرم کے مقدس مہینے میں تم گھر میں پڑے رہتے ہو؟
میرے ساتھ آو باہر چلتے ہیں آخر کب تک اکیلے دکھ اور درد کی زندگی گزاروگے؟ بھابھی کی موت بھی محرم کے مہینے میں ہوئی تھی۔مگر تم تو بہت مطمئن لگ رہے ہو آج۔
میرے دوست نیلوفر نے آخری وقت میں مجھے نصیحت کی تھی کہ میرے جانے کے بعد کبھی ماتم نہ کرنا سوگ نہ منانا۔
ہم سب اللہ کے ہے اور انکی طرف ہمیں لوٹنا ہے۔
نقصان
جناب نورالدین گورکن صاحب! میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ لڑکا روز شام کے وقت اس قبر کے پاس بیٹھ جاتا ہے۔تلاوت اور دعا پڑھتا رہتا پے۔ہر سال محرم کے مہینے میں اس کو بدستور قبرستان میں دیکھ رہا ہوں۔
منشی جی! یہ قبر دراصل اسکے سرپرست کی ہے۔جس نے اسے سڑک سے اٹھا کے پالا تھا اور تعلیم دلا کر بڑا افسر بنایا تھا۔اسکی موت محرم کے مہینے میں ہوئی تھی۔انسان کا غم کبھی ختم نہیں ہوتا یہاں تک کہ برسوں سال گزر جائے۔
یہ لڑکا بھی اپنے منہ بھولے باپ کی نیکی نہیں بھول رہا اور خیرات اور فاتحہ دیتا رہتا ہے۔
سچ ہے گورکن بھائی نیکی صدقہ جاریہ ہے۔
FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا