آج ون نیشن ون الیکشن اور پھر ون کنٹری ون رلیجن

0
0
احساس نایاب شیموگہ کرناٹک
اپنی نااہلی سے دس سالہ ناکامی اور اپوزیشن پارٹیوں کے اتحاد سے خوفزدہ مودی سرکار نے ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر ایک نیا انتخابی شوشہ چھوڑا ہے۔۔۔۔۔
جہاں ایک طرف ممبئی میں انڈیا الائنس کی میٹنگ چل رہی تھی وہیں دوسری طرف عین اْسی وقت مودی سرکار ٹوٹیٹ کے ذریعہ پارلیمنٹ سیشن کا اعلان کرتی ہے جبکہ
کچھ دن قبل ہی مانسون سیشن ختم ہوا ہے اس کے فورا بعد 2024 انتخابات کے قریب مودی سرکار کی جانب سے پانچ دنوں کا خصوصی پارلمنیٹ سیشن کا اعلان سیاسی گلیاروں میں بھونچال لاچکا ہے۔۔۔۔۔
یہ خصوصی اجلاس اٹھارہ سے بائیس ستمبر میں بھارت کے سابق صدر رامناتھ گوند کی سربراہی میں ہوگا جسے مودی سرکار کا سیاسی ہتھکھنڈا کہا جارہا ہے، عین ممکن ہے کہ اس سیشن مین کئی غیرضروری بلس پیش کئے جائیں گے۔۔۔۔۔۔
ویسے بھی ساری دنیا جانتی ہے کہ مودی جی رات کے اندھیرے میں یا اپوزیشن پارٹیوں کو اندھیرے میں رکھ کر اچانک اس قسم کے اعلانات کرتے ہیں، جیسے ڈی مونیٹائزیشن یعنی نوٹ بندی کا اعلان
جو 8 نومبر 2016 کی رات کو اچانک کیا گیا تھا اس کے علاوہ جمو کشمیر آرٹیکل 370 کے خاتمے کا اعلان بھی اچانک ہی ہوا تھا اور اس پاگلپن کا خامیازہ بھارت کی عوام نے اٹھایا کئیوں کو تو اپنی جانیں دین کر چکانا پڑا۔۔۔۔۔
اب اس ون نیشن ون الیکشن کے اعلان کے پیچھے بھی کئی قسم کی قیاس آرائیان کی جارہی ہیں کسی کا کہنا ہے قبل از وقت الیکشن کروانا جبکہ مودی سرکار کی مدت ابھی مئی تک باقی ہے باوجود یہ اعلان کہیں نہ کہیں 2024 کے الیکشن میں بہت بڑی ہیرا پھیری ہوسکتا ہے دوسرا
انڈیا ایلائنس کو توڑنے کمزور کرنے کی کوشش ہوسکتی ہے۔۔۔۔۔
اب ان سب کے پیچھے سرکار کی اسٹریٹجی کیا ہوگی یہ سمجھنے کے لئے ہمیں یہ جاننا بیحد ضروری ہے کہ یہ "ون نیشن ون الیکشن” ہے کیا ؟ ساتھ ہی بھارت میں کئے جانے والے الیکشن سسٹم کو بھی ہمیں سمجھنا ہوگا۔۔۔۔۔
بھارت میں الیکشنس تین لیول پر کئے جاتے ہیں
پہلا سب سے نیچے لیول کا جو ہے وہ لوکل باڈی الیکشن ہے جس میں منسپیلٹی الیکشن اور پنچایت الیکشن آتے ہیں۔۔۔۔۔۔
دوسرا ہے اسٹیٹ لیول پر کئے جانے والا الیکشن جسے ودھان سبھا یا اسٹیٹ اسمبلی الیکشن کہا جاتا ہے۔۔۔۔
 تیسرا ہے سب سے اوپر کا الیکشن جسے لوک سبھا الیکشن یا پھر نیشنل لیول الیکشن کہا جاتا ہے۔۔۔۔۔
وزیراعظم نریندر مودی نے اچانک ون نیشن ون الیکشن کا جو شوشہ چھوڑا ہے اس کو لے کر مودی کا کہنا ہے کہ دیش بھر میں سنگل ووٹر لسٹ نکالی جانی چاہئیے تاکہ بھارت کی ترقی کے لئے کافی وقت، طاقت اور پیسہ بچایا جاسکے۔۔۔۔۔
 اس سے پہلے بھی کئی دفعہ اس پر بحث ہوچکی ہے مودی سرکار کے2014 کے بی جے پی مینفیسٹو میں بھی یہ لکھا گیا ہے کہ اس ملک میں ایک الیکشن ہوناچاہئیے یعنی ون نیشن ون الیکشن
  لیکن اس بار یوں مودی کی جانب سے خصوصی پارلیمنٹ سیشن کا بْلایا جانا کئی طرف اشارہ کررہا ہے۔۔۔۔۔ جیسا کہ اوپر ہم نے کہا ممکن ہے اس سیشن میں ون نیشن ون الیکشن بل کے ساتھ ساتھ اور بھی کء بلس پیش کی جائیں گی۔۔۔۔۔۔۔
خیر
مودی کا کہنا ہے کہ اگر بھارت مین لوکل باڈی الیکشن جیسے پنچایت الیکشن اور منسپیلٹی الیکشن کے لئے اور ودھان سبھا لوک سبھا الیکشنس کے لئے ایک کامن الیکٹورل رول یا پھر ووٹر لسٹ بنایا گیا تو اس سے وقت کی بچت ہوگی، الیکشنس میں خرچ ہونے والے پیسوں کی بچت ہوگی اور ڈیولپمنٹ کاموں کے پروجیکٹس مین بھی مداخلت نہیں ہوگی۔۔۔۔۔
ویسے سوچنے والی بات ہے مودی جی نے پچھلے دس سالوں میں سرکاری خزانہ سے اپنے ذاتی شوق پورے کرنے کے لئے جو لاکھوں قیمت کے کپڑے بنوائے اور بیرونی ممالک کا شاندار سفر کررہے ہیں، ساتھ ہی اپوزیشن سرکاریں توڑنے کے لئے مودی سرکار جس طرح سے ایم پی ایم ایل ایس کو خریدتی ہے اور الیکشن کے وقت جو مودی کے روڈ شوس، ریلیس کے لئے اور گودی میڈیا کو کنٹرول کرنے کے لئے جتنا پیسہ پانی کی طرح بہایا جاتا ہے اگر وہی بچ جاتا یا مودی جی اس پیسہ کو فضول فالتو خرچ نہ کرکے بچاتے تو آج ملک کا کافی بھلا ہوجاتا لیکن مودی کی ساری سمجھداری ساری فکر الیکشن سے الیکشن تک ہی محدود ہے خیر۔۔۔۔۔۔ اس کے علاوہ پارلیمنٹ ہاوز کے ہوتے ہوئے نئے پارلیمنٹ ہاوز کی تعمیر میں بھی بھارتیہ عوام کا کروڑوں کا پیسہ خرچ ہوا ہے جو کہ غیرضروری ہے۔۔۔۔۔۔
ایسے میں یہان پہ ہم بس اتنا کہہ سکتے ہیں "اندھیر نگری چوپٹ راجا”۔۔۔۔۔
بہرحال
بھارت مین الیکشن کنڈکٹ کروانے اور ان پہ نگرانی رکھنے کی ذمہ داری الیکشن کمیشن پہ ہے جسے 1950 میں سیٹ اپ کیا گیا تھا۔۔۔۔۔
یہاں پہ لوکل الیکشن کو کنڈکٹ کرواتے ہیں اسٹیٹ الیکشن کمیشنس جو ہر اسٹیٹ کے لاء الگ ہوتے ہین
وہین دوسری طرف ودھان سبھا الیکشنس یعنی اسٹیٹ اسمبلی الیکشنس اور لوک سبھا الیکشنس کو کنڈیکٹ کروانے کی ذمہ داری الیکشن کمیشن آف انڈیا کی ہوتی ہے۔۔۔۔
یون بھارت میں تین قسم کے الیکشنس کنڈکٹ کروائے جاتے ہین
پہلا لوکل باڈی الیکشن جس مین آتے ہیں پنچایت اور منسپلٹی الیکشنس۔۔۔۔
دوسرا ودھاسبھا الیکشن اور تیسرا لوک سبھا الیکشن۔۔۔۔۔
یہان پر پنچایت اور منسپل الیکشن کے لئے اسٹیٹ الیکشن کمیشن الگ ووٹر لسٹ یعنی الیکٹورل رول بناتی ہے، وہین ودھان سبھا اور لوک سبھا کے لئے الیکشن کمیشن آف انڈیا الگ ووٹر لسٹ بناتے ہین یعنی الیکٹورل رول
وزیراعظم نریندر مودی ون نیشن ون الیکشن کے نام پر ان دو لسٹ کو ایک کرنے کی بات کررہے ہین
تاکہ ہر قسم کے الیکشن کے لئے اسٹیٹ الیکشن کمیشن اور الیکشن کمیشن آف انڈیا ایک ہی ووٹر لسٹ بنائیں
اور اسی ووٹر لسٹ کے تحت بھارت کے سبھی ووٹرس اپنے پسندیدہ امیدوار کو ووٹ دیں۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن کانگریس کے ساتھ ساتھ بھارت کی کئی اپوزیشن پارٹیاں اس کی پرزور مخالفت کررہی ہیں۔۔۔۔ کانگریس لیڈر راہل گاندھی کے مطابق
ون نیشن ون الیکشن کا فلسفہ مرکز اور اس کی تمام ریاستوں پر حملہ ہے۔۔۔۔
کئی سیاسی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ مودی سرکار اپنے دس سالہ اقتدار کے دوران عوام کی نظر میں مکمل نااہل ثابت ہوئی ہے یہی وجہ ہے کہ حال ہی میں کرناٹک کے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی شرمناک ہار اور کانگریس کی شاندار جیت ہوئی ہے جس کا اثر عنقریب 2024 میں ہونے والے لوک سبھا انتخابات پر پڑ سکتا ہے اس کے علاوہ "بھارت جوڑو یاترا کی کامیابی، عوام میں راہل گاندھی کی مقبولیت اور لوک سبھا انتخابات کے مدنظر اپوزیشن پارٹیوں کا گٹھ بندھن یعنی اپوزیشن پارٹیوں کے الائنس انڈیا سے مودی سرکار خوفزدہ ہے اور 2024 میں وہ اپنی ہار صاف صاف دیکھ رہی ہے ، مودی سرکار کے پچھلے سارے حربہ ناکام ہوچکے ہیں اور اس بار الیکشن لڑنے کے لئے بی جے پی کو نئے مدعوں کی تلاش ہے۔۔۔۔۔۔
2014 کے انتخابات اچھے دنوں کی جملہ بازیوں پر ہوئے تھے۔۔۔۔۔۔
2019 کے انتخابات جذباتیت اور دھرم کی بنیاد پر کئے گئے جس میں مودی سرکار نے آرٹیکل 370 اور بالاکوٹ سرجکل اسٹرائیک کا جھوٹا کارڈ پھینکا اور شہید نوجوانوں کے نام پہ کامیابی حاصل کی۔۔۔۔۔۔ لیکن اس بار مہنگائی و بیروزگاری سے پریشان عوام مندر، مسجد، ہندو مسلمان اور پاکستان جیسے غیر ضروری اور نفرت انگیز مدعوں سے اکتا چکی ہے۔۔۔۔۔۔
ایسے میں مودی سرکار کو کچھ نئے مدعے نئے ورجن میں چاہئیے جس سے بھارت کی عوام کو متاثر کرسکیں ، ایسے میں بی جے پی کے پاس "ویمن ریزرویشن بل ” یونیفارم سول کوڈ اور ون نیشن ون الیکشن ہے حکم کے اِیکے کی طرح ہے۔۔۔۔۔۔۔
بھارت میں عورتوں کی تعداد چالیس سے پچاس فیصد بتائی جاتی ہے ایسے میں عین ممکن ہے کہ مودی سرکار پانچ روزہ سیشن میں ویمن ریزرویشن بل بھی پیش کرکے عورتوں کو متاثر کرنے کی کوشش کرے۔۔۔۔۔۔
دوسرا مدعہ ہے یو سی سی یعنی کامن سول کوڈ لیکن یہ اتنا آسان نہیں ہوگا کیونکہ بی جے پی کی ٹرائبل سیٹس خطرے میں آسکتی ہیں کیونکہ آلریڈی آدیواسی اس کی مخالفت کررہے ہیں تو یہان پر ایک بڑی آبادی مودی سرکار کے خلاف ہوجائے گی نتجتاً
جھارکھنڈ سے لے کر چھتیس گڑھ اور نارتھ ایسٹ تک کے کئی علاقوں میں بی جے پی کو بھاری نقصان اتھانا پڑے گا اس سچویشن میں مودی سرکار اتنا بڑا رسک نہین لے سکتی۔۔۔۔۔۔ ویسے بھی2024 کے انتخابات کے لئے انڈیا ایلائنس مودی سرکار کے حلق کی ہڈی بنا ہوا ہے جسے بی جے پی ، آر ایس ایس فراموش نہیں کرسکتے۔۔۔۔۔۔ان تمام رکاوٹوں و مخالفتوں کے باوجود بھیاگر سرکار ون نیشن ون الیکشن کروانے مین کامیاب ہوتی ہے تو ممکن ہے آنے والے انتخابات دسمبر میں نہ ہوکر فروری میں ہوں گے جو لوک سبھا کے ساتھ کئی ریاستوں کے الیکشن ایک ساتھ ہونے کے امکانات ہیں، جس کے چلتے مودی سرکار کو فائدہ ہوسکتا ہے کیونکہ جن ریاستوں میں الیکشن ہوگا وہاں پہلے ہی سے بی جے پی کی کافی پکڑ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ کئی اپوزیشن پارٹیاں اسے مسترد کررہی ہیں اور کئیوں کی جانب سے ون نیشن ون الیکشن کی مخالفت کی جارہی ہے۔۔۔۔۔۔یہاں پر کئیوں کا یہ بھی کہنا ہیالیکشن ایک ساتھ نہ ہوتے ہوئے الگ الگ ہون گے تو عوام کو سوچنے سمجھنے کا موقعہ ملے گا جس کے چلتے عوام پچھلی غلطیون کو مدنظر رکھتے ہوئے بہتر فیصلہ لے سکے گیاور جس پارٹی کی سرکار نے اپنے وعدے پورے نہیں کئے اْسے دوسرے الیکشن میں سبق سکھاسکتی ہے۔۔۔۔ مثال کے طور پہ کرناٹک الیکشن کو ہی دیکھ لیں مرکز میں مودی سرکار کی ناکامیوں و جملے بازیون اور کرناٹک میں پچھلی بی جے پی سرکار کی ناکامی سے تنگ آکر کرناٹک کی عوام نے اسٹیٹ الیکشن یعنی اسمبلی الیکشن مین بی جے ہی کو سبق سکھاتے ہوئے کانگریس کو شاندار جیت دلوائی، اسی طرح دیگر ریاستون کی عوام بھی حالات کا جائزہ لیتے ہوئے بہتر چناؤ کرسکتی ہیں ، اس کے علاوہ اگر بار بار الیکشن ہوتے ہین تو بڑے بڑے عہدوں پر فائز نیتا منتریوں کو بار بار عوام کے درمیان عوام کے بیچ آنے کی زحمت اٹھانی پڑتی رہے گی ایسے مین عوام اور نیتاؤن کے بیچ ایک بونڈنگ ہوسکتی ہے ساتھ ہی نیتاؤن کے اندر جیتنے کے بعد جو ایک گھمنڈ ہوتا یے یعنی جیت کا جو نشہ ہوتا ہے وہ سر چڑھ کر نہیں ناچے گا کیونکہ اْسے پتہ ہوگا کہ نیکسٹ آنے والے الیکشنس میں پھر سے اْسے عوام کے بیچ جانا پڑے گا، عوامی مسائل پوچھنے پڑین گے، جھوٹے ہی سہی مگر انتخابی وعدے دعوے تو کرنے پڑین گے اور پرانے ناکام وعدون پر جواب دینا پڑے گا جس کا خوف لیڈر کو مکمل لٹیرا بننے سے ایک حد تک روکے رکھے گااگر وہی ون نیشن ون الیکشن ہوتا ہے تو نیتاؤن کی چاندی ہی چاندی ہے پانچ سالون تک کے لئے وہ ایسے غائب ہوجائین گے جیسے گدھے کے سر سے سینگھ غائب ہیں اس کے علاوہ ووٹنگ بوتھس کی بات کی جائے تو دھان سبھا ، لوک سبھا ، پنچایت اور نگم پنچایت کی چار الگ الگ مشینس کے آگے الگ الگ ووٹنگ کرنے کا پروسیس عوام کو کنفیوز کردے گا یعنی گمراہ کردے گا اور جانے انجانے وہ غلط پارٹی، غلط امیدوار کو ووٹ ڈال دیں اس کا بھی خدشہ ہے، ویسے بھی اکثر و بیشتر اوقات ووٹنگ کے بعد ووٹرس کی یہی شکایت، یہی پچھتاوا ہوتا ہے کہ میں نے غلطی سے فلاں کی جگہ فلاں کا بٹن پریس کرکے اپنا ووٹ فلاں کو دے دیا۔۔۔۔۔جب یہ معاملات شہروں کے پڑھے لکھے لوگوں کے ہیں تو سوچیں گاؤں
قصبے کے لوگوں کا کیا حال ہوگا ؟؟؟
چار الگ الگ مشینس سامنے ہوں گے تو ووٹرس بالخصوص قریوں گاؤں دیہاتوں کے ووٹرس کنفیوڑن مین 1 ،2 یا 3 نمبر کی شناخت پر ایک ہی پارٹی کے بٹنس پریس کرکے آجائیں گے یا ای وی ایم مشینس کی بھی ہیرا پھیری ہوسکتی ہے۔۔۔۔۔
ایسے میں الیکشنس اگر الگ الگ ہوں گے تو الیکشن میں ہونے والی ایسی ہیرا پھیری کا نقصان بھی کم ہوگا اور عوام علاقائی سطح پر اپنے من پسند امیدوار کو جیتاسکے گی ورنہ ون نیشن ون الیکشن کا معاملہ کنڑ زبان کی کہاوت ” گْمپ نلّی گووِندا” کے مصداق ہوجائے گا۔۔۔۔۔بہرحال ون نیشن ون الیکشن مین عوام کے لئے تو کوئی فائدہ نظر نہیں آتا، الٹا نقصان ضرور ہے باری باری ووٹنگ پاور کا جو احساس ہے عوام وہ کھو بیٹھے گی اور عوام کے اندر ایک غلامانہ سوچ پنپنے لگے گی ، ساتھ ہی سرکار کے خلاف آواز اْٹھانے سوال پوچھنے والا کوئی نہ ہوگا کیونکہ علاقائی سطح کی چھوٹی بڑی جتنی بھی اپوزیشن پارٹیاں ہوں گی رفتہ رفتہ وہ ختم ہوجائیں گی اور بھارت میں تاناشاہی کا راج ہوگا۔۔۔۔۔۔۔
ویسے بھی منوسمرتی کو ماننے والی مودی سرکار چاہتی ہی یہی ہے کہ بھارت کی کْل آبادی ہمیشہ غلام بنی رہے اور بھارت پر برہمنوں کا غبضہ ہو۔۔۔۔۔ جس کے چلتے آج ون نیشن ون الیکشن کا شوشہ چھوڑنے والے آنے والے دنوں میں "ون کنٹری ون رلیجن” کا نغارہ بجائیں گے جس کے بعد بھارت کے سمودھان کو ہٹاکر بھارت میں منوسمرتی نافذ کرنے میں دیر نہیں لگے گی۔۔۔۔۔۔۔ اور اْس وقت فقط پچھتاوے کے سوا کچھ نہ ہوگا۔۔۔۔۔۔
خیر 18 سبتمبر کا انتظار ہے دیکھتے ہیں سیاسی گلیاروں میں اور کیسے کیسے، کس کس انداز میں حربے آزمائے جائیں گے اور اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد انہیں کس حد تک ناکام کرپائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔ سو جسٹ ویٹ اینڈ واچ۔۔۔۔۔۔۔۔
٭٭٭
FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا