آئی آئی ایم سی نے تین روزہ میڈیا سکلز ورکشاپ کا انعقاد کیا

0
0

سفر نامہ لکھنے کے لیے اپنے الفاظ کا ذخیرہ بڑھانا پڑتا ہے:ڈاکٹر کائنات قاضی
جو ڈیڈ لائن پر کام نہیں کرتا وہ صحافت میں ’ڈیڈ‘ہو جاتا ہے:ڈاکٹر مہیش کول اگر صحافی خود کو اپ ڈیٹ نہیں کرے گا تو وہ پرانا ہو جائے گا:ڈاکٹر راما سولنکی
لازوال ڈیسک

جموں؍؍ انڈین انسٹی ٹیوٹ آف ماس کمیونیکیشن (آئی آئی ایم سی)، جموں نے تین روزہ میڈیا سکلز ورکشاپ کا انعقاد کیا۔اس ورکشاپ کے پہلے دن جمعہ کو مشہور سفرنامہ نگار ڈاکٹر کائنات قاضی، سینئر صحافی راما سولنکی، سینئر مصنف ڈاکٹر مہیش کول اور کئی نامور مضامین کے ماہرین نے پہلے سیشن میں انسٹی ٹیوٹ کے تینوں کورسز کے طلباء کے ساتھ جموں و کشمیر کے دیگر اداروں کے طلباء کو تربیت دی۔وہیں دوسرے سیشن میں معروف دستاویزی فلم میکر شیوانی پانڈے نے طلباء کو فلم بنانے کی مشق کروائی۔
اس پروگرام کے آغاز میں ہندی جرنلزم کی میگھا پانڈے اور انگلش جرنلزم کی نکیتا میشرم نے ورکشاپس اور ماہرین کے بارے میں جانکاری دی۔ اس موقع پر دہرادون، اتراکھنڈ سے آئے ڈاکٹرکائنات قاضی نے مدھیہ پردیش کے مورینا ضلع سے شائع ہونے والی ‘کافی ٹیبل بک’ دکھائی اور اس کی تیاری میں کی جانے والی تحقیق کے مراحل کے بارے میں تفصیل سے سب کو بتایا۔
وہیںشعبہ صحافت کے طلباء سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹرکائنات قاضی نے کہا کہ مسافر بننے کے لیے سخت محنت کرنی پڑتی ہے۔انہوں نے کہاکہ ایک مسافر پہلے اپنے پیسے جمع کرتا ہے اور پھر سفر پر جاتا ہے۔ پہچان لینے کے بعد ، کسی کو کوئی بھی اسپانسر مل سکتا ہے۔انہوں نے کہاکہ سفر نامہ لکھنے کے لیے اپنے الفاظ کا ذخیرہ بڑھانا پڑتا ہے۔ اگر آپ پہلے مسافروں کے سفر کی کہانیاں پڑھیں تو آپ کو حیرت ہوتی ہے کہ اس زمانے میں معاشرہ کیسا تھا، جیسا کہ راہل سنسکرتیان نے لکھا ہے کہ ہمالیہ پر کوئی سڑک نہیں ہے۔
ڈاکٹر قاضی نے طلباء کو واضح کیا کہ کسی بھی تاریخی مقام یا قدیم مقام کا دورہ کرتے وقت اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ شام کا وقت تصاویر لینے کے لیے ‘سنہری گھڑی’ ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ مندر کا رخ مشرق کی طرف ہے، اس لیے فوٹوگرافر کو یہ خیال رکھنا پڑتا ہے کہ روشنی کہاں سے آتی ہے۔ مسافر کو چاہیے کہ وہ مواد خود لکھے، تب ہی اس کا تجربہ اور احساسات الفاظ اور جملوں میں نظر آئیں گے۔
پروگرام کے دوران سینئر ادیب ڈاکٹر مہیش کول نے کہاکہ صحافت کا کام مکمل طور پر عملی ہے جہاں ڈیڈ لائن اہم ہے اور جو ڈیڈ لائن پر کام نہیں کرتا وہ صحافت میں ‘ڈیڈ’ ہو جاتا ہے۔انہوں نے کہاکہ ہم ادارتی مضامین پڑھنا بھول گئے اور اخبارات بھی پڑھنا بھول گئے۔
وہیںسینئر صحافی نوئیڈا سے ڈاکٹر راما سولنکی نے کہاکہ صحافی طلباء کو پہلے صحافی بننا چاہئے نہ کہ اینکر۔ انہوں نے کہاکہ یہ اینکر کا کام ہے کہ وہ مقررین کو زیر بحث موضوع سے چپکا کر رکھے۔ ہر اینکر کا اپنا انداز ہوتا ہے۔ دل سے بات کرو گے تو پیغام دل تک پہنچے گااور ہر اینکر کی اپنی لغت ہونی چاہیے۔انہوں نے مزیدکہاکہ مستقبل کے صحافی کو خود پر کام کرنے کی ضرورت ہے اور ویڈیو کو سمجھنا چاہیے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ ایک اچھا اینکر اپنی کہانی خود لکھتا ہے۔ اینکر کا کام کم الفاظ استعمال کرکے پوری بات بتانا ہے۔ خود کو اپ ڈیٹ کرنا بھی ضروری ہے۔ اگر صحافی خود کو اپ ڈیٹ نہیں کرے گا تو وہ پرانا ہو جائے گا۔
وہیںافتتاحی سیشن میں آنے والے شرکاء سے اظہار خیال کرتے ہوئے آئی آئی ایم سی جموں کے ریجنل ڈائریکٹر پروفیسرانیل سومترا نے کہا کہ تھیوری کو تجرباتی ہونے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ مواصلات ایک فن کے ساتھ ساتھ سائنس بھی ہے۔ اس لیے سننے، دیکھنے اور اظہار کی سائنس اتنی ہی اہم ہے جتنی کہ سننے، دیکھنے اور اظہار کرنے کا فن۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا