الرئيسية بلوق الصفحة 8

ڈاکٹر علامہ اقبال اور مذہبی رواداری

0

 

فہیم حیدر ندوی

آ پ کی پیدائش ۹ ؍نومبر ۱۸۸۸ ء کو بر طانوی ہندوستان کے شہر سیالکوٹ میں ہوئی ۔آپ کے والد محترم کا نام

شیخ نور محمد تھا آپ کشمیری برہمن نسل سے تھے اورنگ زیب عالمگیر کے زمانے میں آپ کے ایک جد نے اسلام قبول کیا اور آپ کے آباء اجداد اٹھارہوی صدی کے آخر یا انیسوی صدی کے اوائل میں کشمیر سے ہجرت کر کے سیالکوٹ آئے اور یہیں آباد ہو گئے۔آپ کے والد شیخ نور محمد دیندار آدمی تھے اور دینی تعلیم کو ہی کافی سمجھتے تھے لہذا حسب دستور قر آن شریف سے آپ کی تعلیم کا آغاز ہو ا ‘لگ بھگ ایک سال کے بعد ایک مشہور و معروف عالم دین مولانا سید میر حسن نے آپ کے والد محترم سے ملا قات کر کہا کہ اپنے بیٹے کی تعلیم کو مدرسہ تک محدود نہ رکھیں بلکہ جدید تعلیم بھی بہت ضروری ہے

https://en.wikipedia.org/wiki/Muhammad_Iqbal

اور اپنی خواہش ظاہر کی کہ علامہ اقبال کو آپ کی تر بیت میں دے دیںچنانچہ مولانا سید میر حسن کی تربیت میں آپ کے والد نے دے دیا ‘یہاں آپ نے اردو ‘ فارسی اورعربی ادب پڑھنا شروع کر دیا ‘مولاتا سید میر حسن ان عظیم استادوں میں سے تھے جن کے لئے زندگی کا بس ایک ہی مقصد پڑھنا اور پڑھا نا ہوا کرتی تھی اور یہ پڑھنا پڑھا نا صرف کتاب خوانی نہیں تھی بلکہ اس زمانے میں استاد مرشد ہوا کرتے تھے میر حسن تمام اسلامی علوم سے آگاہ تھے اور علوم جدید پر بھی اچھی پکڑ تھی اس کے علاوہ ادبیات ‘ معقولات ‘لسا نیات اورریاضیات میں بھی مہارت رکھتے تھے شاگردوں کو پڑھاتے وقت ادبی رنگ اختیارکیا کرتے تھے تاکہ علم صرف حافظہ بن کر نہ رہ جائے بلکہ احساس بن جائے۔آپ کی زندگی میں انسانی تعلق کا بہت پاس و لحا ظ تھا ‘آپ حد درجہ شفیق ‘منکسرالمزاج‘قانع‘متین‘سادہ اور خوش طبع شخص تھے فجر کی نماز پڑھنے کے بعد قبر ستان جانا‘دوستوں اور عزیزوں کے قبر پر جاکر فاتحہ پڑھنا آپ کی روٹین میں شامل تھا علامہ اقبال آپ کے عزیز شاگرد تھے اور ڈاکٹر علامہ اقبال بھی خوداپنے ااستاد پر فدا رہتے تھے علامہ اقبال کی شخصیت کی مجموعی تشکیل میںجو عناصر نظر آتے ہیںان میں سے بیشتر آپ کے استاد کی صحبت اور تعلیم کا کرشمہ ہے سید میر حسن سر سید احمد خاں کے قائل تھے اور مسلمانوں کے لئے علی گڑھ تحریک کو مفید سمجھتے تھے اس وجہ سے علامہ اقبال کے دل میں بھی سر سید احمد خاں کی محبت پیدا ہوگئی‘مسلمانوں کی خیر خواہی کی چیز تو علامہ اقبال کے گھر کی چیز تھی مگر میر حسن کی تربیت نے اس جذبے کو ایک علمی اور عملی سمت دی۔علامہ اقبال سمجھ بوجھ اور ذہانت میں اپنے ہم عمر بچوں سے بہت آگے تھے آپ کے اندر انہماک اور استغراق تھا جو بڑے لوگوں کے اندر پایا جا تا ہے آپ کتابی کیڑے نہیں تھے کتاب کی لت پڑ جائے تو انسان محض ایک دماغی وجود بن جاتا ہے زندگی اور اس کے بیچ ایک فاصلہ پیدا ہوجاتا ہے زندگی کے حقائق اور تجر بات صرف دماغ میں منجمد ہو کر رہ جاتے ہیں خون گرم کا حصہ نہیں بنتے ہیںآپ کو کھیل کود بھی پسند تھا بچوں کی طر ح شوخیاں بھی کرتے تھے حاضر جواب بھی بہت تھے اس طر ح قدرت نے آپ کو صوفی باپ اورعالم استاد عطا کیا تھا باپ کے قلبی فیضان نے جن حقائق کو اجما لا محسوس کر وایا تھا استاد کی تعلیم سے تفصیلا معلوم بھی ہو گئے‘سولہ سال کی عمر میں آپ نے میٹرک کا امتحان فرسٹ ڈویزن سے پاس کیا انٹر میڈیٹ میں داخلہ ہوا پڑھائی بھی شروع ہوگئی اور اسی زمانے سے آپ کی شاعری کا باقاعدہ آغاز ہوا ‘یو ں تو شعروشاعری سے بچپن ہی سے دلچسپی تھی مگر اس وقت سنجیدہ نہیں تھے نہ کسی کو سناتے نہ محفوظ رکھتے بلکہ خود لکھتے اور پھا ڑ کر پھینک دیتے تھے لیکن اب شعر گوئی آپ کے لئے صرف ایک مشغلہ نہیں رہا بلکہ روح کا تقا ضا بن چکی تھی اس وقت داغ پورا بر صغیر داغ کے نام سے گونج رہا تھا خصوصا اردو زبان پر داغ کی معجزانہ گرفت کا معترف ہر کوئی تھا اقبال کو بھی یہی گرفت در کار تھی علامہ اقبال نے داغ کی شاگردی اختیار کر لی مگر یہ سلسلہ زیادہ دنوں تک نہیں چل سکا‘متحدہ ہندوستان میں اردو شاعری کے جتنے بھی روپ تھے ان میں داغ کا نام سب سے آگے تھا اس وقت تک علامہ اقبال کی امتیازی خصوصیت ظاہر نہیں تھی مگرداغ اپنی بصیرت سے یہ سمجھ گئے تھے کہ اس ہیرے کو تراشا نہیں جا سکتا اور یہ کہہ کر آپ کو فارغ کر دیا کہ اصلاح کی کوئی گنجائش نہیں کے برابر ہے 1899 ء میں ایم ۔اے کیا اورپورے پنجاب میں اول نمبر سے پا س کیا اس دوران شاعری کا سلسلہ چلتا رہا مگر مشاعروں میں
شر کت نہیں کرتے تھے 1899 ء کی ایک شام کو آپ کے ہم جماعت نے حکیم امین الدین کی محفل میں آپ کو کھینچ کر لے گئے جہاں بڑے بڑے سکہ ہند اساتذہ اور شاگردوں کی جماعت شریک محفل تھی سننے والوں کا بھی ہجوم تھاعلامہ اقبال چونکہ بالکل نئے تھے اس لئے ان کا نام مبتدیوں میں پکا را گیا ‘غزل پڑھنی شروع کی اور جب اس شعر پر پہو نچے کہـ۔۔۔۔۔۔
موتی سمجھ کر چن لئے شان کریمی نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قطرے جو تھے میرے عرق انفعال کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔تو اچھے اچھے استاد اچھل پڑے اور بے اختیار داد دینے لگے‘یہی سے اقبال کو بحیثیت شاعر شہرت ملی اور شہرت کا آغاز ہوا‘اسی زمانے میں انجمن حمایت اسلام سے تعلق پیدا ہوا جو آخر تک قائم رہا‘علامہ اقبال کی شہرت و مقبولیت نے انجمن حمایت اسلام کے بہت سارے کاموں کو آسان کر دیا اور پنجاب کے مسلمانوں میں سماجی سطح پر دینی شعور پیدا ہونا شروع ہوگیا جن میں علامہ اقبال کی شاعری نے بنیادی کر دار ادا کیا۔ علامہ اقبال کی شاعری میں مذہبی رواداری پائی جاتی ہے علامہ اقبال کسی ایک مذہب کے شاعر نہیں تھے آپ کی شاعری مذہبی رواداری پر مبنی تھی مذہبی رواداری کا مفہوم یہ ہے کہ تمام مذاہب کے پیرو کار میں باہمی احترام و محبت اور رواداری کا جذبہ ہو آپ کی شاعری سے مذہبی رواداری کا درس ملتا ہے عموما لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ دس مختلف خیالات رکھنے والے آدمیوں کے مختلف اور متضاد خیالات کو درست قرار دینارواداری ہے جبکہ یہ حقیقت میں رواداری نہیں منافقت ہے رواداری کے معنی یہ ہے کہ جن لوگوں کے عقائد یا اعمال ہمارے نزدیک غلط ہیں ان کو ہم بر داشت کریں‘ان کے جذبات کا لحاظ کرکے ان پر ایسی نکتہ چینی نہ کریںجو ان کو رنج پہو نچانے والی ہو اور انہیں ان کے اعتقاد سے پھیرنے یا ان کے عمل سے روکنے کے لئے زبر دستی کا طریقہ اختیار نہ کریں‘اس قسم کا تحمل اور اس طریقے سے لو گوں کے اعتقاد و عمل کی آزادی دینا نہ صرف ایک مستحسن فعل ہے بلکہ مختلف خیال جماعتوں میں امن و سلامتی کو بر قراررکھنے کے لئے ضروری ہے علامہ اقبال کی مقبولیت کی وجہ ان کی شاعری میں مذہبی رواداری کا ہونا ہے آپ کی شاعری وآپ کی فکر اور نصب العین انسانیت ہے آپ ہمیشہ انسانیت اور عالم انسانیت کی تعمیر نو کی بہتر مستقبل کے بارے میں سوچتے تھے آپ ہر مذہب و ملت کے لئے مشعل راہ تھے اس لئے پوری دنیا میں علامہ اقبال کو پڑھا جاتا ہے بیسوی صدی کے آپ مشہور و معروف شاعر ‘مصنف اور سیاستدا ں تھے آ پ کی شخصیت اور شاعری میں مذہبی رواداری کی وجہ سے حکومت کی طرف سے آپ کو سر کا خطاب ملا۔جنوبی ایشیاء کے اردو اور ہندی بولنے والے لوگ محمد اقبال کوشاعر مشرق سے جانتے ہیںعلامہ اقبال حساس دل و دماغ کے مالک تھے آپ کی شاعری زندہ شاعری ہے جو ہمیشہ بر صغیر کے مسلمانوں اور تمام انسانوں کے لئے مشعل راہ بنی رہے گی یہی وجہ ہے کہ اقبال کو دنیا کے ہر حصے ہیں پڑھا جاتا ہے علامہ اقبال نے نئی نسل میں انقلابی روح پھونکی اور اسلامی عظمت کو اجا گر کیا۔علامہ اقبال کی شاعری کے چند اشعار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری زندگی شمع کی صورت ہوخدا یا میری
زندگی ہو میری پروانے کی صورت یارب علم کی شمع سے ہو مجھ کومحبت یا رب
کون یہ کہتا ہے کہ خدا نظر نہیں آتا وہی تو نظر آتا ہے جب کچھ نظر نہیں آتا
تیرے آزاد بندوں کی نہ یہ دنیا نہ وہ دنیا یہاں مرنے کی پابندی وہاں جینے کی پابندی
دل میں خدا کا ہونا لازم ہے اقبال سجدوں میں پڑے رہنے سے جنت نہیں ملتی
نہ تو زمیں کے لئے ہے نہ آسماں کے لئے جہاں ہے تیرے لئے تو نہیں جہاں کے لئے
یہ علم یہ حکمت یہ تد بر یہ حکومت پیتے ہے لہو دیتے ہے تعلیم مسا وات
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
نہیں اللہ کو اس مومن کی پرواہ کہ جس کی روح خوابیدہ ہے ا ب تک
میرا دل کیا لگے مکتب میں ہم دم نہ ہو اک بھی جواں جب تک بیدار
سجدوں سے تیرے کیا ہوا صدیاں گزر گئیں دنیا تیری بدل دے وہ سجدہ تلاش کر
ایمان تیرا لٹ گیا رہزن کے ہاتھوں سے ایمان تیرا بچا لے وہ رہبر تلاش کر
کرے سوار ا ونٹ پہ اپنے غلام کو پیدل ہی خود چلے وہ آقا تلاش کر

سکریٹری
ادارہ ادب اسلامی ہند بتیامغربی چمپارن
بڑی مسجد روڈ ‘دوار دیوی چوک ‘بتیا
https://lazawal.com/?page_id=

علامہ اقبال : ایک ہمہ گیر شخصیت علامہ اقبال دانائے راز ، ترجمان حقیقت اور ایک سیاسی لازوال خصوصیت کے مالک تھے ۔

0

 مجاہد عالم ندوی
استاد : الفیض ماڈل اکیڈمی بابوآن بسمتیہ ارریہ بہار
رابطہ نمبر : 8429816993

آبا و اجداد

علامہ اقبال کے آبا و اجداد کا تعلق کشمیری برہمن کے ایک قدیم خاندان سے تھا ، ان کے جد اعلیٰ بابا لول حج یا لولی حاجی پندرویں صدی عیسوی میں اورنگ زیب کے زمانے میں حضرت شیخ نُور الدین نورانی کے خلیفہ کے ہاتھ پر مشرف با اسلام ہوئے ، اقبال کے اجداد نے کشمیر چھوڑ کر سیالکوٹ میں سکونت اختیار کر لی اور وہاں پر لوئیوں اور دُسوں ( یہ ایک قسم کی چادریں ہوتی ہیں ) کی فروخت کا کاروبار شروع کیا ، اقبال برہمن زاد ہونے کا اعتراف اپنے کلام میں مختلف جگہوں پر کرتے ہیں ، ضربِ کلیم میں ایک جگہ کسی سید ذات سے مخاطب ہو کر یوں فرماتے ہیں ۔
میں اصل کا خاص سومناتی
آبا مرے لاتی و مناتی
تو سید ہاشمی کی اولاد
میری کف خاک برہمن زاد

پیدائش اور خاندان :

علامہ اقبال 9/ نومبر 1877ء جمعہ کے دن فجر کے وقت سیال کوٹ کے ایک بازار چوڑی گراں کے ایک چھوٹے سے مکان میں پیدا ہوئے ، ان کے والد صاحب کا نام شیخ نور محمد تھا ، دادا کا نام شیخ رفیق تھا ، ان کے دو تھے ایک شیخ نور محمد ( والد اقبال ) اور دوسرے شیخ غلام قادر ، شیخ نور محمد کی شادی ٫٫ امام بی بی ٬٬ ( والدہ اقبال ) سے ہوئی ، ان کے بطن سے دو لڑکے اور چار لڑکیاں پیدا ہوئیں ، شیخ عطا محمد ( بھائی ) اور شیخ محمد اقبال جو آگے چل کر حکیم الامت اور شاعر مشرق ڈاکٹر سر محمد اقبال کے نام سے مشہور ہوئے ۔

شیخ نور محمد عالی ظرف ، نیک ، شفیق ، حلیم اور بردبار انسان تھے ، انہوں نے کسی مکتب میں تعلیم تو نہیں پائی تھی البتہ حروف شناسی ہونے کے سبب اردو اور فارسی کتابیں پڑھ لیتے تھے ، تصوف کی پیچیدگیوں سے بھی آشنا تھے ، بعض لوگ تصوف کی کتابوں کے مشکل مطالب کی تشریح کے لیے ان سے رجوع کرتے اس لیے بعض ہم عصر اکابر علم انہیں ان پڑھ فلسفی کہتے تھے ۔

علامہ اقبال کی والدہ ( امام بی بی ) کو سب ٫ بے جی ٬ کہتے تھے ، وہ لکھنا پڑھنا تو نہیں جانتی تھی لیکن ان پڑھ ہونے کے باوجود بڑی سمجھدار ، معاملہ فہم اور مدبر خاتون تھیں ، اپنے حسن و سلوک کے باعث محلے کی عورتوں میں بڑی مقبول تھی ، برادری اور محلہ داری کے جھگڑوں کا نہایت خوش اسلوبی سے تصفیہ کراتی تھیں ۔

ان کی سب سے نمایاں خصوصیت غرباء پروری تھی ، کئی حاجتمند خواتین کو خفیہ طور مدد کرتیں اور امداد کرنے کا ایک اور طریقہ یہ تھا کہ محلے کے غریب گھرانوں کی دس بارہ سال کی تین چار بچیاں اپنے یہاں لے آتیں اور ان کی کفالت کرتیں ، ان سب کو قرآن مجید ، ضروری دینی تعلیم اور کام کاج سکھاتی ، کچھ مدت بعد ان کے لیے خود اچھا رشتہ تلاش کر کے ان کی شادی کروا دیتیں ، ان کے اس جذبہ ایثار اور تربیت کی جھلک ہمیں اقبال کی شخصیت میں نمایاں نظر آتی ہے ، والدین کی روحانی تربیت کے اثرات اقبال کی ساری زندگی پر طاری رہے ، علامہ اقبال نے اپنی والدہ کی یاد میں ایک پوری نظم لکھ دی ہیں ، اس کے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں ۔

ابتدائی اور اعلیٰ تعلیمی سرگرمیاں

https://en.wikipedia.org/wiki/Muhammad_Iqbal:

علامہ اقبال کا بچپن فطری کشادگی اور تنوع کے ساتھ گزرا ، اقبال کی ذہنی و فکری تشکیل میں والدین اور اساتذہ کا فیضان شامل ہے ، انہوں نے ابتدائی تعلیم مولانا غلام حسن کے مکتب میں حاصل کی ، ایک دن مولانا سید میر حسن ( 1844ء ۔ 1929ء ) درسگاہ میں آئے اور اقبال کی کشادہ پیشانی ، متین صورت اور بھورے بالوں سے بے حد متاثر ہوئے اور مولانا غلام حسن سے پوچھا کہ یہ بچہ کس کا ہے ؟ معلوم ہوا کہ شیخ نور محمد کا بیٹا ہے ، ان کے پاس گئے اور انہیں سمجھایا کہ اس بچے کو محض دینی تعلیم دلوانا کافی نہیں بلکہ اسے جدید تعلیم سے بھی آراستہ کرنا ضروری ہے ۔

مولانا میر حسن کی خواہش پر اقبال کو ان کے سپرد کر دیا گیا ، اقبال نے ان کے ہی مکتب واقع کوچہ میر حسام الدین میں اردو اور فارسی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی اور قرآن مجید کا درس بھی لیتے رہے ، اسی دوران سید میر حسن نے اسکاچ مشن اسکول میں پڑھانا شروع کیا ، انہوں نے شیخ نور محمد (والد اقبال ) کی رضامندی حاصل کر کے اقبال کو 1884ء میں اسکاچ مشن اسکول میں داخل کرایا ، اقبال کی ابتدائی طالب علمانہ زندگی پر سید میر حسن ( 1844ء تا 1929ء ) کی شخصیت حاوی نظر آتی ہے ، سید میر حسن ایک روشن فکر اہل علم تھے ، جو مصالح دین اور مصالح دنیا کو پیش نظر رکھ کر شاگردوں کی تربیت کرتے تھے ۔

انہوں نے اقبال کو عربی ، فارسی اردو ادبیات ، علم و حکمت اور تصوف وغیرہ کی تعلیم دے کر ان کے دل میں علوم قدیمہ اور اسلامیہ کے لیے بے پناہ شیفتگی پیدا کر دی تھی ، جب تک وہ زندہ رہے اقبال ان کی خدمت میں حاضر ہو کر علمی مسائل میں ان سے ہدایت و رہبری لیتے رہے ، اقبال ان کا بے حد احترام کرتے تھے اس کا انداز اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اقبال کو جب 1923ء میں ٫٫ سر ٬٬ کے خطاب کی پیشکش کی گئی تو انہوں نے گورنر پنجاب سے کہا کہ جب تک ان کے استاد سید میر حسن کی علمی خدمات کا اعتراف نہ کیا جائے تب تک خطاب قبول نہیں کریں گے گورنر نے پوچھا کہ کیا سید میر حسن کی کوئی تصنیف ہے ؟ اقبال نے جواب دیا ، میں خود ان کی تصنیف ہوں ، چنانچہ اقبال کو خطاب کی پیشکش کے موقع پر سید میر حسن کو بھی شمس العلماء کا خطاب ملا ۔

سولہ برس کی عمر یعنی 1893ء میں اقبال نے میٹرک کا امتحان فرسٹ ڈویژن سے پاس کیا اور اسی سال ان کی شادی گجرات کے سول سرجن خان بہادر عطا محمد کی بیٹی کریم بی بی سے ہوئی ، اسکاچ مشن اسکول میں انٹر میڈیٹ کی کلاسیں سے بھی شروع ہو چکی تھی لہٰذا اقبال کو ایف ۔ اے کے لیے کہیں اور نہیں جانا پڑا ، 1890ء میں اقبال نے ایف ۔ اے کا امتحان سیکنڈ ڈویژن سے پاس کیا ، مزید تعلیم کے حصول کے لیے لاہور کا رخ کرنا پڑا ، یہاں ستمبر 1890ء میں گورنمنٹ کالج میں بی ۔ اے کی کلاس میں داخلہ لیا ۔

1897ء میں اقبال نے بی ۔ اے پاس کیا اور ایم اے فلسفہ میں داخلہ لیا یہاں پروفیسر آرنلڈ جیسے جید استاد موجود تھے ، اقبال کی عملی اور فکری زندگی کی تشکیل میں ان کا اہم رول رہا ہے ۔

اقبال نے 1899ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے ایم ۔ اے کی ڈگری مکمل کی ، اسی دوران شاعری کا سلسلہ بھی چلتا رہا ، انہیں استاد داغ دہلوی سے شرف تلمذ تھا ، اس طرح تعلیمی سلسلہ بھی جاری رہا اور شاعری بھی ، مگر مشاعروں میں نہیں جاتے تھے ، ایم اے پاس کرنے کے بعد اقبال 13 مئی 1899ء اورینٹل کالج میں میکلوڈ عربک ریڈر کی حیثیت سے متعین ہو گئے ، اسی سال آرنلڈ بھی عارضی طور پر کالج کے قائم مقام پرنسپل مقرر ہوئے ، اقبال تقریباً چار سال تک اورینٹل کالج میں پڑھاتے رہے ، البتہ بیچ میں چھ ماہ کی رخصت لے کر گورنمنٹ کالج میں انگریزی پڑھائی ، میکلوڈ عربک ریڈر کی حیثیت سے اقبال اورینٹل کالج میں بی ۔ او ۔ ایل اور انٹر میڈیٹ کی جماعتوں کو تاریخ ، اقتصادیات اور فلسفہ پڑھاتے تھے ۔

اقبال اورینٹل کالج میں پڑھانے کے ساتھ ساتھ گورنمنٹ کالج میں بھی پڑھاتے تھے ، 4 جنوری 1901ء کو انہوں نے لالہ جیا رام کی جگہ گورنمنٹ کالج میں عارضی طور پر اسسٹنٹ پروفیسر انگریزی کی خدمات انجام دینا شروع کیں ، سر عبدالقادر ان دنوں اسلامیہ کالج میں انگریزی پڑھاتے تھے ، انہیں کچھ عرصے کے لیے رخصت لینا پڑی اور اس دوران میں ان کی جگہ اقبال اسلامیہ کالج میں انگریزی پڑھانے کے فرائض انجام دیتے رہے ، بعد میں گورنمنٹ کالج میں اسی منصب پر ان کا تقرر 31 مارچ 1903ء تک رہا جب اورینٹل کالج میں بطور میکلوڈ عربک ریڈر ان کی مدت ملازمت ختم ہوئی تو ان کا تقرر دوبارہ بحیثیت اسسٹنٹ پروفیسر ( انگریزی ) گورنمنٹ کالج میں ہوا یہ مدت تین جون 1903ء سے 30 دسمبر 1903ء تک تھی لیکن مدت ختم ہونے سے پہلے اس میں چھ ماہ یعنی مارچ 1904ء تک کی توسیع کر دی گئی ، اس مدت کے اختتام پر انہیں مزید توسیع دی گئی اور وہ فلسفہ پڑھانے پر مامور ہوئے ، اسی دوران یورپ میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے انہوں نے یکم اکتوبر 1905ء سے تین سال کی بلا تنخواہ رخصت حاصل کی ۔

ازدواجی زندگی :

1893ء میں اقبال کی کریم بی کے ساتھ شادی رواج کے مطابق ان کے بزرگوں نے طے کی تھی اگرچہ کم عمری کی وجہ سے وہ اس شادی پر رضامند نہ ہوئے تھے لیکن بزرگوں کے آگے انکار کی ہمت نہ ہوئی ، چونکہ اقبال حصول تعلیم کے لیے مختلف مقامات کو جاتے رہتے تھے اسی لیے کریم بی بی کا بیشتر وقت اپنے والدین کے ساتھ گزرتا تھا ، بعض اوقات چند ماہ کے لیے سیالکوٹ آجاتیں ، اقبال گرمی کی چھٹیاں عموماً سیالکوٹ میں اپنے والدین کے ساتھ گزارتے اور کبھی کبھار چند ہفتوں کے لیے اپنے سسرال گجرات بھی چلے جاتے تھے ، اس دوران ان کے یہاں دو اولادیں پیدا ہوئیں ، ایک بیٹی معراج بیگم جو کہ 1896ء میں پیدا ہوئی اور بیٹا آفتاب اقبال 1898ء میں پیدا ہوا ، لیکن بعض وجوہات کی بنا پر اور زوجین کے طبیعت کی عدم مناسبت کی وجہ سے یہ شادی ناکام رہی ، کریم بی بی بچوں سمیت اپنے والدین کے ساتھ رہتی تھیں ، لیکن ان کی کفالت کی ذمہ داری اقبال خود اٹھاتے تھے ۔

ان کی دوسری شادی کشمیری خاندان کی لڑکی سردار بیگم سے ہوئی ، اس موقع پر صرف نکاح ہی ہوا اور رخصتی عمل میں نہ آئی تھی کہ اقبال کو دو ایک خط موصول ہوئے ، جن میں سردار بیگم کی چال چلن پر نکتہ چینی کی گئی تھی اسی وجہ سے رخصتی کا معاملہ التوا میں پڑ گیا ، اقبال اس دوران شدید تذبذب میں تھے کیونکہ ایک بیوی سے علیحدگی ہو چکی تھی دوسری کے متعلق یہ صورت پیدا ہو گئی ، بہرحال اقبال نے ارادہ کر لیا کہ سردار بیگم کو طلاق دے کر کسی دوسری جگہ شادی کرنے کی کوشش کریں گے اسی تذبذب میں تین سال گزر گئے ، ان کی تیسری شادی لدھیانہ کے ایک متمول کشمیری خاندان کی صاحبزادی مختار بیگم سے تقریباً 1913ءکے ابتدا میں ہوئی ۔

اسی اثنا میں سردار بیگم کے گمنام خطوط کے سلسلے میں اقبال کے احباب نے تحقیق کرائی تو یہ راز منظر عام پر آیا کہ گمنام خطوط تحریر کرنے والا کوئی وکیل تھا جو سردار بیگم کی شادی اپنے بیٹے کے ساتھ کروانا چاہتا تھا ، سردار بیگم نے خود بھی جرات کر کے ایک خط اقبال کو بھجوایا ، جس میں لکھا تھا کہ انہیں اس بہتان پر یقین نہیں کرنا چاہیے تھا ، اب جب کہ میرا نکاح آپ کے ساتھ ہو چکا ہے ، اب میں دوسرے نکاح کا تصور بھی نہیں کر سکتی اسی حالت میں پوری زندگی بسر کروں گی روز قیامت آپ کی دامن گیر ہوں گی ، اقبال یہ خط پڑھ کر اپنی غلطی پر سخت پشیمان ہوئے ، بالآخر اقبال سردار بیگم کو گھر لانے کے لیے تیار ہو گئے لیکن چونکہ پہلے دل میں ارادہ کر لیا تھا کہ سردار بیگم کو طلاق دینے کا تو اسی لیے دوبارہ نکاح پڑھوا لیا گیا ، اور اس سردار بیگم کے بطن سے دو بچے ہوئے جاوید اقبال اور بیٹی منیرہ اقبال ، مختار بیگم اور سردار بیگم قریب قریب ایک ہی عمر کی تھیں اور دونوں ایک دوسرے کے ساتھ بہت ہی پیار سے رہتی تھیں ، ان دونوں بیویوں اور بہن کے اصرار پر اقبال نے اپنی پہلی منکوحہ کو بھی بلوا لیا تھا لیکن وہ زیادہ دنوں تک ان کے ساتھ نہیں رہیں ، الغرض پورا گھرانہ ہنسی خوشی رہنے لگا ۔

یوم وفات :

علامہ محمد اقبال 21/اپریل 1938ء کو فجر کے وقت اپنے گھر جاوید منزل میں طویل علالت کے باعث خالق حقیقی سے جا ملے اور ان کو لاہور میں بادشاہی مسجد کے پہلو میں سپرد خاک کیا گیا۔

https://lazawal.com/?p=

صحافت کی اہمیت سے انکار نہیں

0

صحافت کی اہمیت کو ہردور میںتسلیم کیا گیا ہے، ہماری سماجی، سیاسی ،معاشرتی، تہذیبی اوراقتصادی زندگی پر جس شدّت کے ساتھ اس کے اثرات مثبت اورمنفی دونوں طریقے سے مرتسم ہوتے رہے ہیں،اس کا بہر حال اعتراف کرنا ہوگا۔صحافت ترسیل وابلاغ کا اتنا مؤثراور طاقتور ذریعہ ہے، اورواقعات حاضرہ کی معلومات بہم پہنچانے کااتنا بہتر وسیلہ ہے

https://jgu.edu.in/blog/2024/02/21/what-is-journalism-and-mass-communication/

کہ دنیا کے بڑے بڑے سماجی پیشوا، سیاسی رہنما اور مشاہیرادب نے نہ صرف اس کی بھرپور طاقت کے سامنے سرتسلیم خم کیا بلکہ اپنے افکار واظہار کی تشہیر کے لیے صحافت سے منسلک بھی رہے ، تواریخ شاہد ہے کہ صحافت نے کتنے ہی ملکوں کے تختے پلٹ دیے، بڑے بڑے انقلابات کوجنم دیا، اورظالم حکمرانوں کے دانت کھٹّے کردیے۔ عالمی پیمانہ پر ایسے کئی مقام آئے، جب صحافت کی بے پناہ طاقت، اس کی عوامی مقبولیت اوراس کی تنقید سے خوف زدہ ہوکر اس پرپابندیاں عاید کی گئیں۔ صحافت نے جیسے جیسے ترقی کی ، ویسے ویسے اس کی مقبولیت، اہمیت اورافادیت بڑھتی گئی اورلوگوںکومتوجہ کرانے میں کامیاب ہوتی گئی اورایک وقت ایسا آیا، جب لوگ صبح آنکھ کھلتے ہی اخبارتلاش کرنے لگے۔ اس طرح صحافت انسانی زندگی کا ایک حصہ بن گئی۔ صحافت اتنی مؤثر اور طاقتورہے کہ اس کے سامنے تیر، کمان، بندوق اورتوپ بھی بے کارہیں۔ تاریخ کے جانے مانے جرنیل اور اپنے عہد کے عظیم ڈکٹیٹر نیپولین بونا پاٹ کا وہ مشہورمقولہ ہوگا، جس میںاس نے صحافت کی طاقت کے سامنے سرنگوں ہوتے ہوئے کہا تھا کہ’’لاکھوں سنگینوںسے زیادہ میں تین اخبار سے خوف زدہ رہتا ہوں‘‘۔نیپولین بوناپاٹ کا مندرجہ بالا خوف یقینی طورپر صحافت کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ اس نے ضرور اس بات کومحسوس کیا ہوگا کہ دشمن کی صفوں میںانتشاربرپا کرنے میں توپ اورتفنگ، لائو لشکر، تیر، تلوار کے ساتھ ساتھ ہاتھیوں، گھوڑوں اورفوجیوں کی بے پناہ طاقت، صحافت کے سامنے کند ہے۔ جو کام صحافت سے لیا جاسکتا ہے،وہ توپ اوربندوقوںسے بھی نہیں لیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے عظیم مفکر، دانشور، سربراہ، مصلح، سیاستداں اوررہنما اس کی اہمیت کے معترف اورقائل رہے ہیں۔

https://lazawal.com/?page_id=

نئے منتخب شدہ میڈیکل افسران میں تقرری کے احکامات تقسیم

0

وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کا بڑا اقدام: دیہی صحت کی ضروریات کے لیے جامع پالیسی متعارف

لازوال ڈیسک

سرینگر؍؍وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے آج شیرِ کشمیر انٹرنیشنل کنونشن سینٹر (ایس کے آئی سی سی) میں منعقدہ ایک رسمی تقریب میں نئے منتخب شدہ میڈیکل افسران کو تقرری کے احکامات تقسیم کیے۔ منتخب ہونے والے 325 میڈیکل افسران میں سے 26 کو وزیراعلیٰ نے براہِ راست تقرری کے احکامات دیے تاکہ اْن کی صحت کے نظام میں نئی ذمہ داریوں کا اعتراف کیا جا سکے۔تقریب میں نائب وزیراعلیٰ سریندر چودھری، وزیر صحت و طبی تعلیم سکینہ مسعود، سرینگر سے رکن پارلیمان آغا روح اللہ مہدی، وزیراعلیٰ کے مشیر ناصر اسلم وانی، اعلیٰ انتظامی حکام، ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل عملہ بھی شریک تھے، جس سے اس نئے باب کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

https://x.com/OmarAbdullah
اپنے خطاب میں وزیراعلیٰ نے جموں و کشمیر کے لیے ایک نئی صحت پالیسی بنانے کا اعلان کیا، جو دیہی علاقوں کی صحت کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مخصوص ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ اس پالیسی کا مقصد دیہی علاقوں میں صحت کی سہولیات کی کمی کو پورا کرنا اور دور دراز کے علاقوں میں بہتر طبی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کا ہدف ہے کہ ہر علاقے میں منصفانہ طبی خدمات فراہم کی جائیں تاکہ لوگوں کو بروقت اور معیاری علاج مل سکے اور انہیں طویل مسافتیں طے کر کے بڑے شہروں کا رخ نہ کرنا پڑے۔
وزیراعلیٰ نے کشمیر میں زیرِ تعمیر آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (AIIMS) کے منصوبے کی بھی جلد تکمیل کی امید کا اظہار کیا اور زور دیا کہ اس اہم منصوبے پر تیزی سے کام کیا جائے۔ انہوں نے اسے صحت کے شعبے میں ایک سنگِ میل قرار دیا جو کشمیر کے صحت کے معیار کو بلندیوں تک لے جانے میں مددگار ثابت ہوگا۔
وزیراعلیٰ نے نئے تقرر شدہ میڈیکل افسران کو نیک تمنائیں دیتے ہوئے ان پر زور دیا کہ وہ اپنی خدمات میں عوام کی فلاح کو مقدم رکھیں۔ انہوں نے ڈاکٹروں کے اہم کردار کو سراہتے ہوئے امید ظاہر کی کہ یہ افسران اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ وفاداری اور خدمت کے جذبے سے کام کریں گے اور صحت کے نظام میں بہتری کے لیے کوشاں رہیں گے۔ اپنے خطاب میں انہوں نے صحت کے شعبے میں درپیش مسائل کا ذکر بھی کیا اور کہا کہ اکثر رہائشی علاقوں میں ڈاکٹروں کی کمی کی شکایات موصول ہوتی ہیں، بالخصوص میڈیکل اداروں میں پروفیسروں اور اساتذہ کی کمی ہے۔
انہوں نے دیہی اور قصبوں میں ایک بہتر اور قابل رسائی صحت کے نظام کی ضرورت پر زور دیا، جہاں معمولی سرجری اور روزمرہ کے مسائل اکثر مقامی وسائل کی کمی کے باعث سرینگر کے بڑے اسپتالوں، جیسے ایس کے آئی ایم ایس اور ایل ڈی اسپتال، میں بھیج دیے جاتے ہیں۔

https://lazawal.com/?cat=20#

حکومت سماج کے تمام طبقوںاور خطوں کی جامع اور مساوی ترقی کو یقینی بنائے گی:جاوید احمدرانا

0

سول سیکرٹریٹ سری نگر میں متعدد وفود اور اَفراد سے ملاقات کی؛کہاپسماندہ طبقوں کو بااِختیار بنانے کے لئے اَقدامات کئے جائیں گے

لازوال ڈیسک

سری نگر؍؍وزیر برائے جل شکتی، جنگلات و ماحولیات اور قبائلی امور جاوید احمد رانا نے آج یہاں سول سیکرٹریٹ سری نگر میں متعدد وفود اور اَفراد سے ملاقات کی۔اُنہوں نے کہا وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کی قیادت والی حکومت جموں و کشمیر میں سماج کے تمام طبقوں اور خطوں کی جامع اور مساوی ترقی کو یقینی بنانے کے لئے پُرعزم ہے۔اُنہوں نے کہا کہ پسماندہ طبقوں کو بااِختیار بنانے کے لئے اَقدامات کئے جائیں گے تاکہ وہ مختلف ترقیاتی اور فلاحی سکیموں کا فائدہ اُٹھا سکیں۔

https://en.wikipedia.org/wiki/Javed_Ahmed_Rana
کپواڑہ سے چودھری سراج الدین کی قیادت میں وفد نے گوجری زبان کو آٹھویں شیڈول میں شامل کرنے، فارسٹ رائٹ ایکٹ کی عمل آوری ، ایف آر سی معاملوں، بجلی کے بلوں میں رعایت، اَنکوارڈقبائلی دیہاتوں میں پانی کے پائپوں کی تنصیب اور ترقیوں میں ریزرویشن کا مطالبہ کیا۔اوڑی کے ا رشد احمد کی قیادت میں ایک وفد نے قبائلی کمیونٹیوں میں تعلیمی منظر نامے کو بہتر بنانے، اوڑی میں اِی ایم آر ایس، انکوارڈ گھرانوںکو پانی کے کنکشن، ضلع قبائلی دفاتر کے کام کاج کو بہتر بنانے کے لئے اَپنے مطالبات وزیر موصوف کو گوش گزار کئے۔
دیگر افراد میںپانپور کے یاسین پوسوال، سری نگر کے عبدالحمید کسانہ، پہلگام کے محمد قاسم پوسوال شامل ہیں۔وفود نے اَپنے متعلقہ علاقوں سے متعلق کئی دیگر مسائل وزیر کو گوش گزار کئے اور ان کے بروقت اَزالے کا مطالبہ کیا۔ وزیر جاوید احمد رانا نے وفود سے بات چیت کرتے ہوئے وفود کے ممبران کو یقین دِلایا کہ ان کی طرف سے پیش کردہ حقیقی مسائل پر غور کیا جائے گا۔اُنہوںنے اُن پر زور دیا کہ وہ عوامی اہمیت اور اپنے علاقوں کی ترقی کے مسائل کو اُجاگر کرتے رہیں۔

https://lazawal.com/?cat=20#

صوبہ جموں میں بندوق کلچربھاجپاکی دین:معراج ملک

0

کہابغیر تربیت کے ہی لوگوں کو بندوقیں فراہم کرکے انہیں ولیج ڈیفنس گارڈ بنایا گیا

 

لازوال ڈیسک

 

سری نگر؍؍عام آدمی پارٹی کے ممبر اسمبلی معراج ملک نے جمعے کے روز بی جے پی الزام لگایا کہ وہ جموں میں بندوق کلچر کو فروغ دینے پر تلی ہوئی ہے۔انہوں نے کہاکہ کشتواڑ میں بغیر تربیت کے ہی لوگوں کو بندوقیں فراہم کرکے انہیں ولیج ڈیفنس گارڈ بنایا گیا۔معراج ملک نے وزیرا علیٰ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہاکہ جموں میں کن لوگوں کو بندوقیں فراہم کی گئیں اس کی بڑے پیمانے پر تحقیقات ہونی چاہئے۔

https://aamaadmiparty.org/
اسمبلی میں جمعے کے روز عام آدمی پارٹی کے معراج ملک نے ایوان کو بتایا کہ کشتواڑ کے منجولہ علاقے میں دو دفاعی محافظوں کا قتل انسانیت سوز ہے اور اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔انہوں نے کہاکہ اسمبلی انتخابات کے دوران بی جے پی نے جموں خاص کر راجوری ، پونچھ اور کشتواڑ میں بغیر ٹریننگ کے ہی لوگوں کو بندوقیں فراہم کرکے انہیں دفاعی محافظ بنایا۔
معراج ملک نے الزام لگایا کہ اسمبلی الیکشن کے دوران بی جے پی کے لوگوں نے خط چناب اور پیر پنچال میں لوگوں کو بندوقیں فراہم کیں اور ایسے لوگوں کو ہتھیار دئے گئے جنہیں اس کی کوئی علمیت ہی نہیں۔انہوں نے مزید بتایا کہ کشتواڑ کے دور افتادہ علاقے میں دو دفاعی محافظ مارے گئے میں یہ وثوق کے ساتھ کہتا ہوں انہیں بھی بندوق چلانی نہیں آتی ہوگی۔معراج ملک نے مطالبہ کیا کہ الیکشن سے قبل خط پیر پنچال ، چناب میں کتنے لوگوں کو بندوقیں فراہم کیں گئیں اس کی اعلیٰ سطحی تحقیقات ہونی چاہئے۔

https://lazawal.com/?cat=20#

’بی جے پی کی سخت گیر پالیسی کی وجہ سے لوگ تنگ آچکے ہیں‘

0

خصوصی پوزیشن کی بحالی کے لئے اسمبلی میں قرارداد منظور کروا کے ہم نے اپنا وعدہ پورا کیا:ڈاکٹر فاروق عبداللہ

یواین آئی

سری نگر؍؍جموں وکشمیر نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے جمعے کے روز کہاکہ نیشنل کانفرنس کو کمزور کرنے اور اس کیخلاف ناپاک کوششوں کو ہمارے ازلی دشمنوں نے برابر جاری رکھا ہوا ہے۔انہوں نے کہاکہ بی جے پی کی سخت گیر پالیسی کی وجہ سے لوگ تنگ آچکے ہیں۔ان باتوں کا اظہار ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے جموں وکشمیر اور لداخ سے آئے ہوئے عوامی وفود کیساتھ تبادلہ خیالات کرتے ہوئے کیا۔

https://en.wikipedia.org/wiki/Farooq_Abdullah
ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہاکہ بی جے پی نے حدبندی کمیشن صرف اور صرف نیشنل کانفرنس کے ووٹنگ بینک علاقوں کو تہس نہس کرنا تھا لیکن اس کے باوجودبھی بھاجپا اپنے عزائم میں ناکام رہی۔ ہماری جماعت کیخلاف پارلیمنٹ اور اسمبلی انتخابات میں پراکسی اْمیدواروں کو میدان میں اْتارا گیا لیکن پھر بھی عوام نے اپنی نیشنل کانفرنس کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔
انہوں نے کہا کہ جموں وکشمیر کی خصوصی پوزیشن کی بحالی کیلئے اسمبلی سے بھاری اکثریت سے قرارداد منظور کروا کے نیشنل کانفرنس نے اپنا وعدہ پورا کیا اور ہمارے اپنی خصوصی پوزیشن کی بحالی کی جدوجہد کے وعدے پر کاربند ہیں۔ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ مہاراجہ ہری سنگھ نے نئی دلی کیساتھ مشروط الحاق کیا تھا اور جموں وکشمیر کے عوام کو آئین، زمینوں اور ملازمتوں کے حقوق فراہم کئے تھے۔
لیکن بھاجپا نے پارلیمنٹ میں اکثریت کا ناجائزہ فائرہ اْٹھا کر جموں و کشمیر کو ان خصوصیات سے محروم کیا اور یہ سب کچھ کشمیر کو جیل خانے میں تبدیل کرنے کے بعد کیا گیا۔ حالانکہ ملک کے ممتاز ماہر قانون، محب وطن رہنمائوں نے اس اقدام کیخلاف آواز بلند کی اور اسے غیر آئینی اور غیر جمہوری قرار دیا۔
انہوں نے کہاکہ بی جے پی کی سخت گیر پالیسی تنگ طلبی، ہراسانی، بلاوجہ گرفتاریوں کے باوجو دبھی جموںو کشمیر کے عوام متحد ہیں کہ 5اگست2019 کے فیصلے اْن کے مرضی کیخلاف تھے۔ لداخ اور کرگل کے عوام ابھی بھی صدائے احتجاج بلند کئے ہوئے ہیں۔ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے پارٹی سے وابستہ افراد پر زور دیا کہ آنے والے پنچایتی اور بلندیاتی انتخابات کیلئے کمربستہ ہوجائیں اور باصلاحیت، تعلیم یافتہ اور عوامی ساکھ رکھنے والے نمائندوں کو آگے لائیں۔انہوں نے پارٹی کارکنوں پر زور دیا کہ وہ لوگوں کیساتھ قریبی رابطہ رکھنے اور ان کے مسائل و مشکلات کا سدباب کرانے میں اپنا رول نبھائیں۔

https://lazawal.com/?cat=20#

اے ایم یو تنازعہ: سپریم کورٹ نے 1967 کے اپنے فیصلے کو پلٹ دیا

0

کہاکسی ادارے کو صرف اس لئے اقلیتی درجہ دینے سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ پارلیمانی قانون کے ذریعے قائم کیا گیا ہے

نئی دہلی؍؍سپریم کورٹ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کیس میں 1967 کا اپنا ایک فیصلہ پلٹتے ہوئے جمعہ کو کہا کہ کسی ادارے کو صرف اس لئے اقلیتی درجہ دینے سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وہ پارلیمانی قانون کے ذریعے قائم کیا گیا ہے ۔چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی والی سات رکنی آئینی بنچ نے اکثریتی ووٹ سے عزیز باشا کیس میں 1967 کے فیصلے کو خارج کردیا، جو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو قانون کے ذریعہ بنائے جانے کی وجہ سے اقلیتی درجہ سے محروم کرنے کا بنیاد بناتھا۔

https://www.livelaw.in/
بنچ نے کہا کہ اقلیتی ادارہ اقلیت کے ذریعے قائم کیا جا سکتا ہے، لیکن ضروری نہیں کہ اسے اقلیتی ارکان کے زیر انتظام کیا جائے۔چیف جسٹس نے اپنی اور جسٹس سنجیو کھنہ، جسٹس جے بی پارڈی والا اور جسٹس منوج مشرا کی طرف سے اکثریتی فیصلہ سنایا۔تاہم جسٹس سوریہ کانت، جسٹس دیپانکر دتہ اور جسٹس ستیش چندر شرما نے اپنے اپنے اختلافی فیصلے سنائے۔
اکثریت کی بنیاد پر فیصلہ سنانے والے جسٹس چندر چوڑ نے یہ بھی کہا کہ ادارے کا اقلیتی درجہ قانون کے ذریعہ بنائے جانے کی وجہ سے ختم نہیں ہوتا۔عدالت نے اکثریتی فیصلے میں کہا کہ کسی ادارے کو صرف اس لئے اقلیتی درجہ دینے سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ وہ پارلیمانی قانون کے ذریعے قائم کیا گیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ ایسے قیام اور دیگر پہلوؤں سے متعلق مختلف عوامل کو مدنظر رکھا جانا چاہیے۔عدالت نے کہا کہ یہ ثابت کرنابھی ضروری نہیں ہے کہ اقلیتی ادارے کا انتظام ایسے اقلیتی گروپ کے پاس ہے۔
سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ اقلیتی ادارے سیکولر تعلیم کے بارے میں سوچ سکتے ہیں اور اس کے لئے انتظامیہ میں اقلیتی ارکان کی ضرورت نہیں ہے۔عدالت عظمیٰ نے فیصلے کے اعلان کے ساتھ ہی کیس کو تین ججوں کی بنچ کو سونپ دیا تاکہ 2006 کے الہ آباد ہائی کورٹ کے فیصلے سے پیدا ہونے والے مسئلے پر فیصلہ کیا جاسکے، جس نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو اس کی اقلیتی حیثیت سے محروم کر دیا تھا۔
بنچ نے کہا کہ اے ایم یو کی اقلیتی حیثیت کا معاملہ اب ایک باقاعدہ بنچ کے ذریعہ طے کیاجانا ہے، تاکہ حقیقت پر مبنی تعین کیا جا سکے کہ کیا اسے اقلیت کے ذریعہ ‘قائم’ کیا گیا تھا۔
سال 1967 میں، ‘ایس عزیز باشا بمقابلہ یونین آف انڈیا’ کیس میں، پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے کہا کہ چونکہ اے ایم یو ایک سنٹرل یونیورسٹی ہے، اس لیے اسے اقلیتی ادارہ نہیں سمجھا جا سکتا۔سال 1981 میں پارلیمنٹ کے ذریعہ اے ایم یو (ترمیمی) ایکٹ پاس کئے جانے پر اس کا اقلیتی درجہ بحال کردیا گیا۔الہ آباد ہائی کورٹ نے جنوری 2006 میں 1981 کے قانون کی شق کو منسوخ کر دیا تھا جس کے تحت یونیورسٹی کو اقلیت کا درجہ دیا گیا تھا۔

https://lazawal.com/?cat=20#

عام آدمی پارٹی کے کارکن پارٹی کی سب سے بڑی طاقت ہیں: کیجریوال

0

کہاہمیں توڑنے اور خریدنے کی بہت کوششیں کی گئیں لیکن ہم نہیں ٹوٹے

لازوال ڈیسک

نئی دہلی؍؍عام آدمی پارٹی (آپ) کے قومی کنوینر اروند کیجریوال نے کہا کہ پارٹی کارکن پارٹی کی سب سے بڑی طاقت ہیں ۔مسٹر کیجریوال نے آج یہاں ایک پریس کانفرنس میں کہا ’’گزشتہ دو برسوں میں ہم سب سے مشکل دور سے گزرے ہیں لیکن کہا جاتا ہے کہ خدا صرف اپنے پیارے بندوں کو ہی مشکلات دیتا ہے، ان کا امتحان لیتا ہے خدا مستقبل کے چیلنجوں کے لیے آپ کو مضبوط کرنے کے لیے مشکلات بھیجتا ہے جب خدا بڑی مشکلات بھیجتا ہے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ خدا چاہتا ہے کہ آپ مستقبل میں کچھ بڑا کریں ہمیں مشکلات سے گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ بہادری سے ان کا مقابلہ کرنا چاہیے۔‘‘

https://aamaadmiparty.org/
مسٹر کیجریوال نے کہا کہ پوری پارٹی نے اب تک تمام مسائل کا بڑی بہادری، حوصلے اور دانشمندی سے مقابلہ کیا ہے۔ ہمیں توڑنے اور خریدنے کی بہت کوششیں کی گئیں لیکن ہم نہیں ٹوٹے۔ پارٹی کے تمام کارکن بڑی طاقت اور جذبے کے ساتھ ایک خاندان کی طرح ڈٹے ہوئے ہیں۔
آپ کے لیڈر نے کہا کہ آزادی کے 75 سال بعد پہلی بار اس ملک نے سیاست میں عوام سے جڑے مسائل کو سنا ہے۔ پہلی بار لوگوں نے سیاست میں اسکول، اسپتال، بجلی، پانی، سڑک جیسے مسائل کے بارے میں سنا ہے۔ گزشتہ 75 برسوں میں پہلی بار عوام نے دیکھا کہ حکومت ایماندار ہو تو کچھ نہیں ہو سکتا۔ عام آدمی پارٹی ملک کی سیاست میں تازہ ہوا کا جھونکا ہے۔انہوں نے کہا کہ عام آدمی پارٹی ہی ملک کی واحد امید ہے، اس امید کو برقرار رکھنا ہوگا۔ اس کو مزید آگے بڑھانا ہوگا۔ ضرورت پڑنے پر ملک کے لیے تن، من دھن، سب کچھ قربان کرنے کے لیے تیار رہنا ہوگا۔

https://lazawal.com/?cat=20#

سینئر قیادت عالمی جغرافیائی سیاسی صورتحال سے باخبر رہے:جنرل اپیندرا دویدی

0

فوجی سربراہ نے ویسٹرن کمانڈ کی آپریشنل تیاریوں کا لیاجائزہ:خطے کی سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے عزم کی توثیق

لازوال ڈیسک

جموں؍؍آرمی چیف جنرل اپیندرا دویدی نے آج چندی مندر میں ویسٹرن کمانڈ کے ہیڈکوارٹر کا دورہ کیا اور وہاں کی آپریشنل تیاریوں کا جائزہ لیا۔ اس موقع پر ویسٹرن کمانڈ کے کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل منوج کمار کٹیار نے انہیں مختلف اہم آپریشنل، تربیتی، لاجسٹک اور انتظامی پہلوؤں کے بارے میں بریفنگ دی، جو کمانڈ کی مؤثریت کے لیے نہایت اہم ہیں۔

https://joinindianarmy.nic.in/
کمانڈر نے فورسز کی جدیدیت اور آپریشنل تھیٹر میں اسٹریٹجک اصلاحات کے بارے میں بھی آگاہ کیا، جو لڑائی کی صلاحیت کو مزید بڑھانے کے لئے ہیں۔ انہوں نے انتظامی اور لاجسٹک معاملات میں کی جانے والی بہتریوں پر بھی روشنی ڈالی جو کمانڈ کے مقاصد کو بہتر بنانے کے لئے کی جا رہی ہیں۔
جنرل دویدی نے ویسٹرن کمانڈ کی کوششوں کو سراہا اور جدید ٹیکنالوجیز کے انضمام کی اہمیت پر زور دیا، تاکہ آپریشنل صلاحیتوں کو تیز اور مؤثر بنایا جا سکے۔ انہوں نے فوج کی سینئر قیادت کو عالمی جغرافیائی سیاسی صورتحال پر گہری نظر رکھنے کی بھی تاکید کی اور بھارتی فوج کی تیاریوں کو مسلسل مضبوط کرنے کی ضرورت پر زور دیا، تاکہ دشمنوں کے خطرات کا مقابلہ کیا جا سکے۔
اس دورے کے دوران، جنرل دویدی نے کٹھوعہ-پٹھانکوٹ کے علاقے میں آگے کے آپریشنل علاقوں کا بھی جائزہ لیا، جہاں انہیں یول میں موجود رائزنگ سٹار کور کے جنرل آفیسر کمانڈنگ کی جانب سے سیکورٹی صورتحال اور وہاں تعینات فوج کی آپریشنل تیاریوں کے بارے میں بریفنگ دی گئی۔ آرمی چیف نے رائزنگ سٹار کور کے اہلکاروں کی پیشہ ورانہ صلاحیت اور خطے میں حالیہ دہشت گردی مخالف کارروائیوں میں ان کی کامیابیوں کو سراہا اور علاقے کی حفاظت و سلامتی کو یقینی بنانے میں ان کی مثالیت کی تعریف کی۔یہ دورہ بھارتی فوج کے آپریشنل تیاریوں، فورسز کی جدیدیت اور مؤثر دفاعی آپریشنز کے لیے ایک اسٹریٹجک ماحول کو فروغ دینے کے عزم کو مزید اجاگر کرتا ہے۔

https://lazawal.com/?cat=20#