الرئيسية بلوق الصفحة 7653

کرگل-اسکردو کے بچھڑے لوگ : سرحدوں میں گم روشنی

0

سجاد حسین کرگلی

9419728518

یہ درد وہی محسوس کر سکتا ہے جس کی ماں اسکردو(بلتستان)میں گزر چکی ہو اور اس کی موت کی خبر کئی سالوں بعد  اس کے بیٹے کوکرگل میں مل جائے ، غرض یہ کی لائن آف کنڑول صرف  دو علاقوں کو تقسیم ہی نہیں کرتی بلکہ رشتوں  ،جذبات  اور انسانیت کا بھی قتل کرتی ہے ۔ یہ درد وہی محسوس کر سکتا ہے جس کی ماں اسکردو(بلتستان)میں گزر چکی ہو اور اس کی موت کی خبر کئی سالوں بعد  اس کے بیٹے کوکرگل میں مل جائے ، غرض یہ کی لائن آف کنڑول صرف  دو علاقوں کو تقسیم ہی نہیں کرتی بلکہ رشتوں  ،جذبات  اور انسانیت کا بھی قتل کرتی ہے ۔ کرگل خطہ لداخ کا وہ ضلع ہے جو ایل اوسی کے بالکل قریب واقع ہے۔لائن آف کنٹرول کے دوسری جانب  بلتستان کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے۔بلتستان اور لداخ زمانہ قدیم سے ایک ہی تہذیب،قوم اور زبان سےوابستہ لوگوں کا علاقہ ہے۔زمانہ قدیم میں اس علاقہ کو تجارت کا محور کہا جاتا تھا اور وسط ایشیائی ممالک سے لوگ یہاں سے کشمیر کی طرف تجارت کرتے ۔ قیام پاکستان کے بعد یہ علاقہ جو اس وقت گلگت  بلتستان کہلاتا ہے ۔ پاکستان کے انتظام میں چلا گیا ۔شروع میں اسے اسلام آباد کی نگرانی میں چلایا جاتا تھا۔اس  نے اپنی اصل شناخت کھو دی تھی ،اس لیے اس کو شمالی علاقہ جات کے نام سے یاد کیا جاتا تھا ۔تقریباً بیس لاکھ کی آبادی پر مشتمل اس علاقہ کو کئی سال قبل عبوری سطح پرصوبے کا درجہ ملا ہے ۔تاہم اب بھی لوگ قانونی طور پر صوبےاور حقوق کی بات کر رہے ہیں، جس سے اب تک یہاں کے لوگ محروم ہیں ۔  کشمیر سے الگ ہونے کے بعد مظفر آباد والے علاقوں کو ایک آزاد حثیت ملی لیکن گلگت بلتستان کے عوام نہ تین میں رہے اور نہ تیرہ میں ۔ انہیں پاکستان نے نہ صوبہ تسلیم کیا اور نہ ہی خودمختار ریاست بنانے کی اجازت ملی ۔ اس کےبر عکس یہاں خطہ لداخ میں محض تین لاکھ کی آبای کے لئے  لداخ خود مختار پہاڑی ترقیاتی کونسل کا قیام عمل میں لا یا گیا، اور خصوصی رعایت دیتے ہوئےممبر پارلیمنٹ کی ایک نشست بھی دی گئی ۔سرحد کے دونوں جانب واقع ان دونوں علاقوں میں اگر چہ اپنی اپنی نوعیت کے ترقی کے کام تو جاری ہیں ۔ یعنی سرحد کے اس پار والا علاقہ  گلگت بلتستان چین اور پاکستان راہداری منصوبہ کے چلتے اس وقت عالمی ذرائع ابلاغ کا محور بنا ہوا ہے جبکہ خطہ لداخ بھی سیاحت اور اپنی علیحدہ ہ تہذیب کے چلتے لوگوں کی توجہ کا مرکز ہے ۔تاہم  یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیا ن چل رہے تنازعوں اور جنگوں کے درمیاں یہاں کے عوام ہمیشہ بلی کا بکرا بنتے رہے ہیں ۔ چونکہ ان علاقوں کی تاریخ ،ثقافت ، زبان ایک ہے جسکی وجہ سے یہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگ سرحد کے آر پار منقسم ہیں ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہاں کے عوام گزشتہ 71سالوں سے اپنے رشتہ دار اور احباب سے جدائی کا غم برداشت کر رہے ہیں ۔ انسانی تاریخ کا ایک بڑا المیہ یہاں کے لوگ بھی گزشتہ  دہائیوں سے دیکھ رہے ہیں۔ بھائی بھائی سے الگ ماں بیٹے سے اور میاں بیوی سے ۔ اپنے لوگوں کی جدائی کی تکلیف اور بچھڑ جانے کا غم کوئی اپنا ہی جانے ، یہ بات وہی محسوس کر پائے گا جس کا بھائی لائن آف کنڑول کی دوسری جانب ہو اور ایک بھائی کی شادی اس جانب ہو رہی ہو اور وہ اس میں شامل نہ ہو پارہا ہو، یہ درد وہی محسوس کر سکتا ہے جس کی ماں اسکردو(بلتستان)میں گزر چکی ہو اور اس کی موت کی خبر کئی سالوں بعد  اس کے بیٹے کوکرگل میں مل جائے ، غرض یہ کی لائن آف کنڑول صرف  دو علاقوں کو تقسیم ہی نہیں کرتی بلکہ رشتوں  ،جذبات  اور انسانیت کا بھی قتل کرتی ہے ۔ ہندوستان اور پاکستان کے در میان سرحدی رابطہ اگر چہ جنگی بیان بازیوں اور تلخ روابط کے باوجود بھی رہے ہیں ۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ہند و پاک کے مابین کبھی سیاسی بیان بازی اور معاملات کشیدہ ہونے پر واگہہ بارڈر  بند کر دیا گیا ہو ۔ بلکہ ہمیشہ سفارتی چینل کھلا رکھا جا تا ہے ۔  یہاں تک کہ سری نگر اور مظفر آباد کے درمیان سرحدی کشیدگی کے باوجود ان علاقوں کے عوام کو آپس میں ملوانے کی غرض سے سری نگر مظفر آبا د سٹرک کھول دی گئی ۔ پونچھ اور رالاکوٹ کو رابطہ بھی کسی حد تک بحال کیا گیا ۔ لیکن ستم بالاے ستم خطہ لداخ اور گلگت بلتستان کے عوام میں سرحدی حالات قدرے بہتر رہنے کے باوجود اس علاقہ کے لوگوں کو کبھی بھی اپنے رشتہ داروں سے ملنے کا  آج تک موقع نہیں ملا ۔ کرگل میں آباد کھرمنگ بلتستان جسکا فاصلہ 30کلومیٹر سے بھی کم ہے اپنے رشتہ داروں اور اہلخانہ سے ملنے واگہہ کےذریعہ ہزاروں کلومیٹر سفر طے کرکے جانے پر مجبور ہیں ۔

ہند و پاک کے شہروں میں آباد لوگوں کو اپنے دوستوں عزیز و اقارب سے ملاقات کے سلسلے میں کوئی دشواری نہیں ہے ۔ حالات چاہے جیسے بھی ہوں لوگوں کو اپنے رشتہ داروں سے کم از کم فون پر رابطہ کرنے کی اجازت ہے ۔لیکن ایک بڑی جمہوریت میں زندگی گزارنے کا دعویٰ کرنے والے ہم لوگ کبھی کبھی شرم سے سر جھکا لیتے ہیں ۔ جب پاکستان میں موجود ہمارا کوئی رشتہ دار ہم سے پوچھتا ہے کہ آپ ہم سے رابطہ کیوں نہیں کرتے اور ہم جواب میں یہ کہہ دیں کہ ہمارے یہاں سے پاکستان سے فون کالز پر پابندی لگی ہوئی ہے ۔ مجھے اس موقع پر یہ کہتے ہوئے کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہو رہی ہے کہ ہندوستان اور پاکستان کو  اس معاملے میں یورپی ممالک سے سبق لینا چاہئے  جن کے درمیان  دو بڑی عالمی جنگیں ہوئیں ،وہ  ایک دوسرے کے  دشمن  تھے ،لیکن  آج دوست بنے بیٹھے ہیں۔ایسے ہزاروں خاندان ہیں  جن میں سے کوئی اپنی ماں سے زندگی میں ایک بار ملا ہے یا پھر کوئی صرف ارمان لے کر اس دنیا سے چل بسا ہے ۔ منقسم خاندانوں یہ مسئلہ مین سٹریم میڈیا میں  نہیں ہے ۔ اس کی ایک خاص وجہ یہ ہے کہ اس خطہ لداخ اور گلگت بلتستان میں آج تک اس حوالے سے کوئی منظم تحریک نہیں چلائی گئی  ۔ اگر چہ بلتستان میں مرحوم سید حیدر شاہ رضوی شہید نے اس سلسلے میں ” اضلاع بنا ؤ سرحدیں کھولو” کے عنوان سے ایک تحریک شروع کی تھی تاہم ان کی اس تحریک کو پاکستان میں حکومتی سطح پر دبایا گیا اور انہیں زہر دیکر شہید کر دیا گیا ۔ ادھر کرگل میں بھی مقامی قیادت نے اس سلسلے میں ملکی اور ریاستی سطح پر اس مسئلہ کو اٹھایا لیکن ابھی اس سلسلہ میں کوئی ٹھوس اقدام نہیں کیاگیا ۔ابھی حالیہ دنوں میں وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کرگل میں ایک عوامی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کرگل اسکردو اور ترتک خپلو سٹرک کھولنے کی بات کی تھی انہوں نے کہا تھا کہ اس سٹرک سے زمانہ قدیم کے تاریخی روابط پھر سے بحال ہو جائیں گے اور کرگل سنٹرل ایشیا کا گیٹ وے بنے گا ۔ اس بیان کے بعد لوگوں میں ایک امید سی بنی ہے لیکن یہ بات کس قدر صحیح ثابت ہوگی یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا ۔(نوٹ:اصل مضمون ’دی وائراُردو‘میں شائع ہوا)۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

مغل شاہراہ : لاش،سرینج، چمچ اور پاؤڈر !

0

جموں وکشمیرکی علاقائی جماعتوں جن میں نیشنل کانفرنس اورپیپلزڈیموکریٹک پارٹی شامل ہیں‘دونوں مغل شاہراہ کی تعمیرکوایک’شیرکشمیرکاخواب‘تو دوسری ’مفتی کاخواب‘جتلاکراس کی تعمیرکاسہرااپنے اپنے سرباندھتی ہے، خیرمغل شاہراہ کاایک دیرینہ خواب کئی برس قبل پی ڈی پی ۔کانگریس دورمیں شرمندۂ تعبیرہوا، اس کی تیزرفتارتکمیل کے پیچھے مرکزمیں کانگریس اور جموں وکشمیرمیں کانگریس۔ پی ڈی پی مخلوط سرکارکابھی اہم رول ہے،مغل شاہراہ کولیکرخطہ پیرپنجال کے عوام میں جوجوش وخروش اوراُمیدیں وابستہ تھیں وہ پوری نہ ہوئیں، شاہراہ کو12ماہ قابل آمدوفت بنانے میں کوئی خاطرخواہ قدم نہیں اُٹھایاگیا ہے، ہنوز حکومتی وعدوں اوراعلانات کے سہارے ہی یہ اُمیدقائم ہے تاہم شاہراہ خطہ کی نوجوان نسل کیلئے موت کاپیغام لارہی ہے، مغل شاہراہ سے منشیات کادھندہ ،اسمگلنگ وغیرہ عروج پرہے، جرائم پیشہ افراد اورڈرگزمافیہ پنجاب سے ہوتے ہوئے خطہ پیرپنجال کواپنی لپیٹ میں لے رہاہے او ر مغل شاہراہ سے اپنے اس ناپاک دھندے کوکشمیرتک پھیلاتاجارہاہے، راجوری ضلع چونکہ راستے میں آتاہے، یہ ضلع اوریہاں کے نوجوان منشیات کی لت میں پڑ گئے ہیں، اور وہ ڈرگ مافیہ کاآسان شکاربنتے جارہے ہیں، بے روزگاری اورحکومتی بے بسی کے چلتے نوجوان ذہنی طورپرپریشان حال ہیں ، وہ روزگارکی تلاش میں دربدرکی ٹھوکریں کھاتے ہیں، خطے کے نوجوانوں کاروزگارکمانے کابہترذریعہ خلیجی ممالک جاکرمحنت مزدوری کرناہوتاتھا لیکن خلیجی ممالک میں اب روزگارکے وسائل پہلے جیسے نہیں اوروہ بیرون ممالک کے مزدوروں کوبہت کم مواقع دے رہے ہیں، ریاستی حکومت نوجوان نسل کوغلط راستے سے بچانے اورذہنی پریشانیوں سے نجات دلانے کیلئے خاطرخواہ اقدامات نہیں اُٹھارہی ہے جس کے چلتے نوجوان منشیات فروشی کے دلدل میں دھکیلاجارہاہے،پچھلے کچھ دِنوں سے شوپیاں ضلع جومغل شاہراہ کی بدولت راجوری کاپڑوسی ضلع بن چکاہے، وہاں راجوری ضلع کے دورالگ الگ واقعات میں تین لاشیں برآمدہوئی ہیں ، پولیس نے ان کی موت منشیات سے ہونے کی باضابطہ تصدیق نہیں کی اورسرکاری ذرائع نے بتایا کہ فوری طور پر ان نوجوانوں کی موت کی وجہ معلوم نہیں ہوسکی، تاہم پولیس نے اس سلسلے میں کیس درج کرکے تحقیقات شروع کردی ہے، جموں وکشمیر پولیس نے اپنے آفیشل ٹویٹر اکاؤنٹ پر ایک ٹویٹ میں کہا ’پالپورہ شوپیان کے نزدیک دو لاشیں ملی ہیں، جسموں پر تشدد کا کوئی نشان نہیں ہے، دونوں کی شناخت کرلی گئی ہے، پولیس نے تحقیقات شروع کردی ہے، جائے مقام سے سرینج، چمچ اور پاؤڈر برآمد ہوا ہے‘،یہ سرینج ،چمچ اورپائوڈریہ جاننے کیلئے کافی ہے کہ یہ نوجوان بھی منشیات کے اژدھے کانیوالابن گئے ہیں،مہلوکین کی شناخت 17 سالہ عمر سہیل ولد عاصف اقبال اور 20 سالہ محمد اختر ولد عبدالرزاق ساکنان راجوری کے بطور کی گئی ہے۔ابھی جوانی کی دہلیزپرقدم رکھنے سے پہلے ہی ان بچوں کے قدم منشیات کی دلدل میں دھنس وپھنس گئے اور زندگی کی شمع بچھ گئی، خطہ کی پولیس،سِول انتظامیہ،سیول سوسائٹی،علمائے کرام،دیگرمذائب کے راہنمائوں اور والدین کو اس معاملے پرسنجیدگی سے سوچناچاہئے اور نوجوان نسل کوصحیح راستہ دکھاناچاہئے تاکہ نسلیں تباہ ہوناتھم جائیں۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

ہندوستان کے ’’راسپوتین‘‘:دھریندر برہما چاری سے گرمیت تک

0

ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز
حیدرآباد؛9395381226

 

خودساختہ روحانی پیشوا گرمیت کے عبرتناک انجام پر کوئی حیرت اور تعجب نہیں ہے۔ قدرت کا قانون ہے کہ انسان جب اس کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے بجائے اس کا غلط استعمال کرتا ہے اور خود کو زمینی خدا سمجھنے لگتا ہے تو اس کے مرنے سے پہلے وہ دنیا کو دکھادیتا ہے کہ سب کا خدا بس ایک ہے جو لافانی ہے۔ خودساختہ روحانی پیشوا گرمیت کے عبرتناک انجام پر کوئی حیرت اور تعجب نہیں ہے۔

Image result for BABA RAM RAHIM

قدرت کا قانون ہے کہ انسان جب اس کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر ادا کرنے کے بجائے اس کا غلط استعمال کرتا ہے اور خود کو زمینی خدا سمجھنے لگتا ہے تو اس کے مرنے سے پہلے وہ دنیا کو دکھادیتا ہے کہ سب کا خدا بس ایک ہے جو لافانی ہے۔ ہر دور میں گرمیت جیسے شیطان خود کو مذہبی پیشوائوں کے روپ میں پیش کرتے رہے ہیں۔ گرمیت کی گرفتار کے بعد سے سیاستدان اور میڈیا اس کے خلاف زبان کھولنے لگا ہے۔ یقینا بعض ہمت والے صحافیوں نے ایسے ڈھونگیوں کا پردہ فاش کرنے کیلئے اپنی جان کی قربانی بھی دی تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ آج تقریباً ہر ایک ٹی وی چیانل پر کوئی نہ کوئی بابا اسپانسرڈ پروگرام پیش کرتا ہے۔ چاہے وہ رام دیو ہو یا نرمل بابا یا کوئی اور۔ ہندوستان میں ہراس شخص کو بھگوان کا درجہ دیا جاتا ہے جس میں غیر معمولی صلاحیتیں ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں لگ بھگ 33ملین دیوتائوں کی پوجا ہوتی ہے۔ دیوتائوں کا رول ادا کرنے والے اداکار بھی بھگوان سمجھے جاتے ہیں حتیٰ کہ سچن ٹنڈولکر، دھونی، امیتابھ بچن کو تک بھگوان کا درجہ دیا گیا۔ جیہ للیتا، رجنی کانت، ایم جی رامچندرن، شیواجی گنیشن کو بھی بھگوان یا دیوی کا درجہ دیا گیا ان کی باقاعدہ پوجا کی جاتی ہے۔ مندروں میں ان کی مورتیاں رکھی جاتی ہیں۔ ہندوستانیوں کی اس نفسیات کا ہر دور میں ڈھونگی بابائوں نے خوب فائدہ اٹھایا بلکہ ابھی تک اٹھارہے ہیں۔ یہ اچانک جنگلی پودے کی طرح پروان چڑھتے ہیں اور پھر سایہ دار درخت بن جاتے ہیں جن کی چھائوں میں پناہ لینے کے لئے مرد بھی آتے ہیں‘ ان کی بیویاں بھی، بہنیں اور بیٹیاں بھی۔ اور ان میں سے بیشتر اِن ڈھونگی بابائوں کے منظور نظر بن کر ان کے ہوس کا شکار بن جاتی ہیں۔ دیکھتے دیکھتے اِن بابائوں کی جنگل کے کسی کونے میں چھوٹی سی کٹیا آشرم بن جاتی ہے اور یہ آشرم ایک امپائر یا مملکت میں بدل جاتی ہے جہاں  ان کی اپنی حکومت‘ ان کی اپنی سیکوریٹی‘ اور ان کا اپنا دربار‘ جہاں ماتھا ٹیکنے صدر جمہوریہ بھی آتے ہیں‘ وزیر اعظم بھی۔ چیف منسٹرس، بزنس مین جو اِن ڈھونگیوں کی مارکیٹنگ کا ذریعہ بنتے ہیں اور پھر وہ وقت بھی آجاتا ہے جب یہ ڈھونگی ریاستی یا قومی سیاست میں اہم رول ادا کرنے لگتے ہیں۔ ہندوستان کی حالیہ تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو ہمیں یوگی دھریندر برہما چاری کی یاد آتی ہے جنہیں ہندوستان کا ’’راسپوتین‘‘ کہا جاتا ہے۔ آپ جانتے ہیں راسپوتین کون تھا۔ روس کے آخری شاہی حکمران ژار نیکولس دوم کے دربار کا سب سے بااثر، بااختیار شخص جو ایک کاشتکار کا بیٹا تھا‘ راہب بننا چاہتا تھا مگر کسی طرح سے ژار کے دربار میں رسائی حاصل کرلی۔ اس میں بعض غیر معمولی صلاحیتیں بھی تھیں‘ وہ مختلف بیماریوں کا علاج کرتا تھا۔ وہ اپنی شخصیت اور جنسی صلاحیت کی بناء پر نیکولس دوم کی ملکہ الیگزینڈر ریفیوزرنا کا مصاحب خاص بن گیا اور ایک طرح سے روس کی حکومت کا ریموٹ کنٹرول اس کے پاس آگیا۔ اُسے کئی بار قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔ آخرکار دسمبر 1916ء میں اُسے قتل کردیا گیا۔ دھریندر برہما چاری کو ہندوستان کا ’’راسپوتین‘‘ اس لئے کہا جاتا ہے کہ وہ اندرا گاندھی کے نورنظر تھے اور ان سے متعلق کئی کہانیاں عام تھیں۔ وہ اندرا گاندھی کے یوگا گرو تھے۔ مسٹر بھائو دین کانگ نے اپنی کتاب ’’Gurus‘‘ میں لکھا ہے کہ مسز ندرا گاندھی نے اپنی امریکن فوٹوگرافر دوست ڈروتھی نارمن کو لکھے گئے مکتوب میں دھریندر برہماچاری کے خدو خال اس کی پرکشش شخصیت کی تعریف کی تھی۔ خوشونت سنگھ نے دھریندر برہما چاری اور اندرا گاندھی کے روابط پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ برہما چاری ایک اونچاپورا بہاری یوگی ہیں‘ جو اندرا گاندھی کے ساتھ بند کمروں میں ایک گھنٹہ گذارتا ہے۔ اسکے یوگا کے کورس ۔۔۔۔کے سبق کے ساتھ ختم ہوتے ہیں۔ دھریندر برہما چاری سے اندرا گاندھی کی ہمدرتی بعض معاملات میں ضرورت سے زیادہ عنایتوں پر پنڈت نہرو بھی ناخوش تھے۔ انہیں پرائم منسٹر ہائوز اور اپنی قیام گاہ میں اس توگی کی آمد و رفت قطعی پسند نہیں تھی۔ پنڈت نہرو کی موت کے بعد یوگی کا عمل دخل بہت بڑھ گیا تھا۔ پاپل جئے کار کے مطابق ایمرجنسی کے دوران اس نے بہت زیادہ دولت بٹوری۔ اندرا گاندھی سے اپنے روابط، تعلقات کا خوب فائدہ اٹھایا۔ دھریندر برہما چاری سے لے کر بابا رام دیو تک، چندرا سوامی سے سوامی نتیانند تک، ستیہ سائی بابا سے گرمیت تک یوگیوں اور خود ساختہ روحانی پیشوائوں کے ہندوستانی سیاست پرگہرے اثرات و رسوخ رہے ہیں۔ چندرا سوامی، پی وی نرسمہا رائو سے قریب تھے۔ بارہ سال کی عمر میں تعلیم ترک کردینے والا یہ سوامی بن گیا۔ یہ انٹرنیشنل دلال کے نام سے مشہور رہے۔ راجیو گاندھی کے قتل کے بعد شک کی سوئی اس کی طرف بھی گھومی تھی۔ عدنان خشوگی سے دوستی رہی۔ اور عدنان خشوگی نے ایک ہندوستان ماڈل پامیلا کی دلالی کے لئے مشہور رہا۔ چندرا سوامی پر مالی خرد برد کے الزامات رہے۔ کانگریس کی سرپرستی رہی۔ حال ہی میں چندراسوامی گمنام موت مرگیا۔ 1960ء سے لے کر 1990ء تک اچاریہ رجنیش کا بڑا چرچا رہا۔ وہ ’’اوشو‘‘ کے نام سے مشہور تھا۔ پونہ میں اب بھی اس کا آشرم ہے جہاں مرد ہو کہ عورت قدرتی لباس یعنی مکمل برہنہ رہنا ہوتا ہے۔ کئی بڑے بڑے اداکار یہاں رہ چکے ہیں۔ اسے کئی سیاستدانوں کی سرپرستی حاصل رہی۔ یہاں کی تمام کہانیاں منظر عام پر آنے کے باوجود کسی نے بھی اس کے خلاف کاروائی نہیں کی۔ 1990ء میں یہ ننگا خودساختہ بھگوان بھی مرگیا مگر اس کا آشرم اب بھی ہے۔ رام دیو یوگا گرو کے طور پر دنیا بھر میں مشہور ہے۔ 2007ء میں ان کے گرو شنکردیو اچانک لاپتہ ہوگئے۔ آج تک پتہ نہیں چل سکا جس کے بعد سے رام دیو‘ شنکر دیو کے قائم کردہ ٹرسٹ کے مالک ہیں۔ نریندر مودی کی قربت‘ ان کی سرپرستی حاصل ہے۔ ٹیلیویژن چیانلس کے ذریعہ یوگا سکھاتے ہیں۔ کنزیومر مارکٹ میں چھائے ہوئے ہیں۔ ہزاروں کروڑ کی آمدنی اور جائیداد کے مالک ہیں۔ ملک کے اکثریتی طبقے پر بڑا اچھا اثر ہے۔ نریندر مودی کی سرپرستی‘ گرمیت کو بھی حاصل رہی۔ گرمیت اور اشوتوش کے درمیان ایک دوسرے پر برتری کی لڑائی ہوتی رہی۔ اشوتوش مہاراج نے دیویا جیوتی جاگرتی سنستھان قائم کیا۔ اس سنستھان اور ڈیرا سچا سودا کے حامیوں میں ہمیشہ مقابلہ رہا۔ اشوتوش مہاراج کو جنوری میں 2017ء میں مردہ قرار دیا گیا تاہم اب بھی اس کی نعش کو ڈیپ فریزر میں محفوظ رکھا گیا ہے۔ اور اس نعش کی حفاظت کے لئے Z+ سیکوریٹی ہے۔ اس نعش کو حاصل کرنے کے لئے دلیپ جھا نامی ایک عقیدت مند دعویدار ہے۔ گرمیت اور اشوتوش میں ہمیشہ مقابلہ رہا۔ گرمیت کے ڈیرا کو ہمیشہ سیاستدانوں کی سرپرستی حاصل رہی۔ پہلے کانگریس، پھر لوک دل کی سرپرستی رہی۔ تاہم اکتوبر 2014ء میں ڈیرا والوں سے وزیر اعظم نریندر مودی نے خطاب کیا اور ٹیوٹر پر اپنے پیغام میں گرمیت کی ستائش کی جس پر کافی تنقید بھی کی گئی۔ ہریانہ میں بی جے پی اقتدار کے لئے گرمیت اور اس کے ڈیرے کا بڑا اہم رول رہا۔ بڑے بڑے سیاستدان یہاں حاضری دیتے رہے۔ اس کے دربار میں سادھویوں کی کثیر تعداد ہے۔ گرمیت کے مملکت میں لیڈیز کالج، لیڈیز ہاسٹل بھی ہے۔ جہاں کی لڑکیوں کا وہ استحصال کرتا رہا اور اس امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ کچھ سیاستدانوں اور غیر ملکیوں کو بھی یہاں سے لڑکیوں کو سپلائی کیا جاتا رہا ہوگا۔ آسام رام باپو جو نوجوانی میں شراب کا بیوپاری تھا جانے کیسے مذہبی پیشوا بن گیا۔ کیسے آشرم کے لئے جگہ ملی اور کس طرح سے اس کے ہزاروں عقیدت مند پیدا ہوگئے۔ یقینا سرکاری سرپرستی کے بغیر کچھ بھی نہیں ہوسکتا۔ آسا رام باپو اور اس کا بیٹا دونوں جیل میں ہیں۔ ایسے کئی اور نام ہیں جیسے سنت رام پال جسے 29؍اگست 2017ء کو ہریانہ کی عدالت نے دو فوجداری مقدمات میں بَری کردیا۔ سوامی سدا چاری جس نے اپنی بازیگری سے دولت بھی کمائی، ہزاروں عقیدت مند بھی پیدا کئے۔ اس کا دعویٰ تھا کہ وہ آنکھ کے اشارے سے درختوں کی شاخوں کو روشن کرسکتا ہے۔ تاہم 1985ء میں سنال ایڈاماراکو نامی شخص نے کیمیکل کے استعمال کے ذریعہ خود یہ کارنامہ انجام دے کر سوامی کی قلعی کھول دی۔ اسے عصمت فروشی کا اڈہ چلانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ سوامی پرمانند جس کے 15ممالک میں آشرم تھے‘ یہ اپنے جسم سے مختلف شیولنگ نکالنے کا دعویٰ کرتے تھے اس کے بھی سیاستدان، فلمی اداکار عقیدت مند تھے۔ 13لڑکیوں کی عصمت دری کے الزام میں اسے گرفتار کیا گیا۔ سوامی نتیانند فلمی حلقوں میں مشہور تھا۔ فلمی اداکارائوں کے ساتھ قابل اعتراض حالت میں اس کی ویڈیو کلیپنگ وائرل ہونے کے بعد اسے جیل کی ہوا کھانی پڑی۔ نرمل بابا کا ٹیلیویژن چیانل پر جو دربار لگتا ہے احمقانہ قسم کے سوالات، احمقانہ جوابات‘ سیکوریٹی گارڈ کی فوج کے درمیان یہ اپنی دنیا میں مگن ہے۔ خودساختہ مذہبی پیشوا صرف اکثریتی طبقہ ہی میں نہیں ہے‘ اگر ہم ایمانداری کے ساتھ اپنے معاشرہ کا جائزہ لیں اور اگر ہم میں ذرا سی بھی غیرت ہے تو اپنی نظر سے خود گرجائیںگے۔ ہمارے درمیان بہت سارے ڈھونگی بابا موجود ہیں۔ جن کی باقاعدہ مارکیٹنگ ہوتی ہے۔ ہاسپٹلس میں مریضوں کے رشتہ داروں کی شکل میں ان کے مارکیٹنگ ایجنٹ موجود رہتے ہیں جو ہر قسم کی بیماری کے علاج کے لئے ان بابائوں سے فیضیاب ہونے کا مشورہ دیتے ہیں۔ اکثر آستانوں میں بھی ایسی خواتین ملتی ہیں جو مختلف مقامات سے فیضیاب ہونے کے مشورہ دیتی ہیں۔ ٹرینوں، بس ڈپوز میں بھی باقاعدہ مارکیٹنگ ہوتی ہے۔ گھریلو مسائل، بیروزگاری، اولاد سے محرومی اور مختلف امراض کے علاج کے لئے خود ساختہ روحانی پیشوائوں، عاملین اور ڈھونگی بابائوں کے پاس علاج کے لئے لے جایا جاتا ہے۔ اکثر جنات اور آسیب سے چھٹکارا دلانے کے لئے اِن بابائوں کے پاس لے جایا جاتا ہے۔ جنات اور آسیب سے نجات ملے یا نہ ملے بابائوں سے نجات ملنا مشکل ہوجاتا ہے۔ جانے کتنے خاندان ان کی وجہ سے اُجڑ جاتے ہیں۔ کتنے بابائوں نے کسی کو خزانے کا لالچ دے کر‘ کسی کو بانجھ پن سے نجات دلانے کی آس دلاکر انہیں لوٹ لیا۔ خود ہمارے اپنے شہر حیدرآباد میں تقریباً ہر محلہ میں کوئی نہ کوئی ڈھونگی بابا موجود ہے۔ چوں کہ ہماری غیرت ختم ہوچکی ہے اس لئے ہم اپنے محلوں میں ایسے ایسے حرامیوں کو برداشت کرتے ہیں جنہوں نے اپنے گھروں کو حرم سرا بنائے رکھا ہے جس میں بیک وقت تیس تیس بیویاں موجود ہیں۔ نہ سیاست دان، نہ پولیس نہ ہمارے بانکے جوان کچھ کرپاتے ہیں۔گرمیت جیسے عناصر ہمارے درمیان بھی موجود ہیں جن کے خلاف آواز اس لئے اٹھائی نہیں جاتی کہ انہیں بھی سرکاری اور سیاسی سرپرستی حاصل رہتی ہے جو ان کے سیاہ کرتوتوں کی پردہ پوشی کرتی ہے۔ ہم اصلاح معاشرہ کی بات کرتے ہیں۔ جہاد کی بات کرتے ہیں۔ اصل اصلاح معاشرہ تو یہی ہے کہ ہماری ماں، بہن، بیوی اور بیٹی ایسی ڈھونگی بابائوں، روحانی پیشوائوں کے چنگل میں نہ آسکیں۔ اور اصل جہاد یہی ہے کہ  ان حرامی بابائوں سے معاشرہ کو پاک رکھا جائے۔

Image result for BABA RAM RAHIM WITH DAUGHTER

FacebookTwitterWhatsAppShare

وادی بھر میں قربانی منڈیوں میں گہما گہمی

0

خریدار اور بیوپاری دونوں ہی بڑھتی ہوئی مہنگائی سے نالاں نظر آرہے ہیں

Image result for EID SHOPPING IN KASHMIRImage result for EID SHOPPING IN KASHMIR
سی این ایس

سرینگر؍؍سنت ابراہیمی کی ادائیگی کے لیے وادی بھر کی مویشی منڈیوں میں گہما گہمی بڑھتی جا رہی ہے تاہم خریدار اور بیوپاری دونوں ہی بڑھتی ہوئی مہنگائی سے نالاں نظر آرہے ہیں، تاہم سال بہ سال جانورں کی قیمتوں میں اضافے نے قربانی کے فریضے کے سلسلے میں تو کمی نہیں کی ۔سی این ایس کے مطابق عید الاضحی کی آمد آمد کے سلسلے میںبازاروں میں چہل پہل بڑھنے لگی وہیں شہر سرینگر میں جگہ جگہ قربانی کے جانور نظر آ تے ہیں جبکہ اس سلسلے میں روایتی طور قربانی کے جانوروں کی سب سے بڑی تاریخی عید گا ہ میں قائم کی گئی ہے جہاں روزانہ لاکھوں روپے مالیت کے قربانی کے جانور فروخت کئے جا تے ہیں۔ اس سال درجنوں کی تعداد میں اونٹ بھی قربانوی کیلئے رکھے گئے ہیں۔ چونکہ شوق کا کوئی مول نہیں ہوتا اس لیے کہیں کوئی خریدار بکروں کے دانت پرکھتا دکھائی دے رہا ہے تو کسی کی تمام تر توجہ اس کے وزن اور خوبصورتی پر ہے، خریدار تگڑے جانور دیکھ کر خوشی کا اظہار تو کرتے ہیں لیکن جب ان کی قیمتیں سنتے ہیں تو ساری خوشی کافور ہوجاتی ہے۔مگر بیوپاریوں کو بھرپور توقع ہے کہ جیسے جیسے عید قریب آئے گی خریداروں کی تعداد میں اور اضافہ ہوگا اور ساتھ ہی وہ یہ دلاسہ بھی دیتے ہیں کہ آخری چند روز میں قیمتوں میں کمی آسکتی ہے۔ سرینگر میں اونٹ ، بھیڑ،گائیں اور بکرے لائے جا چکے ہیں، مگر ہوشربا قیمتوں کے باعث اکثر لوگ صرف انہیں دیکھ کر ہی گزارا کر رہے ہیں۔منڈی میں پیر پنچال کے اضلاع سے خوبصورت اور صحت مند مویشی فروخت کے لیے لائے گئے ہیں۔بیوپاریوں کا کہنا ہے کہ مہنگے چارے اور مہنگے کرایوں کے باعث سستا بیچنا ممکن ہی نہیں اور اگر نہیں بکا تو مال واپس لے جانے کو ترجیح دیں گے، دوسری جانب شہریوں کا کہنا ہے کہ مہنگے جانوروں کے باعث اس سال سنت ابراہیمی کی پیروی مشکل ثابت ہو رہی ہے۔خریداروں کا کہنا ہے کہسڑک کنارے منڈیوں میں قیمتیں ایک جیسی ہیں مگر وقت اور کرایہ مد نظر رکھیں تو گھر کے قریب منڈیوں سے سودا برا نہیں،عید قرباں کی مناسبت سے قصائیوں کی بھی چاندی ہوگئی ہے، جو نہ صرف منہ مانگے ریٹ وصول کر رہے ہیں بلکہ ان کے نخرے بھی آسمان پر ہیں۔ادھرعیدالاضحیٰ پر قربانی کے جانوروں کی خرید و فروخت کے لیے شہر ودیہات میں بکرا منڈی قائم کی گئی ہے، عید میں کچھ ہی روز باقی رہنے کے باوجود بکرا منڈی میں ابھی خریدار کم اور بیوپاری حضرات زیادہ دکھائی دیتے ہیں اور جو خریدار منڈی میں آرہے ہیں وہ بھی جانوروں کی زیادہ قیمتوں کا رونا روتے دکھائی دیتے ہیں۔ جانوروں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہے جس کے باعث لوگوں کو قربانی کے لیے جانور خریدنے میں مشکلات کا سامنا ہے اسی طرح جانوروں کی سجاوٹ بھی پورے عروج پر پہنچ گئی ہے، خاص طور پر بچے تو اپنے بکروں یا بیلوں کو سجا سنوار کر اپنے دوستوں میں اپنی ناک اونچی کرنے کے خواہش مند ہیں، شہریوں کا کہنا ہے کہ قربانی کے جانوروں کو سجانے سنوارنے کا عمل ایثار کے جذبے کا اظہار ہے۔عیدالاضحیٰ محض چند دن کی دوری پر ہے اور ایسے وقت میں کانگو وائرس کے حوالے سے بھی احتیاطی تدابیر سے آگاہی کی مہم چلائی جارہی ہے کیونکہ اس سیزن میں یہ مرض کافی عام ہوجاتا ہے۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

شکیب الحسن خصوصی کلب میں شامل ہوئے

0

 

 

یواین آئی

ڈھاکہ؍؍دنیا کے نمبر ایک آل راونڈر بنگلہ دیش کے شکیب الحسن اپنے 50 ویں ٹسٹ میں 10 وکٹ لینے کا اعزاز حاصل کرنے والے گیندبازوں کے خصوصی کلب میں شامل ہوگئے ۔ شکیب نے آسٹریلیا کے خلاف بدھ کو اپنی ٹیم کی تاریخی جیت میں کل 153 رن پر 10 وکٹ حاصل کرکے اہم کردار ادا کیا۔شکیب ٹسٹ کی تاریخ میں اپنے 50 ویں ٹسٹ میں 10 سے زیادہ وکٹ حاصل کرنے والے پانچویں گیندباز بن گئے ہیں۔ اس سے قبل انگلینڈ کے ٹریور بیلی نے اپنے 50 ویں ٹسٹ میں 98 رن پر 11 وکٹ، نیوزی لینڈ کے رچرڈ ہیڈلی نے 102 رن پر 10 وکٹ، سری لنکا کے متھیا مرلی دھرن نے 148 رن پر دس وکٹ اور ہندوستان کے ہربھجن سنگھ نے 141 رن پر 10 وکٹ حاصل کیے تھے ۔ شکیب 153 رن پر دس وکٹ حاصل کرکے اس خصوصی کلب میں شامل ہوگئے ہیں۔ شکیب نے اس میچ میں نصف سنچری بنانے کے علاوہ دس وکٹیں حاصل کیں۔ وہ ایک سے زیادہ یہ کارنامہ انجام دینے والے دنیا کے دوسرے کرکٹ کھلاڑی بن گئے ہیں۔بنگلہ دیش نے اپنے 101 ٹسٹ میچوں میں یہ 10 ویں جیت حاصل کی ہے ۔ بنگلہ دیش کے ہاتھوں شکست کا سامنا کرنے والی آسٹریلیا پانچویں ٹیم ہے ۔ بنگلہ دیش نے زمبابوے کو پانچ مرتبہ ، ویسٹ انڈیز کو دو مرتبہ اور انگلینڈ اور سری لنکا کو ایک ۔ ایک مرتبہ شکست دی ہے ۔

 

FacebookTwitterWhatsAppShare

پی سی بی نے شرجیل پر لگائی پانچ برسوں کی پابندی

0

شرجیل خان لاہورمیں انسداد رشوت ستانی ٹربیونل کے سامنے پیش ہونے آتے ہوئےیواین آئی

کراچی؍؍پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے اوپنر شرجیل خان کو اس برس پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) ٹونٹی۔20 ٹورنامنٹ میں اسپاٹ فکسنگ میں ملوث ہونے کا قصوروار پائے جانے کے بعد ان کے کرکٹ کے کسی بھی فارمیٹ میں حصہ لینے پر پابچ برس کی پابندی عائد کردی ہے ۔ شرجیل پر پی سی بی کی انسداد بدعنوانی ضابطے کی خلاف ورزی کرنے کے پانچ بڑے الزام تھے اور بورڈ کی تین رکنی جانچ ٹیم نے انہیں ان سبھی معاملوں میں قصوروار پایا تھا۔ شرجیل کی ان پانچ برسوں کی پابندی میں ڈھائی برس معطلی کی پابندی ہوگی۔ جس کا مطلب ہے کہ وہ سال 2019 کے دوسرے حصے سے پہلے میدان پر واپسی نہیں کرسکیں گے ۔ واضح رہے کہ ان الزامات کے لئے ان پر پانچ برس سے لیکر تاحیات پابندی تک کی سزا کا التزام ہے لیکن انہیں یہ کم سے کم سزا دی گئی ہے ۔ حالانکہ شرجیل کے وکیل شیگن اعجاز نے کہا کہ وہ اس پابندی کے خلاف اپیل کریں گے ۔ اعجاز نے کہا ‘ہمیں امید تھی شرجیل کو بے قصور ثابت کردیا جائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ہم اس اس پابندی کے خلاف اپیل کریں گے ۔ جتنا ہمیں معلوم ہے تین سنگین الزامات تو پوری طرح ثابت بھی نہیں ہوپائے ہیں۔ ایسے میں ہم تفصیلی رپورٹ ملنے کے بعد اگلے 14 دنوں کے اندر اس کے خلاف اپیل دائر کریں گے۔ شرجیل کی پابندی کی مدت کار اس وقت سے شروع ہوگی جب سے ان پر پہلی بار پابندی لگادی گئی تھی۔ پی ایس ایل میں اسلام آباد یونائیٹیڈ کی طرف سے کھیلنے والے شرجیل پر پہلی بار اسی برس 10 فروری کو پابندی لگائی گئی تھی ۔ ان پر یہ پابندی ٹیم کے ساتھی خالد لطیف کے ساتھ لگائی گئی تھی۔ انہیں یہ معاملے سامنے آنے کے بعد یو اے ای میں چل رہی پی ایس ایل لیگ سے ہی واپس وطن بھیج دیا گیا تھا۔

FacebookTwitterWhatsAppShare

اپنی سرزمین پر بڑا پھیر بدل!

0

بنگلہ دیش کی آسٹریلیا پر تاریخی جیت

Image result for bangladesh beats australia

یواین آئی

  • ڈھاکہ؍؍شکیب الحسن (85 رن پر پانچ وکٹ) کی ٹسٹ میں دوسری بہترین کارکردگی کی بدولت بنگلہ دیش نے اپنی سرزمین پر بڑا پھیر بدل کرتے ہوئے پہلے کرکٹ ٹسٹ کے چوتھے دن بدھ کو آسٹریلیا کے خلاف اپنی پہلی تاریخی جیت حاصل کی۔ حالانکہ آسٹریلیائی ٹیم نے دلچسپ مقابلے میں تیسرے دن میچ پر اپنی گرفت مضبوط کرلی تھی لیکن چوتھے دن میزبان ٹیم کی گیند بازی نے مقابلے کے نتیجے کو ہی بدل کر رکھ دیا اور 365 رن کے ہدف کا تعاقب کررہی کنگارو ٹیم کو 70 اعشاریہ 5 اووروں میں 244 رن پر ڈھیر کرکے چار دنوں کے اندر ہی 20 رن سے میچ جیت لیا۔ بنگلہ دیش کی آسٹریلیا پر یہ پہلی ٹسٹ جیت بھی ہے ۔ دنیا کے اسٹار آل راؤنڈر شکیب نے مین آف دی میچ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کیریئر میں دوسری بات پانچ وکٹ حاصل کرنے کی کامیابی حاصل کی ہے اور 28 اووروں میں 85 رن پر پانچ وکٹ لیکر آسٹریلیائی بلے بازوں کو آسان ہدف تک بھی پہنچنے نہیں دیا۔ اگرچہ شیر بنگال اسٹیڈیم میں آسٹریلیائی ٹیم کے کل کے ناٹ آؤٹ بلے بازوں ڈیوڈ وارنر (112) اور کپتان اسٹیون اسمتھ (37) نے 130 رنوں کی اہم سنچری والی شراکت داری ادا کی لیکن ان کی یہ کوشش ٹیم کو فتح سے ہمکنار نہ کرسکی اور بنگلہ دیش نے سیریز میں 1۔0 کی برتری حاصل کرلی۔ آسٹریلیا نے صبح میچ میں کل کے 109 رن پر دو وکٹ سے آگے کھیلنا شروع کیا تھا اور میچ میں اس کی حالت پوری طرح کنٹرول میں تھی۔ بلے باز وارنر 75 اور اسمتھ 25 رن بناکر کریز پر تھے اور ٹیم آٹھ وکٹ باقی رہتے ہوئے جیت سے صرف 156 رن ہی دور تھی لیکن میچ کا چوتھا دن پوری طرح بنگلہ دیشی گیند بازوں کے نام رہا جنہوں نے مہمان ٹیم کے باقی کے آٹھ وکٹ صرف 86 رنوں کے اندر ہی گرادیئے ۔ اگرچہ وارنر اور کپتان اسمتھ نے اپنی اپنی اننگز کو صبر سے آگے بڑھانے کی کوشش کی ۔ وارنر نے 135 گیندوں میں 16 چوکے اور ایک چھکے کی مدد سے 112 رن کی سنچری والی اننگز کھیلی۔ وارنر نے اپنی 19 ویں ٹسٹ سنچری بھی مکمل کی اور تیسرے وکٹ کے لئے اسمتھ کے ساتھ 130 رنوں کی اہم شراکت داری بھی کی۔ ایک وقت دونوں بلے باز آسٹریلیا کو 28 رن پر دو وکٹ سے 158 تک لے گئے لیکن تبھی حسن نے وارنر کو ایل بی ڈبلیو کرکے اس شراکت داری کو توڑ دیا اور دن کا پہلا وکٹ بھی حاصل کیا۔ تقریباً چار اوور بعد کپتان اسمتھ نے مشفق الرحیم کو گیند تھماکر پویلین کی راہ لی۔ اسمتھ نے 99 گیندوں میں تین چوکے لگاکر 37 رنوں کا اضافہ کیا۔ اس کے بعد ٹیم کے باقی بلے باز ڈٹ کر کھڑے رہنے کی ہمت نہیں دکھا سکے اور آسٹریلیائی ٹیم وقفے وقفے پر وکٹ گنواتی رہی۔ پیٹر ہینڈس کونب 15 رن ہی بناسکے ۔ تجمل الاسلام نے انہیں سومیہ سرکار کے ہاتھوں کراکر آسٹریلیا کا پانچواں وکٹ گرایا۔ آسٹریلیائی ٹیم نے صبح کے سیشن میں اپنے پانچ وکٹ سستے میں ہی گنوادیئے اور لنچ کے بعد گلین میکسویل کو شکیب نے اپنی پہلی ہی گیند پر بولڈ کرکے باقی ماندہ امیدیں بھی ختم کردیں۔ میکسویل نے 25 گیندوں میں دو چوکے لگاکر صرف 14 رن بنا پائے ۔ اس کے بعد وکٹ کیپر میتھیو ویڈ چار رن بناکر شکیب کی ہی گیند پر ایل بی ڈبلیو ہوئے ۔ ایشٹن ایگر کو دو رن پر تجمل الاسلام نے اپنی ہی گیند پر کیچ کرلیا اور 195 کے اسکور پر آسٹریلیا کے سات بلے باز کوواپس پویلین جانا پڑا۔ پیٹ کمنس 33 رن بناکر ناٹ آؤٹ پویلین لوٹے ۔ انہوں نے 55 گیندوں میں تین چوکے اور دو چھکے لگائے ۔ لیکن دوسرے سرے پر انہیں کھلاڑیوں سے کوئی مدد نہیں ملی اور ناتھن لیون کو مہدی حسن معراج نے 12 رن اور جوش ہیزل وڈ کو تجمل نے صفر پر آؤٹ کرکے بنگلہ دیش کی آسٹریلیا پر پہلی تاریخی فتح دلادی۔ بنگلہ دیشی آل راؤنڈر شکیب نے اپنے 50 ویں ٹسٹ کا جشن 85 رن پر پانچ وکٹ لیکر منانا۔ انہوں نے پہلی اننگز میں 84 رن بھی بنائے اور میچ میں کل 10 وکٹ لیکر میزبان ٹیم کے سب سے کامیاب کھلاڑی رہے اور دنیا کے نمبر ایک ٹسٹ آل راؤنڈر کے درجے کو صحیح ثابت کیا۔ میچ میں ایشیا میں اپنا دوسرا اورمجموعی 19 ویں ٹسٹ سنچری بنانے والے آسٹریلیائی اوپنر وارنر کو چھوڑکر باقی سبھی بلے بازوں نے کافی جدو جہد کی اور وہ ٹرننگ وکٹ پر بنگلہ دیشی ٹیم کے تینوں اسپنروں کے سامنے کافی کمزور ثابت ہوئے ۔ پیٹر ہینڈس کونب ، میتھیو ویڈ اور ایشٹن ایگر لنچ سے پہلے یکے بعد دیگرے پویلین لوٹ گئے ۔ کمنس نے اپنی اننگز میں چند چھکے لگانے کی کوشش کی لیکن تجمل نے ہیزل وڈ کو آؤٹ کرکے ان کے پاس کوئی ساجھیداری نہیں چھوڑی۔ بنگلہ دیش کی جانب سے شکیب کے علاوہ تجمل الاسلام نے 19 اعشاریہ 5 اووروں میں 60 رن پر تین وکٹ لئے نیز مہدی حسن معراج نے 80 رن پر دو وکٹ حاصل کئے ۔ اگر اب آسٹریلیا سیریز میں برابری کر بھی لیتی ہے تو اس شکست کا اس کی ٹسٹ رینکنگ پر خاصہ اثر پڑے گا اور وہ کھسک کر پانچویں نمبر آجائے گی اور اگر وہ پیر سے چٹگاؤں میں ہونے والا دوسرا میچ بھی ہار جاتی ہے تو وہ چھٹے نمبر پر پہنچ جائے گی۔مختصر اسکور:۔بنگلہ دیش پہلی اننگز 260 رن،دوسری اننگز 261 رن،آسٹریلیا پہلی اننگز 217 رن؛دوسری اننگز 244 رن؛۔
FacebookTwitterWhatsAppShare

دھونی 300ویں ون ڈے کو یادگار بنانے اتریں گے

0

یواین آئی

 

  • کولمبو؍؍تجربہ کار وکٹ کیپر بلے باز مہندر سنگھ دھونی جمعرات کو جب سری لنکا کے خلاف سیریز کے چوتھے ون ڈے میچ میں اتریں گے تو ان کے نام اپنے کیریئر میں 300 ون ڈے میچ کھیلنے کا ریکارڈ بھی درج ہوجائے گا۔ ہندوستان اور سری لنکا کے مابین پانچ میچوں کی سیریز کو مہمان ٹیم پہلے ہی تین ۔صفر سے اپنے نام کر چکی ہے اور فی الحال اس کے لئے جمعرات کو کولمبو میں ہونے والا چوتھا میچ نتیجہ کے لحاظ سے اہم نہیں ہے لیکن اس میچ کے بعد سابق کپتان دھونی ون ڈے میں اپنے 300 میچوں کو مکمل کرلیں گے ۔ دھونی نے موجودہ ون ڈے سیریز میں ایک مرتبہ پھر اپنی اہمیت کو ثابت کرتے ہوئے میچ فاتح اننگز کھیلی ہیں اور وہ زبردست فارم میں ہیں۔ اب تک انہوں نے 299 میچوں میں 51.93 کے اوسط سے شاندار 9608 رنز بنائے ہیں، جن میں 10 سنچری اور 65 نصف سنچری شامل ہیں۔ اس میں ناٹ آؤٹ 183 رنز کی بہترین اننگز ہے جو ہندوستانی کھلاڑی نے 31 اکتوبر 2005 کو جے پور ون ڈے میں سری لنکا کے خلاف ہی بنائی تھی۔ کپیل دیو کے بعدملک کو عالمی کپ کا خطاب دلانے والے دوسرے کپتان دھونی کے نام ون ڈے کیرئیر میں کئی ریکارڈ درج ہیں۔ انہوں نے موجودہ سیریز میں ہی دو ریکارڈ اپنے نام کر لئے ہیں جس میں دوسرے ون ڈے میں انہوں نے کمار سنگاکارا کی 99 اسٹمپنگ کے ریکارڈ کی برابری کر لی ہے اور اب 300 ویں میچ میں ان کے پاس سنگاکارا کو پیچھے چھوڑنے کا بھی موقع رہے گا اور ساتھ ہی وہ وکٹ کے پیچھے 100 کھلاڑیوں کو آوٹ کرنے کے معاملے میں ون ڈے کے پہلے وکٹ کیپر بھی بن جائیں گے ۔ دنیا کے بہترین فنیشروں میں سے ایک دھونی ون ڈے میں 72 مرتبہ ناٹ آوٹ رہے ہیں اور وہ جنوبی افریقہ کے شان پولک اور سری لنکا کے چمنڈا واس کے ساتھ مشترکہ طور پر یہ اعزاز حاصل کرنے والے کھلاڑی ہیں ۔ دھونی اگر اس اعداد و شمار میں ایک اور ناٹ آوٹ رہنے کا اضافہ حاصل کر لیتے ہیں تو ان کے نام ون ڈے میں سب سے زیادہ ناٹ آوٹ رہنے کا عالمی ریکارڈ بھی شامل ہو جائے گا۔ دھونی نے سری لنکا کے خلاف موجودہ ون ڈے سیریز میں دو بار ناٹ آوٹ رہتے ہوئے ٹیم کے لئے شاندار میچ فاتح اننگ کھیلی ہیں۔ دھونی اس سیریز سے پہلے ون ڈے کرکٹ میں اپنے 300 میچوں سے چار قدم دور تھے جبکہ اب وہ چوتھے ون ڈے میں اترنے کے ساتھ ہی ون ڈے میچوں کی ٹرپل سنچری بھی مکمل کر لیں گے اور یہ کامیابی حاصل کرنے والے وہ چھٹے ہندوستانی بلے باز بن جائیں گے ۔ ان سے پہلے سچن تندولکر 463 میچوں کے ساتھ پہلے (دنیا میں بھی پہلے )، راہل دراوڑ (340)، محمد اظہرالدین (334)، سوربھ گانگولی (308) اور یوراج سنگھ (301) ون ڈے میں 300 میچ کھیل چکے ہیں۔ دھونی کے سلسلے میں سب سے اچھی بات یہ ہے کہ وہ دباؤ کے حالات میں جم کر کھیلتے ہیں۔ انہوں نے ٹیم کو اپنی شاندارکارکردگی سے کئی اہم یادگار جیت دلائی ہے ۔ دھونی کی صلاحیت پر چیف سلیکٹر ایم ایس کے پرساد نے حال ہی میں سوال اٹھائے تھے لیکن سابق سلامی بلے باز وریندر سہواگ کی نظر میں دھونی اب بھی بہترین کرکٹر ہیں اور انہیں کم سے کم 2019 کے عالمی کپ تک ٹیم کے ساتھ رہنا ہی چاہیے ۔
FacebookTwitterWhatsAppShare

چوتھاون ڈے آج

0

زخمی سری لنکا کے خلاف ہندوستان جیت کا سلسلہ قائم رکھے گا

یواین آئی

کولمبو؍؍وراٹ کوہلی کی کپتانی والی ہندوستانی کرکٹ ٹیم یک روزہ سیریز پر 3۔0 سے پہلے ہی قبضہ کرچکی ہے اور کھلاڑیوں کی چوٹوں اور ناقص کارکردگی کے لئے چوطرفہ تنقید کا نشانہ بننے والی سری لنکا کرکٹ ٹیم کے خلاف وہ جمعرات کو یہاں چوتھے ون ڈے میں بھی اپنی جیت کا سلسلہ قائم رکھنے اترے گی۔ ہندوستان نے ٹسٹ سیریز میں سری لنکا کے خلاف 3۔0 سے کلین سویپ کیا تھا اور اب وہ ون ڈے سیریز میں بھی اس کامیابی سے دو میچ دور ہے ۔ دوسری طرف سری لنکائی ٹیم مسلس شکست کی وجہ سے خود اعتمادی پیدا نہیں کر پا رہی ہے اور اس کی غلطیاں مسلسل جاری ہیں۔ سری لنکا کے لئے اس سیریز میں کم سے کم دو میچ جیتنا 2019 کے عالمی کپ کے لئے سیدھے کوالیفائی کرنے کے لحاظ سے بھی ضروری تھا لیکن وہ اپنے گھریلو میدان پر بھی اس مقصد کو پورا نہیں کرسکی۔ وہیں ٹیم انڈیا نے ون ڈے میں اپنی نوجوان بریگیڈ کے ساتھ بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جیت حاصل کی ہے ۔ ہندوستان نے پلے کیل میں تیسرا ون ڈے چھ وکٹ سے جیتا تھا جہاں ایک بار پھر ‘مسٹر فنیشر’ سابق کپتان مہندر سنگھ دھونی نے سب سے واہ واہی حاصل کی۔ سیریز سے پہلے تک ٹیم میں اپنی جگہ کے لئے سوالوں میں گھرے دھونی نے ناٹ آؤٹ 67رن کی اننگز سے جیت میں تعاون دیا تو دوسرے ون ڈے میں بھی ان کی ناٹ آؤٹ 45 رن کی اننگز میچ کو فتح دلانے میں اہم رہی تھی۔ 36سالہ دھونی یقینی طور پر ٹیم کے تجربہ کار اور اہم کھلاڑی ہیں اور ان کی فارم نے ان پر سوال اٹھانے والوں کی زبان بند کردی ہے لیکن خود وکٹ کیپر بلے باز پر بھی بہتر کارکردگی بنائے رکھنے کا دباؤ ضرور ہے اور کولمبوں میں جب وہ اپنے کیریئر کے 300 ویں ون ڈے کھیلنے اتریں گے ۔ ان سے اس میچ کو یادگار بنانے کے لئے بہترین کاکردگی کی امید کی جاسکتی ہے ۔ گزشتہ کچھ میچوں میں وراٹ کے بلے بازی آرڈر میں کچھ تبدیلیاں کے لئے ان پر سوال اٹھے لیکن ٹیم کی جیت سے حوصلہ مند کپتان نے واضح کردیا کہ وہ اس طرح کا تجربہ جاری رکھیں گے تاکہ باقی کھلاڑیوں کو موقع مل سکے ۔ انہوں نے کہا تھا کہ ٹیم میں سبھی 15 کھلاڑی میچ جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ حالانکہ تیسرے میچ کے لئے ٹیم میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی تھی لیکن اس سے پہلے کپتان نے خود کو بلے بازی آرڈر میں پانچویں مقام پر کھسکا دیا تھا۔ ویسے پہلے دانبولہ ون ڈے میں ناٹ آؤٹ 82 رن کی اننگز کے بعد سے پچھلے دو میچوں میں وراٹ نے 4 اور 3 رن کی مایوس کن اننگز کھیلی ہیں اور کولمبو میں وہ بلے سے بہتر رن بنانے کی کوشش کریں گے ۔ وراٹ کے علاوہ روہت شرما، شکھر دھون، لوکیش راہل اور مڈل آرڈر میں دھونی، ہاردک پانڈیا اور بھونیشور کمار اچھے کھلاڑی ہیں اور کسی بھی حالت میں ٹیم کو جیت تک لے جاسکتے ہیں۔ دوسرے ون ڈے میچ میں ٹیم کو ہدف تک لے جانے میں نویں نمبر کے بلے باز بھونیشور نے اہم کرداد ادا کیا تھا اور ناٹ آؤٹ 53 رن کی نصف سنچری والی اننگز سے نشانہ حاصل کرنے میں مدد کی تھی۔ اس میچ میں سری لنکا کے گیند باز اکیلادھننجے نے اپنی مشکل گیندوں سے سبھی کو پریشان ضرور کیا تھا لیکن ایک میچ کے بعد ہی محسوس ہورہا ہے کہ ٹیم انڈیا کے بلے بازوں نے دھننجے کی تکنیک کو سمجھ لیا ہے ۔ وہیں ہندوستان کے پاس بلے بازوں کے ساتھ ساتھ گیند بازی کا بھی بہترین آرڈر بھی موجود ہے ۔ تیسرے ون ڈے میں 10 اووروں میں 27 رن پر پانچ وکٹ کی زبردست گیند بازی کرنے والے جسپریت بمراہ اب تک ون ڈے سیریز میں 8 اعشاریہ 36 کی اوسط سے 11 وکٹ لیکر سب سے کامیاب گیند باز بھی رہے ہیں۔ وہیں یوجویندر چہل، اسپنر اکشر پٹیل اور کیدار جادھو نے بھی اطمینان بخش کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے ۔ ٹسٹ سیریز میں پانچ وکٹ لینے والے چائنا مین گیند باز کلدیپ یادو بھی جمعرات کو سری لنکا میں سیریز کا پہلا ون ڈے کھیلنے اترسکتے ہیں اور امید ہے کہ وہ اپنی اسی طرح کی کارکردگی سے ٹیم کو متاثر کریں گے ۔ 22 سالہ گیند باز کو کپتان وراٹ کوہلی کی کافی حمایت حاصل ہے اور ان کی کوشش ہوگی کہ وہ کپتان کے بھروسے کو قائم رکھیں۔ ہندوستانی ٹیم سیریز پر بھلے ہی قبضہ کرچکی ہے لیکن اس کی کوشش ہوگی کہ وہ کسی غلطی کے بغیر سو فیصد کارکردگی کا مظاہرہ کرے ۔ اکیلا کا سامنا کرنے کے لئے ایک بار پھر مہمان ٹیم بہتر حکمت عملی کے ساتھ اتر سکتی ہے تو تجربہ کار گیند باز لست ملنگا، وشوا فرنانڈو بھی ہندوستانی بلے بازوں کو روکنے میں اہم ثابت ہوسکتے ہیں۔ حالانکہ سری لنکاکے کھلاڑیوں کے زخمی ہونے کا سلسلہ جاری ہے اور ون ڈے میں بلائے گئے ٹسٹ کپتان دنیش چانڈی مل کو ہیئرلائن فیکچر کی وجہ سے سیریز سے ہی باہر ہوجانے کے بعد نگراں کپتان چامرا کاپوگیدرا کا بھی چوتھے ون ڈے میں کھیلنا مشکوک ہے ۔ اگر وہ بھی میچ سے باہر ہوجاتے ہیں تو وہ سری لنکا کے پانچویں کھلاڑی ہوں گے جو میچ کے لئے دستیاب نہیں ہوں گے ۔ اگر کاپوگیدرا نہیں کھیلتے تو سری لنکائی ٹیم کو ایک اور نیا کپتان تلاش کرنا ہوگا۔اپل ترنگا پر دو میچ کی پابندی ہے اور وہ چوتھے ون ڈے سے بھی باہر رہیں گے جبکہ سری لنکائی کھلاڑیوں میں پہلے دانشکا گنا تھیلاکا کندھے کی تکلیف سے ، وکٹ کیپر بلے باز کشل پریرا اور بلے بازی کے آل راؤنڈر اسیل گنا رتنے بھی چوٹوں کی وجہ سے سیریز سے باہر ہوچکے ہیں۔ حالانکہ چوٹوں سے پریشان اور سلیکٹروں کے استعفے سے سری لنکائی کرکٹ میں پیدا ہوئے ہنگامے کے درمیان ٹیم جیت سے اس طوفان کو پرسکون کرنے کے لئے اس بار الٹ پھیر کرسکتی ہے ۔

FacebookTwitterWhatsAppShare
Exit mobile version