الرئيسية بلوق الصفحة 11

مہور میںبلورو گاڑی کا المناک سڑک حادثہ

0

باپ بیٹی سمیت چار لقمہ اجل ،دو شدید زخمی، علاقے میں صف ماتم

شاہ نواز

ریاسی؍؍ضلع ریاسی کے مہور میں ایک بلورو گاڑی کے المناک حادثہ میں چار انسانی جانوں کا ضیاء ہوا ہے اور دودیگر اس وقت ہسپتال میں تشویش ناک حالت میں زیرعلاج ہیں۔اطلاعات کے مطابق ایکبلوروگاڑی جو ریاسی سے مہور کی جانب سفر کر رہی تھی اور مہور سب ڈویژن کے صدر مقام سے چند ہی کلومیٹر دور زیارت موڑ کے قریب گاڑی ڈرائیور کے قابو سے باہر ہو کر تقریباً دوسو میٹر

https://reasi.nic.in/

نیچے گہری کھائی میں گری جس کے نتیجے میں تین افرادموقع پر ہی لقمہ اجل بن گئے جبکہ تین زخمیوں کو سی ایچ سی مہور پہنچایا گیا جنہیں ابتدائی طبی امداد فراہم کرنے کے بعد ضلع ہسپتال ریاسی منتقل کیا گیا جہاں پر ایک زخمی زندگی کی جنگ ہار گیا۔
وہیںضلع ہسپتال ریاسی سے ایک دس سالہ بجی ارتقاء منظور اور ٹیچر شبیر احمد کو جی ایم سی جموں منتقل کیا گیا۔ آخری جانکاری ملنے تک شدید زخمی ٹیچر شبیر احمد کو جی ایم سی جموں سے پی جی ائی چندی گڑھ کے لئے منتقل کیا گیا تھا۔ دریں اثناء اس سڑک حادثے میں ازجان ہونے والوں کی پہچان ٹیچر منطور احمد ولد عبدالرشید ساکنہ دیول گلاب گڑھ اور اْن کی 8سالہ بیٹی اْلفت جان، بشیر احمد ولد غلا م دین (ڈرائیور) ساکن دیول، غلام محی الدین ولد غلام محمد ساکن لدھ گلاب گڑھ کے طور پر ہوئی ہیں۔ وہیںزخمیوں کی پہچان ٹیچر شبیر احمد ولد عبدللہ ناگ ساکن دیول اور ارتقاء منظور دختر منظور احمد ساکن دیول کے طور پر ہوئی ہے۔تاہم دلدوز سڑک حادثے کی وجہ سے علاقے میں صف ماتم ہے۔

https://lazawal.com/?cat=

باتوں کا وقت ختم ،کام کرنے کا وقت شروع:وزیر اعلی عمر عبداللہ

0

پانچ اگست2019ئ؁کے فیصلے کے خلاف اسمبلی میں پاس ہوئی قرارداددِلی اوردُنیاکوایک واضح پیغام

مختار احمد

گاندربل؍؍وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کہا کہ دفعہ 370 کی تنسیخ کے فیصلے پر جموں کشمیر اسمبلی میں پاس کی گئی قراردادمرکز اور دنیا کے لئے ایک واضح پیغام ہے کہ جموں کشمیر کے لوگ کیا چاہتے ہیں اور یہ فیصلہ انہیں منظور نہیں ہے۔وزیر اعلی عمر عبداللہ آج حالیہ اسمبلی انتخابات میں اپنی جیت کے بعد بحیثیت وزیر اعلی گاندربل کے پہلے دورے پر تھے جس دوران انہوں نے پاری بل ٹاکنواری میں ایک پل کا سنگ بنیاد رکھا جو شیر پتھری علاقوں کو ٹاکنواری سے سری نگر سے جوڑے گا۔انہوںنے اس موقع پر کہا کہ اب باتوں کا وقت ختم ہوچکا ہے اور اب کام کرنے کا وقت ہے۔

https://x.com/OmarAbdullah
اس موقعے پر عوامی جلسے سے اپنے خطاب میں عمر عبداللہ نے کہا کہ جو فیصلہ پانچ اگست 2019 ئ؁کو مرکزی سرکار نے کیا تھا وہ ہمیں کسی بھی صورت میں منظور نہیں ہے اور یہ فیصلہ ان کی مرضی اور بغیر کسی مشورے کے لیا گیا ۔انہوں نے کہا کہ اسمبلی کے موجودہ سیشن میں دفعہ 370 کی منسوخی پر جو قرارداداسمبلی میں پاس ہوئی اس سے مرکزی سرکار اور دنیا کو ایک واضح پیغام گیا کہ یہاں کی عوام کیا چاہتی ہے۔انہوں نے کہا کہ مرکز کو اب ہم سے اس حوالے سے بات کرنی ہوگی۔ وزیر اعلی نے کہا کہ کچھ لوگوں نے انہیں اسمبلی کے پہلے دن ہی یہ ریزولیوشن نہ لانے پر تنقید کا نشانہ بنایا تاہم انہوں نے کہا کہ ہم قاعدے اورقانون جانتے ہیں کہ کب کیا کرنا ہے اور اگر ہم نے پہلے ہی دن یہ ریزولیوشن لایا ہوتا تو اس کو مرکز ردی کی ٹوکری میں ڈالتا لیکن اب ایسا نہیں ہوگا بلکہ مرکز کو اس پر غور کرنا ہوگا۔
عمر عبداللہ نے کہا جو وعدے انہوں نے اپنے انتخابات کے دوران کئے ان کا ذکر ایل جی منوج سنہا نے حالیہ اسمبلی سیشن کے اپنے تقریر میں کیا۔انہوں نے مزید کہا کہ طالب علموں کے امتحانات سیشن میں بھی تبدیلی لائی گئی۔عمر عبداللہ نے کہا کہ گاندربل کے عوام نے ایک بار پھر بھروسہ کیا اور وہ اس بھروسے کو نہیں ٹوٹنے دیں گے۔انہوں نے کہا وہ فتح پورہ گاندربل میں ریسٹ ہائوس میں اپنا ایک آفس قائم کریں گے جہاں ہفتے میں ایک دن وہ موجود رہیں گے جبکہ ان کے مشیر ناصر اسلم اور مبشر شاہ بھی ہفتے میں ایک ایک دن لوگوں کی مسائل سنیں گے۔
عمر عبداللہ نے کہا کہ ان کی سرکار یوٹی کی دونوں خطوں کے یکساں ترقی کے متمنی ہیں اور وہ ہر صورت میں عوام کو بنیادی سہولیات دستیاب رکھیں گے۔اس موقعے پر پر نائب وزیر سریندر چودھری ،ناصر اسلم وانی،شیخ غیاس الدین،ڈی ڈی سی چیر پرسن نزہت اشفاق،ڈی ڈی سی ڈپٹی چیئر پرسن بلال احمد کے علاوہ کئی صوبائی اور ضلعی افسران بھی موجود تھے۔

https://lazawal.com/?cat=

وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے پریبل ۔ تکنواری پُل کا سنگ بنیاد رکھا

0

کہا،میں یہاں خالی ہاتھ نہیں آیا ہوں بلکہ گاندربل کی ترقی کے عزم کے ساتھ آیا ہوں

شاہ ہلال

گاندربل؍؍وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے آج نالہ سندھ پر پریبل۔ تکنواری پل کا سنگ بنیاد رکھا جو گاندربل میں بنیادی ڈھانچے اور رابطے کو بڑھانے کی سمت میں ایک اہم قدم ہے۔یہ 50 میٹر سنگل سپین سٹیل ٹرسڈ گرڈر برج جس میں 7.5 میٹر چوڑا کیریج وے ہے، نبارڈ آر آئی ڈی ایف۔ایکس ایکس آئی ایکس اقدام کا حصہ ہے اوریہ پُل پریبل کو تکنواری سے جوڑے گا۔یہ پُل ایک بار مکمل ہونے کے بعدشالہ بُگ اوربٹہ مالو کے درمیان سفری فاصلہ کو کم کر کے موجودہ 35کلومیٹر کے راستے سے دودرہامہ ۔ بیہامہ ۔ گاندربل کے ذریعے 15 کلومیٹر تک کم کرے گا۔پُل پروجیکٹ جس کا بجٹ 1509.95 لاکھ روپے ہے اوراِس میں 1.7 کلومیٹر طویل رابطہ سڑک بھی شامل ہے۔ توقع ہے کہ یہ تین برس میں مکمل ہوجائے گی۔

https://x.com/OmarAbdullah
یہ نیا راستہ نہ صرف آواجاہی کو بہتر بنائے گا بلکہ اس سے اِقتصادی ترقی کو فروغ ملے گا اور خطے میں ترقی

کے مواقع کھلیں گے۔وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ جو گاندربل حلقہ کے لئے قانون ساز اسمبلی کے رُکن کے طورپر بھی خدمات اَنجام دے رہے ہیں ،نے پریبل شیر پتھری میں ایک بڑے اِجتماع سے خطاب کرتے ہوئے گاندربل کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے کے لئے اَپنے عزم کا اعادہ کیا۔انہوں نے لوگوں کے اعتماد پر اِظہار تشکر کرتے ہوئے کہا ،’’ میں یہاں خالی ہاتھ نہیں آیا ہوں بلکہ گاندربل کی ترقی کے عزم کے ساتھ آیا ہوں۔‘‘
وزیراعلیٰ نے اس بات پر زور دیا کہ یہ پُل پارٹی کے منشور میں کئے گئے وعدوں کے مطابق ہے جس سے گاندربل کے باشندوں کا دیرینہ مطالبہ پورا ہوگا ۔ اُنہوں نے عوام کو یقین دِلایا کہ گاندربل میں عوامی میٹنگیں باقاعدگی سے منعقد کی جائیں گے تاکہ سری نگر میں سیکرٹریٹ کا دورہ کرنے کی ضرورت کے بغیر مقامی مسائل کو حل کیا جاسکے۔ اُنہوں نے ڈاک بنگلہ فتح پورہ میں ہفتہ وار باشندگان سے ملنے کا وعدہ کیا۔وزیر اعلیٰ نے کہا،’’پریبل تکنواری پُل صرف ایک ڈھانچہ نہیں ہے۔ یہ گاندربل کے لئے ایک نئے ترقیاتی مرحلے کے آغاز کی نمائندگی کرتا ہے۔‘‘ اُنہوں نے بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کو آگے بڑھانے کے لئے حکومت کی لگن کو اُجاگر کرتے ہوئے کہا کہ اِس سے گاندربل کے لوگوں کو براہ راست فائدہ ہوگا اور ان کے معیار ِزندگی کو بہتربنائے گا۔وزیر اعلیٰ کے ہمراہ نائب وزیر اعلیٰ سریندر کمار چودھری ، وزیر اعلیٰ کے مشیر ناصر اسلم وانی ، ڈی ڈی چیئرپرسن گاندربل نزہت اشفاق
،ضلع ترقیاتی کمشنر گاندربل کے علاوہ آر اینڈ بی اور دیگر متعلقہ محکموں کے افسران بھی تھے۔

https://lazawal.com/?cat=

’قبائلی طبقہ کی فلاح و بہبود اوّلین ترجیح ہونی چاہیے‘

0

والٹینگو برفانی طوفان سے متاثرہ کنبوں کی مکمل باز آباد کاری کیلئے علمی اقدامات اُٹھائے جائیں: جاوید احمد رانا

لازوال ڈیسک

سری نگر؍؍وزیر برائے جل شکتی، جنگلات وماحولیات اور قبائلی اَمور جاوید احمد رانا نے آج اِنتظامیہ کے سینئر اَفسروں کے ساتھ ایک میٹنگ والٹنگو برفانی طوفان کے متاثرین کی باز آباد کاری کا جائزہ لیا۔اُنہوں نے قبائلی آبادی سے متعلق متعدد مسائل پر بھی تبادلہ خیال کیا تاکہ ان کے جلد حل کئے جاسکیں۔میٹنگ میں چیف سیکرٹری اَتل ڈولو ، پرنسپل سیکرٹری داخلہ و ڈِی ایم آر آر اینڈ آر چندر کربھارتی ،ضلع ترقیاتی کمشنر کولگام اطہر عامر کے علاوہ دیگر متعلقہ اَفسران نے شرکت کی۔

https://en.wikipedia.org/wiki/Javed_Ahmed_Rana
اِس موقعہ پروزیر موصوف نے ضلع کولگام کے والٹینگو میں سال 2005 ء میں برفانی طوفان سے متاثرہ اَفراد کی حالت زار پر روشنی ڈالی اور حکومت کی طرف سے ابھی تک ان کی بازآبادکاری نہیں کی گئی ہے۔اُنہوں نے اِنتظامیہ پر زور دیا کہ وہ ان گھرانوں کی بحالی کے لئے کوششیں کریں اور ان کے لئے ایک ماڈل کالونی قائم کریں جس میں سکول ، ہسپتال ، بہتر سڑکیں اور رہائشیوں کے لئے دیگر مفید سہولیات شامل ہوں۔
وزیر نے کہا کہ اِس کمیونٹی کی فلاح و بہبود اوّلین ترجیح ہونی چاہیے اور اِس حکومت کے ایجنڈے میں بھی یہ ہے کہ بدلتے وقت کے تقاضوں کے مطابق ان کے طرزِ زندگی کو بہتر بنانے کے لئے ان کے لئے دستیاب سہولیات کو بہترین بنایا جائے۔اُنہوں نے اس زیرِ اِلتوأ اِنسانی مسئلے کو سنجیدگی کو مدنظر رکھتے ہوئے ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے پر زور دیا۔ اُنہوں نے کہا کہ محکمہ قبائلی امور اُن کے لئے بہتر طریقے سے آباد ہونے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لئے بھی اَقدامات کرے گا۔
چیف سیکرٹری نے وزیر کو یقین دِلایا کہ قبائلی فلاح و بہبود کے منصوبوں کو شروع کرنے کے لئے فنڈز کی کوئی کمی نہیں ہے۔ اُنہوں نے واضح کیا کہ حکومت ان کنبوں کی باعزت طریقے سے بازآبادکاری کے لئے ہرممکن اقدام اُٹھائے گی۔اُنہوں نے ضلعی اِنتظامیہ کو ہدایت دی کہ وہ نامکمل چھوڑے گئے اپارٹمنٹ بلاکوں کے بقیہ کام کو شروع کرنے کی تجویز پیش کریں۔ اُنہوں نے اُنہیں مشورہ دیا کہ وہ نئی تجویز تیار کرنے سے پہلے زمینی ضروریات کا پتہ لگائیں۔
اِس سے قبل ضلع ترقیاتی کمشنر کولگام اَطہر عامر نے میٹنگ کو والٹینگو گاؤں میں 2005 کے برفانی طوفان سے متاثرہ افراد کی بحالی کی موجودہ صورتحال سے آگاہ کیا۔اُنہوں نے بتایا کہ 120 متاثرہ کنبوںمیں سے 70 کنبوں کی پہلے ہی بحالی کی جاچکی ہے اور باقی 44 کنبوں کے لئے 3 اپارٹمنٹ بلاکوں پر 80 فیصد تک کام مکمل ہوچکا ہے اور اُنہیں ڈِسٹرکٹ کیپیکس کے تحت شروع کیا جائے گا کیوں کہ اُن کی طرف سے ضروری اِنتظامی منظوری اور تکنیکی منظوری حاصل کی گئی ہے۔میٹنگ میں جن دیگر امور پرتبادلہ خیا ل کیا گیا ان میں ٹرائبل ریسرچ اِنسٹی چیوٹ کی تیاری ، ضلع قبائلی دفاتر کا کام اور اس کے لئے عملے کی فراہمی کے علاوہ قبائلی کمیونٹی کے رہائشی علاقوں کے دیگر مسائل شامل ہیں۔

https://lazawal.com/?cat=

’یہ لوگ دفعہ370 کی مانگ پر شاید خوف محسوس کر رہے ہیں‘

0

نیشنل کانفرنس نے ضرورت پڑنے پر ہمیشہ دلی کا ساتھ دیا ہے: وحید پرہ

لازوال ڈیسک

سری نگر؍؍پی ڈی پی کے سینئر لیڈر اور رکن اسمبلی وحید پرہ کا کہنا ہے کہ نیشنل کانفرنس نے ضرورت پڑنے پر ہمیشہ دلی کا ساتھ دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ جس قرار داد میں دفعہ370 اور 35کی بحالی، ریاستی درجے کی واپسی اور پانچ اگست 2019 کے فیصلوں کی پر زور مذمت کی گئی ہوئی ہم اس کی تائید کریں گے خواہ وہ نیشنل کانفرنس سے ہی کیوں نہ آئے۔

https://jkpdp.in/
موصوف لیڈر نے ان باتوں کا اظہار جمعرات کو یہاں اسمبلی کے باہر نامہ نگاروں کے ساتھ بات کرنے کے دوران کیا۔انہوں نے کہا: ’سال1947 سے لے کر آج تک چاہئے اس ملک کو ریاست میں تبدیل کیا گیا اور پھر ریاست کو یونین ٹریٹری، وزیر اعظم کو وزیر اعلیٰ اور پھر گورنر کو لیفٹیننٹ گورنر بنایا گیا جب بھی مرکز کو ضرورت پڑی ہے تو نیشنل کانفرنس آگے رہی ہے‘۔ان کا کہنا تھا: ’ہم ایوان میں لڑنے نہیں آئے تھے بلکہ نیشنل کانفرنس نے جب قرار داد پاس کی توہم ان کے ساتھ کھڑے رہے‘۔
مسٹر پرہ نے کہا: ’ہم نے جو پہلے دن قرار داد پیش کی تو اس پر قانون کی بات کی گئی یہ لوگ دفعہ370 کی مانگ پر شاید خوف محسوس کر رہے ہیں‘۔انہوں نے کہا: ’آج مسئلہ سڑک، پانی، بجلی کا نہیں ہے بلکہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے جذبات کا ہے لوگوں کو چاہئے کہ وہ ہم سب کو جواب دہ بنائیں‘۔ان کا کہنا تھا: ’ہم نے جو آج قرار داد پیش کی اس پر رات دو بجے تک لوگوں کے ساتھ بات کی اگر نیشنل کانفرنس کی طرف سے ایسی قرار دا آئے جس میں میں دفعہ370 اور 35کی بحالی، ریاستی درجے کی واپسی اور پانچ اگست2019 کے فیصلوں کی پر زور مذمت کی گئی ہوئی ہم اس کی تائید کریں گے‘۔انہوں نے لوگوں سے کھڑا ہونے کی تاکید کی۔

https://lazawal.com/?cat=

اشتہار کے بعد بھرتی کے عمل میں تبدیلی نہیں کی جا سکتی : سپریم کورٹ

0

کہا حکومت یا اس کی مشینری حقیقی وجوہات کی بناء پر آسامیاں نہ بھرنے کے آپشن کا انتخاب کرسکتی ہے

یواین آئی

نئی دہلی؍؍سپریم کورٹ نے آج کہا کہ کسی عہدے کے لیے اشتہار جاری ہونے کے بعد بھرتی کے عمل کو درمیان میں نہیں بدلا جا سکتا ۔چیف جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ اور جسٹس رشی کیش رائے، پی ایس نرسمہا، پنکج مٹھل اور منوج مشرا کی آئینی بنچ نے ‘تیج پرکاش پاٹھک بمقابلہ راجستھان ہائی کورٹ’ کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ امیدواروں کو حیران کرنے کے لیے ضابطوں کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا ۔

https://www.livelaw.in/
جسٹس چندرچوڑ کی سربراہی میں پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے کہا کہ بھرتی کے عمل کے آغاز میں مطلع کردہ انتخابی فہرست میں شامل کرنے کے لیے اہلیت کے معیار کو درمیان میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا، جب تک کہ موجودہ ضابطے یا اشتہار (جو موجودہ قانون کے خلاف ہو) اس کی اجازت نہ دیں۔جسٹس مشرا نے بنچ کی جانب سے فیصلہ سناتے ہوئے یہ بھی کہا کہ سلیکشن لسٹ میں شامل ہونے کے بعد مذکورہ عہدہ کے امیدوار کو تقرری کا ناقابل تنسیخ حق نہیں ملتا، لیکن حکومت یا اس کی مشینری حقیقی وجوہات کی بناء پر آسامیاں نہ بھرنے کے آپشن کا انتخاب کرسکتی ہے۔
تاہم، اگر آسامیاں موجود ہیں، تو حکومت یا اس کی مشینری سلیکشن لسٹ میں زیر غور علاقے سے کسی شخص کو مقرر کرنے سے من مانی طور پر انکار نہیں کر سکتی۔یہ معاملہ ‘تیج پرکاش پاٹھک اور دیگر بمقابلہ راجستھان ہائی کورٹ اور دیگر’ (2013) میں تین ججوں کی بنچ نے پانچ ججوں کی آئینی بنچ کے پاس بھیج دیا، جس نے اس معاملے کو پانچ ججوں کے آئین کے پاس بھیج دیا۔ بنچ نے ‘منجوشری بمقابلہ ریاست آندھرا پردیش اور دیگر’ (2008) میں کیس کے سابقہ فیصلے پر شکوک کا اظہار کیا تھا۔ اس معاملے میں کہا گیا تھا کہ سلیکشن کے معیار کو درمیان میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔آئینی بنچ نے جولائی میں سماعت مکمل ہونے کے بعد اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔

https://lazawal.com/?cat=

انڈیا اتحاد دہشت گردی کی حمایت میں آئین کے خلاف ہے: بی جے پی

0

جموں و کشمیر کی اسمبلی میں خصوصی حیثیت سے متعلق منظور کی گئی قرارداد آئین اورسپریم کورٹ کیخلاف :اسمرتی ایرانی

لازوال ڈیسک

نئی دہلی؍؍بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے جموں و کشمیر کی اسمبلی میں خصوصی حیثیت سے متعلق منظور کی گئی قرارداد کو پارلیمنٹ، آئین اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف قرار دیتے ہوئے کانگریس کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے، جو کہ اس میں شامل ہے۔ نیشنل کانفرنس کے ساتھ انڈیا اتحاد کا الزام ہے کہ وہ دہشت گردی اور انتہا پسندی کی حمایت کر رہا ہے۔

https://www.bjp.org/home
بی جے پی کی سینئر لیڈر اسمرتی ایرانی نے آج پارٹی کے مرکزی دفتر میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ کانگریس کی قیادت والے انڈیا اتحاد نے جموں و کشمیر اسمبلی میں آئین ہند کا گلا گھونٹنے کا کام کیا ہے اور اس میں آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔ دفعہ۔ 370 ہٹائے جانے کے بعد اس نے قبائلیوں، دلتوں اور خواتین کو دیئے گئے آئینی حقوق کو چھیننے کا ارادہ ظاہر کیا ہے۔ بیدار ہندوستان اس ڈھٹائی کو برداشت نہیں کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ کل اسمبلی میں منظور کی گئی قرارداد ہندوستان کے آئین کے خلاف جنگ چھیڑنے کے مترادف ہے۔ یہ ہندوستان کے آئین، پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کی توہین ہے۔ نیشنل کانفرنس اور کانگریس کو یہ پوچھنے کا حق کس نے دیا کہ کیا آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد دلتوں، قبائلیوں، خواتین اور پسماندہ طبقات کو جو حقوق دیے گئے ہیں وہ چھین لیے جائیں گے ؟۔
مسز ایرانی نے کہا کہ اس قرارداد سے ظاہر ہوتا ہے کہ کانگریس اور ہندوستانی اتحاد حکمت عملی کے ساتھ انتہا پسندی اور دہشت گردی کی حمایت کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آرٹیکل 370 اور 35 اے کو ہٹائے جانے کے بعد جموں و کشمیر میں انسانی اموات کی تعداد میں 80 فیصد اور تشدد کے واقعات میں 70 فیصد کمی آئی ہے۔ سیاحت میں تیزی آئی ہے اور ایک سال میں 2 کروڑ 11 لاکھ سیاح آئے۔
انہوں نے کہا کہ بہتر ہوتا کہ جموں و کشمیر میں منصفانہ اور جمہوری طریقے سے ہونے والے انتخابات میں منتخب حکومت ہندوستان کے ساتھ جوڑنے اور ترقی کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کرتی نہ کہ ہندوستان کو توڑنے کا۔ انہوں نے چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 370 کو واپس لانے کی کوشش جسے پارلیمنٹ نے تبدیل کیا تھا، کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اگر انڈیا اتحاد واقعی یہ چاہتا ہے تو اسے مہاراشٹرا اور جھارکھنڈ میں ہونے والے انتخابات کے دوران آکر اسے دہرانا چاہئے۔
بی جے پی کے لیڈر نے کہا کہ نیشنل کانفرنس اور کانگریس کا دراصل ریاست کے مفادات سے کوئی لینا دینا نہیں ہے، وہ ریاست کے لیے نہیں بلکہ اپنے ذاتی مفاد کے لیے خصوصی درجہ چاہتے ہیں تاکہ وہ پہلے کی طرح خزانے کو لوٹتے رہیں۔ آرٹیکل 370 کو واپس لا کر وہ نہ صرف دلتوں، قبائلیوں، خواتین، نوجوانوں سمیت تمام لوگوں کی فلاح و بہبود کی ضمانت دینا چاہتے ہیں بلکہ ان کی اپنی بھلائی کی بھی ضمانت دینا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کے لیے بی جے پی کے لیڈروں کو اسمبلی میں مارا پیٹا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کانگریس میں ہمت ہے تو وہ کھل کر یہ کیوں نہیں کہتے کہ جھارکھنڈ اور مہاراشٹر میں جہاں بھی کانگریس لیڈر انتخابی مہم کے لیے جا رہے ہیں، ہندوستان کو تقسیم ہونا چاہیے۔
یاسین ملک کی اہلیہ کے لوک سبھا لیڈر راہل گاندھی کو لکھے گئے خط کے بارے میں پوچھے جانے پر محترمہ ایرانی نے کہا کہ کیا وجہ ہے کہ جنہوں نے دہشت گردی پھیلانے کا کام کیا، وردی میں ملٹری افسران کو مارا، وہ کانگریس اور گاندھی خاندان سے حمایت کی توقع رکھتے ہیں۔ انہوں نے سوال کیا ’’ایسا کیوں ہے کہ دہشت گردی پھیلانے والے کانگریس سے حمایت کیوں مانگ رہے ہیں؟‘‘سابق مرکزی وزیر نے کہا کہ ہندوستانی جمہوریت کو تبھی حمایت ملتی اگر نیشنل کانفرنس کی حکومت معیشت، بنیادی ڈھانچے اور صنعتی ترقی کی بات کرتی، لیکن اس نے سب سے پہلے ایسی سرگرمیاں شروع کیں جس سے ملک کو تکلیف پہنچی ہے۔ایک معروف انگریزی روزنامے میں، میں شائع ہونے والے کانگریس لیڈر راہل گاندھی کے اس مضمون کو مسترد کرتے ہوئے کہ ہندوستانیوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ، بی جے پی کی سینئر لیڈر نے کہا کہ مسٹر گاندھی کا یہ بیان کہ ہندوستانی انگریزی کمپنی سے ڈرتے ہیں مضحکہ خیز ہے۔

https://lazawal.com/?cat=

’الیکٹرک بیٹریوں پر چلنے والے دو پہیہ گاڑیوں کی اچھی مانگ ‘

0

الیکٹرک گاڑیوں کی فروخت اکتوبر میں 55 فیصد بڑھ کر 2.18 لاکھ ہوگئی: ایف اے ڈی اے

یواین آئی

 

نئی دہلی؍؍فیڈریشن آف آٹوموبائل ڈیلرز ایسوسی ایشن (ایف اے ڈی اے) کی طرف سے جمعرات کو جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق الیکٹرک بیٹریوں پر چلنے والے دو پہیہ گاڑیوں کی اچھی مانگ کی وجہ سے اکتوبر میں الیکٹرک گاڑیوں (ای وی) کی فروخت میں اضافہ ہوا۔ ایک سال پہلے کی نسبت اسی مہینے کے مقابلے میں یہ 55.16 فیصد بڑھ کر 2,17,803 یونٹس ہو گئی۔اکتوبر 2023 میں ای وی کی مجموعی فروخت 1,40,373 یونٹس رہی تھی۔

https://fada.in/
الیکٹرک دو پہیہ گاڑیوں نے زیر جائزہ مدت کے دوران مجموعی فروخت میں اس کا بڑا حصہ رہا۔ اس میں اس سال اکتوبر میں سال بہ سال 85.14 فیصد کی مضبوط اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ ایک سال قبل اسی مہینے میں اس سیگمنٹ میں فروخت 75,165 یونٹس تھی جو اس سال اکتوبر میں بڑھ کر 1,39,159 یونٹس ہوگئی۔ اولا الیکٹرک، ٹی وی ایس موٹر،بجاج آٹو اور ایتھر انرجی الیکٹرک جیسی بڑی مینوفیکچرنگ کمپنیاں دو پہیوں والی ای وی گاڑیوں کے سیگکمنٹ میں کام کر رہی ہیں۔
اس سال اکتوبر کے مہینے میں مسافر الیکٹرک گاڑیوں کی فروخت سال بہ سال 39.12 فیصد بڑھ کر 10,609 یونٹس تک پہنچ گئی۔ ٹاٹا موٹرز نے الیکٹرک مسافر گاڑیوں کے حصے کی قیادت کی، اس کے بعد ایم جی موٹر انڈیا دوسرے نمبر پر رہی۔ایف اے ڈی اے کے ماہانہ گاڑیوں کی فروخت کے اعداد و شمار کے مطابق اس سال اکتوبر میں الیکٹرک تھری وہیلر مارکیٹ میں سالانی بنیاد پر فروخت 17.83 فیصد بڑھ کر 67,171 یونٹس تک پہنچ گئی۔

https://lazawal.com/?cat=

مسلح افواج کی فلاح و بہبود کے لیے حکومت پرعزم :مودی

0

ون رینک ون پنشن اسکیم ہمارے معمر افراد اور سابق فوجیوںکی بہادری اور قربانیوں کو خراج تحسین ہے

لازوال ڈسک

نئی دہلی؍؍؍وزیر اعظم نریندر مودی نے آج ون رینک ون پنشن(او آر او پی( اسکیم کے دس سال مکمل ہونے پر کہا کہ یہ ہمارے معمر افراد اور سابق فوجیوں کی بہادری اور قربانیوں کو خراج تحسین ہے جنہوں نے ہماری قوم کی حفاظت کے لیے اپنی زندگیاں وقف کردی ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ او آر او پی کو نافذ کرنے کا فیصلہ اس دیرینہ مطالبے کو پورا کرنے اور اپنے ہیروز کے تئیں ہماری قوم کے اظہار تشکر تصدیق کے طور پر ایک اہم قدم ہے۔

https://www.narendramodi.in/
وزیراعظممودی نے یقین دلایا کہ حکومت ہماری مسلح افواج کو مضبوط کرنے اور ہماری خدمت کرنے والوں کی فلاح و بہبود کے لیے ہمیشہ ہر ممکن کوشش کرے گی۔ مودی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ‘ایکس’ پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا:’’اس دن ون رینک ون پنشن ،(او آر او پی) نافذ کیا گیا تھا۔ یہ ہمارے معمر افراد اور سابق فوجیوں کی ہمت اور قربانیوں کو خراج تحسین تھا جنہوں نے ہماری قوم کی حفاظت کے لیے اپنی زندگیاں وقف کر دیں۔ او آر او پی کو نافذ کرنے کا فیصلہ اس دیرینہ مطالبہ کو پورا کرنے اور اپنے ہیروز کے تئیں ہماری قوم کے شکرگزار ہونیکی تصدیق کے طور پر ایک اہم قدم تھا‘‘۔
’’یہ آپ سب کے لئے باعث مسرت ہوگا کہ اس ایک دہائی کے دوران، لاکھوں پنشن حاصل کرنے والوں اور ان کے خاندانوں نے اس تاریخی اقدام سے فائدہ اٹھایا ہے۔او آر او پی تعداد کے علاوہ ہماری مسلح افواج کی فلاح و بہبود کے لیے حکومت کے عزم کی نمائندگی کرتا ہے۔ ہم اپنی مسلح افواج کو مضبوط بنانے اور ہماری خدمت کرنے والوں کی فلاح و بہبود کے لیے ہمیشہ ہر ممکن کوشش کریں گے۔
پنشن کے فوائد میں دیرینہ فرق کو دور کرنے کے لیے ایک تاریخی اقدام کے تحت نے ایک عہدہ ایک پنشن (او آر او پی) اسکیم کا آغاز کیا گیا، یہ فیصلہ سابق فوجیوں کی زندگیوں کو بدل دے گا۔ سابق فوجی برسوں سے نہ صرف میدان جنگ میں، بلکہ اپنی سروس کے بعد کی زندگیوں میں بھی مساوی پہچان کے لیے لڑے تھے، خاص طور پر جب بات پنشن کے فوائد کی ہو۔ او ا?ر او پی کے آغاز کے ساتھ حکومت نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ایک جرأت مندانہ قدم اٹھایا کہ جن فوجیوں نے اٹوٹ لگن کے ساتھ قوم کی خدمت کی ہے، ان کے ساتھ منصفانہ سلوک کیا جائے۔
بھارت میں ایک عہدہ ایک پنشن (او آر او پی)
اس اقدام نے ان لوگوں کی قربانیوں اور خدمات کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ایک اہم عزم کا اظہار کیا جنہوں نے ملک کی حفاظت کی، ان سے اس عزت اور مالی تحفظ کا وعدہ کیا گیا جس کے وہ مستحق تھے۔جیسا کہ ایک عہدہ ایک پنشن (او آر او پی) اسکیم 2024 میں 10 سال مکمل کر رہی ہے، یہ ضروری ہے کہ اس اسکیم سے مسلح افواج کی کمیونٹی کو پہنچنے والے بے پناہ فوائد پر غور کیا جائے۔ اس اقدام نے نہ صرف موجودہ اور ماضی کے ریٹائر ہونے والوں کے درمیان پنشن کے فرق کو ختم کیا ہے بلکہ اپنے سابق فوجیوں کی فلاح و بہبود کے لیے قوم کی لگن کو بھی تقویت دی ہے۔ پنشنری فوائد میں مساوات اور انصاف کو لا کر، او آر او پی نے بھارتی حکومت اور اس کے فوجی اہلکاروں کے درمیان تعلقات کو مضبوط کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔او آر او پی کا متعارف کرانا لاکھوں سابق فوجیوں اور ان کے خاندانوں کے لیے تبدیلی لانے والا ثابت ہوا ہے، اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ فوجی اہلکاروں کے ساتھ ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی کے دوران اس عزت کے ساتھ پیش آیا جائے جس کے وہ مستحق ہیں۔
ایک عہدہ ایک پنشن کا جائزہ بنیادی طور پر، ون رینک ون پنشن (او آر او پی) ایک سادہ لیکن گہرا خیال ہے: ایک ہی رینک اور اسی مدت کی سروس کے ساتھ ریٹائر ہونے والے فوجی اہلکاروں کو ایک ہی پنشن ملنی چاہیے، چاہے ان کی ریٹائرمنٹ کی تاریخ کچھ بھی ہو۔ یہ اصول مہنگائی کی وجہ سے سابق فوجیوں کو درپیش پنشن کے فوائد میں تفاوت کو دور کرتا ہے، تنخواہ کے پیمانے میں تبدیلیوں اور وقت کے ساتھ ساتھ سروس کے حالات کی ابھرتی ہوئی نوعیت کو حل کرتا ہے۔
یہ اسکیم سابق فوجیوں اور ان کے خاندان کو براہ راست فائدہ پہنچاتی ہے اور اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ موجودہ اور ریٹائرڈ اہلکاروں کے درمیان پنشن کے فرق کو وقتاً فوقتاً پورا کیا جائے۔ 2014 میں او آر او پی کا کامیاب نفاذ نہ صرف پالیسی میں تبدیلی تھی بلکہ ملک کی خدمت کرنے والوں کے تئیں حکومت کی شکر گزاری اور احترام کا ایک اہم اشارہ تھا۔
او آر او پی اسکیم کی اہم خصوصیات
حکومت کی طرف سے 7 نومبر 2015 کو جاری کردہ او آر او پی آرڈر نے تمام ریٹائرڈ دفاعی اہلکاروں کے لیے یکساں پنشن کا نظام نافذ کیا، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ سروس کی ایک ہی مدت کے ساتھ یکساں رینک کو مساوی پنشن کے فوائد حاصل ہوں گے۔
پالیسی کے بنیادی عناصر میں شامل ہیں:
پنشن کا دوبارہ تعین: تمام سابقہ پنشن یافتگان کی پنشن کو 2013 میں ریٹائر ہونے والے اہلکاروں کی پنشن کی بنیاد پر دوبارہ طے کیا جاتا ہے، جو 1 جولائی 2014 سے شروع ہوتا ہے۔
متواتر نظرثانی: پنشن کو ہر پانچ سال بعد دوبارہ طے کیا جانا ہے، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ یہ تنخواہ اور پنشن کے ڈھانچے میں تبدیلیوں کی عکاسی کرتی رہے۔
بقایا جات کی ادائیگی: پنشن کے بقایا جات برابر ششماہی قسطوں میں ادا کیے جانے تھے، حالانکہ فیملی پنشنرز اور شجاعت کے ایوارڈ حاصل کرنے والوں کے بقایا جات ایک ہی قسط میں ادا کیے جاتے تھے۔
اوسط سے اوپر پنشن کی حفاظت: اوسط سے زیادہ پنشن حاصل کرنے والے اہلکاروں کے لیے، ان کی پنشن محفوظ ہیں، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ وہ او ا?ر او پی کے فوائد سے محروم نہ ہوں۔
تمام سابق فوجیوں کا احاطہ: اس آرڈر میں 30 جون 2014 تک ریٹائر ہونے والے تمام اہلکاروں کا احاطہ کیا گیا تھا اور فیملی پنشنرز سمیت تمام رینک کے لیے پنشن پر نظر ثانی کے لیے ایک مضبوط فریم ورک فراہم کیا گیا تھا۔
ایک عہدہ ایک پنشن (او آر او پی) کا مطالبہ ایک عرصہ سے کیا جارہا تھا اور 40 سال سے زیادہ عرصے سے التوا کا شکار تھا۔ کئی حکومتی کمیٹیوں اور کمیشنوں نے اس معاملے کا جائزہ لیا لیکن ہر بار اس تجویز کو مسترد کر دیا گیا جس کی بنیادی وجہ مالیاتی مجبوریوں اور انتظامی پیچیدگیاں تھیں۔ تیسرا مرکزی پے کمیشن پہلا تھا جس نے اس مسئلے کو جامع انداز میں حل کیا، پنشن کے لیے کوالیفائنگ سروس میں وزن کی سفارش کی۔ سالوں کے دوران کے پی دیو سنگھ کمیٹی (1984) اور شرد پوارکمیٹی (1991) جیسی کمیٹیوں نے بھی اس معاملے کا مطالعہ کیا لیکن کوئی حتمی حل پیش کرنے میں ناکام رہے۔ ان رکاوٹوں کے باوجود، مطالبہ برقرار رہا، قائمہ کمیٹی برائے دفاع اور دیگر فورمز اس پر عمل درآمد کی وکالت کرتے رہے۔
16ویں لوک سبھا کے وقت اور وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں حکومت نے سابق فوجیوں کے مطالبات کا احترام کرنے کا فیصلہ کیا۔ 2014 کے بجٹ میں اس کے نفاذ کے لیے 1,000 کروڑ روپے مختص کیے گئے تھے، اور وسیع مشاورت کے بعد، 7 نومبر 2015 کو سرکاری حکم نامہ منظور کیا گیا، جس میں ان تمام اہلکاروں کا احاطہ کیا گیا جو 30 جون، 2014 تک ریٹائر ہو چکے تھے۔
سابق فوجیوں اور ان کے اہل خانہ پر اثرات
او آر او پی اسکیم نے 25 لاکھ سے زیادہ سابق فوجیوں اور ان کے خاندانوں کو فائدہ پہنچایا ہے، جس سے سابق فوجیوں کی کمیونٹی کو بہت زیادہ ضروری مالی تحفظ حاصل ہوا ہے۔ اس اسکیم سے نہ صرف ریٹائرڈ فوجیوں کے معیار زندگی میں بہتری آئی ہے بلکہ اس نے قوم کے لیے ان کی خدمت کے لیے مزید وقار کو بھی یقینی بنایا ہے۔ بہت سے سابق فوجیوں کے لیے، یہ ان کی شراکت کا ایک طویل انتظار تھا، جس نے ان کی قربانیوں اور ریٹائرمنٹ کے بعد ملنے والے انعامات کے درمیان فرق کو ختم کیا۔
او آر او پی کی بھی اہم سماجی اور جذباتی قدر رہی ہے۔ اس نے ہندوستانی حکومت اور اس کے فوجی سابق فوجیوں کے درمیان مضبوط رشتے میں کردار ادا کیا ہے، جو اس کی سالمیت کی خدمت اور حفاظت کرنے والوں کے لیے قوم کی وابستگی کا اشارہ دیتا ہے۔ فوجیوں کے خاندانوں کے لیے، جن میں سے بہت سے اپنے پیاروں کی قربانیوں کے ساتھ رہتے ہیں، یہ پالیسی تکمیل اور اعتراف کا احساس لے کر آئی۔
آج ہی کے دن جب ایک دہائی قبل او آر او پی اسکیم نافذ کی گئی تھی، دفاعی افواج کے لیے اس پالیسی کی مسلسل اہمیت کو تسلیم کرنا ضروری ہے۔ جیسا کہ وزیر اعظم مودی نے زور دیا او آر او پی اسکیم صرف پنشن کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ مسلح افواج کو مضبوط بنانے اور قوم کی بے لوث خدمت کرنے والوں کی فلاح و بہبود کو بڑھانے کے لیے حکومت کی لگن کا ثبوت ہے۔
ہر پانچ سال میں پنشن کا دوبارہ تعین اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ اسکیم سابق فوجیوں اور ان کے خاندان کی ابھرتی ہوئی ضروریات کے مطابق رہے گی۔ یہ اپنے فوجی اہلکاروں کے خدشات کو دور کرنے کے لیے حکومت کے عزم کی ایک طاقتور علامت بھی بنی ہوئی ہے،جن میں سے اکثر ہندوستان کی سرحدوں اور مفادات کی حفاظت میں سب سے آگے ہیں۔
آخر میں، جیسا کہ ہم ایک عہدہ ایک پنشن کے اثرات پر غور کرتے ہیں،یہ واضح ہے کہ پالیسی نے ہندوستان کے سابق فوجیوں کو بہت ضروری ریلیف اور پہچان فراہم کی ہے۔ مسلسل تطہیر اور وقتاً فوقتاً نظرثانی کے ساتھ او آر او پی اپنی مسلح افواج کے لیے قوم کی حمایت کا ایک سنگ بنیاد بنے رہنے کا وعدہ کرتا ہے، اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ بھارت کی سالمیت اور خودمختاری کی حفاظت کرنے والے ہیروز کو عزت، احترام اور یونیفارم لٹکانے کے بعد طویل عرصے تک ان کی دیکھ بھال کی جائے۔
انڈین ملٹری ہیریٹیج فیسٹیول کا دوسرا ایڈیشن 8 نومبر سے شروع ہوگا

https://lazawal.com/?cat=

کشتواڑ میں دہشت گردوں کے ہاتھوں دو ولیج ڈیفنس گارڈز کا قتل

0

ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کی جانب سے قتل کی شدید مذمت

بابر فاروق

کشتواڑ؍؍جموں و کشمیر کے ضلع کشتواڑ میں دہشت گردوں کے ہاتھوں دو ولیج ڈیفنس گارڈز (VDGs) کے قتل کی اطلاع ملی ہے۔ سرکاری ذرائع نے بتایا کہ دہشت گردوں کے حملے میں دو VDGs، جن کی شناخت نذیر احمد (فرزند محمد خلیل) اور کلدیپ کمار (فرزند امر چند) کے نام سے ہوئی ہے، جان کی بازی ہار گئے۔ دونوں کا تعلق اوہلی، کنٹوارہ سے تھا۔

https://en.wikipedia.org/wiki/Village_Defence_Guards
اہلکار کے مطابق دونوں افراد معمول کے مطابق مویشیوں کو چرانے کے لیے منزلا دھار (اڈھوری) جاتے تھے، مگر آج واپس نہیں آئے۔ ذرائع کے مطابق ان کی لاشیں ابھی تک برآمد نہیں ہو سکیں اور سیکیورٹی فورسز نے ایک بڑے پیمانے پر سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے۔
یہ تازہ حملہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب جموں و کشمیر میں غیر مقامی کارکنوں پر حملوں اور مقابلوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔اس دوران نیشنل کانفرنس کے صدر ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور نائب صدر و وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے کشتواڑ میں دو VDGs کے بہیمانہ قتل کی مذمت کی ہے۔ ان رہنماؤں نے کہا کہ اس قسم کے وحشیانہ حملے جموں و کشمیر میں پائیدار امن کے قیام میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں۔ "غم کی اس گھڑی میں ہماری دعائیں اور ہمدردیاں متاثرہ خاندانوں کے ساتھ ہیں،” نیشنل کانفرنس نے سوشل میڈیا پر ایک پیغام میں کہا۔

https://lazawal.com/?cat=