محض اعلانات کی بھر مار سے معمور بجٹ

0
0

 

محمد اعظم شاہد

پارلیمنٹ میں بجٹ سے قبل جو ملک کا اقتصادی جائزہ پیش کیا گیا ہے، اس میں ملک کی معیشت مستحکم ہوتی بتایا گیا ہے۔مگر حقیقت یہ ہے کہ کورونا وباء کی تقریباً تین لہروں کے دوران معیشت دراصل سکڑتی رہ گئی ہے۔ بڑے پیمانے کے سرمایہ کاروں کی صنعتیں اور تجارتیں سلامت رہیں، مگر چھوٹے سرمایہ کاروں اور متوسط تاجروں کی تجارت ٹھپ پڑگئی۔ پرائیویٹ سیکٹر میں زیر ملازمت لوگوں کی تعداد گھٹ کر رہ گئی ۔ صنعت وحرفت کی پیداوار میں واقع بتدریج کمی کے پیش نظر برسرروزگار ملازمین کو ملازمتوں سے ہاتھ دھونا پڑا۔ نتیجہ کے طور پر بے روزگاری کی شرح میں اضافہ ہوتا گیا۔ آمدنی کم ہوتی گئی۔ عام لوگوں کے ہاں قوت خرید میں گراوٹ نے اشیاء کی خریدوفروخت کو بے حد متاثر کیا۔ملک کی معیشت کی بگڑتی صورتحال کے لئے مجموعی طو رپر شرح پیداوار میں کمی، بڑھتی بے روزگاری اور آمدنی میں گراوٹ ذمہ دار رہی۔ اس کے ساتھ ہی اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا۔ مہنگائی نے نئے ریکارڈ قائم کئے، چند ریاستوں میں عنقریب ہونے والے انتخابات کے پیش نظر تازہ بجٹ میں کوئی نئی اصلاحات اور فیض مند اعلانات کی امیدیں نہیں تھیں۔ مجموعی اعتبار سے حکومت اپنی کارکردگی کی خود ستائش کرتے ہوئے جتارہی ہے کہ ملک کی معیشت کی حالت بہتر ہے ، مگر ہو یہ رہا ہے کہ ملک میں امیروں اور غریبوں کے درمیان خلیج بڑھتی ہی چلی جارہی ہے۔ سرمایہ کاروں کے لئے ٹیکس میں چھوٹ دی گئی اور ان کی دولت میں کورونا بحران کے باوجود بھی زبردست اضافہ ہوا اور 80فیصد لوگ انفرادی طور پر اپنے مالی بحران کا شکار ہیں۔ دیکھا گیا ہے کہ حکومت اپنی آمدنی کے ذرائع بڑھانے روز مرہ کے تجارتی معاملات میں ہر قدم پر نئے نئے فیس(fees) لگا رہی ہے۔ مثلاً بینکوں کی خدمات میں جو تبدیلیاں ہوئی ہیں اس سے عام لوگوں کے لئے نئی مشکلات کا سامنا ہے۔ حکومت کے تازہ ترین بجٹ میں روز گار بڑھا نے،قیمتوں کو قابو میں رکھنے کے حوالے سے کوئی نئی بات سامنے نہیں آئی ہے۔اُمور صحت میں بہترین کے لئے جو نئے اعلانا کئے گئے ہیں وہ واضح طو رپر انتہائی خوش آئند ہیں۔ مگر کس حد تک یہ تخمینے پایۂ تکمیل کو پہنچیں گے،یہ ایک بڑا سوال ہے۔ تعلیمی شعبہ میں خاطر خواہ تبدیلیاں لانے کے ضمن میں محض سطحی کوششیں ہورہی ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ انکم ٹیکس کی شرح جس میں کوئی خاص تبدیلی نہیں کی گئی ہے، یہ محض انتخابی سیاست کی ساجھے داری لگتی ہے۔ حیرت انگیز معاملہ یہ بھی ہے کہ ملک میں بڑھتی غریبی کی شرح جہاں چارکروڑ ساٹھ لاکھ سے زیادہ لوگ سطح غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اس توجہ طلب پہلو پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔ہمارے ملک میں 90فیصد مزدور غیر روایتی اور غیر منظم Unorganised Sector سیکٹر میں کام کرتے ہیں جو ملک کی مجموعی شرح پیداوار GDPکے لئے 52فیصد وسائل فراہم کرتے ہیں۔ کسانوں کے لئے راحت کے نام پر جو اعلانات ہوئے ہیں وہ زمینی سطح پر ان کے مفاد میں دیکھے نہیں جارہے ہیں۔ جو دیرینہ مطالبہ تھا کسانوں کا MSPاقل ترین قیمت کی ادائیگی کے حوالے سے بھی بجٹ میں خاطر خواہ اور کار آمد اعلان بھی ہونے سے رہ گیا ہے۔ ایک طرف مسلسل بڑھتی قیمتوں کے باعث مہنگائی کی مار لوگ سہہ رہے ہیں، دوسری جانب شرح ترقی Growthبڑھانے کی تجاویز سامنے آرہی ہیں۔ بجٹ اعلانات پر ایک طائرانہ نظر سے یو ںلگتا ہے کہ موجودہ حکومت عوام کو ایک طرح سے خوش فہمیوں میں مشغول رکھ کر توجہ طلب قومی مسائل کی یکسوئی سے توجہ ہٹانے کی کوششوں میں ہے۔جس Inclusive developmentترقی میں سب کی شمولیت کی باتیں کی جارہی ہیں،وہ بس وہی پرانا سب کا ساتھ سب کا وکاس والا بے اثر نعرہ ہی لگ رہا ہے۔ مودی حکومت کا یہ دسواں بجٹ ہے جس میں اعلانات کی بھر مار ہے اور ملک میں بسے ہم وطنوں کو ہتھیلی میں خوشحالی دکھانے کے مترادف وہی پرانی کہانی دہرائی جارہی ہے۔ حکومت کے پاس معیشت سے جڑے کئی اہم معاملات پر اعداد وشمار کی وصول یابی میں وہ سنجیدگی نہیں ہے جس کی ضرورت محسوس کی جاتی ہے۔ ترقی کے نام پر جو سیاست رچی جاتی ہے یہ بجٹ بھی اس روش کا ایک حصہ ہی تو ہے۔

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا