"آنے والے اسمبلی انتخابات، کون، کہاں کس پوزیشن میں ہے ؟”

0
0

 

 

محمد ارشد چوہان

 

8 جنوری بروز سنیچر کی سہ پہر الیکشن کمیشن آف انڈیا نے پانچ ریاستوں کے اسمبلی انتخابات کے لئے نوٹیفکیشن نکالا – یہ پانچ ریاستیں اتر پردیش، پنجاب، اترا کھنڈ، گوا اور منی پور ہیں –
مذکورہ جن ریاستوں میں انتخابات ہونے جا رہے ہیں ان میں پنجاب کو چھوڑ کر باقی چاروں میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی براہ راست یا اتحادیوں کی مدد سے حکومت میں ہے – پنجاب میں انڈین نیشنل کانگریس بر سر اقتدار ہے –

 

یہ پانچ ریاستیں کل 690 سیٹوں پر مشتمل ہیں جو 18 اعشاریہ 34 کروڑ ووٹرز پر محیط ہے –

 

الیکشن کمیشن کی پریس ریلیز کے مطابق یہ انتخابات 10 فروری سے شروع ہوں گے اور 07 مارچ کو اختتام کو پہنچیں گے – جبکہ سبھی نتائج کا اعلان 10 مارچ کو کیا جائے گا – تاہم اومی کرون کی شدت کے چلتے پندرہ جنوری تک کوئی بھی سیاسی جماعت کوئی ریلی یا جلسہ جلوس نہیں کرئے گی –
اتر پردیش اسمبلی کی معیاد رواں سال کے مئی مہینہ جبکہ بقیہ چار کی مارچ میں ختم ہو جائیں گی –
کڑاکے کی سردی اور کراونا کی نئی قسم امیکرون کے پھیلاؤ کے بیچ سیاست کا ماحول خوب گرم ہے- – ان ریاستوں میں اسوقت کس کی حکومت ہے اور انتخاب میں کس کا پلڑا بھاری ہے ایک تجزیاتی نظر دوڑاتے ہیں –

 

گوا اور منی پور :- الیکشن کمیشن کی نوٹیفکیشن کے مطابق گوا ریاستی اسمبلی کی کل 40 اور منی پور کی 60 نشستوں پر 14 فروری کو واحد مرحلے میں انتخابات ہوں گے – یہ دونوں چھوٹی ریاستیں ہیں – منی پور میں اسوقت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے – 2017 کے انتخابات میں انڈین نیشنل کانگریس ریاست کی بڑی جماعت بن کر ابھری تھی – کانگریس 28 نشستیں جیت کر سنگل لارجسٹ پارٹی رہی تھی لیکن حکومت بنانے کے لئیے درکار ارکان کی کمی کی وجہ سے اقتدار میں نہیں آسکی تھی – بھارتیہ جنتا پارٹی نے 21 سیٹیں جیتیں اور علاقائی پارٹیوں ناگا پیپلز فرنٹ، نیشنل پیپلز پارٹی اور لوک جن شکتی کیساتھ مل کر حکومت بنا لی تھی – اس الیکشن میں منی پور میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو کانگریس کے علاوہ کچھ علاقائی جماعتوں کی طرف سے کانٹے دار مقابلے کا سامنا ہو گا –

اسی طرح 40 نشستوں والی گوا میں بھی 2017 کے انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے علاقائی جماعتوں کے ساتھ مل کر اتحادی حکومت قائم کر لی تھی لیکن اب کی بار گوا میں کانگریس کے علاوہ ممتا بنرجی عرف دیدی کی ترنمول کانکریس اور اروند کیجریوال کی عام آدمی پارٹی اچھی خاصی پوزیشنز میں ہیں –

اترا کھنڈ اور پنجاب :- اترا کھنڈ ریاستی اسمبلی کل 70 نشستوں پر مشتمل ہے اور یہاں پر انتخابی مقابلہ کافی سخت رہتا ہے – 2012 کے انتخابات میں کوئی بھی سیاسی جماعت یہاں اکثریت نہیں لے سکی تھی بالآخر انڈین نیشنل کانگریس نے پروگریسیو ڈیموکریٹک فرنٹ (پی ڈی ایف) کیساتھ مل کر اتحادی حکومت قائم کر لی تھی – 2017 کے ریاستی انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے 57 سیٹیں جیتی تھیں – گزرے سال کی 17 تا 19 دسمبر اتراکھنڈ کے شہر ہریدوار میں انتہا پسند ہندو مذہبی جماعتوں کی دھرم سنسد یعنی مذہبی شوریٰ کے نام سے ایک بیٹھک منعقد ہوئی- اس بیٹھک میں کھلے عام مسلمانوں کی نسل کشی کرنے کی بات کی گئی – انتہا پسند مذہبی تنظیموں کے علاوہ حکمران جماعت بی جے پی کے نیتا بھی اس میں شریک تھے مثلاً اشونی اپادیائے – بعض سیاسی پنڈتوں کے بقول یہ سنسد دھرم اترا کھنڈ اور یوپی میں ہونے والے الیکشنز کے لئے ماحول بنانے کے حوالے سے تھی-

ریاست پنجاب میں اسوقت انڈین نیشنل کانگریس کی حکومت ہے – پچھلے دنوں کیپٹن امریندر سنگھ کو چیف منسٹر سے ہٹائے جانے کے بعد کانگریس کچھ اندرونی خلفشار کا شکار نظر آئی – اسوقت پنجاب میں کانگریس بہترین پوزیشن میں ہے – چیف منسٹر کی کرسی سے ہٹائے جانے کے بعد کیپٹن سنگھ نے کانگریس سے استعفیٰ دے کر پنجاب لوک کانگریس نامی اپنی پارٹی تشکیل دی تھی – پنجاب کی سیاست باقی چار ریاستوں سے اس لئے بھی منفرد ہے کہ یہاں بھارتیہ جنتا پارٹی بالکل لڑکھڑائی ہوئی ہے گو کہ کیپٹن امریندر کو اسکی ‘بی ٹیم’ کہا جا رہا ہے لیکن کانگریس کے بغیر امریندر کا اثر رسوخ زیادہ نہیں ہے – پنجاب میں اصل مقابلہ انڈین نیشنل کانگریس، شیریمنی اکالی دل اور عام آدمی پارٹی کے درمیان ہے –

بدھورا کو وزیر اعظم نرینندر مودی پنجاب کے فیروز پور میں ایک انتخابی ریلی سے خطاب کرنے جا رہے تھے کہ بٹھنڈا کے ایک فلائی اوور پر ان کے قافلے کو ناراض کسانوں کے احتجاج کا سامنا کرنا پڑا – پندرہ سے بیس منٹ تک انتظار کے بعد وزیر اعظم کو وزٹ کنسل کر کے واپس ائیر پورٹ سے دہلی کا راستہ پکڑنا پڑا – پنجاب میں بھاجپا کی زبوں حالی کے ذمہ دار 2020 میں مرکزی حکومت کی طرف سے تین ذرعی قوانین ہیں جنکے خلاف کسان ایک سال سے زائد سراپا احتجاج رہے – بالآخر کسانوں کی تاب نہ لا کر حکومت کو یہ قوانین واپس لینے پڑے تھے –

اتر پردیش :-ان سب میں سب سے زیادہ دلچسپ انتخابات اتر پردیش کے ہیں جن پر پورے ملک کی نگاہیں لگی ہوئی ہیں – اسکی وجہ یہ ہے کہ یوپی بھارت کی سب سے بڑی گنجان آبادی والی ریاست ہے – اس ریاست کو 18 ڈویزنز میں تقسیم کیا گیا ہے جنکے 75 اضلاع ہیں – آئین میں ریاستی اور پارلیمنٹ حلقوں کی حلقہ بندی آبادی کے تناسب سے ہوتی ہے – اس طرح پارلیمنٹ کی زیادہ نشستیں یہیں سے ہوتی ہیں – یہاں سے پارلیمنٹ کی 80 سیٹیں مختص ہیں –

اتر پردیش کی ریاستی اسمبلی کل 403 نشستوں پر مشتمل ہے – ملک بھر میں سب سے زیادہ ریاستی اسمبلی کی نشستوں کا اعزاز بھی اسی کو حاصل ہے –

الیکشن کمیشن کے نوٹیفکیشن کے مطابق اتر پردیش میں سات مرحلوں میں انتخابات ہونے ہیں جو 10 فروری سے 07 مارچ تک چلیں گے – اسوقت تو یوپی میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے لیکن آنے والے انتخابات میں یہاں اکلیش یادیو کی سماجوادی پارٹی بہت مضبوط ہے جو بی جے پی کو ہرانے کی پوری پوزیشن میں ہے – حال ہی میں حکمران جماعت کے ایک منتری سمیت کچھ ایم ایل ایز نے پارٹی سے استعفیٰ دیا ہے اور مستقبل میں کچھ اور استعفوں کی افواہیں بھی زیرِ گردش ہیں – اس کے علاوہ بہوجن سماجوادی پارٹی، کانگریس اور اویسی فکٹرز بھی موجود ہیں –

Email : [email protected]

 

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا