مختصر تعارف اور خدمات

0
0

جلالۃالعلم ، حضور حافظ ملت علامہ شاہ عبد العزیز محدث مرادآباد ی علیہ الرحمہ

شبیر احمد قادری شبیر احمد قادری ،

جموں و کشمیر متعلم الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پور،

اعظم گڑھ موبائل نمبر: 9682338380

اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کی حفاظت و صیانت کے لیے بے شمار علمائے کرام پیدا فرمائے جنھوں نے ہر دور میں اپنی خداداد صلاحیتوں اور ہمت مردانہ کے بل بوتے پر دین اسلام و راہِ حق کی عظیم خدمات انجام دیں۔ انھیں تاریخ ساز شخصیات میں ایک نام جلالۃ العلم حضور حافظ ملت علامہ عبدالعزیز محدث مرادآبادی علیہ الرحمہ کا ہے جنھوں نے اپنی خداد صلاحیت سے مذہب حقہ کی بقاو عروج و ارتقا کے لئے جو کوششیں اور کاوشیں انجام دیں وہ تاریخ کے صفحات میں آب زر سے لکھنے کے قابل ہے ۔ ولادت:۔  حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کی ولادت بروز دوشنبہ  ۱۳۱۲؁ھ  ۱۸۹۴؁ء کو ضلع مرادآباد اترپردیش کے موضع بھوج پور میں ہوئی ۔ والدین ماجیدین:۔ حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کے والد ماجد ایک خداپرست درویش ، نہایت دین دار ، متبع سنت، احکام شریعت پر عامل اور صوم و صلوۃ کے سخت پابند تھے۔ بڑے جید حافظ قرآن تھے، چلتے پھرتے ، اٹھتے بیٹھے ہر وقت قرآن کی تلاوت کیا کرتے تھے۔ آپ بڑے حافظ جی کے لقب سے مشہور تھے۔ آپ پیپل سانہ (ضلع مرادآباد) میں ایک مدرسہ کے مدرس تھے۔ مرادآباد اور قرب و جوار میں آپ ہی کے شاگرد اعلیٰ درجے کے حافظ مانے جاتے تھے تقریباً سوسال کی عمر پائی ۔ حج وزیارت سے بھی مشرف ہوئے ۲۸ ؍ ذی قعدہ بروز جمعرات  ۱۳۷۰؁ھ میں آپ کا وصال ہوا۔  حضور حافظ ملت کی والدہ ماجدہ بھی نہایت نیک ،صوم و صلوۃ کی پابند اور بنت رسول سیدہ زہرا کے اسوۂ حسنہ کی عملی نمونہ تھیں ۔ پڑوس کا اتنا خیال رکھتیں کہ اپنا کھانااکثر ایک بیوہ پڑوسن کو کھلا دیتیں اور خود یونہی وقت گزاردیتی تھیں۔  ملخصًاً (حیات حافظ ملت صفحہ ۵۴) بچپن:۔   حضور حافظ ملت کا بچپن ایک دیندار گھرانہ میں گزرا۔ پچپن ہی سے آپ کی پیشانی میں سعادت مندی کے آثار نمایاں تھے اور حقیقت بین نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ یہ ہونہار بچہ ایک روز علم و فضل کا تاجدار اور شہرہ آفاق شخصیت کا حامل ہوگا ۔دادا مرحوم نے روز پیدائش ہی یہ بشارت دی تھی کہ میرا یہ بچہ عالم دین ہوگا۔ آپ بچپن ہی سے علماو صلحا کی صحبت میں رہے۔ حضور حافظ ملت خو د فرماتے ہیں ’’ بھوجپور میں کوئی بڑے عالم یا شیخ تشریف لاتے تو والد صاحب مجھے ان کے پاس لے جاتے اور عرض کرتے حضور میرے اس بچے کے لئے دعا فردیں‘‘ آپ بچپن ہی سے صوم صلوۃ کے پابند اور کھیل کو د وغیرہ سے دور رہتے تھے۔ آپ کے والدین اپنی اولاد کی تربیت کا تعلیم سے زیادہ خیال رکھتے تھے۔ ابتدائی تعلیم:۔   حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ  نے ابتدائی تعلیم گھر پر ہی والد صاحب سے حاصل کی ۔ آپ کے والد صاحب چونکہ ایک جید حافظ قرآن بھی تھے۔ اس لئے حفظ بھی انھیں سے کیا اور ارد و میں درجہ چہارم تک کی تعلیم اپنے وطن قصبہ بھوجپور کے ایک اسکول میں حاصل کی۔ ابتدائی عربی اور فارسی کی تعلیم بھوجپور میں ہی چند اساتذہ سے حاصل کی۔ اس کے بعد گھریلو حالات کے پیش نظر تعلیمی سلسلہ منقطع کرکے قصبہ بھوجپور کی بڑی مسجد کے امام اور اس مسجد کے ساتھ چلنے والے ادارے ’’حفظ القرآن‘‘ کے مدرس مقرر ہو گئے۔ شب و روز یونہی گزرتے رہے۔ آپ کی عمر کا یہ وہ دور تھا جب انسان مختلف خواہشات رکھتا ہے۔ طرح طرح کے تمنا ئیں جنم لیتی ہیں انسان عیش و آرام کی زندگی بسر کرتا ہے ۔ لیکن آپ کے دل میں خدمت دین کا جذبہ تھا۔ اس لئے پانچ سال بعد تدریسی سلسلہ منقطع کر کے دو بارہ تعلیمی سلسلہ شروع کرنے کے لیے اپنے قصبہ بھوجپور سے مرادآباد تشریف لے گئے ۔ مرادآباد میں جامعہ نعیمیہ میں داخلہ لے کر شرح جامی اور قطبی وغیرہ کی تکمیل کی۔ اعلیٰ تعلیم:۔ پھر اعلیٰ تعلیم اور منتھی کتابوں کی تحصیل کے لیے آپ کی نگاہیں ایک ایسے استاذ کا مل کی تلاش میں سرگرداں تھیں جن کے زیر سایہ رہ کر آپ نورِ علم کے ساتھ ساتھ حسنِ عمل کی دولت سے بھی مالا مال ہوں ۔ جامعہ نعیمیہ مررادآباد کی طالب علمی کے زمانے میں ہی وہاں آل انڈیا سنی کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں ملک کے مقتدرعلمائے کرام مدعو کئے گئے ۔ اس موقع پر حضور صدرالشریعہ علامہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمہ کی بھی تشریف آوری ہوئی ۔ ان دنوں حضور صدر الشریعہ اجمیر شریف میں آستانہ شہنشاہ ہند کے قریب دارالعلوم معینیہ عثمانیہ میں اپنے علم و فضل کے گوہر لٹارہے تھے۔  حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ نے آپ سے تحصیل علوم کی خواہش ظاہر کی۔ تو آپ نے بخوشی انھیں اجمیر شریف آنے کی اجازت دیدی ۔  شوال المکرم  ۱۳۴۲؁ ھ کا وہ نہایت ہی خوشگوار موسم تھا۔ جب حضور حافظ ملت اپنے چندر فقا کے ساتھ مرادآباد سے اجمیر شریف تشریف لے گئے۔  دارالعلوم معینیہ عثمانیہ پہنچنے کے بعد داخلہ کی کاروائی مکمل ہوئی ۔ آپ اپنے رفقا کے ساتھ تحصیل علم میں مشغول ہو گئے ۔ درسی کتابیں دوسری مدرسین پر تقسیم ہوگئیں مگر حضور صد الشریعہ نے ازراہ شفقت تہذیب الاخلاق اور اصول الشاشی اپنے پاس رکھ لیں۔ آپ نے حضور صدرالشریعہ سے صرف علم ہی نہیں حاصل کیا بلکہ عمل کی قوت بھی حاصل کی اور دعوت تبلیغ کا جذبہ بھی پایا۔ علم کے ساتھ طریقہ تعلیم بھی سیکھا ۔ حضور صد الشریعہ جب اجمیر شریف سے بریلی آگئے حضور حافظ ملت اور آپ کے دیگر رفقاے درس بھی بریلی آگئے۔حضور حافظ ملت کی دستار بندی دارلعلوم منظر اسلام بریلی شریف سے سن ۱۳۵۱؁ھ مطابق ۱۹۴۲؁ء کو ہوئی ۔ ملخصاً (مختصر سوانح حافظ ملت صفحہ۲۶۔۲۲) درس و تدریس:۔  جب حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ تحصیل علم سے فارغ ہوئے تو ایک سال بعد ۱۳۵۲؁ھ میں آپ کے استاذ حضور صدالشریعہ نے آپ کو بریلی شریف طلب فرمایا ۔ حکم نامہ ملتے ہی مرادآباد سے بریلی شریف حاضر خدمت ہوئے ۔ حضور صدرالشریعہ نے ارشاد فرمایاکہ ’’میں ہمیشہ اپنے علاقہ اعظم گڑھ سے دور رہا ۔ اس لئے ہمارے علاقہ پر غیروں کا قبضہ ہوتا جارہا ہے۔ آپ مبارک پور تشریف لے جائیں وہاں مدرسہ مصباح العلوم میں تدریسی  خدمات انجام دیں۔حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ نے عرض کیا: حضور میں ملازمت نہیں کرنا چاہتا اس پر صدرالشریعہ نے فرمایا میں نے آپ کو ملازمت کے لیے کب کہا ہے ۔ میں تو آپ کو مبارک پور خدمت دین کے لیے بھیج رہا ہوں۔ مشفق استاذ کے ایک اشارے پر وفا شعار شاگرد نے سر تسلیم خم کر دیا۔ مبارک پور آنے سے قبل اگرہ جیسے عظیم شہر سے ۱۰۰ روپئے ماہانہ اور کولکاتہ جسے مشہور شہر سے ۵۰۰ روپئے ماہانہ پیش کش تھی مگر آپ نے ان دونوں جگہوں  کو نا پسند کیا اور مبارک پور صرف ۳۵ روپئے ماہانہ پر تشریف لے آئے ۔  جب حضور حافظ ملت کی مبارک پور تشریف آوری ہوئی تو ہر چہار جانب سے تشنگان علوم نبویہ جوق درجوق آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے ۔ اس شمع علم پر پروانے اس طرح ٹوٹ رہے تھے گویا ساون کی خاموش اندھیری رات میں کسی ویرانے میں شمع روشن ہو جائے۔ دیکھتے ہی دیکھتے مدرسہ کی غیر آباد عمارت میں قال اللہ و قال الرسول کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔ طالبان علوم نبوبہ شوق و ذوق سے دوردراز مقامات سے تشریف لانے لگے۔ اس چھوٹے سے مدرسہ کو جہاں میعار تعلیم فارسی ، نحومیر اور پنج گنج تک تھا ۔ تھوڑے ہی عرصے میں دارالعلوم اشرفیہ مصباح العلوم میں تبدیلی کر دیا۔ جس کا سنگ بنیاد  ۱۳۵۳؁ھ میں شیخ المشائخ حضرت سید شاہ علی حسین اشرفی میاں اور حضور صدر الشریعہ علیہماالرحمہ کے مقدس ہاتھوں رکھا گیا جس میں حضور محدث اعظم ہند سید محمد کچھوچھوی علیہ الرحمہ اور دیگر کا بر علما نے شرکت فرمائی اور اپنی نیک دعاوں سے ادارے کو سرفراز فرمایا۔  حافظ ملت کی مسلسل کوشش ، مشقت و جفا کشی کو چھاوں میں دار العلوم اشرفیہ عروج و ارتقا کی منزلیں طے کرتا رہا او راسی طرح ۱۹۴۴؁ء میں اس کا تعمیری کام پایہ تکمیل تک پہنچ گیا، یہی وہ اشرفیہ ہے جس کے احاطے میں حافظ ملت کے علم و حکمت کا فیضان آسمان کے بادل کی طرح برس رہا تھا اور آج بھی برس رہا ہے اور بحر ہند کے ساحلوں سے لیکر کشمیر کے کہکساروں تک بلکہ ملک و بیرون ملک کے تشنگان علوم کے قافلے اپنے علم و فکر کی پیاس بجھانے کے لیے مبارک پور کی سر زمین پر اتر رہے تھے۔ اور اسی مبارک پور کی سر زمیں پر اپنے وقت کے رازی اور غزالی پیداہو رہے تھے۔ اور سرحد کی فصیلوں کو عبور کر کے دنیا کے مختلف خطوں میں توحید و رسالت کے جھنڈے بلند کر رہے تھے۔ آج ملک و بیرون ملک جو عشق نبوت کے جلووں کی تابانی نظر آتی ہے۔ ان تمام میں حافظ ملت کے روحانی فرزندوں کی مساعی جمیلہ شامل ہے۔ ۱۹۷۰؁ء کے قریب جب دارالعلوم اشرفیہ کی عمارتیں بھی طلبہ کی کثرت کے سبب اپنی تنگ دامنی کا شکوہ کرنے لگیں تو حافظ ملت کو ایک ایسی عظیم الشان دانش گاہ کے قیام کے فکر دامن گیر ہوئی ۔ جو دنیا ے اسلام میں اپنی ایک الگ پہچان رکھے اور جہان سے ہمیشہ علمائے حق کی بار آور نسلیں پیدا ہوتی رہیں۔ چنانچہ اس عظیم مقصد کے پیش نظر قصبہ مبارک پور سے باہر ایک وسیع و عریض زمین شہر ستان علم بسانے کی لیے حاصل کی اور مئی ۱۹۷۲؁ء ربیع الاول  ۱۳۹۲؁ء ھ میں ’’الجامعۃ الاشرفیہ ‘‘ کا جشن تاسیس منایا گیا جو اشرفیہ کی تاریخ میں تعلیمی کانفرنس کے نام سے مشہور ہوا آج بھی اس کانفرنس کو بطور مثال پیش کیا جاتا ہے جہاں سے تحریک اشرفیہ کو ایک نئی جہت ملتی ہے۔  ۶؍ مئی  ۱۹۷۲؁ء کو منعقد ہونے والی اس تاریخ کانفرنس میں بے شمار علماے کرام و مشائخ عظام کے علاوہ شہزادۂ اعلیٰ حضرت حضور مفتی اعظم ہند، سید العلما سید آل مصطفی برکاتی مارہروی ، مجاہد ملت علامہ شاہ حبیب الرحمن قادری اڑیسوی ، شمس العلما قاضی شمس الدین جونپوری، خطیب مشرق علامہ مشتاق احمد نظامی، مفتی مالوہ علامہ رضوان الرحمان فاروقی، سلطان  الواعظین علامہ عبد المصطفیٰ اعظمی اور رئیس القلم علامہ ارشد القادری علیہم الرحمہ جیسی عبقری شخصیات نے شرکت فرمائی اور الجامعۃ الاشرفیہ کا سنگ بنیاد رکھا اور اس کی تعمیر و ترقی کے لئے دعائیں کیں۔ یہ حضور مفتی اعظم ہند اور اکابر کی دعائوں کا ثمرہ ہے کہ آج الجامعۃ الاشرفیہ ہزاروں مخالفتوں کے باجود عروج و ارتقا کی منزلیں طے کر رہا ہے اور ہر سال یہاں سے سیکڑوں کی تعداد میں علما اور حفاظ فارغ ہو کر ملک و بیرون ملک سواد اعظم اہل سنت کی خدمات انجام دے رہے ہیں، ما حاصل یہ کہ الجامعۃ الاشرفیہ حافظ ملت کا ایسا روشن کیا ہوا چراغ ہے جو آندھیوں میں بھی جلتا رہے گااور اس کے علم و حکمت اور فضل وکرم کا فیض گھٹا بن کر ساری دنیا بر ستارہا اور انشاء اللہ برستا رہے گا۔ جو ابر یہاں سے اٹھا وہ ساری دنیا پر برسا ہے جو ابر یہاں سے اٹھے گا وہ ساری دنیا پر برسے گا  حضور حافظ ملت کا صرف یہی اہم اور امتیازی کارنامہ نہیں کہ آپ نے الجامعۃ الاشرفیہ قائم کیا ۔ اس کے لیے جلیل القدر ماہر اساتذہ کی ٹیم جمع فرمائی ۔ نصاب تعلیم کو بہتر بنانا بلکہ سب سے اہم کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے دین کی خدمت اور قوم کی ترقی کے واسطے ہر میدان کے لیے افراد کی تعین فرمائی ۔ شخصیت سازی کا فریضہ انجام دیا اسلام اور سنیت کی بقاے دوام، ترویج و اشاعت اور خدمت علم دین کے لیے مکمل دور اندیشی کے ساتھ نئی نئی جہات کو دریافت کیا اور باقاعدگی کے ساتھ افراد کا نتخاب فرمایا۔ تصانیف:۔  بلاشبہ حضور حافظ ملت ایک جامع صفات شخصیت تھے۔ دیگر بے شمار اوصاف و کمالات کے حامل ہونے کے ساتھ ساتھ آپ ایک عظیم مصلح ، بلند پایہ خطیب اور تحریر و قلم کے رموزو آداب سے واقف ایک مایہ ناز مصنف اور صاحب قلم تھے۔ آپ کی تحریر میں متانت و سنجیدگی اور سلاست و روانی پائی جاتی ہے آپ قرطاس و قلم اور تصنیف و تالیف کو دین و سنیت کے استحکام و فروٖغ کا ایک مستحکم ذریعہ سمجھتے تھے یہی وجہ ہے کہ فکری و عملی اعتبار سے آپ اس میدان میں پیش پیش رہے ۔ معارف حدیث ، الارشاد، المصباح الجدید ، فتاوی عزیزیہ، ارشاد القرآن ، انباالغیب، فرقہ ناجیہ اور حاشیہ شرح مرقات وغیرہ تصنیفات آپ کے رشحات قلم کی اہم یادگار ہیں۔ تلامذہ:۔  دینی تعلیمات کی جو تصویراس وقت آپ کو نظر آتی ہے یا علماے اہلسنت کے نورانی قافلوں کے جو سپاہ میدان عمل میں نظر آتے ہیں وہ بالواسطہ یا بلا واسطہ خوانِ حافظ ملت کے خوشہ چین ہیں۔ آپ کے تلامذہ کی تعداد بے شمار ہے چونتیس سال تک بخاری شریف کا درس دیتے رہے۔ ہزاروں تشنگان علوم آپ کی بارگاہ سے فیض یاب ہوئے ۔ آپ کے تلامذہ کا سلسلہ اس قدر سیع ہے کہ ہندو بیرون ہند کی دانشگاہوں میں جس قدر آپ کے تلامذہ مصروف ہدایت ہیں دوسروں کے نہیں۔ طلبہ کے اندر تحریر ذوق پیدا کرنے میں ہمیشہ آپ کا زبردست ہاتھ رہا خصوصاً جس طالب علم کے اندر تصنیفی صلاحیت اور تحریری ذوق دیکھتے اسے اسی طرف لگادیتے جس کے باعث آج حافظ ملت کے تلامذہ میں اردو، عربی اور فارسی کے جیداہل قلم دیکھے جا سکتے ہیں۔ آپ کے تلا مذہ میں سے چند مشہور تلامذہ یہ ہیں شارح بخاری علامہ مفتی شریف الحق امجدی، بحرالعلوم علامہ مفتی عبدالمنان اعظمی ، شیخ اعظم سید اظہار اشرف کچھوچھوی ، رئیس القلم علامہ ارشد القادری ، علامہ قاری رضا المصطفیٰ اعظمی قادری، علامہ عبدالرؤف بلیاوی علیہم الرحمہ ، محدث کبیر علامہ ضیاالمصطفیٰ قادری ، شیخ الاسلام علامہ سید محمد مدنی میاں اشرفی، علامہ عبدالشکورمصباحی،   علامہ محمد احمد مصباحی ، علامہ بدرالقادری، علامہ قمرالزماں خاں اعظمی، علامہ یٰسین اختر مصباحی ، علامہ عبدالمبین نعمانی ، علامہ مفتی علی نعمانی پاکستان، نصیر ملت علامہ پیر نصیرالدین قادری، علامہ اعجاز احمد ادروی مصباحی اور مولانا سید رکن الدین اصدق مصباحی قدس سرھم وغیرہم یہ وہ شخصیات ہیں جو آسمان علم و فن کے آفتاب و ماہتاب ہیں اور ہند و پاک کے اہل قلم جن کی علمی صلاحیتوں سے بخوبی واقف ہیں۔ ان حضرات نے نہ صرف  درس وتدریس تصنیف و تالیف میں نمایاں کارنامے انجام دئے بلکہ ملک و بیرون ملک ان کی دعوتی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ افکارضاکی ترویج و اشاعت:۔   افکار امام احمد رضا کی تریج و اشاعت کے سلسلے میں اشرفیہ اور فرزندان اشرفیہ کی خدمات آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہیں فتاوی رضویہ کی اشاعت و طباعت، جد الممتار کی اشاعت، سوانح اعلیٰ حضرت، امام احمد رضا کی فقہی بصیرت، امام احمد رضا اور تصوف ، مسئلہ تکفیر اور امام احمد رضا، تذکرۂ رضا، افکار رضا ، معارف کنزالایمان اور ارشادات اعلیٰ حضرت وغیرہ ہم جیسی اہم اور مستند و محقق کتابیں فرزندان اشرفیہ اور حافظ ملت کے خوشہ چینوں نے خاص اما احمد رضا کے افکار و تحقیقات پر پیش کیںاور اس باب رضویات میں اولیت کا سہرا اپنے سر سجایا اور آج بھی تقریرو تحریر ، تصنیف و تالیف کے ذریعہ یہ سلسلہ جاری ہے اور فرزندان اشرفیہ اپنا علمی فیضان عام کر رہے ہیں۔ دین کی خدمت بھی ہورہی ہے اور مسلک اعلیٰ حضرت کا فروغ بھی ہو رہا ہے۔  دین و سنیت کی تبلیغ اور اعلیٰ حضرت اما م احمد رضا کے افکار و تعلیمات نیز مسلک اعلیٰ حضرت کی تریج و اشاعت ہی کے لیے حضور حافظ ملت نے دارالعلوم اشرفیہ میں  ۱۹۵۹؁ء میں شعبہ نشر و اشاعت بنام ’’سنی دارالاشاعت‘‘ قائم کیا جس کے تحت فتاوی روضویہ جلد سوم تا جلد چہارم کی طباعت و اشاعت کا کارنامہ انجام دیا جا چکا ہے۔ ملخصاً (ماہنامہ اشرفیہ  ۲۰۱۵؁ء صفحہ ۳۴۔۲۲)۔  وارث علوم اما م احمد رضا حضور تاج الشریعہ علیہ الرحمہ نے ’’دفتر اشرفیہ‘‘ ممبئی کے افتتاح کے موقع پر فرمایاتھا کہ اعلیٰ حضرت کے مشن کی ترویج و اشاعت میں جو کردار حضرت حافظ ملت ، جامعہ اشرفیہ اور اس کے فرزندوں نے ادا کیا وہ کہیں نظر نہیں آتا۔ اشرفیہ کا کام صرف اشرفیہ کا نہیں ہے۔ بلکہ اعلیٰ حضرت کا کام ہے۔ مفتی اعظم ہند کا کام ہے ۔ رضویت کا کام ہے ۔ (ارشادگرامی بموقع افتتاح افتر اشرفیہ ممبئی ۳؍جنوری  ۱۹۹۲؁ء)  ان کے علاوہ حضور حافظ ملت کی دین اسلام اور مسلمانوں کی فلاح و ترقی کے لیے بے شمار ایسی خدمات ہیں کہ اگر ان کو صفحہ طاس پر تحریر کیا جائے تو کئی کتابیں تیار ہو سکتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ حضور حافظ ملت کی ان خدمات جلیلہ کو قبول فرمائے۔  نکاح اور اولاد:۔  حضور حافظ ملت کا عقد اول آپ کے ماموں کی لڑکی سے ہوا۔ جو نہایت نیت ـ‘اطاعت شعار اور فرماں بردار تھیں۔ ان سے چار اولادیں ہوئیں۔ جن میں دو لڑکے اور دو لڑکیاں تھیں۔ لڑکیاں بچپن میں ہی انتقال کر گئیں اور لڑکے مردہ ہی پیدا ہوئے آخری بچہ کی ولادت کے وقت آپ کا بھی انتقال ہو گیا۔ اس کے بعد والد صاحب کے کہنے پر دوسری شادی کی اس عقد ثانی سے تین لڑکے اور تین لڑکیاں کل چھ اولادیں پیداہوئیں۔ آپ کے فرزندا اکبرحضرت علامہ عبدالحفیظ صاحب قبلہ ہیں جو عصر حاضر میں دنیاے سنیت کے ایک کامل مرد مومن و حساس عالم دین ہیں۔ جن کی مساعی جمیلہ نے آپ کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا ۔ مرورِایام و حوادث زمن ان کے حوصلے کو شکست نہ دے سکے اور وہ آج بھی اپنے والد کے قائم کردہ شہرستان علم و فضل کی مکمل نگہبانی کر رہے ہیں۔ بیعت و خلافت:۔  حضور شیخ المشائخ سید علی حسین اشرفی میاں علیہ الرحمہ جب اجمیر شریف تشریف لے گئے تو حضور حافظ ملت اور آپ کے چالیس رفقائے درس حضرت کے دست حق پر سلسلہ معمریہ میں بیعت ہوئے ۔ سلسلہ معمریہ صرف چار واسطوں سے حضور عوث پاک تک پہنچتا ہے۔ پھر جب اشرفی میاں علیہ الرحمہ مبارک پور تشریف لائے تو حضور حافظ ملت کو خلافت بھی عطا فرمائی ۔ حضور صدر الشریعہ بدرالطریقہ حضرت علامہ مفتی امجد علی اعظمی سے بھی آپ کو اجازت و خلافت حاصل تھی۔ اسی طرح آپ اشرفیت اور رضوبیت کے حسین سنگم بن گئے۔ سفر حجاز:۔  حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ کے سفر حرمین طیبین کا واقعہ ایک عجیب نوعیت کا حامل ہے ۔ مدتوں سے آپ کے دل میں دیار محبوب پہ حاضری کی تمنا تھی۔ مگر شرعی موانع اس میں رکاوٹ بنتے رہے۔ صرف آپ کے لیے ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے حاجیوں کے لیے پاسپورٹ کے ساتھ تصویر شرط ہے۔ لیکن حضور حافظ ملت جن کی پوری زندگی معلم کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک کا نمونہ تھی اور سنت نبوی کا آئینہ دار تھی آپ اپنے ہر عمل میں سنت کا بہت زیادہ خیال رکھتے تھے۔ اس لیے آپ نے فرمایا سرکار کی بارگاہ میں ان کے احکام کی خلاف ورزی کرکے جانا میرے بس کی بات نہیں ۔اگر انھیں بلانا ہے تو کوئی جائز اور مستحسن سبیل پیدا فرمادیں گے پھر سرکے بل حاضرہو جائوں گا۔ مطلب یہ کہ فوٹو بنوانا ناجائز ہے اور ایک فعل حرام کا ارتکاب کرکے سرکار کی بارگاہ میں کس منہ سے حاضری دوں گا۔ لیکن چوں کہ آپ کے دل میں دیار محبوب کی حاضری کی سچی تڑپ تھی۔ اس لیے ایک دن وہ بھی آیا کہ حکومت ہند اور حکومت سعودیہ عربیہ دونوں نے بغیر فوٹو کے درخواست قبول کرلی۔ اب کیا تھا خوشیوں کی ایک لہر دوڑ گئی ۔ اہل مبارک پور نے ہزاروں مسلمانوں کی بھیڑ میں اپنے محسن کو بغیر فوٹو کے حج کے سفر پر روانہ کیا ۔ آخر کار اللہ کے ایک مقرب بندے نے  ۱۹۶۷؁ء میں بغیر فوٹو کے حج بیت اللہ  اور زیارت روضہ اطہر فرمائی ۔ مبارک پور سے بلرام پور ہوتے ہوئے ممبئی تشریف لے گئے ممبئی سے ۱۶؍مارچ ۱۹۶۷؁ء کو جدہ پہنچے ۔ جہاز کے افسران نے آپ کو نہایت اعزار واکرام کے ساتھ رکھا حرمین شریفین کی حاضری کے دوران علما و مشائخ نے آپ کی بے حد تعظیم و تکریم کی۔ ہندوستانی سفارت خانہ براے سعودیہ عربیہ کے مختلف پروگراموں میں دعوت ملی اور آپ نے شرکت فرمائی ۔ تقریریں کیں، علماو مشائخ نے احادیث کریمہ کی اسناد یں بھی لیں۔ حضور حافظ ملت نے فریضہ وار کان حج کی ادائیگی کے بعد چھ عمرے بھی ادا فرمائے۔ اس کے بعد مدینہ منورہ تشریف لے گئے بارگاہ نبوی میں حاضری دی اور گیارہ دن تک مدینہ منورہ میں حاضری کا شرف حاصل رہا ۔ بارہویں دن جدہ واپس آئے اور ۱۶؍ اپریل ۱۹۶۷؁ء کو ہندوستان کے لیے واپس ہوئے۔ جب مبارک پور تشریف لائے تواہل مبارک پور ہزاروں کی تعداد میں بلامذہب و ملت آپ کے استقبال کے لیے جمع ہوگئے۔ کیونکہ آپ نے ایسے دور میں بغیر فوٹو کے حج کر کے حکم نبوی پر عمل کیا جب فوٹو بنوانا ایک عام فیشن بن گیا ہے عوام و خوص اس میں مبتلا نظر آتے ہیں۔  ملخصاً (مختصر سوانح حافظ ملت ۵۶-۵۳ ) وصال:۔  یکم جمادی الآخر  ۱۳۹۶؁ء ۳۱؍مئی ۱۹۷۲؁ء بروزدو شنبہ گیارہ بج کر ۵۵منٹ پر شب میں معمار قوم، محافظ ملت سید نا حضور حافظ ملت اہل مبارک پور اور جہان سنیت کو روتا بلکتا چھوڑ کر مبارک پور کے باغ فردوس سے حقیقی باغ فردوس کی طرف روانہ ہوئے (اِنااللہ واِناالیہ راجعون) نماز جنازہ آپ کے صاحبزادے حضرت علامہ عبدا لحفیظ صاحب قبلہ مدظلہ العالی نے پڑھائی ۔ اخباری رپورٹ کے مطابق دو لاکھ افراد نے آپ کی نماز جنازہ میں شرکت کی۔ نماز جنارہ کے بعد صرف علماے کرام اور مشائخ نے ہی کاندھا دے کر جنازہ کو قبر تک لے جانے کا شرف حاصل کیا ۔ جامعہ اشرفیہ ہی کے صحن میں آپ کا مزار مبارک مرجع خلائق ہے۔ یہ شمع اگر چہ بجھ گئی ۔ لیکن ہزاروں چراغ جو اس سے جل اٹھے ہیں وہ تو جل رہے ہیں۔ علم کی روشنی عام ہو رہی ہے ۔ فیضان حافظ ملت سے دنیا اکتساب فیض کر رہی ہے۔ آخر میں بس اتنا کہہ کر بارگاہ حضور حافظ ملت میں خراج عقیدت پیش کرتا ہوں۔ جس نے پیدا کیے کتنے لعل و گوہر حافظ دین و ملت پہ لاکھوں سلام

ترك الرد

من فضلك ادخل تعليقك
من فضلك ادخل اسمك هنا